[تحریر: لال خان]
سامراج کی کھلی آشیر آباد سے فوجی طاقت کے نشے میں بدمست صیہونی ریاست غزہ کو لہو لہو کر رہی ہے۔ اتوار کی رات تک 400 سے زائد بچوں اور سینکڑوں خواتین سمیت 1771 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے 36 ایمبولینس گاڑیاں، 4اسکول اور 6ہسپتال تباہ ہو ئے ہیں۔ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے والے عملے کے 20 افراد بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ فلسطین اور امریکہ کی آبادی کے تناسب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3 لاکھ جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 15 لاکھ بنتی ہے۔ 3 اگست کے دن اسرائیل نے غزہ میں 180 مقامات پر بمباری کی ہے۔ ہر گھنٹے میں اوسطاً ایک بچہ ہلاک ہورہا ہے۔ گزشتہ 28 دنوں سے جاری اس ظلم و بربریت نے جہاں ہر باضمیر انسان کا دل دہلا دیا ہے وہاں اس نظام کے حکمرانوں کا وحشیانہ کردار اور مکروہ چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے۔
پہاڑی چوٹی پر آرام دہ صوفے لگا کر غزہ پر بمباری کا تماشہ دیکھنے والے صیہونیوں نے درندگی کی بد ترین مثال انسانی تاریخ میں رقم کی ہے۔ قدیم روم کے شہنشاہ غلاموں کو بھوکے شیروں کے سامنے پھینک کر انسانی جسموں کی چیر پھاڑ کے نظاروں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ آج صیہونیت کا جنون قدیم روم کی وحشت سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ اس واقعے نے غزہ سے اسرائیل کی طرف پھینکے جانے والے راکٹوں کی ’’تباہی‘‘ اور مغربی میڈیا کی جانب سے دئیے جانے والے ’’جنگ‘‘ کے تاثر کا پول بھی کھول دیا ہے۔
اس یکطرفہ جنگ میں گرنے والی معصوم بچوں کی لاشیں اور ماؤں کی چیخیں پتھر سے پتھر دل انسان کو بھی موم کردیتی ہیں لیکن ’’اسلامی‘‘، ’’عرب‘‘، ’’جمہوری‘‘ اور ’’لبرل‘‘، غرضیکہ ہر جعلی صفت کے حکمرانوں کی سفاک بے حسی بہت کچھ عیاں کر تی ہے۔ کل 196ممالک میں سے بولیویا وہ واحد ملک ہے جس کے سوشلسٹ صدر ایوو مورالس نے سرکاری طور پر اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست ڈکلیئر کیا ہے۔ مورالس کے مطابق اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اسرائیلی شہریوں کی بولیویا آمد پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ ایوو مورالس نے دنیا بھر کے محنت کشوں سے سامراج کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کی اپیل کی ہے۔ بولیویا اگر بڑی عسکری طاقت ہوتا تو شاید مورالس اسرائیل کے خلاف انقلابی جنگ کا اعلان بھی کر دیتا۔ بولیویا کے علاوہ وینزویلا، ایکواڈور اور لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی چند دوسری حکومتوں نے بھی اسرائیل کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پوڈیم پر کھڑے ہو کر امریکی سامراج کو ’’سب سے بڑا شیطان‘‘ قرار دینے والے ہوگوشاویز کی کمی بھی آج محسوس کی جاسکتی ہے۔ 2008-09ء میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد شاویز نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر کے اسرائیلی سفیر کو وینزویلا سے نکال دیا تھا۔
مسلمان ملکوں میں بے گناہ انسانوں کو ذبح کرنے والے کرائے کے جہادی اور ’’امت مسلمہ‘‘ کا درس دینے والے ان کے آقا اب کہاں ہیں؟ ایوو مورالس کا مذہبی، نسلی، ثقافتی یا معاشی طور پر فلسطین کے عوام کے ساتھ دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ لیکن فلسطین اور اور دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ ایوو مورالس کا وہی رشتہ ہے جو شاویز کا تھا۔ طبقے کا رشتہ۔ بھوک، ننگ، استحصال اور افلاس کا رشتہ۔ وہ رشتہ جو محکوم اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو کر حاکم اور ظالم سے لڑنا سکھاتا ہے۔ وہ رشتہ جو اس نظام کے تمام بیہودہ اور فرسودہ تعصبات سے بلند کر کے انسان کو انسان سے جوڑتا ہے۔ وہ رشتہ جس میں یکجا ہو کر سرمائے کے مقدس بت کو پاش پاش کر ڈالنے کا منشور کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے آج سے 166 سال پہلے دنیا بھر کے محنت کشوں کو دیا تھا۔ وہ رشتہ جس نے تل ابیب اور دوسرے اسرائیلی شہروں میں صیہونی ریاست کے خلاف احتجاج کرنے والے کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں کارکنان کو فلسطینی عوام سے جوڑ رکھا ہے!
’’امت مسلمہ‘‘ کے حکمران سامراج کی دلالی اور اپنی عیاشی میں مصروف ہیں۔ ان کی ریاستوں کا کردار صیہونی ریاست سے مختلف نہیں ہے۔ اپنے عوام پر مسلسل دہشت طاری رکھنے والے بھلا اسرائیل کو کیسے دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں؟ دنیا میں ہر سرمایہ دارانہ ریاست کا پہلا اور آخری مقصد ریاستی جبر کے ذریعے حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ، عرب لیگ، او آئی سی اور حکمرانوں کے دوسرے بین الاقوامی ادارے دھوکہ دہی، فریب، ریاکاری اور لوٹ مار کے سیاسی اور سفارتی اوزار ہیں۔ دنیا بھر میں ریاستی دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کے نتیجے میں گرنے والی ہر انسانی لاش ان اداروں اور ’’بین الاقوامی کمیونٹی‘‘ کا راز فاش کرتی ہے۔ سرمائے کی یہ دیوی اور کتنے انسانوں کی بَلی مانگے گی؟ خون کی یہ پیاس جتنی بجھے گی اتنی ہی بھڑکے گی۔
’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کا عالمی ٹھیکیداراسرائیل کا کھلا حمایتی ہے۔ باراک اوباما کس ڈھٹائی سے اسرائیلی دہشت گردی کے تاویلیں پیش کر رہا ہے۔ شاہ سے بڑے مجرم شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ میں اپنے کعبے ٹوٹنے کے بعدواشنگٹن کے سامنے سربسجود ہوجانے والے دانشور اب کھسیانے ہو گئے ہیں۔ سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف زہر اگل کر ’’لبرل ازم‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کی دکانیں چلانے والے سابقہ بائیں بازو کے خواتین و حضرات عوام کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے؟ ڈھٹائی کی اگر کوئی حد ہوتی تو یہ لوگ چُلو بھر پانے میں ڈوب چکے ہوتے۔
اسلامی پارٹیوں اور بنیاد پرستوں کے بھی سامراج سے پرانے یارانے ہیں۔ مفادات کے رشتوں میں تصادم اور تنازعے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا ہی دور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آیا تھا جب ڈالر جہادی وقتی طور پر بیروزگار ہوگئے تھے۔ لیکن لیبیا، شام اور عراق میں سامراجی دخل اندازی کے بعد بڑے پیمانے پر نئی بھرتیاں کھل گئی ہیں۔ بنیاد پرستوں اور سامراجیوں کا معاشی اور اقتصادی پروگرام اور نظریہ ایک ہے۔ انڈونیشیا میں دس لاکھ کمیونسٹوں کا قتل عام ہو یا افغانستان میں ثور انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد، سامراج نے محنت کش عوام کی بغاوتیں کچلنے کے لئے ہمیشہ اسلامی بنیاد پرستوں پر انحصار کیا ہے۔ یہودی اور عیسائی بنیاد پرست اگر سب مسلمانوں پر دہشت گرد کا لیبل لگاتے ہیں تو اسلامی بنیاد پرست تمام یہودیوں کو صیہونی قرار دیتے ہیں۔ نفرتیں بھڑکتی رہتی ہیں، لاشیں گرتی رہتی ہیں اور مذہب کے کاروبار چمکتے رہتے ہیں۔
یورپ کی سامراجی طاقتیں، خصوصاً برطانوی حکمران، مکاری اور عیاری میں امریکہ سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ برطانوی سامراجی خود کو امریکہ کا پیروکار ظاہر کرتے ہیں لیکن ہر تنازعے، جنگ اور پراکسی جنگ میں امریکی سامراج کو ’’پہلے آپ‘‘ کا مشورہ دیتے ہیں۔ مغرب کے کارپوریٹ میڈیا نے گزشتہ کچھ سالوں میں عالمی واقعات اور اب غزہ کے معاملے میں اتنی جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے کہ یورپ اور امریکہ کی آبادی کے بڑے حصے نے میڈیا رپورٹنگ اور تجزیوں پر اعتبار کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
صیہونی بربریت کے خلاف سب سے بڑے مظاہرے یورپ اور امریکہ میں ہوئے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے اپنے نمائندے اکانومسٹ کے مطابق امریکہ اور یورپ میں 78 فیصد لوگ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے محنت کش عوام کو سامراج کا حصہ سمجھنا غلطی نہیں جرم ہے۔ سامراجی ریاستیں اپنے عوام پر بھی جبر و استحصال روا رکھتی ہیں۔ مغربی عوام اپنے حکمرانوں اور ان کی معاشی و سفارتی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ 2008ء کے بعد شروع ہونے والی معاشی جارحیت کے خلاف عام ہڑتالیں، مظاہرے اور پولیس سے ٹکراؤ یورپ کا معمول ہے۔ ویت نام اور عراق کی سامراجی شکست میں امریکہ کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی جرات مندانہ تحریک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1983ء میں سابرہ اور شتیلا کیمپوں میں صیہونی فوجوں کی جانب سے فلسطینی اور لبنانی شہریوں کے قتل عام کے خلاف اسرائیل کے شہر تل ابیب میں ساڑھے تین لاکھ اسرائیلی نوجوان اور محنت کشوں نے احتجاج کیا تھا۔
صیہونی ریاست کی موجودگی میں آزادی فلسطین ممکن نہیں۔ مذاکرات محض ایک فریب ہیں۔ دنیا کی چوتھی سب سے طاقتور فوج کو بندوق اور گوریلا لڑائی کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکتی۔ عرب ریاستوں کا کردار پہاڑی پر چڑھ کے جنگ کا نظارہ کرنے والے صیہونیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ صیہونی ریاست اور عرب حکمرانوں کو اکھاڑے بغیرخطے کے فلسطینی، یہودی ، عرب اور دوسری قومیتوں کے عوام کی آزادی ممکن نہیں ہے۔ طبقاتی بنیادوں پر لڑی جانے والی انقلابی جنگ نجات کی واحد راستہ ہے۔
متعلقہ:
صیہونیت کی درندگی، آخر کب تک؟
مسئلہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ کا کہرام