برمامیں مسلمانوں کا قتل عام! حقائق کیا ہیں؟ منزل کہاں ہے؟

[تحریر: قمرالزماں خاں]

برما پر اس وقت سرمایہ دارانہ گدھیں منڈلا رہی ہیں،جن کی نگاہیں برما کے بیش بہا قیمتی قدرتی وسائل اور دولت پر ہیں۔یہ سب کچھ اس ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر ہور رہا ہے جس کے حصول کے لئے برما کی ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ آنگ سانگ سو چی پچھلے بیس برس تک ’’نظربند‘‘رہی اور اسی جمہوریت کی ’’جدوجہد‘‘ کے عوض امن کا نوبل انعام بھی حاصل کیا۔تیسری دنیا کے ممالک کے لئے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی زیرنگرانی تیار کی گئی ’’مفاہمت ‘‘ کی پالیسی کے تحت بر ما میں حکمران تھین شین حکومت اوراپوزیشن کے درمیان قابل قبول معاہد ہ ہونے کے بعد آنگ سو چی گزشتہ نومبر سے اس طویل نظر بندی سے نکل آئی ہے جس کے دوران بھی وہ 1991ء میں ناروے کا دورہ کرچکی تھی اور متعدد لیکچر دے چکی تھی،اس نظر بندی کے دوران اس کا عالمی سرمایہ دار آقاؤں کے ساتھ کبھی رابطہ نہیں ٹوٹا تھا۔ ان دنوں آنگ سو چی پھر یورپ کے طویل دورے پر ہے جہاں اسکی تقاریر کا محورایسی تجاویز اور تدابیر ہیں جن کی روشنی میں بیرونی سرمایہ کاروں کو برما میں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے، حالانکہ یہ لالچی، مفافع خور اور استحصالی کمپنیاں اورممالک بہت سے برسوں سے اس موقع کی تاڑ میں تھے جب وہ برما کے تیل،گیس،قیمتی لکڑی،ربڑ،اچھی قسم کے چاول، پانی کے وسائل اوراس سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت،آبی گزرگاہوں سمیت دیگر وسائل پر قبضہ کرسکیں۔عالمی سطح پر سرمایہ داروں کے ادارے ورلڈ اکنامک فورم میں بھی اسے مدعو کیا گیا تا کہ برما میں سرمایہ دارانہ استحصال کی راہیں ہموار کی جا سکیں۔ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ’’سرمایہ دارانہ جمہوریت‘‘ کا شکر گزار ہونا چاہئے جوسامراجی یلغار کے لئے دیگر حربوں کی طرح ’’نوبل انعام ‘‘کا چارہ بھی استعمال میں لاتے ہیں جس کے حصول کی جستجو اور بدلے میں، انکے بطور خاص تیسری دنیا کے ’’متاثرین‘‘اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
آنگ سو چی اور فوجی جنتا کی باقیات سے ’’مفاہمت ‘‘ کے گزشتہ کئی برسوں کے دوران برما میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز،ایشئین ڈویلپمنٹ بنک سمیت دیگر’’آزاد معیشت‘‘کے لئے راہیں ہموار کرنے والے ادارے برمی حکام کو اپنے ’’بیش بہا قیمتی‘‘مشوروں سے نواز رہے ہیں تاکہ ان کی سرپرستی میں چلنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں برما سے بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے یہاں سے وسائل اور دولت کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر سکیں۔ان مشوروں میں خاص طور پر درآمدی ڈیوٹیوں کا خاتمہ،آبی گزرگاہوں کا آزادانہ استعمال اور بطور خاص برمی کرنسی ’’کیاٹ‘‘ جس کی ڈالر سے سرکاری طور پر بدل کی شرح کا ازسر نوتعین (جو 1977ء سے اب تک 6.4Kyats=1$کی نسبت سے ہے) کرنا تاکہ یہ 450Kyats=1$ یا اس سے بھی زیادہ کے تبادلے میں آسکے،ٹیکسز کے نئے ضابطوں کا قیام،فوجی کرپشن کی جگہ منڈی کی معیشت کے اجارہ داروں کی لوٹ مار کے لئے حالات کا سازگار بنایا جانا شامل ہے۔اگر غورسے دیکھا جائے تو ’’جمہوریت ‘‘ کے قیام کی دعوے دار یا طالب قوتیں بطور خاص آنگ سو چی اور تھین شین دراصل منڈی کی معیشت کے دلالوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔جس کے (سرمایہ داری اور اسکی طبقاتی جمہوریت)قیام سے برما کے صدیوں سے محرومیوں کے شکار عوام،مختلف نسلی اقلیتوں،مذہبی فرقوں اور غریبوں کے استحصال میں مزید اضافہ ہو گا جبکہ دنیا بھر کی اجارہ داریوں کو لوٹ مار کے لئے ایک نیا میدان میسر آجائے گا۔ اس وقت دنیا کی بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں جن میں ہندوستان، چین اور روس سمیت دیگر ممالک کی کمپنیاں شامل ہیں برما کی تیل اور گیس کی دولت پر نظریں جمائی بیٹھی ہیں۔
برما کا شمار دنیا کے سب سے پرانے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔1853ء میں یہاں سے پہلی دفعہ تیل برآمد کیا گیا۔یہاں کے دو مشہور آئل فیلڈ ینان گوانگ اور چاؤک ہیں جنہیں بالترتیب 1887ء اور 1902ء میں دریافت کیا گیا۔یہاں سے ابھی بھی تیل نکالاجا رہا ہے۔ دنیا میں تیل کی بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ٹوٹل اور یونوکال یہاں کے فوجی حکمرانوں کے ساتھ مل کر یہاں سے تیل اور گیس کی دولت کوگزشتہ کئی سالوں سے لوٹ رہی ہیں۔عالمی سطح پر برما پر پابندیوں کے باوجود ان ملٹی نیشنل کی لوٹ مار جاری رہی ہے۔1992ء میں انڈامان سمند ر میں واقع ایڈانا گیس فیلڈ سے پیداوار کے لیے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے ایک پائپ لائن بچھا نے کا آغاز کیا گیا جبکہ 2000ء سے پیداوار کا آغاز ہوا۔اس پائپ لائن کی سکیورٹی اور بچھانے کے لیے برما کی فوج کو ٹھیکہ دیا گیا جس نے عام دیہاتیوں سے جبری مشقت اور غلامانہ طریقے سے کام کروا کر یہ پائپ لائن بچھائی۔اس وقت اس پائپ لائن کے منافعوں میں فرانسیسی ملٹی نیشنل ٹوٹل کا حصہ31.2فیصد، امریکی ملٹی نیشنل شیوران کا 28.3فیصد،تھائی لینڈ کی سرکاری کمپنی پی ٹی ٹی کا 25.5فیصد اور برما کی سرکاری کمپنی ایم او جی ای کا 15فیصد ہے۔ چند سال قبل آنے والی خبروں کے مطابق برما کے فوجی حکمرانوں نے اس پائپ لائن کی لوٹ مار سے 5ارب ڈالر کمائے ہیں جو سنگاپور کے بینکوں میں محفوظ ہیں۔اس تناسب سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مارکا اندازہ لگایا جائے تو وہ اتنی بڑی رقم بنتی ہے جس سے برما کی تمام غربت، بھوک اور بیماری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے لیکن منافع خوری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ممکن نہیں۔

موجودہ تنازعے کی نظریاتی وجوہات
برصغیر کی تقسیم کا المیہ جو بنیادی طور پر سٹالنزم کی مجرمانہ ’’مرحلہ وار انقلاب کی پالیسی‘‘کے جرم اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی متذبذب پالیسیوں کا نتیجہ تھا،نے اپنے پیچھے تقسیم ہونے اور ’’آزاد‘‘ ہونے والے ممالک میں بھی نظریاتی کمزوریوں اور گروہوں میں تقسیم ہونے والے انقلابیوں کاترکہ چھوڑا۔ بالشویک انقلاب کی سٹالنزم کی شکل میں زوال پذیری کے سب سے بھیانک اثرات چینی انقلاب پر رونما ہوئے جو اپنے آغاز سے ہی مارکسی کلاسیکل بنیادوں کی بجائے روسی افسر شاہی کے انحراف شدہ نظریے کے تحت برپا ہوا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں میلوں پر متصل دو عظیم سوشلسٹ ریاستوں کے باہمی مدغم ہوکر یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس بننے کی بجائے آخری نتائج کے طور پرایک دوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما اور متحارب ریاستوں کی شکل میں نکلا۔ یہ ہی وہ المیہ تھا جس کے اثرات برصغیر اور اسکے گردو نواح کے انقلابی کام اور کمیونسٹ پارٹیوں پر مرتب ہوئے،جہاں نظریہ مسلسل انقلاب کی بجائے ہر ملک میں الگ الگ انقلاب کی تھیوری پر جدوجہد استوار کرنے کی کوشش کی گئی۔جس سے ایک دوسرے سے متصل ممالک کے محنت کش طبقے کویکجا کر کے ایک ناقابل شکست طاقت بنانے کی بجائے قومی،نسلی اور مذہبی تقسیم کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا بلکہ قومی آزادی کی تحریکوں کو براہ راست سوشلسٹ انقلاب کی بجائے مرحلہ وار انقلاب کے غدارانہ نظریات کے بھینٹ چڑھا کر عظیم قربانیوں اور تحریکوں کو زائل کردیا گیا۔اسی المیہ کے تناظر میں 1948ء میں برما، برطانوی سامراج کی غلامی سے نکل کر راہ گم گشتہ کا شکار ہوگیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف برما 1936ء میں ہی معرض وجود میں آگئی تھی مگر اپنے بننے سے لیکر اس کی تمام دھڑے بندیوں،فاشزم کے ساتھ اتحاد اور فاشزم کے خلاف لڑائی سمیت،گوریلا وار اور انڈر گراؤنڈ ورک،’’آزادی‘‘ سے پہلے حکومتوں میں آنے اور بعد میں بننے والی حکومت کے دوران طبقاتی جدوجہد کی بجائے زیر زمین پناہ لے لینے جیسے معاملات کے تمام مراحل میں مارکسسٹ نظریاتی بنیادوں کی بجائے، تذبذب،روسی اورچینی بیوروکریسی کی اندھادھند پیروکارانہ روش دیکھنے کو ملتی ہے۔ 1948ء سے 1962ء تک نظریاتی کشمکش اور واضح لائحہ عمل نہ ہونے کے بعد چینی بیوروکریسی کے زیر اثر فوجی آمریت کے تحت برما کے محنت کش طبقے سے نہ صرف ان کی منزل چھین لی گئی بلکہ جبر اور غدارانہ نظریات کی غلاظت نے برمی محنت کشوں،کسانوں اور مزدوروں کی سوچ اور ثقافت پر طبقاتی جدوجہد،انقلابی بھائی چارہ،وحدت اور یکجہتی کی بجائے مذہب،فرقوں،لسانی اور قومی تعصبات کے زہر کی تہہ چڑھا دی۔جس کی وجہ سے کثیرالاقوامی،نسلی اور مذہبی گروہوں کے پاس کوئی مشترکہ لائحہ عمل اور نقطہ نگاہ نہیں بچا اور جب آگے جانے کی راہ نہ ہوتو پیچھے مڑکر ماضی کے اندھیروں میں جھانکنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔یہی وجہ ہے کہ آج برما میں مسلمان بنیاد پرست اسامہ بن لادن کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں ہے اور عام لوگوں کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ دنیا بھر میں ’’جہاد‘‘ کے (موافقت اور مخالفت کے دونوں پہلوؤں سے)سامراجی استعمال کے باوجود جہادی گروپ ان کی غربت،پسماندگی،بے بسی،ذلت،نسلی تعصب اور نفرت کا حل ہیں۔پاکستان اور افغانستان میں ان جہادی گروپوں کی بربریت، ناکامی اور سامراجی غلامی آج سب پر عیاں ہے۔نظریات سے انحراف کی بنا پر ذہنی پستی اور گراوٹ کی ایک شکل موجودہ فوجی حکمران تھین شین کے اس بیان سے بھی نظر آتی ہے جس میں اس نے ’’اراکان‘‘ صوبے میں رہنے والے آٹھ لاکھ روھینگیہ مسلمانوں کو ’’غیر برمی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس دو راستے ہیں یا تو کسی اور ملک میں چلے جائیں یا پھر ’’پناہ گزین‘‘کیمپوں میں زندگی گزاریں۔‘‘

موجودہ فسادات
رد انقلاب اور پستی کے اسی تناظر میں 28مئی 2012ء کوبرما کے جنوبی صوبے’’ اراکان‘‘ کے رانمبری ٹاؤن شپ کے ایک قصبے میں ’’تھائدار ہٹوے‘‘ نامی ایک بدھ لڑکی کی لاش ملی جس کے قتل اور مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا الزم تین روہینگیہ مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔اس واقعے کے اگلے روز ایک ہزار کے قریب بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ایک تھانے کا گھیراؤ کیا اور احتجاج کیا۔اسی شام متذکرہ تین افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ایک گرفتار نے جیل میں خودکشی کی کوشش کی،اس پر مسلمان کمیونٹی میں اشتعال پھیل گیا۔ 3جون کوبدھ مذہب کے ایک مشتعل جلوس نے ایک بس سے 10مسلمان تبلیغیوں کو اتار کر قتل کردیا گیا اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔اس کے بعد فسادات بری طرح بھڑک گئے۔ابتدائی بلوؤں میں اسی کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔سینکڑوں گھر جلادئے گئے۔مبینہ طور پر بہت سے مسلمان روھینگیہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔چھوٹے بچوں کے گلے کاٹنے کی بھی متعدد اطلاعات ہیں۔اس دوران فوجی جنتا اور اسکی پولیس پہلے پہل محض تماشائی بنی رہی پھر علاقے میں کرفیو لگا کرگرفتایاں شروع کردی گئیں۔چونکہ مسلم روھینگیہ کو خود فوجی حکمران نان برمی قراردے چکے ہیں حالانکہ وہ مغربی برما کے صوبے اراکان میں کئی صدیوں سے بستے چلے آرہے تھے، اس لئے زیادہ تر گرفتاریاں بھی ان کی ہی کی گئیں جس سے خوف و ہراس بڑھ گیا اور ہزاروں روھینگیہ مسلمانوں نے دریا کے ذریعے بنگلہ دیش بھاگنے کی کوشش کی جس کو بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورسز نے زبردست تشدد اور خونریزی سے ناکام بنا دیا کیونکہ بنگلہ سیکیورٹی فورسز کے مطابق پہلے ہی چار لاکھ روھینگیہ برمی مسلمان بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں ہیں اور زیادہ لوگوں کے آنے سے معاشی مسائل بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں روھینگیہ مسلمانوں کے کیمپوں میں برے حالات ہیں۔نہ پانی ہے نہ راشن اور نہ بجلی۔فاقوں اور موت کا سا ساماں ہے۔دوسری طرف وہ سینکڑوں سالوں سے برما میں رہنے کے باوجود ابھی تک برمی شناخت سے محروم ہیں اور جو ان کو نہیں دی جارہی حتیٰ کہ ’’امن کی نوبل انعام یافتہ‘‘ آنگ سوچی سے جب انکے دورہ یورپ کے دوران پوچھا گیا کہ روھینگیہ مسلمان کے بارے میں جو فوجی جنتا کا حکمران تھین شین کہہ رہا ہے کہ وہ برمی نہیں ہیں تو آپ کیا کہتی ہیں کہ وہ برمی ہیں یا نہیں؟ تو اس پر ’’مظلوموں اور ستم رسیدہ‘‘ لوگوں کی ترجمان نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتیں!!!!

برما میں قو می و مذہبی استحصال
برما کی وہ آبادی جس کو برمی کہا جاتا ہے رنگون اور دیگر بڑے شہروں میں رہتی ہے جب کہ باقی نسلوں،قوموں اور مذاہب کے لوگوں کی اکثریتی آبادی نواحی علاقوں، دیہاتوں اور دوردراز کے علاقوں میں رہتی ہے۔ شہری علاقوں اور اقلیتی نسلی گروپوں کے علاقوں میں ترقی کے درمیان بہت تضاد ہے۔اگر رنگون میں بجلی مہیا کیا جانے کا تناسب 67فی صد ہے تو دیہی اور دوردراز علاقوں میں 16فی صد بجلی مہیا کی جاتی ہے۔85فی صدغریب دیہی علاقوں میں اور اقلیتی نسلوں کے علاقوں میں بستے ہیں ان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر تمام مذاہب کے لوگ بھی اس غربت کا شکار ہیں۔ان علاقوں کے 75فی صد بچے پرائمری سکول کی تعلیم کے دوران ہی پڑھائی کے عمل کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جبکہ شہری علاقوں کے 63 فیصدبچے پرائمری سکول کی تعلیم مکمل کرکے ہائی سکول کی تعلیم تک پہنچ جاتے ہیں۔مختلف نسلوں اور مذاہب کے مابین جو کشمکش،مخاصمت اور جھگڑے کی فضاہے اس میں کمی اور خاتمہ برابر کی ترقی اور مواقع فراہم کئے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔برما کے مختلف حصوں میں ترقی کی مختلف مگر ناہموار شکلیں ہیں۔عمومی طور پر برمی دولت اور وسائل کا استعمال فوجی جنتا اور حکمران گروہوں کی لوٹ مار کے لیے کیا جاتا ہے۔
برما میں نسلی، مذہبی اور قومی اعتبار سے بہت زیادہ اقلیتیں رہتی ہیں۔135جدا گانہ شناخت رکھنے والی مگر کل آبادی کا محض5فی صد ی حصہ ہونے والی نسلی قومیتوں اور پھر چھ کے قریب (بامار68%، شان9%، کیان7%، روکھیان4%،مون2%،کچن2%) ایسے نسلی گروپوں کی موجودگی، جن میں سے اکثریتی نسل اڑسٹھ فیصد ہو اور باقی قومیتیں دوسے نو فی صد تک ملک میں وجود رکھتی ہوں،کے باہمی تعلق کو جوڑنے والا کوئی نظریہ یا وحدت نہ ہوتو پھر ان کی باہمی آویزش کوئی عجب بات نہیں ہے جبکہ ترقی انتہائی غیر ہموار اور متعصبانہ ہو۔ایسی ہی کہانی اس ملک کی ہے جو تاریخ کی بہت سی صدیوں میں برما کہلاتا رہا مگر پھر وہاں کے سوشلسٹ انقلاب کی منزل کھوجانے سے اس کا نام ایک قومیتی گروپ کی مناسبت سے 1989ء میں میانمار رکھا گیا۔چھ کروڑ کے قریب مختلف نسلوں اور مذاہب(تھیراواڈابدھ89فیصد،عیسائیت4فیصد،بپٹسٹ3فیصد،رومن کیتھولک1فیصد،مسلمان سنی2.65فیصد، مسلمان شیعہ1.35فیصد،ہندو2فیصد اور انیم ازم،چائنیز فولک مذاہب) کی آبادی پر مشتمل برما جو کہ چودہ ریاستوں اور ڈویژنوں پر مشتمل ہے، چین،تھائی لینڈ،بنگلہ دیش،ہندوستان اورلاؤس کا ہمسایہ ہے۔ برما کا ایک تہائی رقبہ خلیج بنگال اور انڈامان سمندر کے کنارے پر واقع ہے۔موجودہ برما کی جغرافیائی حدود کا تعین فروری 1947ء میں آنگ سانگ کے تحت برمی حکومت اور کاچن، شان اور چن لوگوں کے نمائندوں کے ساتھ پینگ لانگ معاہدے کے ذریعے ہوا۔ برما میں اس وقت چھ کروڑ 28لاکھ سے زائد لوگ آباد ہیں اور رقبے کے لحاظ سے یہ جنوب مشرقی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔
برما میں خانہ جنگی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ غربت اور بھوک کی وجہ سے جہاں محرومیوں میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں حکمرانوں کی لوٹ مار بھی زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔اس وقت بھی بہت سی قومی اقلیتوں پر مبنی تنظیمیںآزادی اور دیگر حقوق کے لیے مسلح جدجوجہد کر رہی ہیں۔ ان گروہوں کو چین سمیت دیگر سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جس کے باعث صورتحال مزید گھمبیر ہو چکی ہے۔کاچن اور شان مسلح جنگجوؤں سے حکومت کے کئی جنگ بندی کے معاہدے ہو چکے ہیں لیکن کوئی بھی مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔برما میں واقع چین کی سرحد پر موجود علاقوں میں نسل کشی اور خانہ جنگی کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن چین کی حکومت بھی چینی زبان بولنے والے اور ہم نسل افراد کو چین میں داخل ہونے پر سختی سے روکتی ہے اور اگر کوئی اندر گھس آئے تو اسے واپس موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
برما‘ برطانوی استعمارکے زیر نگیں ہونے سے قبل خود استعماری ملک شمار ہوتا تھا جو اپنے قرب و جوار کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور ہندوستان کے علاقوں پر قبضہ جمائے رکھتا تھا۔اگرچہ بہت سے عوامل برما کو اسی برصغیر کا حصہ ہی قرار دیتے چلے آرہے تھے جس میں ہمہ گیر جغرافیائی،موسمی،نسلی،مذہبی اور کثیرالقومی نسلیں،ذاتیں اور درجہ بندیاں موجود ہیں۔اگربرما برصغیر کا ہی حصہ تھا تو تب بھی دیگر کئی ریاستوں اور علاقوں کی طرح برما کا کئی سو سالوں سے علیحدہ اور جداگانہ ریاستی کنٹرول، حدود اربعہ اور حکمرانی تھی۔ایک ہزار سال قبل سے مسلسل نقل مکانی کرکے آتے ہوئے چینی،وسط ایشیائی،تبتی،بنگالی اور ہندوستانی نژاد برمیوں پر بننے والی سلطنت کا مذہب بھی اپنے تارکین وطن کی اکثریت کی مناسبت سے بدھ ٹھہرا، اگرچہ اسلام بدھ مت سے پہلے برما کی سرزمین میں اپنے ماننے والوں کے ساتھ موجود تھا۔

انسانی المیے پر مبالغہ آمیزی کا طوفان
میانمارمیں جو کچھ ہورہا ہے وہ بذات خود اتنا انسانیت سوز اور وحشیانہ عمل ہے کہ اسکی محض مذمت کافی نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس قتل عام اور نسل کشی کو روکنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ سرمایہ داری نظام میںیہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔عراق،افغانستان اور خود پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہزارہ قبائل کی نسل کشی،صوبہ گلگت بلتستان میں شیعہ آبادیوں کا قتل عام،کراچی میں گینگ وار اور ٹارگٹ کلنگ،سوات اور شمالی علاقوں میں طالبان کے ہاتھوں سینکڑوں مسلمانوں کو ذبح کرنے اور پھانسیوں پر لٹکانے کے واقعات موجودہ نظام کی سفاکیت اور بوسیدگی کے گواہ ہیں۔مگر برما میں ہونے والے واقعات پر پاکستان میں ہونے والا شورو غوغا حقیقت پسندی کی بجائے مخصوص مقاصد اور پراپیگنڈے کے لئے کیا جارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس قتل و غارت گری اور بربریت کے واقعات جن کا کوئی تدارک سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ممکن نہیں ہے کا درست تجزیہ کرنے کی بجائے اسلام اور کفر کی جنگ بنانے کا کھیل جاری ہے۔’’پاکستانی لبرل‘‘ اور کچھ دیگر عناصر کا کہنا کہ میانمار میں کچھ ایسا نہیں ہے کہ اس پر شور مچایا جائے!!ایک سنگدلانہ نقطہ نظر اور بے ہودگی کی حد تک جانبدارانہ رویہ ہے، اس رویے کو تقویت وہ مبالغہ آمیزی اور جعل سازی دے رہی ہے جس میں فسادات اور نسل کشی کے اس معاملے کی تصاویر اور فوٹیج کے ساتھ برسوں پرانے تھائی لینڈ،تبت اور دیگرعلاقوں میں ملتے جلتے لباسوں،شکلوں اور حلیے والے چپٹے ناک والے انسانوں کی زلزلوں،سیلابوں اور مختلف واقعات میں ہلاکتوں والی تصاویر اور فوٹیج نکال کر ان پر حالیہ قتل عام کا ٹائٹل فٹ کرکے اس معاملے کی شدت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس مبالغہ آمیزی اور جعل سازی کے پیچھے جماعت اسلامی اور دیگر جہادی گروپ ہیں۔ان کی اس ’’رضاکارانہ کاوش‘‘ نے موجودہ قتل وغارت گری کو سرے سے ہی مشکوک بنانے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔اس’’ نیک کام‘‘ کے بعدجماعت اسلامی نے تو اپنے چندہ اکٹھا کرنے کی لوٹ مارمہم کا آغاز کردیا ہے۔برما میں ہونے والے واقعات پر ’’اسلام کے خلاف یہودو ہنود کی سازش‘‘ کے ٹائٹل کے تحت کام کرنے والے مذہبی عناصر یہ بتلانے میں قاصر ہیں کہ اگر برما کی غیر مسلم حکومت مسلمانوں کا مذہبی بنیادوں پر قتل عام کروا رہی ہے تو بنگلہ دیشی حکومت آخر کس مذہبی جذبے کے تحت بے گھر اور لاچار روھینگیہ مسلمانوں کی کشتیوں پر فائرنگ کرکے اور زبردستی ان کا رخ موت کے منہ کی طرف موڑ رہی ہے ؟ کیا یہ مسئلہ واقعی مذہب سے جڑا ہے؟ حالات اور واقعات اس بات کی بھی نفی کرتے ہیں مگر کچھ ملّا پاکستان میں بیٹھ کر برمی مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔’’امت مسلمہ‘‘ کی فکر سے مرے جارہے ان مذہبی ٹھیکیداروں کو بلوچستان کے گلی کوچوں میں ملنے والی بلوچ آزادی پسندوں کی وہ مسخ شدہ لاشیں شاید نظر نہیں آتیں جنہیں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی ریاستی مشینری اغوا کئے جانے کے بعد پورے جسم میں ڈرل مشین کے سوراخ کر کے اور طرح طرح کی اذیتیں دے کر قتل کرتی ہے۔القاعدہ اور طالبان کے ہاتھوں دنیا بھرمیں مسلمانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرنے کی درجنوں ویڈیوز (جو کہ انٹرنیٹ پر با آسانی دیکھی جا سکتی ہیں)بھی ان ملاؤں کے لئے شائد Invisibleہیں۔امریکی سامراج کی پیداوار طالبان کی دہشتگردی سے گزشتہ دس سال کے دوران لقمہ اجل بننے والے 40000سے زائد بے گناہ پاکستانی بوڑھے، بچے، خواتین اور نوجوان کیا مسلمان اور انسان نہیں تھے؟ اس معاملے میں مذہب سے ان ٹھیکیداروں کے منہ کو تالہ کیوں لگ جاتا ہے؟ ماضی قریب میں اس سے کئی ہزار گنا بڑا قتل عام جماعت اسلامی کی الشمس والبدر کے ہاتھوں مشرقی پاکستانیوں کاپھر جماعت اور دیگر مذہبی گروپوں کے ہاتھو ں افغانستان کے ان مسلمانوں کا ہوا ہے جنہوں نے ’’ثورانقلاب‘‘ کے ذریعے امریکی سامراج کے نظام زر کے خلاف بغاوت کرنے کی جسارت کی تھی۔ ماضی میں بریگیڈئیر ضیا الحق کے ہاتھو ں اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں پچیس ہزار فلسطینیوں کا قتل ہوا تھا جس کی یاد میں آج بھی ’’سیاہ ستمبر‘‘ کے نام سے دن منایا جاتا ہے مگر اس پر ہماری مذہبی جماعتوں نے کبھی کوئی مذمتی بیان تک نہیں دیا۔ حالیہ دنوں میں بحرین میں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی خواتین،بچوں اور مردوں کے ساتھ بحرینی افواج،سعودی ٹینکوں اور پاکستانی جانبازوں نے جو کیا اس پر بھی کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں آیا۔ایران میں ملائیت کے خلاف جدوجہد کرنے والے طالب علم لڑکوں اور لڑکیوں کو سرعام گولیاں ماری گئیں اور عقوبت خانوں میں جنسی جرائم کرکے زندگیوں سے محروم کیا گیا۔۔۔فقہی اختلا ف کے باوجو د بھی اس قتل عام پر بھی کوئی فتوی،کوئی ردعمل نہیں آیا!! خود سعودی عرب کے شہرقطیف میں حقوق مانگنے والے نہتے لوگوں پر مارچ 2011ء میں گولیاں برسائی گئیں مگر ہر زبان چپ رہی۔اس منافقانہ روش سے کچھ اور نہیں، یہ خود بے نقاب ہوتے ہیں اور رہا امت مسلمہ کا مسئلہ تو جب تک امریکی مفاد میں نہیں ہوگا یہ امت مسلمہ چپ ہی رہے گی چاہے اس کو ابھارنے کے لئے جماعت اسلامی اور دیگر گروپ ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں۔ یہ امریکی ایجنٹ اسرائیل سے زیادہ امریکہ کے وفادار ہیں اور اسکی مرضی کے بغیر چوں بھی نہیں کرتے۔

عالمی ضمیر
ایک اور نام نہاد ضمیر یعنی عالمی ضمیر کو پکارا جارہا ہے اس کا تو دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔پوری دنیا کا ٹھیکیدار امریکہ (بظاہر ناپسندیدہ اور چینی بیوروکریسی کی اعانت یافتہ میانمار کی فوجی حکومت جو اب اسکی بھی پسندیدہ ہے) کے خلاف کسی قسم کاردعمل دینے کا روادار نہیں ہے کیوں کہ اس معاملے میں’’امریکی مفادات‘‘کا کوئی پہلو نہیں نظر آتاالبتہ امریکہ کی دلچسپی میانمار میں سرمایہ کاری اور بالخصوص سرکاری شعبے کی آئل کمپنی میانمر آئل اینڈ گیس انٹرپرائز کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ہے کہ وہاں سے ’’مال‘‘ کمایا جاسکے،چونکہ برما میں لوٹ مار پر اکیلے ہی فوجی جنتا کا حق ہے اس لئے امریکہ کے انسانی حقوق کا تعلق صرف معاشی اور کاروباری معاملات پر برمی فوجی حکومت کی گرفت کے کمزور کرنے سے ہے تاکہ لوٹ کھسوٹ میں آسانی ہو۔اسی لئے پچھلے ہفتے صدر باراک حسین اوباما نے بھی کہاتھا کہ برما میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ان کا کہناتھا کہ امریکہ کو برما میں سرمایہ کاری کے ماحول میں شفافیت کے فقدان پر تحفظات ہیں۔ اس فقرے کا ایک ہی مطلب ہے کہ چینی بیوروکریسی کے دم چھلہ فوجی حکمران جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ساتھ ملک کر ’’لبرل لائیزیشن ‘‘ کو یقینی بنا رہے ہیں،امریکہ اور اسکے حاشیہ برداروں کی لوٹ مار کی راہ میں ہر رکاوٹ دور کردیں۔بس اس کے بعد کسی انسانی حقوق کے مسئلے اور نسلی قتل و غارت گری پر اعتراض نہیں ہوگا بلکہ اس کو میانمار کا ’’اندرونی مسئلہ‘‘ قرار دے دیا جائے گا۔

مسئلے کا حل
سرمایہ دارانہ بنیادوں پر برما،افغانستان،صومالیہ،پاکستان،فلسطین اور کرۂ ارض کے تمام براعظموں پر پھیلے سینکڑوں ممالک کے اندر ہونے والی ہلاکتوں کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔جنگوں سے زیادہ امن کے دنوں میں انسانوں کو اپنی زندگیوں سے محروم کردینے والی منڈی کی معیشت کا اب تو انحصار ہی عدم استحکام پر ہے۔ یوگوسلاویہ ایک کثیرالنسلی اور مذہبی ملک تھاجہاں بے شمار قومیں آباد تھیں۔ان تمام قوموں کے درمیان بے شمار تفاوت اور تضادات تھے،بالکن میں ماضی میں قومی مسائل پر دو جنگیں ہوچکی تھیں۔ مگر ان تمام اختلافات کو ایک ہی جادو نے حل کردیا وہ تھا ’’سوشلزم‘‘ جو انسان کو ماضی کے تعصبات سے نکال کر پہلی دفعہ انسان بن کرسوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے اور ایک ایسی یک جہتی عطا کرتا ہے جہاں ثقافت کی انتہائی بلندی اور طبقاتی سانجھ ہر فرق اور اختلاف کو مٹا کرمختلف مذاہب اور قوموں کو پرامن اور یک جان بن کررہنے پر آمادہ کرلیتی ہے۔مگرسوویت یونین میں سٹالنزم کے انہدام کے بعد جب یوگوسلاویہ میں سرمایہ داری کو واپس لایا گیا تومنڈی کی معیشت کے تقاضوں کے تحت اور ملکوں کی بندربانٹ کرنے کی ضرورت کی وجہ سے یوگوسلاویہ کمزور قوموں کی مقتل گاہ بن کر رہ گیا جہاں لاکھوں کی تعداد میں البانوی،سلاو،کروٹس،سربس قومیتوں کے لوگ ماردئے گئے۔ برما میں صرف روھینگیہ مسلمانوں کے مسائل نہیں ہیں۔آدھی سے زیادہ آبادی غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔بہترین قدرتی وسائل کے حامل ملک میں سامراجی قوتیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ مارکرہی ہیں۔برما کا فوجی ٹولہ دنیا کا بدعنوان ترین حکمران گروہ ہے۔یہاں کی اپوزیشن سامراجی سپانسرڈ ہے جس کا سارا وقت بین الاقوامی اجارہ داریوں کے کاروباروں اور سرمایہ کاری کو برما میں لانے پر ہے جس کا براہ راست فائدہ یا تو ان کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ہوگا یا پھر برما کے حکمران دھڑوں کا جو لوٹ مارکے اس کھیل میں اپنا حصہ وصول کریں گے۔دنیا کی جدید تاریخ گواہ ہے اور تمام اعداد وشمار ثابت کرتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری اس ملک کے عوام کو اورزیادہ غریب،پسماندہ اور مفلوک الحال بنادیتی ہے۔بیرون ملک سے آنے والاایک ڈالر اپنی ابتدا میں ہی چودہ سے سترہ ڈالر واپس لے جاتا ہے۔اور پھر جن شرائط پر فارن انوسٹ منٹ ہوتی ہے وہ مقامی صنعتوں،زراعت اور وسائل کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ایسا ہی اب برما میں ہونے جارہا ہے۔۔تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے اور نام نہاد آزادیوں کے بارہا کے تجربات ثابت کرتے ہیں کہ برما،بنگلہ دیش،تھائی لینڈ،ہندوستان اور اسکی تمام ملحقہ اور قومی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی ریاستوں اور حتیٰ کہ چین کا مسئلہ جدا جدا نہیں ہے بلکہ اسکے تمام نسلی،مذہبی،گروہی،فرقہ وارانہ اور فروعی تنازعوں سے بڑا مسئلہ محنت کے استحصال اور غربت کا ہے۔ان تمام ممالک کے مسائل کا حل بھی آپس میں جڑا ہوا ہے جو نہ صرف معاشی مسائل حل کریگا بلکہ سماجی تفاوت اور نسلوں مذہبوں کے تنازعوں کو بھی یک لخت ختم کردے گا۔ان ممالک کے محنت کش طبقے کی طبقاتی یکجہتی ان کی صدیوں کی غلامی اور محرومیوں کو ختم کرسکتی ہے،معاشی غلامی سے نجات کے بعد انسان ان چھوٹی لڑائیوں اور محرومیوں سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرکے پہلی دفعہ انسان کے انسان کے ساتھ رشتے کو محسوس کریں گے جو ہر تضاد کو محبت اور رواداری میں تبدیل کردے گا۔جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک پر مشتمل ایک سوشلسٹ فیڈریشن بنانے کی جدوجہد کا آغاز ماضی کی ان تمام عظیم تحریکوں کو ایک نئی اٹھان دے کر آپس میں نہ ٹوٹنے والی لڑی میں پرودے گا جو بالآخر پورے برصغیر اور ایشیا کی نجات کا نقارہ بجانے کا باعث بنے گے۔