تحریر: لال خان
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہونے والے قتل عام سے دنیا میں انسانوں کی وسیع اکثریت کے دل دہل گئے ہیں۔ ان میں ہر نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے وہ اربوں لوگ بھی شامل جو موم بتیاں جلا کے یا مذہبی رسومات کے ذریعے اپنے دکھ کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ عورتوں اور بچوں سمیت 49 افراد کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا اور اِس قتل عام کو فیس بک پر براہِ راست نشر کیا گیا اس کے سامنے وحشت، بربریت اور درندگی جیسے الفاظ بھی بہت چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ حکمران طبقات کے سیاسی نمائندے اور دانشور روایتی قسم کے مذمتی بیانات جاری کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک، جہاں ایسی خونی دہشت گردی کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، میں مروجہ دانش کی جانب سے اس بات پہ زور دیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، قوم، فرقہ یا نسل وغیرہ نہیں ہوتی ہے۔ یہ بات بالعموم درست بھی ہے لیکن ایسے سطحی تجزیوں سے اِس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی وحشیانہ وارداتیں کرنے والوں کی قوت محرکہ ماضی کے وہی تعصبات ہوتے ہیں جنہیں مغرب سے لے کے مشرق تک استحصالی طبقات کے مختلف نمائندے مختلف انداز میں اپنے مفادات کے لئے ابھارتے اور استعمال کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے پیچھے سفید نسل پرستی کا عنصر کارفرما تھا۔ قاتل کا ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا ہیرو قرار دینا ‘ اُس سفید نسل پرستی کے ناگزیر مضمرات کی غمازی کرتا ہے جو مغربی سرمایہ د اری کے بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں میں دوبارہ ابھری ہے۔ دی اکانومسٹ اپنے تبصرے میں لکھتا ہے، ’’یہ حملہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے بارے میں اس تشویش کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ وہ کس طرح دہشت گردوں کو تشہیر کے مواقع فراہم کرتی ہیں… گرفتار ہونے والوں میں سے کوئی بھی آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کے حکام کی واچ لسٹ پر نہیں تھا۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی توجہ سفید فام نسل پرستوں کے برعکس مسلمان کمیونٹی پر مرکوز تھی۔ وہ غلط سمت میں دیکھ رہے تھے۔‘‘
یہ درست ہے کہ پچھلے عرصے میں بالخصوص داعش کے ابھار کے بعد سفید فام اکثریت والے ممالک میں دہشت گردی کی جو کاروائیاں ہوئی ہیں ان میں سے زیادہ تر میں مسلمان پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد ملوث رہے ہیں۔ لیکن ان کے مسلمان ہونے پہ بات ختم نہیں ہوتی۔ ان میں سے بیشتر کئی نسلوں سے ان ممالک میں آباد تھے اور کچھ دہائیاں قبل تک وہاں دہشت گردی کا کم و بیش کوئی وجود نہیں تھا۔ لہٰذا اِس عمل کو سمجھنے کے لئے ایک تسلسل میں اس کی مادی بنیادوں کیساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ میڈیا پر دہشت گردی کے بے قابو ہوتے ہوئے عفریت کی سماجی اور معاشی وجوہات، اس میں نظام کے بحران اور سامراجی قوتوں کے مجرمانہ کردار کا احاطہ نہیں کیا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کی وسیع بربادیوں نے مرتی ہوئی سرمایہ داری کو نئی زندگی عطا کی تھی۔ پہلے بڑے پیمانے کی اسلحہ سازی اور پھر جنگ سے برآمد ہونے والی نئی صنعتوں اور تباہ شدہ خطوں کی تعمیر نو نے سرمایہ داری کی گرتی ہوئی شرح منافع کو بحال کیا۔ دوسری طرف سوویت یونین تھا جہاں اپنی مسخ شدہ شکل میں بھی سوشلزم نے بیروزگار ی کا خاتمہ کیا، تیز صنعتکاری کی اور چند دہائیوں میں تعلیم، علاج اور رہائش جیسی سہولیات کو ہر فرد تک پہنچایا۔ یوں سوویت یونین کی موجودگی مغربی سامراجی ریاستوں پر بڑے دباؤ کا موجب تھی۔ لیکن اِس سے بھی بڑا دباؤ خود مغرب میں مضبوط ٹریڈ یونین تحریک اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کا تھا جنہوں نے عام محنت کشوں کے لئے وہ مراعات اور سہولیات حاصل کیں جو آج تک بھی ان ’فلاحی ریاستوں‘ کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہیں۔ انقلابات کو روکنے کے لئے یہ چھُوٹ دینا حکمران طبقات کی مجبوری بھی تھی اور بلند شرح منافع کے تحت ان کے لئے ایسا ممکن بھی تھا۔ اُس عرصے میں صنعت اور سروسز کے شعبوں کے تیز پھیلاؤ کے پیش نظر انہیں بڑے پیمانے پر پسماندہ اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک سے لیبر منگوانی پڑی۔ ان میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ترقی کرتی ہوئی معیشتوں ( جن میں روزگار بعض اوقات طلب سے بھی زیادہ ہوتا تھا) میں تو یہ تارکین وطن ان معاشروں کے سیاسی و سماجی ڈھانچوں میں ضم ہوتے رہے۔ ان میں سے بیشتر نے وہاں کی ٹریڈ یونین تنظیموں اور روایتی مزدور پارٹیوں میں بھی ہراول کردار ادا کیا۔ لیکن 1974ء کے بعد سے یہ ترقی یافتہ معیشتیں اور بالعموم پوری سرمایہ داری ہی ایک نئے زوال کا شکار ہوتی گئی ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے جیسے دیوہیکل واقعات نے پوری دنیا میں مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست کو شدید دھچکا پہنچایا۔ 1980ء کی دہائی سے نیولبرل معاشیات کے ہاتھوں فلاحی ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ کیونکہ بحران زدہ سرمایہ داری عوام کو حاصل اِن مراعات کی متحمل نہیں رہی ہے۔ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، آسٹیریٹی اور عام لوگوں پر ہر طرح کے دوسرے معاشی حملوں پر مبنی سرمایہ داری کے نئے طریقہ واردات کو جاری رکھنے کے لئے سامراجی حکمرانوں نے نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ ایک طرف اسلامی بنیاد پرستی کو افغانستان کے ڈالر جہاد سے لے کے دنیا کے بیشتر دوسرے ممالک میں انقلابی تحریکوں کو زائل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ پھر اسی بنیاد پرستی کی دہشت گردی کو جواز بنا کے دنیا بھر میں جارحیتیں کی گئیں۔ داخلی سطح پر اِنہی ’بیرونی خطرات‘ سے اپنے لوگوں کو ڈراکر مطیع کیا گیا اور انہیں نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا۔ آج روزگار کے مواقع مسلسل سکڑ رہے ہیں۔ ایسے میں دائیں بازو کے نسل پرستانہ رجحانات مقامی لوگوں کو باور کرواتے ہیں کہ ان کے مسائل کی وجہ سرمایہ داری نہیں بلکہ باہر سے آنے والے تارکین وطن ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ساری انتخابی مہم ایسی ہی نفرت انگیزی پر مبنی تھی۔ یورپ میں بھی پچھلے عرصے میں کئی ممالک میں ایسی نسل پرستانہ اور ہجرت مخالف نیم فسطائی پارٹیوں کا ابھار ہوا ہے۔ جس سے دوسری نسلوں کی کمیونٹیاں ‘ بالخصوص مسلمان شدید بیگانگی کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کی سماجی سرگرمیاں سکڑ کر اپنے ہی اندر محدود ہوتی گئی ہیں۔ تنگ نظری اور گھٹن پر مبنی اِس رجعتی ماحول کو پھر اسلامی بنیاد پرست عناصر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں (اگرچہ دوسرے مذاہب کے پیشوا ؤں نے بھی اِن حالات میں اپنے کاروبار خوب چمکائے ہیں )۔ افغانستان، عراق، فلسطین، شام، لیبیا وغیرہ میں جاری سامراجی ظلم اس جلتی پہ تیل کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں کے بہت سے مسلمان نوجوان، جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں، کسی ترقی پسند متبادل کی عدم موجودگی میں پہلے القاعدہ اور پھر داعش جیسے رجحانات کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں سامراجی مداخلتوں سے مشرق وسطیٰ کے ہنستے بستے سماجوں کی بربادی نے نسبتاً مستحکم اور پرامن ممالک کی طرف ہجرت کے رجحان کو تیز تر کر کے ایک بڑے بحران میں بدل دیا ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اِس مذہبی و نسلی جنون، جو وقتاً فوقتاً دہشت گردی کی شکل اختیار کرتا ہے اور اپنے مخالف جنون پر پلتا ہے، کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ اور اِس سے برباد کون ہو رہا ہے؟ ایسے سانحات نفرتوں کے بیوپاریوں کے کاروبار میں ہی اضافہ کرتے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی بنیاد پرست ہوں یا سفید نسل پرست۔ ان میں مرتے عام اور غریب لوگ ہی ہیں چاہے اُن کا تعلق کسی بھی مذہب، رنگ یا نسل سے ہو۔ نیوزی لینڈ کے اِس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ امن اور استحکام کا گہواہ سمجھے جانے والے ممالک بھی آج اس آگ سے محفوظ نہیں رہے ہیں جو اِس نظام کے رکھوالوں نے بھڑکائی ہے۔یہ واقعہ ترقی یافتہ ممالک کی سفید فام آبادیوں میں بھی شدید بیگانگی کی غمازی کرتا ہے جس کا اظہار امریکہ کے تعلیمی اداروں میں شوٹنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بھی ہوتا ہے جن میں زیادہ تر سفید بچے اور نوجوان ہی مرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی نظام تاریخی بحران اور متروکیت کا شکار ہو جائے تو اِس کے تحت چلنے والے معاشرے بھی عدم استحکام سے بچ نہیں سکتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نسل یا مذہب کے تعصبات تب ہی بھڑکتے ہیں جب عام لوگ مواقع اور وسائل کی قلت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ سماج جب آگے نہیں بڑھتے یا ترقی کی ایک مخصوص سطح پر آ کے اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے تو پیچھے سرکنے لگتے ہیں جس سے ہر قسم کے ماضی کے تعصبات اور بربریتیں عود کر آتی ہیں۔ انقلاب روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے اِسی تناظر میں کہا تھا کہ فسطائیت‘ سرمایہ داری کے بحران کا نچڑا ہوا عرق ہے۔ آج پورا سماج ایک تعفن کا شکار ہے جس کے ناگزیر مضمرات جرائم، منشیات، دہشت گردی اور دوسری ہر طرح کی لعنتوں کی صورت میں آشکار ہوتے ہیں۔ صرف دنیا بھر کے محنت کش ہی اپنی یکجا جدوجہد سے سرمائے کے جبرو تسلط کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور معیشت، سیاست و ریاست کو انسانی ضروریات اور سماجی فلاح کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے اِس مصنوعی قلت اور بیگانگی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔