پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے
[رپورٹ: فریڈرک اوہسٹن، ترجمہ: عمران کامیانہ]
اردن میں حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات پر سے سبسڈی ختم کرنے کے بعد بدھ اور جمعرات کے روز بڑے پیمانے پر ملک گیر مظاہرے ہوئے ہیں۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں ہیں جبکہ غیر متوقع طور پر بادشاہ کے خلاف نعرے سننے کو مل رہے ہیں۔
حکومتی اعلان کے مطابق سبسڈی کے خاتمے کے بعد گھریلو استعمال کی گیس کے نرخوں میں 50 فیصد، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 33 فیصد جبکہ پٹرول کی قیمت میں 15فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کی کرایوں میں 11 فیصد اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے اردن شدید افراطِ زر کی لپیٹ میں ہے اور روز مرہ استعمال کی چیزیں صارفین کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے کئے جانے والے حالیہ اقدام کا مقصد IMF کی خوشنودی حاصل کرنا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ منڈی کی معیشت اور IMF جیسے سامراجی اداروں کے ایما پر مرتب کی جانے والی اقتصادی پالیسیاں کبھی بھی عوام دوست نہیں ہو سکتیں۔ آزاد منڈی کی معیشت پر گامزن رہ کر عوام اور محنت کشوں کا بھلا کرنا نا ممکن ہے۔ یہ تضاد اس وقت اردن کی سڑکوں پر اپنا اظہار کر رہا ہے۔
دارالحکومت عمان میں ہزاروں مظاہرین نے وزارتِ داخلہ کے قریبی چوک کو کئی گھنٹے تک بند رکھا۔ بدھ کے روز جمال عبدالناصر چوک پر ہونے والا بڑا مظاہرہ صبح تک جاری رہا اور عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین کے نعروں نے تمام ’’قانونی حدود‘‘ عبور کر لیں۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کرتے ہوئے مستعفی ہونے اور قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کے خلاف بھی نعرے سننے کو ملے۔ یاد رہے کہ بادشاہ کے خلاف نعرہ بازی کرنا اردن میں جرم ہے جس پر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق مظاہرین ’’آزادی خدا کی دین ہے تمہاری نہیں عبداللہ‘‘، ’’انقلاب، انقلاب، عوامی انقلاب‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
عمان کے اضلاع شافابدران اور ناؤر میں بھی مظاہرین نے کئی اہم شاہراہیں بند کر دیں اور ٹائر جلائے۔ مظاہروں کے دوران ہوائی فائرنگ کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔
بدھ کو ہونے والی اہم پیش رفت اساتذہ کی ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومتی فیصلے کے خلاف ہڑتال کا اعلان تھاجس کا مقصد حکومت پر قیمتوں میں کمی کے لئے دباؤ بڑھانا ہے۔ پورا اردن اس وقت مظاہروں کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ شمالی شہر اربد میں وسفی التال چوک پر بڑامظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ جمعرات کے روز ٹیکسی ڈرائیور وں کی جانب سے بھی مظاہرے شروع ہو گئے۔ اربد کے نواح میں واقع ایک چھوٹے علاقے تائبہ میں دو پولیس والوں کو نا معلوم افراد نے گولی کا نشانہ بنایا جن کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔
کرک میں حکومتی اعلان کے فوری بعد ایک بڑا مظاہرہ ہوا جس میں مظاہرین نے حکومتی ہیڈ کوارٹر کے سامنے ٹائر جلائے اور حکومت سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ جمعرات کی شب ایک عدالت کی عمارت کو آگ لگا دی گئی۔ مظاہرین نے حکومتی املاک پر انڈے پھینکے اور ٹائرو ں کو آگ لگائی جبکہ پولیس نے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
جنوبی مزار میں مظاہرین نے بڑی شاہراہ کو بند کرتے ہوئے میونسپلٹی کی عمارت پر پتھراؤ کیا۔ امن نیوز کے مطابق غصے سے بھرے ہوئے مظاہرین نے سول کنزیومر ایسوسی ایشن پر ہلہ بول دیا اور اس علاقے میں واقع ملٹری کنزیومر ایسوسی ایشن کے دفاتر میں بھی گھسنے کی کوشش کی۔
جنوبی شہر ماآن میں ہزاروں نوجوان جمعرات کی شام کو سڑکوں پر نکل آئے او ر پر تشدد مظاہرے ہوئے۔ درجنوں بیروزگار نوجوانوں نے، جنہوں نے پچھلے ہفتے ہی سے احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا، حکومتی اعلان کے بعد حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کرنے کا اعلان کیا۔ گزشتہ ہفتے سینکڑوں نوجوانوں نے، جن میں بڑی تعداد یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے بیروزگاروں کی تھی، بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے خلاف دھرنے کا آغاز کیا تھا۔ ماآن کے شہریوں نے حکومتی فیصلہ واپس نہ لئے جانے کی صورت میں تمام محکموں میں ہڑتال اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔
شمالی شہر اجلون سے بھی بڑے مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ سالٹ کے شہر میں وزیرِ اعظم عبداللہ عنصور کے گھر کے سامنے مظاہرے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ مظاہرین نے جواب میں فائرنگ کی، دو سرکاری گاڑیوں کو آگ لگا دی اور ایک بنک کی عمارت کو نقصان پہنچایا۔ مظاہرین نے سالٹ امان شاہراہ کو بھی ٹائر جلا کے بند کر دیا۔
جنوبی بندرگاہ پر واقع شہر اقابا، مادابا کے قریب واقع دھیبان، شمالی اردن میں واقع رامتھا، مفراق کے مشرقی حصے، تفیلہ اور شوباک کے جنوبی حصوں میں بھی پر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی جبکہ پولیس نے جواب میں آنسو گیس کا استعمال کیا۔
مظاہروں کا یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیلتا جا رہاہے۔ اپوزیشن کے گروپوں نے جمعے کے روز مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ یہ خیال کہ اردن سرمایہ داری کے بحران اور عرب انقلاب کی زد میں نہیں آیا، اب چکنا چور ہوتا جا رہا ہے۔ سوموار کے روز مختلف علاقوں کے مزدوروں کی جنرل ٹریڈ یونین نے عمان کے شہری محنت کشوں کے مطالبات، جن میں تنخواہوں میں اضافہ سرِ فہرست ہے، پورے کرنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے، بصورتِ دیگر ہڑتال کی جائے گی۔
سرمایہ داری کی بنیاد پر مصنوعی حد بندیوں میں تقسیم شدہ مشرقِ وسطیٰ کے عوام کے لئے بہتر اور خوشحال مستقبل کی کوئی امیدنظر نہیں آرہی۔ اردن کی حکومت مقامی بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرض لے رہی ہے۔ حکومتی قرضہ پچھلے سال 19 فیصد کے اضافے کے ساتھ 22 ارب ڈالر، یعنی GDP کے 72 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر گزشتہ سال کے آخر سے 34 فیصد کم ہو کر 6.85 ارب ڈالر جبکہ بجٹ خسارہ 3.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ یہ سب اردن میں سرمایہ داری کی ناکامی کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی محدودیت اور خطے میں پائی جانے والی مجرمانہ جغرافیائی تقسیم کے ہوتے ہوئے معاشی بحران کے نیچے دبے عوام کے لئے بہتری کا کوئی امکان موجود نہیں۔