| تحریر: حمید علی زادہ، ترجمہ: حسن جان |
عراق کے جنوبی اور مرکزی علاقوں میں پورے ہفتے کے بڑھتے مظاہروں کے بعد جمعہ 7 اگست کو پانچ لاکھ افراد بغداد کی سڑکوں پر نکل آئے۔
جمعہ کو بغداد کے تحریر چوک میں لاکھوں عراقی ہاتھوں میں عراقی پرچم اٹھائے ہوئے عراقی حکومت میں پھیلی ہوئی بد عنوانی اور فرقہ واریت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ایک مشہور نعرہ یہ تھا، ’’ نہ شیعہ نہ سنی، سیکولر ازم، سیکولرازم ‘‘جس کا مقصد امریکی قابض افواج کی طرف سے فرقہ واریت پر مبنی نمائندگی کے نظام کو ختم کرنا تھا۔ کچھ لوگ توانائی کے وزیر کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے تھے جبکہ کچھ لوگ پوری حکومت کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ باقی نعرے کچھ اس طرح تھے، ’’تم سب کا احتساب ہونا چاہیئے، تم سب چور ہو،‘‘ اور ’’ہر جمعے کو؛ ہم بد عنوان لوگوں کو نکال باہر کریں گے۔‘‘
جنوبی علاقوں جو شیعہ اکثریتی علاقے ہیں بشمول بصرہ، نجف، کربلا، ناصریہ اور بہت سے دوسرے شہروں میں بھی بڑ ے بڑے مظاہرے ہوئے۔
گارڈین کے مطابق، بہت سے مظاہرین نے کہا کہ وہ ’’ایک آبرومندانہ زندگی ‘‘ کے مطالبے کے لیے باہر آئے ہیں۔
انتیس سالہ لامیہ فادھل نے کہا ’’دس سالوں سے حکومت نے ہمیں کچھ بھی مہیا نہیں کیا۔ نہ بجلی، نہ خدمات اور نہ نوکری۔ بس۔ اب بہت ہوچکا!‘‘
جاسم نے اے ایف پی کو بتا یا، ’’ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ یہ مظاہرہ کسی وزیر یا کسی خاص سرکاری اہلکار کے خلاف ہے تو میں اسے درست کرنا چاہوں گا کہ یہ ہر اس شخص کے خلاف ہے جو 2003ء سے لے کر اب تک توانائی کے بحران کا ذمہ دار ہے۔‘‘
ریڈیکل موڈ کے غماز ایک اور احتجاجی نے کہا، ’’عراق پر (سامراجی )حملے نے اسے بیس یا تیس سال پیچھے پھینک دیا ہے۔‘‘ اس نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کسی بھی طرح امریکی قبضے سے بہتر نہیں ہے۔ ’’یہ حکومت مظاہروں سے نہیں بلکہ صرف بزور طاقت ہی ختم ہوگی۔ ‘‘
جمعہ کا مظاہرہ ایک ہفتے کے مظاہروں کے بعد منظم ہوا جب جھلسا دینے والی گرمی کی لہر نے تضادات کو انتہا تک پہنچا دیا۔ کچھ علاقوں میں ان مظاہروں نے نیم سرکشی کی کیفیت اختیار کر لی۔ بغداد کے جنوب، سماوا میں مظاہرین نے اتوار کی شام کو گورنر ہاؤس کا گھیراؤ کیا اور اس کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
ایک ایسی کیفیت میں جب درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر ہو، ایسے میں بجلی کی رسد بیشتر عراقیوں کے لیے ایک عیاشی بن گئی ہے۔ دائمی کم رسد کی وجہ سے بجلی کی کٹوتی کا مطلب ہے کہ بہت سے علاقوں کو یومیہ صرف چند گھنٹے ہی بجلی ملتی ہے۔
وسیع پھیلی ہوئی بد عنوانی کی وجہ سے، جس سے مراعات یافتہ ٹولے کو بہت زیادہ بجلی ملتی ہے (یا تو وہ عوامی دولت کو لوٹ کر بجلی خریدتے ہیں یا پھر اپنی ریاستی اثرورسوخ کو استعمال کرکے اپنے لیے بجلی کی مستقل فراہمی یقینی بناتے ہیں) تضادات اپنی انتہا کو پہنچ رہے ہیں۔ اس کیفیت نے تحریک کی چنگاری کو بڑھکا دیا، جو اگرچہ بجلی کی کمی کے خلاف مظاہرے سے شروع ہوئی تھی، بہت جلد بد عنوانی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک عوامی تحریک میں تبدیلی ہوگئی۔
ان مظاہروں کے ساتھ ساتھ پچھلے ایک سال سے مزدوروں کے احتجاجوں اورہڑتالوں کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔ اس اثنا میں عراقی حکومت، جو بد عنوانی سے لبریز اور خانہ جنگی اور تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے دیوالیہ ہوچکی ہے، نے اپنی نجکاری کے پروگرام کو نئی اونچائیوں تک پہنچا دیا ہے۔
عراقی ورکر کمیونسٹ پارٹی کی 4 اگست 2015ء کی رپورٹ کے مطابق، ’’بجلی کے نظام کے انہدام کی وجہ سے منگل کو احتجاجوں کی ایک نئی لہر نے جنم لیا جس میں مختلف وزارتوں کے محنت کش اور بغدادمیں وزارت بجلی کے مزدور اور مرکزی اور جنوبی علاقوں کے لوگ بھی شامل تھے۔ وزارت نقل و حمل کے ملازمین، جن کو تنخواہیں نہیں مل رہی تھیں، ایک ہفتے کے مظاہروں کے بعد وزارت صنعت کے ہزاروں مزدوربغداد میں وزارت خزانہ کی عمارت کے سامنے اپنی تنخواہوں کے لیے مظاہرہ کرنے آئے۔ ہمارے نمائندے کے مطابق مظاہرین نے مطالبات کے منظور نہ ہونے کی صورت میں غیر معینہ مدت تک دھرنا دینے اور مزید احتجاج کی دھمکی دی۔اس سے پہلے وزارت صنعت کے ہزاروں مزدور مرکزی بغداد اور دوسرے صوبوں میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ‘‘
بصرہ میں، فیڈریشن آف ورکرز کونسلز اینڈ یونینز اِن عراق سے منسلک الیکٹریکل ورکرز یونین حالیہ مظاہروں کو منظم کرنے میں پیش پیش تھی۔ FWCUI جو پورے عراق میں ہزاروں مزدوروں کو منظم کرتی ہے، الیکٹریکل گریڈ کی نجکاری کے خلاف لڑتی رہی ہے اور حکومت کی نجکاری پالیسی کے خلاف مزدور کنٹرول اور حتیٰ کہ فیکٹریوں پر قبضے کے نعرے بھی لگائے۔ اس جد وجہد نے پچھلے عرصے میں بہت وسعت اختیار کر لی ہے اور اس میں عوام کی بڑی تعداد شامل ہوئی ہے۔ FWCUI کے سرکردہ رہنما پورے ملک میں عوامی مظاہروں میں شریک رہے اور ان سے خطاب کرتے رہے ہیں۔
مظاہرین آیت اللہ السیستانی، جوبد عنوانی کے خلاف عوامی مزاحمت کی کال دینے والے عراق کی سیاسی شخصیات میں سب سے اہم شخصیت ہے، کے دفاتر کے سامنے بھی جمع ہوئے۔پچھلے سال جب عراقی ریاست ملک کے بڑے حصوں کا کنٹرول کھو رہی تھی تو سیستانی نے داعش کے خلاف عوامی تحریک منظم کرنے کا فتویٰ دیا۔ جس نے کئی لاکھ افراد کو سرگرمی دے دی، ان کی اکثریت غریب شیعہ نوجوانوں پر مشتمل تھی جو زیادہ تر عوامی بیداری یونٹ میں منظم تھے، یہی عراقی ریاست کے بکھرنے کو روکنے میں موثر قوت تھی۔
غربت اور بد عنوانی
جنگ سے تضادات مزید ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ہزاروں لوگو ں کو بغیر فوجی تربیت، منصوبہ بندی یا قیادت کے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے بھیج کر موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ دراصل ان کو صرف ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ ان کے خاندان بد ترین غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی دوران ہی وسیع دولت ظاہری طور پر نا معلوم جگہوں پر غائب ہورہی ہے۔ صرف بصرہ کے صوبے میں، جہاں دنیا کے تیل کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں، ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔
بصرہ میں جولائی کے اواخر میں پہلے مظاہروں کے بعد گورنر نے صوبائی کونسل کی میٹنگ بلائی۔ لیکن کونسل کی میٹنگ بذات خود کسی بھی قسم کی جمہوری طریقہ کار کے مکمل فقدان کا ثبوت تھا۔ احمد السولیتی، جو کونسل میں ایک سینئر سیاستدان اور اقتصادی نگرانی کی صوبائی کمیٹی کا چےئر مین ہے، نے کہا، ’’ کونسل کا کام خود گورنر کے کام کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ مالی سال کے چھ ماہ بعد یہ کام کرنا قواعد کے خلاف ہے۔‘‘
عراق کی وزارت منصوبہ بندی نے اندازہ لگایا ہے کہ عراق کی 33 ملین آبادی کا تیس فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اگرچہ اصل عدد اس سے دس فیصد زیادہ خیال کیا جا تا ہے۔
حالیہ دنوں میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے بڑے پیمانے پر عراقیوں کی ہجرت، بیروزگاری اور عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران کے دباؤ سے کم ہوتی ہوئی خام تیل کی آمدن نے ان اعداد و شمار کو، جو پچھلے سال 20 سے 25 فیصد تھی، ڈرامائی انداز میں مزید بڑھا دیا ہے۔
جہاں یہ حالات آبادی کی اکثریت پر قہر ڈھا رہی ہیں، سماج کی بالائی پرتوں میں بڑے پیمانے پر بد عنوانی موجود ہے۔ ایک معیشت دان نے کہا کہ ’’حکومتی عارضی امداد پر مبنی کوئی بھی اقدام بے معنی ہے، حتیٰ کہ اگر بجٹ میں ضروری رقم مختص بھی ہو تب بھی، کیونکہ اس عمل میں ایسے حربے استعمال ہوتے ہیں جو بد عنوانی کو جواز فراہم کرکے عوامی دولت کو ضائع کرتے ہیں۔‘‘
بابل کے شمال میں محاویل شہر میں، ایک ٹھیکیدار محدود وسائل کے ساتھ گلی پکی کر رہا تھا۔ اس نے المونیٹر کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’بہت سے سرکاری اہلکاروں کو تحائف دینے کے بعد مجھے سخت محنت کے بعد گلی پکی کرنے کا ٹھیکہ ملا ہے۔ میں اچھا کام کرنے کی بھر پور کوشش کروں گا لیکن مسئلہ مختص رقم کی کمی کا ہے۔‘‘
مکّی حسن، جو مغربی حمزہ، بابل کے جنوب میں اٹھارہ کلومیٹر، کے میونسپل کونسل کا ممبر ہے، نے المونیٹر کو بتایا، ’’ بیشتر اوقات منصوبوں کے لیے مختص رقم کافی ہوتی ہے۔ لیکن درمیانی لوگوں اور چین کنٹریکٹروں سے گزرنے کے بعد منصوبے پر خرچ ہونے والی رقم اصل رقم کا بیس فیصد رہ جا تی ہے۔‘‘
بجلی کا گرڈ، جسے امریکی قبضے کے دوران تباہ کر دیا گیا، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود اب بھی حد اکثر صرف گیارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جو گرمیوں کی طلب کا آدھا ہے۔
امریکی قبضے نے تقسیم کر کے حکمرانی کرو کے کلاسیکی ہتھکنڈے کو استعمال کرتے ہوئے تمام تر عراقی ریاستی مشینری میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر متناسب نمائندگی کا نظام متعارف کیا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بدعنوان سیاست دان کم ووٹوں کے باوجود صرف اپنے فرقہ وارانہ پس منظر کی بنیاد پر اپنی نشست پر برقرار رہ سکتے ہیں۔
اسی دوران حکمران فرقہ واریت اور سنی انتہا پسندی کے قبضے کے خوف کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ تحریک اپنے آغاز سے ہی ان تمام تر چیزوں کے خلاف تھی۔ ایک ویڈیومیں بصرہ میں بورژوازی کے گندے ہتھکنڈوں، آمریت، حکومت، حکمران پارٹی، بصرہ کے گورنر، داعش، مذہبی قوانین، تیل کے پیسوں کی لوٹ مار، عدالتوں، پارلیمنٹ کے ممبران، الغرض پوری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگائے جارہے تھے۔
حکمران طبقے کو جھٹکا
یہ عراقی حکمران ٹولے کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔ ان کے نکتہ نظر سے پریشان کن بات مظاہروں کی غیر معمولی نوعیت تھی کیونکہ انہیں کسی بھی اہم بڑی سیاسی جماعتوں نے منظم نہیں کیا تھا۔ لوگوں کے ہاتھو ں میں عراقی جھنڈے تھے اور وہ پوری حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ’’خوش اخلاق پولیس افسروں نے مظاہرین کو پانی فراہم کیا، یہ پچھلے سالوں کی نسبت بڑی تبدیلی ہے جب وہ بجلی کے لیے مظاہرہ کرنے والوں پر تشدد کر تے تھے۔ ایک پولیس افسر نے اپنے کمانڈروں کی مذمت کی اور کہا کہ انہوں نے اسے اور دوسرے افسروں کو مظاہرے میں گھس کر اشتعال پھیلانے کے لیے بھیجا۔ اس کی بجائے وہ شوق سے ان میں شامل ہوا۔‘‘
’’ایک سیل فون کے کیمرے کے سامنے، جس کے پیچھے مظاہرہ واضح نظر آرہا تھا، وہ چلا رہا تھا، اس نے کہا کہ اسے مظاہرے کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اپنے باس کو نام لے کر کوستے ہوئے اور پولیس کارڈ دکھاتے ہوئے اس نے مزید کہا، ’اگر تم مجھے نوکری سے نکال بھی دو تب بھی ہم اپنے مطالبات کے لیے لڑتے رہیں گے‘۔‘‘
حکمران طبقہ خوف زدہ ہے کہ وہ اس تحریک کو قابو میں نہیں لا سکتا۔ جہاں پچھلے مظاہروں کے لہر پر تشدد کیا گیا، اس دفعہ طاقتوں کا توازن تحریک کے حق میں تھا۔ ایک ویڈیو میں کئی سپاہیوں کو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ مظاہرین کو پانی دے رہے ہیں۔ یہ طاقتوں کے اصل توازن کو دکھا تا ہے۔ ریاست مداخلت کرنے سے قاصر ہے کیونکہ بہت سے مظاہرین مسلح عوامی بیداری یونٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔
وزیر اعظم حیدر العبادی نے مظاہروں کوفوری حل طلب خامی کے بارے میں ’’ابتدائی وارننگ ‘‘کا نظام قرار دیا۔ اس نے مزید کہا، ’’ اگر حالات اسی طرح جاری رہے تو عوام انقلابی جذبات سے کام لیں گے۔‘‘
آیت اللہ علی سیستانی نے بھی حکمران طبقے کو فوری خبر دار کرتے ہوئے کہا، ’’ لوگ ابھی ان اذیتوں کو برداشت کر رہے ہیں اور وہ عراق کے دفاع کے لیے داعش کی دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں قربانی دے رہے ہیں، لیکن برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے۔‘‘
پہلے ہی وزیر اعظم نے جمعرات 30 جولائی کو لوگوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے چاردن کی چھٹی کا اعلان کیا، وزیر بجلی کو ہنگامی مشاورت کے لیے بلایا اور سرکاری اہلکاروں کی سب سے مرغوب مراعات، ان کے اے سی کے لیے ہمہ وقت بجلی کی سہولت، کے خاتمے کے احکامات جاری کیے۔ اب طے شدہ روزانہ کی بجلی کی لوڈ شیدنگ جو عام عراقی سہتے رہے ہیں سرکاری دفاتر اور سرکاری اہلکاروں کے گھروں پر بھی لا گو ہوں گے۔ حکومت نے الیکٹرسٹی گرڈ کو بھی گیارہ ہزار میگا واٹ تک بڑھا دیا ہے جو مشکل سے گرمیوں کی انتہائی طلب 22000 میگا واٹ کا آدھا ہے۔
سیستانی کے نمائندے، جو سماج میں نچلی سطح پر موجود کیفیت سے زیادہ آشنا دکھائی دیتا ہے، نے کہا کہ، ’’ اسے ان اصلاحات کے حوالے سے زیادہ ہمت اور جرات دکھانی چاہیئے۔ اسے حالیہ دنوں میں اعلان کیے گئے معمولی اقدامات پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے۔ اسے سیاسی جماعتوں کو جواب دہ بنانا ہوگا اور اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں، چاہے جو بھی ہو، کی نشاندہی کرنا ہو گی۔‘‘
عبادی نے فوری طور پر قدم اٹھایا اور سیستانی کی نصیحت پر عمل کرنے کا وعدہ کیا، ’’ میں مذہبی پیشوا کی ہدایات پر مکمل عمل کرنے کا اعلان کرتا ہوں جس نے عراقی عوام کے خدشات اور جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ بد عنوانی کے خلاف لڑنے کے لیے ایک منصوبہ بنائے گا اور دوسری سیاسی جماعتوں کو شریک ہونے کی دعوت دے گا۔
بالآخر 9 اگست کو عبادی نے سات نکاتی منصوبہ پیش کیا جس کا مقصد سرکاری اہلکاروں کی مراعات پر ایک کاری ضرب اور اداراتی فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے۔ قرارداد، جو پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے فوراً بعد نافذ العمل ہوگی، میں لکھا ہے:
۱۔ تمام اعلیٰ عہدیداروں کے لیے مقرر کردہ سیکیورٹی سٹاف کی وزارت دفاع میں مکمل اور فوری واپسی تاکہ ان کو محاذ پر ملکی دفاع کے لیے تربیت دی جاسکے۔
۲۔ اعلیٰ حکومتی عہدوں بشمول ریٹائرڈ اہلکاروں کے لیے مختص مراعات (علاج معالجہ وغیرہ ) کی منسوخی۔
۳۔ وزارتوں، آزاد کمیشنوں، ایڈ وائزروں وغیرہ کے اعلیٰ عہدوں کے لیے کوٹا سسٹم کا خاتمہ۔ وزیر اعظم ایک کمیٹی بناکر نا اہل اہلکاروں کی بر طرفی اور ان کی جگہ میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کی نگرانی کرے گا۔
۴۔ وزارتوں اور اداروں کو ضم کرنا تاکہ کارکردگی اور معیار بہتر ہو اور اخراجات بھی کم ہوں۔
۵۔ نائبین کے عہدوں کو صدر اور وزیر اعظم میں ضم کرنا۔
۶۔ ماہرین پر مشتمل ہائی کمیشن کی زیر نگرانی موجودہ اور پرانے بد عنوانی کے مقدمات کا ا ز سر نو جائزہ لینا اور ان مقدمات کی نگرانی کے لیے ایماندار ججوں کی تعیناتی۔
۷۔ کیبنٹ آف منسٹرز اور پھر پارلیمنٹ سے ان اقدامات کو منظور کرنے کا مطالبہ تاکہ وزیراعظم نجف میں روحانی پیشوا کے ذریعے بیان کیے گیے لوگوں کے مطالبات پر عمل کر سکے۔
یہ تحریک کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ عوام کو اپنی طاقت پر بھروسا دلائے گا، جو مستقبل میں طبقات کے بیچ مزید بڑی لڑائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ریاست بہت ہی کمزور ہے۔ در اصل قانونی حیثیت ریاست کے پاس نہیں بلکہ ملاؤں کے پاس ہے جن کی عراق کے مختلف حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ لیکن ان کے اختیارات بھی محدود ہیں حتیٰ کہ سیستانی کے بھی جوان کا سب سے بااثر نمائندہ ہے۔ آبادی کے سب غریب حصوں کو منظم اور مسلح کر کے اس نے ایک ایسی قوت تخلیق کی ہے جسے وہ خود بھی آسانی سے کنٹرول نہیں کر سکتا۔ سڑکوں پر موجود مظاہرین در اصل ملیشیا کے یہی لوگ تھے جو سماج کے کسی بھی دوسرے حصے کی نسبت بد عنوانی کا اثر زیادہ محسوس کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں سے اس کی قیمت چکاتے ہیں۔
ان مسلح گروہوں کے نزدیک عراقی حکومت کا کوئی اختیار نہیں اور اگرچہ وہ رسمی طور پر مسلح افواج کا حصہ ہیں لیکن وہ اپنے تئیں آزاد قوتیں ہیں۔ در حقیقت انہیں اس وجہ سے باقاعدہ فوج میں شامل کیا گیا ہے تاکہ اوباما کو کھل کر اس بات کو تسلیم کرنے کی ہزیمت سے دوچار نہ ہونا پڑے کہ وہ شیعہ ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
بلاشبہ ان لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر منظم کیا گیا لیکن یہ مظاہرے ایک بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جب انقلابی عمل ختم ہوتا نظر آرہا ہو، طبقاتی جد وجہد سماج کی تہہ سے دوبارہ سر اٹھا لیتی ہے۔ عراق جیسے ملک میں اس طرح کی تحریک کا ابھرنا، جو فرقہ واریت، دہشت گردی اور جنگ کے رجعتی منافع خوروں کی وجہ سے بکھر گئی ہے، اس حقیقت کی واضح یاد دہانی کراتی ہے۔
در حقیقت عرب انقلاب کے عروج پر عراق میں ایک انقلابی تحریک پہلے ہی جنم لے رہی تھی۔ سنی علاقوں سے شروع ہونے والے احتجاج فوراً مشرقی اور جنوبی علاقوں میں پھیل گئے جو بد عنوانی اور فرقہ وارانہ طرز حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ ملک کے کرد علاقوں میں بھی مظاہرے ہوئے جہاں حکمران ٹولے نے تشدد سے کام لیا۔ لیکن پورے عراق میں قیادت کی غیر موجودگی میں تحریک پیچھے چلی گئی اور اس خلا کو داعش نے پر کیا۔ یہ جھٹکا شیعہ علاقوں میں تحریک کے خاتمے کاباعث بنا کیونکہ عوام کو سنی انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے منظم کیا گیا۔
تاہم تضادات جوں کے توں موجود ہیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں نے محض ان کو بڑھاوا دیا ہے۔ ایک طرف ہر پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بڑی قربانی دینے کا کہا جا رہا ہے دوسری طرف حکمران ٹولہ لوٹ مار میں مصروف ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے جبکہ حکمران سینکڑوں کارخانوں کو مشینری اور مال کی قیمت پر نجکاری کر کے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
کچھ مسلح گروہوں نے تحریک کو عبادی کی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ قیس الخزالی، جو طاقتور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا اصائب اہل حق کا سربراہ ہے، نے مطالبہ کیا ہے کہ عراق کی منتخب پارلیمنٹ کو ختم کرکے صدارتی نظام نافذ کیا جائے۔ ’’اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ اصلاحات کر سکتے ہیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نہیں کرسکتے تو مستعفی ہوجائیں۔ ‘‘
یہ ایک شعوری کوشش ہے کہ عبادی کو ایک اچھے ایماندار بورژوا ڈیموکریٹ کے طور پر پیش کیا جائے جو ’’بد قسمتی ‘‘ سے عراقی سیاست کے جال میں پھنس گیا ہے۔ لیکن یہ جھوٹ ہے۔ حالیہ تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی تحریک ہی وہ واحد قوت ہے جو حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے۔ سالوں سے عوام کے مطالبات واضح ہیں اور جواب ایک ہی ہے۔ ’’ یہ ایک لمبا عمل ہے ‘‘ وغیرہ۔ لیکن ایک ہفتے کے مظاہروں کے سلسلے کے بعد تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے اور اگرچہ عبادی ہچکچا رہا تھا لیکن تحریک نے اس سے پہلے سے زیادہ باتیں منوائیں۔
حکمران طبقے کے خلاف جنگ
عراق کا بحران سرمایہ داری کے بحران کا تسلسل ہے جسے سو سالہ سامراجی لوٹ مار نے مزید بڑھا دیا ہے۔ اس کو حل کرنے کا واحد راستہ پورے نظام کی تبدیلی ہے۔ بورژوازی اس امکان سے خوفزدہ ہے۔ ظاہری خوش الحانی اور سکون کے پیچھے خطے کے حکمران طبقاتی جد وجہد کے ابھرنے کے امکانات سے خوف زدہ ہیں۔ وہ اس تحریک کو منحرف کرنے کے لیے سب کچھ کریں گے لیکن شکست ان کا مقدر ہے۔ ہر ملک میں سرمایہ داری کے گہرے بحران اور ان کے طبقے کی فطری لالچ اور زوال پذیری کی وجہ سے ان کی کوششیں مشکلات کا شکار ہیں۔ حالات کو مستحکم کرنے کے لیے وہ جوبھی قدم اٹھاتے ہیں اس سے نئے محاذ کھلتے ہیں اور تاریخی لازمیت اپنے آپ کو ان پر مسلط کر دیتی ہے۔
پچھلے عرصے میں حکومت یہ دعویٰ کر تی رہی تھی کہ داعش کے خلاف جنگ زیادہ اہم ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ بدر بریگیڈ کے کمانڈر ہادی الامیری نے کہا کہ داعش کا سب سے اہم ہدف عراقی دارالحکومت ہے۔ ’’ہم عراقی عوام سے جھوٹ نہیں بولتے۔ داعش کے جنگجوؤں کی طرف سے دہشت گردی کا خطرہ موجودہے۔‘‘
اس کے باوجود لوگوں کی روز افزوں تعداد کے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ بوسیدہ عراقی ریاست کے خلاف لڑے بغیر داعش سے جنگ کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ محاذ پر موجود ہزاروں نوجوان شیعہ جنگجو دیکھ رہے ہیں کہ فرقہ واریت اور بربریت کے خلاف لڑنے کی بجائے انہیں اقلیتی حکمران ٹولے کے سیاسی مفادات کے لیے ایندھن کے طور استعمال کیا جا رہا ہے۔ علاقوں کو داعش سے آزاد کرنے کی بجائے انہیں مقامی اور قومی سرمایہ داروں کی باہمی لڑائیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور بعض اوقات ٹھیکوں اور مراعات کے لیے لڑائیوں کی وجہ سے ان کی پیش قدمی رک جاتی ہے۔
فی الحال مظاہرے ابھی تک جاری ہیں لیکن مظاہرین نے حکومت کو اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔ آخری مظاہرے میں ایک مشہور نعرہ یہ تھا، ’’شیعہ اور سنی بھائیو! ہم اس ملک کو بکنے نہیں دیں گے۔‘‘
یہ بالکل صحیح نعرہ ہے۔ لڑائی کو جیتنے کا واحد راستہ امریکی سامراج اور حکمران طبقے کی پھیلائی ہوئی فرقہ وارانہ تقسیم کو رد کرنا اور جبر اور بد حالی کے خلاف عراق کے تمام مظلوم عوام کو متحد کرنا ہے۔ اسی چیز سے مشرق وسطیٰ کے حکمران اور ان کے مغربی اتحادی سب سے زیادہ ڈرتے ہیں کہ خطے کے لوگ طبقاتی بنیادوں پر کہیں اکٹھے نہ ہوجائیں۔ جب تک موجودہ بد عنوان حکمران بغداد میں موجود رہیں گے اس وقت تک عراق متحد نہیں ہوسکتا اور ہر فرقہ کے حکمرانوں کے مفادات کے لیے عوام کو ایک دوسرے سے لڑایا جا ئے گا۔ اس لیے یہ تحریک تمام حکمرانوں، کرد، سنی یا شیعہ، کے لیے خطرہ ہے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو اپنی بنیادیں بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ داعش کے لیے بھی سب سے بڑا خطرہ ہے جس کا سب سے بڑا ہتھیار بغداد میں بیٹھے ہوئے شیعہ فرقہ پرست حکمرانوں کے خلاف سنی آبادی کی نفرت اور بد اعتمادی کو استعمال کرنا ہے۔
اسی طرح تحریک صرف اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب یہ درست طریقہ کار کے ساتھ کام کرے اور ایک ایسا پروگرام پیش کرے جو تمام مظلوموں کو متحد کرے اور اسی لمحے سماج کے تمام مسائل کی جڑ، سرمایہ دارانہ نظام، کو بھی چیلنج کرے۔ اس مقصد کے لیے اسے منظم محنت کش طبقے کے پاس جانا ہوگا اور صنعتوں اور تمام بڑی کمپنیوں کو قومیا کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے تحت چلانے کے مطالبے کے لیے عام ہڑتال کی تیاری کرنا ہوگی۔
FWCUI نے بغداد اور ملک کے دوسرے شہروں میں عوامی مظاہروں سے خطاب میں قومیانے، مزدور کنٹرول اور حتیٰ کہ فیکٹریوں پر قبضے کی بات بھی کی ہے۔ جن علاقوں میں آج مظاہرے ہو رہے ہیں، وہ پچھلے سال سے وہاں نجکاری کے خلاف جد وجہد کر رہے ہیں اور وہ پہلے گروہوں میں سے ایک ہے جنہوں نے پہلے مظاہرے منظم کیے۔ یہ مجموعی طور پر تحریک کے لیے بہت اہم قدم ہے۔ عراقی محنت کش طبقے کی میدان میں آمد سے نہ صرف تحریک کی کامیابی یقینی ہوجائے گی بلکہ پورے خطے میں محنت کشوں کے لیے ایک حیرت انگیز مثال قائم کرے گی۔
معیشت پر کنٹرول کر کے ہی عوام بد عنوانی، نا اہلی اور بے روزگاری کا خاتمہ کرکے ملک کی تعمیر نو کر سکتے ہیں۔ یہ تحریک کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ رکے نہیں، پیچھے نہیں ہٹے اور رجعتی قوتوں کے اثر میں نہ آئے۔ جیساکہ ہم رپورٹس میں دیکھ رہے ہیں کہ ریاست پہلے ہی تحریک کے خلاف سازشیں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس لیے لوگوں اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لیے سرکاری عہدیداروں پر کسی طرح کا اعتماد نہیں کرنا چاہیئے۔ لہٰذا ہر محلے، فیکٹری اور سکول میں کمیٹیاں بنائی جائیں تاکہ علاقے کو پولیس کے جبر اور مداخلت اور فرقہ وارانہ حملوں سے بچایا جائے جس کو رجعتی قوتیں ابھرتی ہوئی طبقاتی جد وجہد کو کاٹنے کے لیے استعمال نہ کریں جیسا کہ ماضی میں ہوا۔یہ تحریک کے حاصل کردہ اقدامات پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنا سکتے ہیں اور اگر ضروری ہو تو ریاستی امور اپنے ہاتھ میں لے کر اسے خود لاگو کرے۔
عراق میں تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ عرب انقلاب ختم نہیں ہوا۔ ہر ملک میں سطح کے نیچے غم و غصہ اپنا اظہار کرنے کے لیے راستہ تلاش کر رہا ہے۔ حکمران طبقہ سراسیمگی کی کیفیت میں ہے کیونکہ تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے پاس بہت کم اوزار بچے ہیں۔ اگر عراق میں تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تویہ وہ چنگاری بنے گی جو پورے خطے میں انقلاب کے شعلوں کو بڑھکائے گی جو رجعت کے دور کا خاتمہ کردے گی جو خطے پر حاوی ہے اور حالات کو جھنجوڑ دے گی۔
عراق میں موجود تضادات مشرق وسطیٰ کے ہر ملک میں موجود ہیں اور حکمران ٹولہ محض طاقت کے بلبوتے پر اپنی حکمرانی کو برقرار رکھے ہوئے ہے، اپنی مضبوطی اور سماج میں قانونی جواز کی وجہ سے نہیں بلکہ قیادت کے فقدان کی وجہ سے جو عوامی غصے کو بڑھکا کر طاقت پر قبضہ کر لے۔ عراق کے مزدوروں کے لیے صرف ایک راستہ ہے۔ وہ صرف اپنی طاقت پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ تمام دوسری قوتیں عوام کے لیے ایک مہذب زندگی فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوچکی ہیں۔ صرف طاقت پر قبضہ کر کے ہی وہ ایک بیمار اور زوال پذیر نظام کی وجہ سے جنم لینے والی بربریت اور محرومی کا خاتمہ کرزسکتے ہیں۔
متعلقہ: