تحریر: لال خان
13 اپریل 2017ء کو مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے بہیمانہ قتل کیس کا فیصلہ 7 فروری 2018ء کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ہر ی پور میں سنایا ۔یہ اس قسم کا فیصلہ تھا کہ کوئی فریق بھی اس پر خوش نہیں ہے۔ مشال کے اہل خانہ نے بری ہونے والے 26 افراد کے خلاف بالائی عدالت میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ مذہبی جماعتوں اور سزا پانے والے مجرموں کے ورثا نے ان سزاؤں کے خاتمے کے لئے اپیل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس وحشت ناک قتل کے دو اہم ترین ملزمان ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ان کو سیاسی پشت پناہی کے زور پر فرار کروایا گیا تھا۔ 26 بری ہونے والے ملزمان کا موٹروے مردان انٹرچینج پر ’استقبال‘ کیا گیا۔ جماعت اسلامی اس جشن کی اہم منتظم تھی۔ جمعیت علمائے اسلام کے دھڑوں اور دوسری مذہبی پارٹیوں نے بھی اِس استقبال میں بھر پور شرکت کی۔ جماعت اسلامی نے سوشل میڈیا پر ان 26 افراد کو ’’غازی‘‘ اور ’’عاشقانِ رسول‘‘ کے خطابات سے نوازا۔اِن واقعات نے اِس مذہبی سیاست کی حقیقت کو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے اور ماضی میں اِن جماعتوں کی طرف حمایت یا ہمدردی کا رویہ رکھنے والے بہت سے لوگوں نے بھی شدید اضطراب اور حقارت کا اظہار کیا ہے۔ انصاف کے جن اداروں کے تقدس کا درس دن رات دیا جاتا ہے ان کی دھجیاں اس وقت بکھیری گئیں جب ان بری ہونے والے افراد پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرکے ان کوہار پہنا کر تقاریر کے لئے ڈائس پر بلایا گیا۔اپنی تقریر وں میں انہوں نے برملا کہا کہ ’ہم نے مشال کو قتل کیا ہے اور دس بار پھر کریں گے۔‘
وحشی جتھوں کے ہاتھوں فرقہ وارانہ اورمذہبی بنیادوں پر لوگوں کے قتل کی ہولناک وارداتیں اس ملک میں وقت گزرنے کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ حکمران طبقات اور ریاست کے مختلف حصے اِس مذہبی جنون کو ہوا دیتے ہیں اور اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ضیا الحق نے جو مسلمانوں کی اکثریت پر مبنی اِس ملک کو اپنے مسلک کے حوالے سے ’اسلامائز‘ کرنے کی واردات ریاستی جبرو تشدد سے شروع کی تھی وہ سماجی اور معاشی زبوں حالی میں بڑھتی ہی گئی ہے۔ مختلف جمہوریتیں آئیں۔ اپنے آپ کو پہلے سوشلسٹ، پھر بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ کہلوانے والی پیپلز پارٹی کی بھی تین حکومتیں آئیں لیکن ضیا الحق کے نظریات اور آئین میں اسکی ٹھونسی ہوئی شقیں نہ صرف آج بھی موجود ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ طرزِ حکومت کوئی بھی ہو، طریقہ حاکمیت کسی طرح کا بھی کیوں نہ ہو، اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی سیاست و ریاست کے اپنے تقاضے ہیں جن پر ہر اس حکمران کو چلنا پڑتا ہے جو اس نظام میں ’مزے‘ لوٹنے کی سیاست میں ملوث ہوتا ہے۔ نواز لیگ اور دوسری دائیں بازو کی پارٹیاں تو پہلے سے ہی نیم مذہبی تھیں۔ اس لئے ان سے کوئی توقع رکھنا کہ معاشرے میں اس رجعت کے خلاف وہ کوئی اقدامات کریں گی محض خود فریبی ہوگی۔ جو نظام سماج کی وسیع تر اکثریت کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہوجائے اس پر حاکمیت کرنے والوں کو مختلف ہتھکنڈے اپنانے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیکولر اور لبرل لیڈر بھی اپنے آپ کو مذہبی بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کے نازک جذبات سے کھیل کر انکے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹائی جا سکے اور انہیں جبر اور استحصال کو مسلسل برداشت کرنے پر مجبور رہنا پڑے۔ چونکہ موجودہ عہد میں اس ملک پر مسلط سیاست کسی نظریاتی سوچ اور عمل سے عاری ہوچکی ہے اس لئے کسی بھی طرح کی نظریاتی بحث اور حقیقی ایشوز پر بات کو میڈیا اور ادب سے حذف کیا جا رہا ہے۔ اب نظرئیے کی بجائے لفظ ’’بیانیہ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم مروجہ ’’بیانیوں ‘‘ کا ہی جائزہ لیں تو یہ قدامت پرست اور’لبرل ‘ دھڑوں کی سوچوں پر ہی مبنی ہیں جو اِسی نظام کو حتمی و آخری سمجھتی ہیں۔ ان بیانیوں سے طبقاتی کشمکش اور امیر اور غریب کے متضاد مفادات کی ساری سیاست اور سوچ کو ہی غائب کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے قیام کی ابتدائی دہائیوں میں ’’اسلام اور کمیونزم کی جنگ‘‘ میں یہاں کے بنیاد پرستوں کو مغربی سامراج کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ مصر سے لیکر پاکستان اور انڈونیشیا تک بنیاد پرست رجحانات کی تقویت سی آئی اے کے کلیدی مقاصد میں شامل تھی۔ اس تضاد کو ابھار کر بڑے بڑے قتل عام کروائے گئے ۔ بائیں بازو کے سرگرم کارکنان اور محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لئے بڑے پیمانے پر اس مذہبی جنون کو ڈالر جہاد جیسے روپ دے کر خوب پروان چڑھایا گیا۔ منشیات کے کاروبار سمیت مختلف مجرمانہ طریقوں سے امریکی سامراج نے ان گروہوں کی فنانسنگ کے لئے سلسلے شروع کئے۔ لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہی الحاق ایک طرح کے نفاق میں بدل گیا۔ اس میں بھی مالیاتی معاملات ہی پھوٹ کی وجہ بنے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کے عوام میں ایک حقیقی سامراج دشمنی پائی جاتی ہیں کیونکہ یہ ادراک بہت واضح ہے کہ سامراجی استحصال ان کی غربت اور ذلت کا باعث ہے۔ لیکن یہاں جو سیکولر قوتیں ہیں ان کی اپنی سوچ اور یقین سرمایہ دارانہ نظام میں مقید ہے۔ جبکہ سیاسی اور معاشی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال اِس نظام کی بنیادی ضرورت ہے۔ ان بنیاد پرستانہ رجحانات کو ابھانے میں سامراجیوں کا کلیدی کردار ہے۔ سامراج کے بدنام زمانہ مفکر سیمیول ہٹنگٹن نے 1990ء کی دہائی کے اواخر میں جو ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا رجعتی اور زہریلا نظریہ پیش کیا تھا وہ آج ہمیں عملی طور پر بھارت سے لے کر شام تک انسانی معاشروں کو تاراج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔پاکستان میں عوام کے سامنے اب اس مروجہ سیاست اور دانش نے صرف دوہی راستے رکھ دیئے ہیں:لبرل ازم یا مذہبیت۔ دونوں ایک ہی نظام کے دوام کیلئے کارفرما ہیں۔ عوام کا اِس سیاست سے بدظن ہو کر اس کی جانب حقارت سے دیکھنا بے وجہ نہیں ہے۔ طبقاتی بنیادوں پر سیاست کو ترک کر دینے کا مطلب حکمرانوں کی عوام کی جانب تضحیک آمیز نفسیات اور بوسیدہ نظام کو معاشرے پر مسلط رکھنے کی واردات ہے۔
مشال خان کو انصاف کسی ایک یا پچاس افراد کو پھانسی پر لٹکا دینے سے نہیں ملے گا۔ جس سوچ نے اس وحشت اور درندگی کو جنم دیا ہے اسکی بنیادوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے واقعات کسی بیمار اور تعفن زدہ معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں ۔ یہ بیماری اس محرومی کی شدت سے جنم لینے والی پراگندگی کے عالم میں وحشت کا سماجی معمول بن رہی ہے۔ یہ ذلتوں کے شکار اس معاشرے کو مزید اذیتوں میں مبتلا کر رہی ہے۔ انسان کی روح اور احساس کو مجروع کر رہی ہے۔ جب بھی کسی معاشرے میں زندگی بنیادی ضروریات سے محرومی کا شکار ہو جاتی ہے تو پھر یا تو انقلابی بغاوتیں ابھرتی ہیں یا پھر رجعت حاوی ہو کر سماجی گھٹن اور تشدد کو جنم دیتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام کی تاریخی متروکیت کی وجہ سے یہ ڈھانچہ اب آسودگی، تہذیب اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے سے قاصر ہے۔ پورے سماج کی انقلابی جراحی کے بغیر بیگانگی کا یہ ناسور کاٹ کر پھینکا نہیں جاسکتا۔ لبرل اور مذہبی سیاست اور فکر اسی نظام کا حصہ ہیں۔ انسان کے عقیدوں کے استحصال پر یہ سیاست چمکائی جاتی ہے۔ اِن نظریات کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ کر ہی محنت کش عوام اپنی نجات کا راستہ اور منزل پاسکتے ہیں۔ اصل تضادمحنت اور سرمائے کا ہے، لبرلزم اور مذہبیت کا نہیں!