| رپورٹ:عمیر علی |
سیالکوٹ میں موترہ ریسٹ ہاؤس کے مقام پر ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا جس میں پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس، گجرات یونیورسٹی، مرے کالج سیالکوٹ اور علامہ اقبال کالج سیالکوٹ سمیت دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ، خواتین، نوجوانوں او ر مختلف فیکٹریوں بشمول انوار خواجہ انڈسٹریز، فارورڈ سپورٹس کے محنت کشو ں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن ’’فلسفے کی تاریخ‘‘ تھا جس پر ناصرہ وائیں نے مفصل لیڈآف دی جبکہ اس سیشن کو چیئر صبغت وائیں نے کیا۔ ناصرہ نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فلسفے کی تاریخ پر زیادہ گہرے اثرات ہیگل نے چھوڑے ہیں۔ ہیگل سے پہلے تاریخ کو صرف واقعات اور عظیم افراد کے کارناموں کی صورت لکھا جاتا ہے لیکن ہیگل نے جدلیاتی طریقہ کار اپنایا۔ اٹھارویں صدی میں کانٹ کا فلسفہ بھی سامنے آتا ہے جس کے مطابق ہم شے کو جان نہیں سکتے بلکہ صرف اس کی پرچھائیوں کو جانا جا سکتا ہے، ہیگل کے مطابق دنیا کو جانا جا سکتا ہے اور اس کی منطق کے اپنے قوانین ہیں، مارکسسٹ سمجھتے ہیں کہ تاریخی مادیت ہی وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے تاریخ کا مطالعہ درست طریقہ کار سے کیا جا سکتا ہے۔ مارکس کے مطابق انسان کا شعور آزاد فیکٹر کی بجائے پیداواری قوتوں کے زیر اثر ہوتا ہے اور سماجی عمل کے طور پر انسان نے ترقی کی۔ آج کے عہد میں صرف مارکسزم ہی وہ علم ہے جو نسل انسان کو طبقاتی سماج کی ذلت سے نکال سکتا ہے۔ لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بحث میں فیصل آباد سے عمر رشید، ڈسکہ سے عمر شاہد اور گوجرانوالہ سے سلمہ نے حصہ لیتے ہوئے مختلف نکات پر روشنی ڈالی۔ آخر میں صبغت وائیں نے سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ ہیگل کے نزدیک فطرت ہم سے طاقتور ہے، اس لئے فطرت کو اس کے خلاف استعمال کرتے ہوئے انسان نے اوزار ایجاد کئے۔ ہر وہ چیز مادہ ہے جو ہماری سوچ یا خیال کے باہر وجود رکھتا ہے، انسان کا فطرت میں اپنا اظہار کرنے کا آغاز ہی تاریخ کا آغاز ہے، تاریخ ہمیشہ بنی نوع انسان کی ہو تی ہے لہٰذا مستقبل بھی انسان کا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہی آج کے وقت کا تقاضا ہے۔
کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن ’عالمی و ملکی تناظر‘ کا آغاز ہوا، عمیر علی نے سیشن کو چیئر کیا۔ بابر پطرس نے اپنی لیڈ آف میں عالمی معاشی بحران پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے اس کے سیاسی و سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ مشرق وسطیٰ میں داعش کا ابھار، یورپ میں روایتی پارٹیوں کا زوال اور امریکی و چین کی زوال پزیر معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کے عہد کا بحران سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے، جتنے عرصے تک بحران کا ٹالا جاتا رہا ہے اس کے نتیجے میں بحران زیادہ شدت سے گہرا ہو کر سامنے آیا ہے اور پوری دنیا میں محنت کش طبقے کو معاشی اور سماجی طور پر برباد کر رہا ہے، سرمایہ داری آج بربریت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جس سے نجات کے لئے سوشلسٹ انقلاب واحد راستہ ہے۔ بحث میں گوجرانوالہ سے اویس، سیالکوٹ سے ناصر محمود بٹ اور رمضان علی نے حصہ لیتے ہوئے عالمی صورتحال اور ملکی حالات پر بات کی۔ آخر میں راشد خالد نے سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عہد میں سرمایہ داروں کے تمام نظریات اور فلسفے ناکام ہو چکے ہیں اور موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے سرمایہ داری کے چور راستے سکڑ رہے ہیں، برما سے لے کر شام تک ہر جگہ بربر یت کا بازار گرم ہے، پچھلے عرصے میں عرب انقلاب بھی ہم نے دیکھا لیکن وہاں کوئی انقلابی پارٹی موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے انقلاب اپنی منزل پر نہ پہنچ سکا، پاکستان میں انقلابی پارٹی کی تعمیر ہی آج مارکسسٹوں کا تاریخی فریضہ ہے جس پر خطے کے اربوں انسانوں کا مستقبل منحصرہے۔
سکول کا اختتام محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔ مجموعی طور پر سکول میں ڈسکہ، سیالکوٹ، سمبڑیال اور گوجرانوالہ سے 62 نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی، معیاری اور مقداری حوالے سے یہ اہم سکول تھا جو کہ انقلابی پارٹی کی تعمیر میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔