[رپورٹ: غفار لطیف]
مورخہ 27 نومبر دن 2 بجے کھائیگلہ (کشمیر) میں ایک سیشن پر مشتمل مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول کا ایجنڈا ’’چین کا تناظر‘‘ تھا۔سیشن کو چیئر دانیال عارف نے کیا۔ تنویر انور نے اپنی لیڈ آف میں بیسویں صدی میں چین کے انقلابات کے پس منظر اورنتائج پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ 1949ء کے انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے ریاست ایک مسخ شدہ مزدور ریاست تھی جو سٹالن اسٹ سوویت یونین کے ماڈل پر تشکیل دی گئی تھی۔ لیکن افسر شاہی کی جکڑ میں چلنے والی منصوبہ بند معیشت نے بھی چین کو تیز ترین سماجی اور اقتصادی ترقی دی۔ بیوروکریٹک کنٹرول میں چلنے والی معیشت جیسے جیسے پھیلتی گئی ایک ملک کی حدود میں اس کا دم گھٹنے لگا۔ ان حالات میں انقلاب کا پھیلاؤ اور مزدور جمہوریت، منصوبہ معیشت کو آکسیجن فراہم کرسکتے تھے لیکن دونوں راستے افسر شاہی کے مفادات پر ضرب لگاتے تھے۔ ان حالات میں بیوروکریسی نے اپنی مراعات بچانے کے لئے چینی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ عالمی سرمائے کی یہ سرایت چین میں نجی ملکیت اور منڈی کے پیداواری رشتوں کی بحالی پر منتج ہوئی۔ آج غربت اور امارت کی سب سے بڑی خلیج جنوبی افریقہ کے بعد چین میں ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نہ کمیونسٹ ہے نہ پارٹی، یہ ارب پتی حضرات کے گینگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔2008ء کے بعد شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران نے چینی سرمایہ داری پر گہری ضرب لگائی ہے اور معاشی شرح نمو کو مصنوعی طور پر برقرار رکھنے کے لئے تاریخ کا سب سے بڑا کینشین تجربہ چین میں کیا جارہا ہے لیکن ان بنیادوں پر معیشت کو زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چلایا جاسکتا۔ تنویر انور نے چین میں پھیلنے والی بڑے پیمانے کی بیروزگاری ، مزدور تحریک کے ابھار اور بڑھتی ہوئی ہڑتالوں کی بھی وضاحت کی۔انہوں نے کہا کہ یہ کامیاب ہڑتالیں اشارہ کرتی ہیں کہ چین کا محنت کش طبقہ جاگ رہا ہے اور چین میں انقلابی تحریک ابھار پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دے گا۔لیڈآف کے بعد غفار لطیف، شکیل، خالد بابر ، ابرار لطیف اور عاصم ارشاد نے سوالات کی روشنی میں بحث کو آگے بڑھایا۔آخر میں گلباز خان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سکول کا سم اپ گیا جس کے بعد انٹرنیشنل گا کر سکول کا باضابطہ اختتام کیا گیا۔