| رپورٹ: شیخ اکبر لاسی |
حب چوکی میں شیر علی پیٹرول پمپ کے قریب یونائیٹڈ لیبر فورم کے دفتر میں ایک روزہ مارکسی اسکول کا انعقاد کیا گیا ۔ اسکول میں 20 کے قریب افراد نے شرکت کی۔اسکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا جس میں پہلا سیشن یامین برفت نے چیئر کیا جبکہ اس سیشن میں لیڈ آف پارس جان نے دی۔
پہلے سیشن کا موضوعِ بحث ٹریڈ یونین کا کردار اور تاریخی پر منظر تھا۔ جس پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آج اگر ٹریڈ یونین قیادت مفاد پرستی اور موقع پرستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر محنت کشوں کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے سرمایہ داروں کی دلالی کرنے کا کردار ادا کر رہی ہے لیکن ٹریڈ یونین کا ہمیشہ سے کردار ایسا نہیں تھا بلکہ کارکس کے الفاظ کہ سرمایہ داری جب آئی تو اس کے ہر جوڑ سے محنت کشوں کا خون رس رہا تھا کے عین مطابق سرمایہ داری نے برطانیہ میں محنت کشوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ ان کے کام کے اوقات کار اور کام کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ محنت کشوں کی اوسط عمر کم ہونا شروع ہو گئی تھی اورکچھ علاقوں میں تو یہ کم ہو کر صرف 35 سال رہ گئی تھی ۔سرمایہ داری نے اپنے آغاز میں مزدوروں کو دیہاتوں سے شہروں میں منتقل کیا گیا تو ان کی صحت کا کوئی خیال نہ رکھا گیا بلکہ انہیں جانوروں کی طرح صرف منافع سمیٹنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے خلاف محنت کشوں نے منظم ہو کر جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس جبر بھرے ماحول کی تبدیلی کے لیے اپنی ٹریڈ یونینز بنانا شروع کر دیں اور دوسری طرف سرمایہ داروں نے ان کے خلاف مختلف قسم کے قوانین بنانا شروع کر دیے۔ان قوانین کا مقصد محنت کشوں کی ہر جدوجہد کو اس کی بنیادوں سے ختم کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے کچل دینا تھا مگر 1819ء میں مانچسٹر میں محنت کشوں نے ایک احتجاج کیا جس میں 60000 محنت کشوں نے شرکت کرتے ہوئے تمام کارخانوں کو بند کر دیا اس تحریک کو جبر سے دبانے کی کوشش کی گئی مگر اس کے باوجود سرمایہ دار محنت کشوں کی یکجہتی کو نہ توڑ سکے ۔ اس پر سرمایہ داروں کو احساس ہوا کہ محنت کشوں کو صرف قانون بنا کر نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی کوئی جبر ان کو پیچھے دھکیل سکتا ہے۔اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد 1825ء میں سرمایہ داروں نے محنت کشوں کو ٹریڈ یونین بنا نے کی تو اجازت دے دی مگر ٹریڈ یونین کو صرف اپنی اجرت تک کی بات کرنے کی اجازت دی گئی مگر کسی بھی ٹریڈ یونین قیادت کو سرکاری معاملات اور سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔1848ء میں مارکس نے محنت کشوں کی پہلی انٹر نیشنل کی بنیاد رکھی اور کمیونسٹ مینی فیسٹو لکھ کر ٹریڈ یونین قیادت سمیت تمام محنت کشوں کو ان کی منزل اور راست کی نشاندہی کر دی جس کے بعد ٹریڈ یونین کا کردار یکسر بدل گیا۔ اسی طرح اس کے بعد خاص کر پہلی عالمی جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی کیفیت نے 1917ء کے عظیم بالشویک انقلاب کی راہ ہموار کی اور اس انقلاب نے مارکسی نظریات کو عملی جامہ پہنا دیا تھا جس کے بعد پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی محنت کشوں نے اپنے تاریخی کردار کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ حالانکہ اس سے قبل 1886ء میں جہازیوں کی ہڑتال سمیت محنت کشوں کی جدوجہد سے بھرپور روایات موجود تھیں لیکن 1946ء میں بننے والی کمیو نسٹ پارٹی ایک اہم قدم تھا ۔ بالشویک انقلاب پر اسٹالن کے قبضے کے بعد ایک مضبوط حکمت عملی کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس پارٹی میں انقلاب کرنے کی اہلیت پیدا نہ ہو سکی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد عالمی سطح پر محنت کشوں کو سرمایہ داروں کے شدید حملے برداشت کرنا پڑے تھے ۔ لیکن یہ کیفیت ہمیشہ قائم رہنے والی نہیں ہے اس کیفیت نے ٹوٹنا شروع کر دیا ہے جسے یونان میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح بھارت میں 15 کروڑمحنت کشوں کی عام ہڑتال نے پوری دنیا پر محنت کشوں کی اہمیت ثابت کر دی ہے۔آج پھر تاریخ کا دھارہ بدل رہا ہے ہمیں پورا یقین ہے کہ ایک بار پھر سے محنت کش طبقہ اپنی صفوں سے اپنی قیادت تراشتے ہوئے تاریخ کے دھارے کو ایک نیا رخ دیتے ہوئے اس دنیا پر عظیم محنت کشوں کی حکمرانی قائم کرے گا ۔لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ چلا اور پارس جان نے اس سیشن کا با قاعدہ سم اپ کیا ۔
دوسرے سیشن کو اللہ ورایو نے چیئر کیا اور قومی سوال اور مارکسی بین الاقوامیت پر ظریف رند نے لیڈ آف دی جس میں انہوں نے قومی سوال کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ قومی سوال کو طبقاتی سوال سے جدا نہیں سمجھا جا سکتا ۔مارکسیوں نے ہمیشہ قومی سوال کو اس کے طبقاتی تناظر میں دیکھا ہے۔ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے بلوچستان کے قومی سوال پر روشنی ڈالی اور اس وقت بلوچستان میں سر گرم سیاسی پارٹیوں کے کردار اور ان کے طریقہ کار کا تنقیدی جائزہ لیا۔انہوں نے موجودہ برسرِ اقتدار پارٹی کے بارے میں کہا کہ ایک طرف تو یہ پارٹی بلوچستان میں واحد قوم پرست اور قوم کا درد رکھنے والی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری طرف یہ ریاست کی کاسہ لیسی میں تمام حدیں پار کر گئی ہے ۔ اس قسم کی پارٹی بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی بجائے لوٹ کھسوٹ اور غبن میں مصروف ہے۔ پوری دنیا کی طرح بلوچستان کے مسائل کا حل محنت کش طبقے کی عالمی یکجہتی اور عالمی سوشلسٹ انقلاب ہے ۔