مارکسزم کا نظریہ ریاست

| ٹیڈ گرانٹ کی کتاب ’’روس انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ سے اقتباس |

’’تاریخی غلاظت کو ہٹا کر خالی کی گئی جگہ پر اب ہم ایک ہوادار اور اونچی سوشلسٹ سماج کی شاندار عمارت کی تعمیر کا کام شروع کرینگے۔ ‘‘ (لینن۔ 8 نومبر1917ء)

رابرٹ اووین، سائمن، سینٹ اور فوریئے جیسے لوگوں کے یوٹوپیائی سوشلزم کے تصورات کے برعکس مارکسزم کی بنیاد سوشلزم کی سائنسی بصیرت پر ہے۔ مارکسزم وضاحت کرتا ہے کہ ہر سماج کی ترقی کا راز پیداواری قوتوں کے ارتقاء پر ہے قوت محنت، صنعت، زراعت، ٹیکنیک اور سائنس ہر نیا سماجی نظام غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ داری، اپنی پیداواری قوتوں کے ارتقا کے ذریعے انسانی سماج کو آگے کی طرف لے گیا ہے۔
بنی نوعِ انسان کی ترقی کے سب سے ابتدائی یعنی قدیم اشتراکی دور کے طویل دورانیے کے بعد جس میں طبقات، ذاتی ملکیت اور ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا، لوگ جیسے ہی اپنی روز مرہ کی ضروریات سے زیادہ یعنی قدر زائد پیدا کرنے کے قابل ہوئے ایک طبقاتی سماج وجود میں آگیا۔ اس مقام پر سماج کی طبقات میں تقسیم ایک معقول معاشی جواز بن گئی۔ تاریخ کے وسیع تناظر میں طبقاتی سماج کا ظہور اس حوالے سے ایک انقلابی مظہر تھا کہ اس نے آبادی کے ایک مراعت یافتہ حصے یعنی حکمران طبقے کو مشقت کے براہ راست بوجھ سے چھٹکارا دلا دیا تاکہ اسے فنون لطیفہ، سائنس اور ثقافت کو فروغ دینے کیلئے درکار ضروری وقت مل سکے۔ اپنے بے رحمانہ استحصال اور عدم مساوات کے باوجود طبقاتی سماج ہی وہ راستہ تھا جس پر چل کر بنی نوع انسان مستقبل کے غیر طبقاتی سماج کیلئے ضروری بنیادی مادی شرائط کو پورا کرنے کا اہل ہو سکتا تھا۔
ایک مخصوص حوالے سے سوشلسٹ سماج قدیم اشتراکی نظام کی طرف واپسی ہے مگر ایک نہایت اعلیٰ پیداواری سطح پر۔ ایک غیر طبقاتی سماج کی خیالی تصویر بنانے سے پہلے آپ کو طبقاتی سماج کی تمام نشانیوں بالخصوص قلت اور عدم مساوات کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ جہاں عدم مساوات، قلت اور انفرادی وجود کی بقا کی جدوجہد کا وجود ہو وہاں طبقات کے خاتمے کی گفتگو بیہودگی ہو گی۔ یہ شرائط کے حوالے سے ایک تضاد ہو گا۔ سوشلزم انسانی سماج کے ارتقا کے ایک خاص مرحلے پر ہی ظاہر ہو سکتا ہے، پیداواری قوتوں کی ترقی کی ایک مخصوص سطح پر۔ ’’کوئی بھی سماجی نظام اس وقت تک ختم نہیں ہو تا جب تک وہ تمام پیداواری قوتیں ترقی نہیں پاجاتیں جن کیلئے اس میں گنجائش موجود ہوتی ہے اور پیداوار کی اعلیٰ پیمانے پر از سر نو تقسیم کا نظام اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتا جب تک اس کے وجود میں آنے کیلئے ضروری مادی حالات بذات خود پرانے نظام کے بطن میں پرورش پا کر تیار نہیں ہو جاتے۔ ‘‘
انیسویں صدی کے ابتدائی عرصے کے یوٹوپیائی سوشلسٹوں کے برعکس، جن کے نزدیک سوشلزم ایک اخلاقی مسئلہ تھا اور جسے روشن خیال لوگ تاریخ کے کسی بھی دور میں متعارف کروا سکتے تھے، مارکس اور اینگلز نے اس کی جڑیں سماج کے ارتقا میں تلاش کیں۔ ایسے غیر طبقاتی سماج کی ابتدائی شرط پیداواری قوتوں کی ترقی ہے جس کے ذریعے اشیا کی افراط ممکن ہو سکتی ہے۔ مارکس اور اینگلز کے نزدیک یہ سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کا فریضہ ہے۔ مارکسی نظریئے کے مطابق طبقاتی سماج کے اعلیٰ ترین مرحلے یعنی سرمایہ داری نظام کا تاریخی فریضہ یہ تھا کہ وہ عالمی پیمانے پر سوشلزم اور طبقات کے خاتمے کیلئے مادی بنیاد فراہم کرے۔ سوشلزم محض ایک عمدہ خیال ہی نہیں بلکہ انسانی سماج کیلئے اگلہ مرحلہ بھی تھا۔
سرمایہ داری کا تاریخی فریضہ یہ تھا کہ وہ جاگیردارانہ نظام کی علاقائی تنگ نظری کا خاتمہ کر کے ایک جدید صنعتی معیشت قائم کرے اور ایک نئی عالمی تقسیم محنت کے ساتھ ایک عالمی منڈی کی تشکیل کرے۔ اس فرض کی ادائیگی کے دوران یہ اپنے گورکن یعنی جدید پرولتاریہ کو تخلیق کرتا۔ اس کی تصویر کشی مارکس اور اینگلز نے 150 برس قبل کمیونسٹ مینی فیسٹو کے صفحات میں کی تھی۔ سرمایہ داری کی ترقی آج اس پیش گوئی کو درست ثابت کر رہی ہے۔ سرمائے کا ارتکاز سرمایہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ہاتھوں میں ہونے کے باعث کسان طبقہ تقریباً ختم ہو گیا جبکہ مزدور طبقہ بے حد وسعت اختیار کر کے نہ صرف صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں بلکہ کئی پرانے نو آبادیاتی ممالک میں بھی آبادی کا اکثریتی حصہ بن گیا۔ اسی طرح سرمایہ داری نے ایک عالمی منڈی تشکیل دی ہے جس سے تمام ممالک اٹوٹ طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں سرمایہ داری کی تیار کردہ مادی بنیاد جو سوشلسٹ سماج کیلئے ضروری ہے پہلی عالمی جنگ کے آغاز کے زمانے سے ہی عالمی پیمانے پر موجود ہے۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی شکل اختیار کرجانے والی بڑی بڑی صنعتیں اور فیکٹریاں اگر عوام کی ملکیت ہوں اور ملکی اور بین الاقوامی پیمانے پر جمہوری انداز میں ان کی منصوبہ بندی کی جائے تو ایک ایسی دنیا وجود میں آسکتی ہے جس میں بنیادی اشیائے صرف کی بہت زیادہ افراط ہو گی۔
موجودہ وقت میں عالمی پیمانے پر سرمائے کے ارتکاز کی عکاسی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ عالمی تجارت کے نوے فیصد حصے پر محض پانچ سو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ ہے۔ آج صرف ایک کمپنی یعنی آئی سی آئی کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ساری دنیا کی کیمیکلز کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔ صنعت کے بہت سے دوسرے شعبوں کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ تاہم ایک ترقی پسند نظام کی حیثیت سے سرمایہ داری اپنی حدود تک پہنچ چکی ہے۔ ذاتی ملکیت اور قومی ریاست پیداواری قوتوں کی ترقی کو روکنے اور پیچھے دھکیلنے کا باعث بن رہی ہیں۔ انسانیت کو بربادی کی دہلیز پر لاکھڑا کرنے والی دو عالمی جنگیں، بڑے پیمانے کی نامیاتی بیروزگاری اور زائد پیداوار کے باعث وقفے وقفے سے پیش آنے والی کساد بازاریاں اس تعطل کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ ماضی میں سرمایہ دارانہ معاشی نظام نے پیداواری قوتوں میں انقلاب برپا کیا تھا مگر اب یہ مزید ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ کا کام کر رہا ہے۔ منافع کی ہوس میں سرمایہ داری دنیا کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کر کے آخر کار اس کرہ ارض کی تباہی کا موجب بن سکتی ہے۔ اس بند گلی سے سماج کو محض پیداواری قوتوں کی عالمی منصوبہ بندی کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ مارکس کو یقین تھا کہ سوشلسٹ انقلاب کے فرائض کی ادائیگی کا بوجھ مغربی یورپ کے معاشی اور ثقافتی لحاظ سے ترقی یافتہ مزدور طبقے کے کندھوں پر پڑے گا۔ ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’’مارکس کو توقع تھی کہ فرانسیسی پرولتاریہ سماجی انقلاب کا آغاز کرے گا، جرمن اسے جاری رکھے گا اور برطانوی پرولتاریہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا، جہاں تک روس کا سوال ہے تو مارکس نے اسے بہت زیادہ عقب میں رکھا تھا۔‘‘
سماج کیلئے یہ بات کسی بھی طرح قابل عمل نہیں کہ وہ سرمایہ داری سے چھلانگ لگا کر براہ راست غیر طبقاتی سماج میں تبدیل ہو جائے۔ اس کام کیلئے سرمایہ داری سماج کی مادی اور ثقافتی وراثت نہایت قلیل ہے۔ قلت اور عدم مساوات اتنی زیادہ ہے کہ اس پر فوری طور پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد ایک عبوری دور لازمی ہے جو باافراط پیداوار اور غیر طبقاتی سماج کیلئے بنیاد فراہم کرے گا۔ مارکس نے سماج کے اس نئے مرحلے کو ’’کمیونزم کا سب سے نچلہ مرحلہ‘‘ قرار دیا ہے جب کہ ’’کمیونزم کے سب سے اعلیٰ مرحلے‘‘ میں مادی عدم مساوات کی آخری باقیات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اس حوالے سے کمیونزم کو نئے سماج کے ’’کمتر‘‘ اور ’’اعلیٰ‘‘ درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کمیونزم کے نچلے مرحلے کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس لکھتا ہے:
’’یہاں ہمارا واسطہ ایک ایسے کمیونسٹ سماج سے ہے جو اپنی بنیادوں پر استوار نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے برعکس یہ ابھی ابھی سرمایہ داری سماج کے بطن سے پیدا ہوا ہے اور اس طرح ہر حوالے سے یعنی معاشی، اخلاقی اور ذہنی حوالے سے اس پر اس پرانے سماج کے پیدائشی نشانات موجود ہیں جس کی کوکھ سے اس نے جنم لیا ہے۔ ‘‘
تاہم مارکس کے نزدیک (اوریہ ایک فیصلہ کن نکتہ ہے) کمیونزم کا یہ کمتر مرحلہ اپنے آغاز سے ہی معاشی ترقی کے حوالے سے انتہائی ترقی یافتہ سرمایہ داری کی نسبت بھی ایک اعلیٰ سطح پر ہو گا۔ اور یہ بات اتنی اہم کیوں تھی؟ کیونکہ پیداواری قوتوں کی زبردست ترقی کے بغیر قلت موجود رہے گی اور اس کے ساتھ ساتھ وجود کی بقا کیلئے جدوجہد بھی۔ جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی ایسی صورتحال میں انحطاط کا خطرہ درپیش ہو جائے گا، ’’پیداواری قوتوں کی یہ ترقی (کمیونزم کیلئے) ایک حتمی عملی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر مانگ عام ہو گی اور مانگ کی صورت میں ضروریات زندگی کے حصول کی جدوجہد دوبارہ شروع ہو جائے گی اور اس کا مطلب ہے کہ تمام تر پرانی بکواس از سر نو شروع ہو جائے گی۔‘‘
سوشلزم کا کردار بین الاقوامی ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ بذات خود سرمایہ داری نظام کا کردار بھی بین الاقوامی ہے۔ کسی واحد ملک کے پاس ایک نئے غیر طبقاتی سماج کیلئے مادی بنیاد موجود نہیں اور نہ ہی وہ سرمایہ داری سے ورثے میں ملی ہوئی قلت کے مکمل خاتمے کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ اپنی زبردست معاشی طاقت کے باوجود ایک سوویت امریکہ بھی سوشلسٹ سماج تک چھلانگ لگانے کا کام فوری طور پر سر انجام نہیں دے سکے گا۔ وہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق مہیا نہیں کر سکے گا۔ اس کیلئے ایک عبوری نظام کی ضرورت ہوگی جو ہے مزدور جمہوریت پر مبنی ریاست۔ جس کا کلیدی فریضہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنا اور طبقاتی سماج کی باقیات کا خاتمہ ہو گا۔ مزدوروں کی اس ریاست کو مارکس نے ’’پرولتاریہ کی آمریت‘‘ قرار دیا تھا۔
مارکس اور اینگلز کی اس جابجا استعمال کی جانیوالی اصطلاع کا سادہ سا مفہوم اکثریت کی جمہوری حکمرانی تھا جو استحصالی اقلیت کی مزاحمت پر قابو پانے کیلئے اقدامات اٹھاتی۔ اس کی بنیاد قدیم روم کی آمریت کے ساتھ تاریخی مشابہت پر تھی جب ایک عارضی دور کیلئے (دوران جنگ) ریپبلک کی طرف سے حکومت کو غیر معمولی اختیارات دیئے جاتے تھے۔
ہٹلر اور سٹالن کے تجربہ کے بعد ’’آمریت‘‘ کا لفظ بدنام ہو چکا ہے۔ لوگوں کے تصور میں یہ ’’مطلق العنان آمریت‘‘ ٹوٹیلیٹیرین ازم کا ہم معنی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو مارکس اور اینگلز کے ذہنوں سے بہت بعید تھی۔ مارکس کے دور میں یہ اس قسم کے مفہوم سے آزاد تھی اور مزدور طبقے کی حکمرانی کی ہم معنی تھی۔ درحقیقت مارکسی نقطہ نظر سے پرولتاریہ کی آمریت مزدوروں کی جمہوریت کے ہم معنی تھی۔
مارکس بیان کرتا ہے کہ ’’سرمایہ دار اور کمیونسٹ سماج کے درمیان ایک سے دوسرے نظام میں انقلابی تبدیلی کا دور آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی تبدیلی کا دور بھی آتا ہے جو پرولتاریہ کی انقلابی آمریت کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘جیسا کہ تمام عظیم ترین مارکسی نظریہ دانوں نے وضاحت کی ہے سوشلسٹ انقلاب کا فریضہ یہ ہے کہ وہ پرانی ریاستی مشینری کو پاش پاش کر کے مزدور طبقے کو برسر اقتدار لائے۔ موخر الذکر ایک ایسا آلہ جبر تھا جس کا مقصد مزدور طبقے کو محکوم بنا کر رکھنا تھا۔ مارکس نے وضاحت کی کہ سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کی ریاستی نوکر شاہی نئے اقتدار کے مفادات کی نگرانی نہیں کر سکتی۔ اس کاختم کیا جانا ضروری ہے۔ تاہم مزدور طبقے کی تخلیق کردہ نئی ریاست تاریخ کی تمام سابقہ ریاستوں سے مختلف ہو گی۔

نیم ریاست
طبقاتی حکمرانی کے ایک آلے کے طور پرریاست کا ظہور طبقاتی سماج کے ظہور کے ساتھ وقوع پذیر ہوا۔ اس کو اینگلز نے اپنی کتاب ’’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘ میں بہت واضح طور پر بیان کیا ہے۔ عام ادوار میں ریاست سماج کے غالب طبقے کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ حکمران طبقے کے مفادات اور اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے اسے طبقاتی حکمرانی کے ایک آلے کے طور پر تقویت دی گئی اور پختہ کیا گیا۔ ریاست اکثریت کو اقلیت کے تابع رکھنے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ تاہم مزدوروں کی نئی ریاست سابقہ ریاستوں کے برعکس آبادی کی اکثریت کو محکوم بنا کر رکھنے کا کام نہیں کرتی بلکہ مٹھی بھر سابقہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو قابو میں رکھنے کا کام کرتی ہے۔ اس مقصد کیلئے ایک بہت طاقت ور ریاستی نوکر شاہی قطعاً غیر ضروری ہے۔ اس کے برعکس مزدوروں کی ریاست آبادی کی اکثریت کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے اور حقیقت میں محض ایک نیم ریاست ہوتی ہے۔
جس حد تک عدم مساوات اور طبقات کا خاتمہ ہوتا ہے اسی حد تک یہ نیم ریاست بھی سماج میں تحلیل ہونا شروع کردیتی ہے۔ ’’ایک خاص آلہ، ایک خاص جبر کا آلہ یعنی ریاست اب بھی ضروری ہے مگر اب یہ ایک عبوری ریاست ہے۔ لفظ کے حقیقی معنوں میں اب یہ ریاست نہیں ہے۔ ۔ ۔ اور اس کا موازنہ جمہوریت کی اس وسعت سے کیا جا سکتا ہے جس میں آبادی کی اتنی بڑی اکثریت شریک ہو گی کہ اس کے بعد جبر کے خصوصی آلے کی ضرورت ختم ہونا شروع ہو جائیگی۔‘‘
ریاست طبقاتی سماج کی نشانی ہے اور غیر طبقاتی سماج کے وجود میں آتے ہی ’’رفتہ رفتہ مٹ جائے گی۔‘‘ لہٰذا پرولتاریہ کا مفاد اسی میں ہے کہ سرمایہ داری نظام کی یہ باقیات جلد از جلد ختم ہو جائیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب پیداواری قوتیں اس سطح کو پہنچ جائیں کہ مانگ کا خاتمہ ہو جائے اور ہر کسی کو اس کی ضروریات کی تکمیل کی ضمانت مل جائے۔
اینگلز نے اینٹی ڈیورنگ میں لکھا تھا کہ ’’جب طبقاتی غلبہ اور اس کے ساتھ ساتھ پیداوار کی موجودہ طوائف الملوکی کی تخلیق کردہ انفرادی بقا کی جدوجہد اور اس جدوجہد کے نتیجے میں جنم لینے والی زیادتیاں اور تصادم ختم ہونگے تو اس کے بعد دبانے کیلئے کچھ نہیں ہو گا اور جبر کے خصوصی آلے یعنی ریاست کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔‘‘ ریاست کے خاتمے کیلئے ’’طبقاتی غلبے اور انفرادی بقا کی جدوجہد‘‘ کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ اس وقت سماج ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہو گا جہاں وہ ’’ہر کسی سے اس کی صلاحیت کے مطابق اور ہر کسی کو اس کی ضروریات کے مطابق‘‘ مہیا کرنے کی ضمانت دے سکے گا۔
مزدوروں کی ریاست اپنے آغاز سے ہی رفتہ رفتہ مٹنا شروع ہو جائے گی۔ نراجیت کے حامیوں کی خواہشات کے برعکس ریاست، پیسہ اور بورژوا خاندان راتوں رات ختم نہیں ہو سکتے۔ اینگلز کے بقول انہیں ’’نوادرات کے عجائب گھر‘‘ میں اسی وقت رکھا جا سکتا ہے جب مادی حالات مناسب سطح تک فروغ پاچکے ہوں۔ انہیں اپنا تاریخی فریضہ پورا کرنا ہے۔ انہیں انتظامی اقدامات کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل ریاست کو یہ حالات پیدا کرنے ہوں گے۔ پہلے بات تو یہ ہے کہ مزدوروں کی ریاست ہر کسی کو ’’اس کی صلاحیتوں کے مطابق‘‘ یعنی جس قدر کوئی فرد یا عورت چاہے کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ ہی وہ ہر کسی کو ’’اس کی ضروریات کے مطابق‘‘ دے سکتی ہے اس بات سے قطع نظر کہ اس نے کتنا کام کیا ہے۔ آغاز میں مزدوروں کی ریاست پیداوار میں اضافے کیلئے ایک زبردست محرک کا کام کرتی ہے۔ اس کا صرف یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ سرمایہ داری کے تشکیل کردہ اجرتی محنت کے طریقوں کا اطلاق کیا جائے۔ چونکہ تمام مانگ کی فوری تسکین ممکن نہ ہو گی اور کچھ عرصے کے لئے قلتیں باقی رہیں گی اس لئے لوگوں کو اپنی کمائی ہوئی اجرتوں کی مناسبت سے پیداوار میں حصہ دیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں مزدوروں کی ریاست ابتدائی طور پر اجرتی محنت کی عدم مساوات کا دفاع کرنے پر مجبور ہوگی یعنی بورژوا نظام تقسیم کا سرمایہ کاری اور سماجی خدمات کے شعبے کیلئے ایک حصہ مختص کرنے کے بعد بقیہ حصہ اجرت کی صورت میں سماج میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ اس نکتے پر مارکس نے لاسال کی اس غلطی کو درست کیا ہے کہ نیا سماج فوراً ہی ’’محنت کی مساوی پیداوار کے عوض سب کو برابر کا حق دے گا‘‘۔ مارکس نے کہا کہ ’’برابر کا حق‘‘ درحقیقت مساوات کی خلاف ورزی ہے اور یہ نا انصافی طبقاتی سماج اور قلت کی صورتحال کی باقیات میں سے ہے، جہاں تک موخر الذکر (ذرائع صرف) کی انفرادی پیدا وار میں تقسیم کا تعلق ہے تو مساوی اجناس کے تبادلے میں بھی یہی اصول کارفرما ہے، ’’ایک قسم کی مقدار محنت کا تبادلہ دوسری قسم کی مساوی مقدار محنت سے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں بھی ابھی تک ’’مساوی حق‘‘ درحقیقت ایک بورژوا حق ہے۔‘‘
نئے سماج کا یہ پہلا مرحلہ ابھی مکمل مساوات فراہم نہیں کر سکتا، آمدنی میں فرق جاری رہے گا اگرچہ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم اجرت میں فرق بہت حد تک کم ہو جائے گا۔ مارکس لکھتا ہے کہ ’’ایک شخص دوسرے سے ذہنی اور جسمانی اعتبار سے برتر ہے اس لئے وہ یکساں وقت میں زیادہ محنت فراہم کرتا ہے یا زیادہ دیر تک محنت کرسکتا ہے اور اگر محنت کو پیمانہ تصور کیا جائے تو اس کی تعریف اس کے دورانیے یا شدت سے ہی کی جا سکتی ہے ورنہ یہ پیمائش کا معیار نہیں رہے گی۔ یہ مساوی حق دراصل غیر مساوی محنت کیلئے غیر مساوی حق ہے۔ یہ کسی طبقاتی فرق کو خاطر میں نہیں لاتا کیونکہ ہر کوئی باقی سب کی طرح محض ایک مزدور ہے لیکن یہ غیر مساوی اور فطری انفرادی صلاحیت کو چپ چاپ تسلیم کر لیتا ہے اور اس طرح پیداواری صلاحیت کو ایک فطری مراعت مان لیتا ہے۔ لہٰذا ہر حق کی طرح مواد کے حوالے سے یہ ایک غیر مساویانہ حق ہے۔ حق اپنی نوعیت کے اعتبار سے صرف ایک مساوی معیار کے اطلاق پر مشتمل ہو سکتا ہے۔‘‘
دوسرے لفظوں میں مزدوروں کی محنت کا صلہ انہیں اجرتوں کی صورت میں ملتا ہے۔ اس میں ان کی مختلف ضروریات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ آگے چل کر مارکس مختلف مزدوروں کے درمیان فرق کی وضاحت کرتا ہے:
’’ایک مزدور شادی شدہ ہے دوسرا کنوارہ، ایک کے بچے زیادہ ہیں دوسرے کے کم اور علیٰ ہذالقیاس۔ اس طرح مساوی محنت کے ساتھ اور سماجی تصور میں مساوی حصے کے بعد درحقیقت ایک کو دوسرے سے زیادہ ملے گا یعنی پہلا دوسرے کی نسبت زیادہ امیر ہو گا وغیرہ وغیرہ، ان تمام خرابیوں سے بچنے کیلئے حق مساوی کی بجائے غیر مساوی ہو گا۔
’’لیکن کمیونسٹ سماج کے پہلے مرحلے میں یہ خرابیاں ناگزیر ہیں کیونکہ یہ وہ وقت ہے کہ اس سماج نے ایک تکلیف دہ عمل کے بعد ابھی ابھی سرمایہ دار سماج کے بطن سے جنم لیا ہے۔ قانون کبھی بھی سماج کے معاشی ڈھانچے اور اس سے مشروط ثقافتی ترقی سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ دوسرے الفاظ میں کمیونزم کا پہلا مرحلہ (سوشلزم ) ابھی مکمل انصاف اورمساوات فراہم نہیں کر سکتا، دولت اور آمدنی میں فرق (غیر منصفانہ فرق) کچھ عرصے کیلئے پھر بھی موجود رہیں گے اگرچہ عام معیار زندگی میں بہت زیادہ بہتری آ جائے گی۔ اس وقت سماج ہر کسی کو ’’اپنی صلاحیتوں کے مطابق‘‘ کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا اور نہ ہی ہر ایک کو ’’اس کی ضرورت کے مطابق‘‘ اس کے کام سے قطع نظر صلہ دے سکتا ہے۔ مزدوروں کی ریاست ان دو مخاصمانہ خصوصیات کے باہمی رشتے پر نظر رکھے گی اور اس امر کو یقینی بنائے گی کہ سوشلسٹ رجحانات کو حتمی غلبہ حاصل ہو اوررفتہ رفتہ ریاست کا خاتمہ ہو جائے۔
لہٰذا یہ نئی ریاست دوہرا کردارا ختیار کر لیتی ہے، جہاں تک قومیائے گئے ملکیتی رشتوں کے دفاع کا تعلق ہے یہ سوشلسٹ ہوتی ہے اور جہاں تک اجرتی محنت کے سرمایہ دارانہ طریقے کے ذریعے اشیا اور خدمات کی تقسیم کا تعلق ہے یہ بورژوا ہوتی ہے۔ تاہم تقسیم کے بورژوا طریقے پر عمل پیرا ہونے سے پیداواری قوتوں کو فروغ حاصل ہو گا اور آخری تجزیے میں سوشلسٹ مقاصد کی خدمت ہو گی۔ مگر جیسا کہ لینن نے کہا تھا انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ناممکن ہو جائے گا کیونکہ ذرائع پیداوار سماجی ملکیت میں رہیں گے۔ یہ حقیقت بذات خود تقسیم کی خامیوں اور بورژوا قانون کی عدم مساوات کو ختم نہیں کر سکتی۔ سرمایہ داری کا فوری خاتمہ ایک غیر طبقاتی سماج کو فوراً وجود میں لانے کی مادی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ یہ ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ ریاست بذات خود (اگرچہ یہ ایک نیم ریاست ہے) سمجھتی ہے کہ اس کا کام اس بورژوا خاندان کی پاسداری ہے جو سماج میں ایک مخصوص عدم مساوات کو مقدس بناتا ہے۔ پیداواری قوتوں کی مزید ترقی اور کمیونزم کے حصول سے ریاست اور سرمایہ داری کی دوسری باقیات غائب ہو جاتی ہیں۔ لینن کہتا ہے کہ ’’جب تک ریاست کا وجود ہے کوئی آزادی نہیں ہے، جب آزادی ہو گی تو ریاست نہیں رہے گی۔ ‘‘
آگے چل کر مارکس نے وضاحت کی ہے کہ کمیونزم کے اعلیٰ مرحلے میں بورژوا قانون کس طرح غائب ہو جاتا ہے، ’’جب فرد کی تقسیم محنت کے تحت غلامانہ ماتحتی اور ساتھ ہی ساتھ ذہنی اور جسمانی محنت کے درمیان تضاد ختم ہو چکا ہو، جب محنت محض زندگی گزارنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندگی کی بنیادی حاجت بن چکی ہو، جب فرد کی ہمہ جہت ترقی کے ساتھ ساتھ پیداواری قوتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہو اور باہمی تعاون کی دولت کے تمام چشمے باافراط بہہ رہے ہوں۔ ۔ ۔ صرف اسی وقت بورژوا حق کے تنگ افق کو مکمل طور پر عبور کیا جا سکتا ہے اور سماج اپنے جھنڈے پر یہ الفاظ لکھ سکتا ہے’’ہر ایک سے اس کی اہلیت کے مطابق، ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق۔ ‘‘
لینن اپنی کلاسیکل کتاب ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عبوری دور کے حوالے سے مزید اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’اشیائے صرف کی تقسیم کے بورژوا قانون کی ناگزیر شرط اول یہ ہے کہ بورژوا ریاست کا وجود ہو کیونکہ اگر ایک ایسی مشینری موجود نہیں ہے جو قانون کے ضابطوں پر عمل درآمد کروانے اور انہیں لاگو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو ایسا قانون کچھ بھی نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیونزم کے تحت کچھ عرصے تک نہ صرف بورژوا قانون بلکہ بورژوا ریاست بھی قائم رہتی ہے مگر بورژوازی کے بغیر!‘‘
بادی النظر میں یہ تبصرہ ناقابل یقین لگتا ہے۔ یہ یقیناًان لوگوں کو دہشت زدہ کر دیتا ہے جو مزدوروں کی ریاست کو خیال پرستانہ انداز میں دیکھتے ہیں۔ پیرس کمیون کے محدود تجربے پر انحصار کے باعث مارکس مستقبل کی مزدور ریاست کی ہیئت کے سلسلے میں انتہائی عمومی خاکہ پیش کر سکتا تھا۔ لینن نے اس موضوع پر مارکس کے خیالات کو ترویج دی مگر اس نے ان عوامل کا بہت گہرائی سے جائزہ نہیں لیا جو ایک ایسی صورت میں پیش آسکتے تھے جب روسی مزدوروں کی ریاست انتہائی پسماندگی کے حالات میں بالکل الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہوتی۔ بہت سے مواقع پر اس نے واضح کیا کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کے مزدوروں کی مدد کے بغیر اس انقلاب کے بچنے کی کوئی توقع نہیں۔ تاہم وہ بڑے بااعتماد انداز میں توقع کرتا تھا کہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی فتح اس ابتدائی مرحلے کا دورانیہ بہت کم کر دے گی۔ اس مظہر کا تجزیہ زیادہ تفصیل کے ساتھ کرنے کا کام ٹراٹسکی پر آن پڑا جس کی بنیاد روسی نظام میں نوکر شاہی کا فروغ اور سٹالنزم کا ظہور تھا۔