تحریر: لال خان
پاکستان کی مالدار اشرافیہ ٹکٹوں پر ایسے ہی داؤ لگا رہی ہے جیسے سٹاک مارکیٹ میں کمپنیوں کے حصص کی بولیاں لگا کرتی ہیں۔ اس پیسے کی سیاست کی پارٹیاں بھی اپنی ’’کمپنیوں‘‘ کی مہنگی اشتہار بازی کے ذریعے ٹکٹوں کی قیمتوں میں خوب اضافے کروا رہی ہیں۔ دوسری جانب یہاں کے انتخابی مافیا والے ( جن کے لئے انگریزی کی پرفریب اصطلاح ’’الیکٹیبلز‘‘ استعمال کی جاتی ہے) بھی اپنے اپنے بھاؤ بڑھانے کی کوشش میں سرگرم ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی ’پارلیمانی کمیٹی‘ میں شہباز شریف اور مریم نواز اپنی اہلیت کے دلائل اور دستاویزات ایسے پیش کر رہے تھے جیسے یہ کوئی کمیونسٹ پارٹی ہو جس کے با اختیار ’پولٹ بیورو‘ کے سامنے ٹکٹ کی درخواست پیش کی جا رہی ہو۔ شہباز شریف کی درد بھری استدعا اور ٹکٹ کی فریاد کسی جذباتی فلم کا آخری سین لگتی تھی۔ کیسے کیسے ناٹک ہیں۔ حالانکہ یہ سارے فیصلے اور سودے اِس سیاسی اشرافیہ کی نجی محفلوں اور دیوان خانوں میں پہلے ہی ہو چکے ہوتے ہیں۔
آخری خبریں آنے تک مسلم لیگ نواز اور سرکار کے مقتدر حلقوں کے درمیان چوہدری نثار کی شکل میں سب سے بڑا پل بھی گر رہا تھا۔ لیکن چھوٹے پلوں کی تو ابھی بھی بھرمار ہے۔ تاہم چوہدری نثار کے آزاد الیکشن لڑنے کے اعلان سے آصف زرداری کے ’’آزادوں‘‘ کی حکومت بنانے کا تناظر زیادہ درست محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ آزادوں پر عموماً دھاندلی کے الزامات کم ہی لگا کرتے ہیں۔ اگر آزادوں کی یہ فوج ظفر موج اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہے تو بنوانے والوں کے لئے نئی حکومت بنانا نسبتاً آسان ہو جائے گا۔ یہ آزاد الیکشن لڑنے والے بھی بالعموم اسی حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ستر سال سے اس ملک کے محنت کش عوام کا ہولناک استحصال کیا ہے اور یہاں کے وسائل کو لوٹا ہے۔ جہاں سرکاری طورپر انتخابات میں اخراجات کی حد 15 سے 30 لاکھ تک بڑھا دی گئی ہے وہاں غیر سرکاری طور پر کالے دھن کے بیوپاریوں کی یہ کشمکش اربوں تک جائے گی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ چوہدری نثار یا اس قسم کے کسی دوسرے سرکاری لیڈر کی قیادت میں آزاد امیدواروں کو ہی اکثریت حاصل ہو جائے اور عوام کی مالیاتی اور سماجی پہنچ سے کوسوں دور جس ایوان کو پارلیمنٹ کہا جاتا ہے اس میں کسی نئی پارٹی یا اتحاد کی حکومت تشکیل کروا دی جائے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے بارے میں بھی بھرپور تاثر بن گیا ہے کہ حکومتیں بنانے والوں نے اب عمران خان کے سر پہ دست شفقت رکھ دیا ہے۔ یہی تاثر تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی مانگ اور ریٹ میں بے پناہ اضافے کا باعث بنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹکٹوں کی کشمکش پر سب سے زیادہ تنازعات اور ٹوٹ پھوٹ بھی تحریک انصاف میں جنم لے رہی ہے۔ اس صورتحال سے تحریک انصاف میں موجود ’داخلی جمہوریت‘ کی قلعی بھی خوب کھل گئی ہے۔
جہاں کالے دھن پر پلنے والے اِن حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں میں اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ اور دوام کے لئے بڑے پیمانے پر اقتدار کی کشمکش چلتی رہتی ہے وہاں اس افراتفری اور بدنظمی کو قابو میں رکھنے کے لئے جبر کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پارٹی میں کوئی نہ کوئی شخصیت ایسی موجود ہے جس کے فیصلے پتھر پر لکیر بن جاتے ہیں۔ وہ شخصیت کتنی ہی بدعنوان، بدکردار اور بیہودہ کیوں نہ ہو لیکن ایک بحران زدہ نظام کی سیاست کو چلانے کے لئے ایسے وارداتیے ان مروجہ سیاسی پارٹیوں پر مسلط کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف میں’بغاوت‘ کرنے والی سیاسی اشرافیہ کو بھی زیادہ مشکلات درپیش نہیں ہوں گی۔ اگر زیادہ بھاری مال والوں کو ٹکٹ مل گئے ہیں تو جنہیں نہیں ملے نصیب ان کے بھی نہیں پھوٹے۔ پیسے کی کمی تو ان کے پاس بھی نہیں ہے اور پھر آزاد امیدواروں کا ایک وسیع و عریض پلیٹ فارم بھی موجود ہے جس کی بنیاد پر وہ نہ صرف الیکشن جیت سکتے ہیں بلکہ شاید براہِ راست اقتدار میں آنے کے زیادہ مواقع انہیں یہاں حاصل ہو سکتے ہیں۔ لیکن پنجاب میں خصوصاً اگر کسی ’بڑی ‘ پارٹی کی حالت خراب ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہے۔ یہاں اس کے ٹکٹوں کی منڈی میں شدید مندی چل رہی ہے۔ جیسے کسی دیوالیہ لمیٹڈ کمپنی کا حال ہوتا ہے کہ مفت میں بھی کوئی شیئر لینے کو راضی نہیں ہوتا۔ اس بارے باقاعدہ لطیفے چل رہے ہیں کہ پارٹی قیادت لوگوں کے گھروں میں ٹکٹ پھینک کے بھاگ رہی ہے۔ زرداری پنجاب میں ٹکٹیں بانٹنے آیا ہے لیکن لگتا ہے لینے والے کہیں غائب ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ جن 140 نشستوں پر پنجاب میں پیپلز پارٹی نے الیکشن لڑنے کی ٹھانی تھی وہاں زرداری کو اب تک صرف 20 ’سنجیدہ‘ امیدوار ہی مل پائے ہیں۔ زرداری کی لامتناہی دولت کے پیش نظر ’پارٹی‘ سے ہی الیکشن کا خرچہ بھی مانگا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں اچھا خاصا مال بنالینے والے بھی اب غریب ’کارکن‘ بنے جا رہے ہیں۔ لیکن زرداری بھی تو اس کاروبار کا کافی منجھا ہوا کھلاڑی ہے۔ ان کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ فلاپ فلموں کی ٹکٹیں بلیک نہیں کی جا سکتیں۔ اور پیپلز پارٹی کی ٹکٹوں پر تو نیچے سے اول پوزیشن لینے کے بیشمار ریکارڈ بھی بن چکے ہیں۔ ایسے میں زرداری اپنی مخصوص وارداتی مہارت کے ذریعے پہلے ہی سے پیش گوئی کر چکا تھا کہ اس مرتبہ آزاد امیدواروں کے جیتنے کے زیادہ امکانات ہیں اس لئے وہ انتخابات میں پیسہ برباد کرنے کی بجائے اسی طرح ان آزادوں کو خریدنے کی کوشش کرے گا جیسے بلوچستان میں موصوف نے جدید دور کی کامیاب ترین سودے بازی کی ہے۔
مذہبی پارٹیوں کی حالت بھی نازک ہے۔ اسی لئے متحدہ مجلس عمل کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ابھی بھی نواز شریف کے بالواسطہ مگر ناقابل اعتبار اتحادی ہیں۔ پختونخواہ میں جماعت اسلامی بڑی مشکل سے آخری وقت تک تحریک انصاف کے اقتدار سے چمٹی رہی۔ جماعت اسلامی کا سیاسی اور نظریاتی زوال شاید پیپلز پارٹی سے بھی شدید تر ہے۔ ان کو بس کوئی آسمانی معجزہ ہی بڑی تعداد میں نشستیں دلوا سکتا ہے۔ لیکن قوم پرست پارٹیوں کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام کی تمام پارٹیوں میں جو بحران اور غیر یقینی کیفیت ہے وہ عوام کے اس سرمایہ دارانہ سیاست سے ایک اجتناب اور بیزاری کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ جس انتخابی عمل میں ساری کار گزاری ہی کالے دھن کے ارب پتیوں کی ہو وہاں عام انسانوں کا بھلا کیا کام! اس سیاست میں تو محنت کشوں کے کسی حقیقی نمائندے کے پارلیمان میں آنے کے امکانات کم و بیش صفر ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی آتا ہے تو بالعموم اسی استحصالی نظام کا حصہ بن کے محنت کشوں کو ہی دھوکہ دیتا ہے۔ کیونکہ اس ادارے کا کردار ایسا بن چکا ہے۔ لیکن جس نظام اور جس اقتدار میں عوام کی کوئی نمائندگی ہو نہ ہی عام لوگوں کو اس سے کوئی امیدیں باقی رہیں وہ کتنا مستحکم ہو سکتا ہے اور کب تک چل سکتا ہے؟ ایسے میں یہاں بننے والی ہر حکومت پہلے سے زیادہ کمزور اور پرانتشار ہوگی۔ معاشی صورتحال پہلے ہی اتنی خستہ حالی کا شکار ہے کہ کسی بڑے سیاسی تصادم اور خلفشار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ آنے والی حکومت کو سب سے پہلے آئی ایم ایف یا کسی دوسرے سامراجی ادارے کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ ایسے میں اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس کے ذمہ دار یہ حکمران طبقات اور سرکاری آقا ہی ہوں گے۔ لیکن یہاں کے محنت کش عوام نے بھی بہت برداشت کر لیا ہے۔ انہوں نے آخری بات ابھی کہنی ہے۔