ملالہ کی آزمائش

[تحریر: لال خان]
آج سے ایک سال قبل، 9 اکتوبر 2012ء کو سوات کی دلکش وادی میں مذہبی جنونیوں نے سکول سے واپس گھر جانے والی معصوم طالبات کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایا تھا۔ ملالہ یوسفزئی کو انتہائی کم فاصلے سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور ایک گولی اس کے سر اور گردن کو چیرتی ہوئی کندھے میں پیوست ہوگئی۔ اس وحشیانہ حملے میں دو اور طالبات بھی زخمی ہوئیں۔ ملٹری ہسپتال پشاور میں تین گھنٹے طویل آپریشن کے بعد ملالہ کے جسم سے گولی نکال لی گئی، بعد ازاں راولپنڈی اور برطانیہ کے جدید ہسپتالوں میں علاج کے باعث ملالہ کی جان بچ گئی۔ اس سال شائع ہونے والی اپنی کتاب میں ملالہ لکھتی ہے کہ وہ پہلی بار تب روئی جب کوئین الزبتھ ہسپتال میں سولہ دن زیر علاج رہنے کے بعد وہ اپنے والدین سے ملی۔ اس لمحے اُسے’’یوں محسوس ہوا جیسے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہوگیا ہو۔ ایسے لگا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ملالہ کو واقعی ایک نئی زندگی مل گئی لیکن اس ملک کی ہر بچی ملالہ کی طرح خوش قسمت نہیں ہے۔ خواتین اور کمسن بچیوں کے لئے یہ معاشرہ کسی جہنم سے کم نہیں ہے۔
سوات اور ملک کے دوسرے حصوں میں مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کا خون بہانے والے اسلامی بنیاد پرستوں نے جس بے دردی سے ایک پندرہ سال کی بچی کو وحشت کا نشانہ بنایا وہ ان کی درندگی کو بے نقاب کرتا ہے۔ بنیاد پرستی کی یہ سیاہ رجعتی قوتیں وہ سماجی کینسر ہیں جو معاشی تنزلی اور کالے دھن کی بڑے پیمانے پر ریاست میں سرایت کے باعث معاشرے میں پھیلتا چلا جارہا ہے۔ تاہم مغربی میڈیا کے تمام پراپیگنڈا کے باوجود اسلام کے ان ٹھیکیداروں کو کبھی بھی وسیع سماجی بنیادیں میسر نہیں آسکیں۔ ریاست کے اندر موجود رجعتی عناصر کی پشت پناہی کے بغیر کالے دھن پر پلنے والی اسلامی سیاسی پارٹیاں اور مسلح گروہ چند دن تک بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ہیلری کلنٹن کا اعتراف ہے کہ ’’مذہبی درندگی‘‘ کا موجد اور اسے پروان چڑھانے والا خود امریکی سامراج ہی تھا۔ بنیاد پرستوں کی فسطائیت دراصل پاکستانی سرمایہ داری کی غلاظت کا نچڑا ہوا عرق ہے۔ مذہبی ریاست کی جانب سے سرکاری طور پر تعلیمی نصاب، قوانین اور سماج پر مذہب کے نفاذ سے بنیاد پرستی کو مزید بڑھاوا ملتا ہے۔ یہ مظہر پاکستانی حکمران طبقات کی زوال پزیری اور رجعتی کردار کو بھی واضح کرتا ہے جو عوام کو تقسیم رکھنے کے لئے مذہبی تعصبات کو شعوری طور پر ہوا دیتے ہیں۔
حملے کے بعد ملالہ کو ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں بہت پزیرائی ملی، تاہم کارپوریٹ میڈیا نے بڑی احتیاط سے اس واقعے کو وہ رنگ دیا جو ملکی اور (خاص طور پر) عالمی اشرافیہ کے اسٹریٹجک مفادات کے موافق تھا۔ ملالہ یوسفزئی کے پس منظرپر انتہائی عیاری سے پردہ ڈال دیا گیا۔ بھارت کے سینئر صحافی جاوید نقوی نے پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار میں 25 اکتوبر 2012ء کو شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں لکھا:
’’نو عمر ملالہ کی نظریاتی تشکیل میں مارکسی بنیادوں کی موجودگی کے ثبوتوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایک تصویر جس میں وہ لینن اور ٹراٹسکی کے پوسٹر کے ساتھ نظر آرہی ہے واضح طور پر اشارہ کرتی ہے کہ وہ سوات کے نظریاتی طور پر سب سے زیادہ تربیت یافتہ مرد و خواتین سے قریبی تعلقات رکھتی ہے۔ یہ مارکس وادی ’’عالمی مارکسی رجحان‘‘ (IMT) کے ممبران ہیں، جو مذہبی بنیاد پرستی اور سامراج کی یکساں مذمت کرتا ہے۔ ہمیں عالمی خبر رساں اداروں کے ساتھ ملالہ کے انٹرویو اور بلاگ کے متعلق تو بتایا جاتا ہے لیکن مارکسسٹوں کے ساتھ اس کے تعلق کو نظر انداز کئے جانے کی واردات واضح ہے۔ اس سال جولائی میں سوات میں ہونے والے نیشنل یوتھ مارکسی سکول میں ملالہ نے شرکت کی تھی۔‘‘

ملالہ یوسفزئی سوات میں منعقد ہونے والے عالمی مارکسی رجحان کے مارکسی سکول میں اظہار خیال کر رہی ہے

نام نہاد آزاد میڈیا نے ہر ممکن کوشش کے ذریعے تصویر کے اس رخ کو چھپایا ہے تاکہ نوجوان ملالہ یوسفزئی کی نڈر جدوجہد کے اس پہلو سے بے خبر رہیں۔ ملالہ کے والد ترقی پسند سوچ رکھتے ہیں اور ان کی نظریاتی تربیت میں ملالہ کے ماموں فیض محمدخان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ فیص محمد نامور کیمونسٹ ہیں جن کی تمام زندگی سوات کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو نہ صرف بنیاد پرست دہشتگردوں بلکہ ریاستی جبر اور استحصالی نظام کے خلاف متحد کرنے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔
برطانیہ کا سابقہ وزیر اعظم اور لیبر پارٹی کے دائیں بازو کی نمائندگی کرنے والا گورڈن براؤن ملالہ کے گرد کی جانے والی کمپئین کا سب سے بڑا منتظم ہے۔ گورڈن براؤن کی ملالہ کے لئے ’’ہمدردی‘‘ کے پیچھے سامراجی مفادات کارفرما ہیں۔ گورڈن براؤن سرمایہ داری کا کھلا حامی اور بورژوا معیشت دان ہے جس نے2008ء میں شروع ہونے والے سرمایہ داری کے عالمی انہدام سے صرف ایک سال پہلے یہ تناظر پیش کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے معاشی اتار چڑھاؤ کے چکر پر قابو پا لیا ہے۔ موصوف ’’ٹریکل ڈاؤن معیشت‘‘ کے پجاری ہیں اور ریاست کی جانب سے صحت، تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے سخت مخالف ہیں۔ برطانیہ میں عوام دشمن معاشی پالیسیوں کا یہ علمبردار، ملالہ کے معاملے میں انسانیت کا ٹھیکیدار بنا بیٹھا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بنیاد پرستوں کے حملوں میں جتنے سکول تباہ ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ریاستی غفلت اور ’’فنڈز کی کمی‘‘ کی وجہ سے برباد ہورہے ہیں۔ پاکستان تعلیم پر کم ترین اخراجات کرنے والے پانچ ممالک میں شامل ہے۔ اس معاملے پراصلاح پسندوں کا سارے کھلواڑ کا مقصد نجی شعبے اور این جی اوزکو تقویت دینا ہے۔
اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے عالمی اجارہ داریوں اور سامراج کے استحصال کو اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں۔ بل کلنٹن سے لے کر نورینا ہرٹز اور انجلینا جولی تک، کئی شہرت یافتہ شخصیات آج کل ’’انسان دوست سرمایہ داری‘‘ اور ’’تیسرے راستے‘‘ کی باتیں کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے ملالہ نے تعلیم اور دوسرے بنیادی حقوق کے لئے طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کا آغاز کیا تھا، لیکن سامراج کے یہ پرفریب حواری ملالہ کو اپنی واردات کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
ملالہ کو دئیے جانے والے ایوارڈز کی بھرمار ہے۔ اس سال کے نوبل پرائز کے لئے بھی اسے فیورٹ قرار دیا جارہا ہے۔ نوبل پرائز دینے والی سکینڈنیوین کمیٹی کی منافقت اور دوہرے معیار کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ وہی ’’نوبل امن انعام‘‘ ہے جس سے افغانستان اور عراق میں انسانوں کا قتل عام کرنے والے باراک اوباما کو بھی نوازا جاچکا ہے۔ اسی اوباما کے دور حکومت میں پاکستان کے پشتون علاقوں میں ڈرون حملوں کا سلسلہ شدید کیا گیا جن میں ہزاروں نہیں سینکڑوں معصوم بچیاں اور بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ ایسا نوبل انعام ملالہ کی انقلابی کاوش کی عظمت نہیں تضحیک ہوگی۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اب تو برطانوی ملکہ نے بھی ملالہ کو بکھنگم محل کے دربار میں مدعو کر لیا ہے۔ ملکہ عالیہ کا تعلق اسی تاج سے ہے جو صدیوں سے برصغیر سمیت پوری دنیا میں اپنی نوآبادیوں میں ظلم و جبر اور استحصال کی علامت ہے۔ نوآبادیاتی عوام کا خون نچوڑ کر ہی سامراج کی طاقت کوتعمیر کیا گیا۔ برطانوی سامراجیوں اور پشتون جنگجوؤں کے درمیان خون ریز تصادموں (افغان جنگوں) کی تاریخ بھی بہت طویل ہے۔ یہ برطانوی راج ہی تھا جس نے پشتون قوم کو ڈیورنڈ لائن کے ذریعے چیر کر تقسیم کیاتھا۔ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد سامراج کا ظلم ختم نہیں ہوا بلکہ ہمیں کوریا سے ویتنام، افغانستان سے عراق اور لیبیا سے شام تک ہر طرف سامراجی جارحیتوں سے انسانی سماج تاراج ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ابھی تک واضح نہیں ہے کہ سرمایہ داری کے یہ گدھ ملالہ اور اس کے خاندان کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لئے کس حد تک کامیاب ہوسکیں گے۔ اس کمسن بچی اور اس کے خاندان پر آزمائش کی ایک کٹھن گھڑی آن پڑی ہے۔ جب تک یہ نظام قائم ہے بنیاد پرستی کی لعنت معصوم بچیوں اور بے گناہ انسانوں کو برباد کرتی رہے گی اور یہ بچیاں ان اندھیروں میں علم کی روشنی کی متلاشی ہی رہیں گی۔ ملالہ کی قربانی اور جدوجہد کو فتح یاب کرنے کے لئے اس نظام کے خلاف لڑنا اور جیتنا ہوگا!

متعلقہ: ایک عَلم اور جنگ کا منصوبہ