[تحریر: لال خان]
اس ملک کی حاوی سیاست بھی مقامی فلم انڈسٹری اور تھیٹر کی طرح ناکام اور خاصی بیہودہ ہو چکی ہے لیکن اس فلاپ سیاسی فلم میں بھی کچھ ایکشن سین ایسے آتے ہیں جو عوام کے لاشعور میں چھپے شبہات کو درست ثابت کر دیتے ہیں۔ سب سے پہلے کرپشن کی اس سیاست کے ناخداؤں کے بارے میں افواہیں گردش کرتی ہیں۔ پھر یہی افواہیں متحارب سیاسی جغادریوں کی بیان بازی کا حصہ بنتی ہیں۔ سرکاری ایجنسیوں اور میڈیا کی مہر ثبت ہوجانے کے بعد عوام کو احساس ہوتا ہے کہ ان کے خدشات درست تھے۔ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ’قحط الرجال‘ کے اس عہد میں نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے حکمران طبقے کے جن دھڑوں سے یاس بھری امیدیں وابستہ کی تھیں ان کی اصلیت وہی ہے جس کا اندیشہ تھا۔
حکمران طبقے کے سیاسی نمائندے یہ دنگل اس لئے بھی سجائے ہوئے ہیں کہ سلگتے ہوئے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا کر انہیں جعلی لڑائیوں میں مسلسل اجھائے رکھا جائے۔یہ تصادم اس لحاظ سے حقیقی بھی ہیں کہ دولت کم پڑتی جارہی ہے اور لوٹنے والے بڑھتے جارہے ہیں ۔ مقامی حکمرانوں کی نسبت سامراجی اجارہ داریوں کی لوٹ مار کئی گنا زیادہ ہے اور پچھلے 67 سال سے ہی جاری ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران ریاست کے طاقتور دھڑے بھی معیشت کے میدان میں ’’گلیڈیٹرز‘‘ کی طرح داخل ہو کر ’’مناپلی‘‘ کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔ ہر بڑے ٹھیکے میں سامراجی اجارہ داریوں کے ساتھ فیصلہ کن ریاستی ادارے کی ذیلی کمپنیاں شامل نظر آتی ہیں۔ مفلوج اقتدار پر براجمان سویلین حکمرانوں کے لئے بچے کھچے ٹکڑے ہی بچے ہیں۔لوٹ مار کے’’ کلاسیکی‘‘ طریقوں کی زوال پزیری کا ہی نتیجہ ہے کہ قبضہ گروپ اور بھتہ مافیا سیاست کے فنانسر ہیں اور ہر بڑی سیاسی پارٹی ان دھندوں میں ملوث ہے۔ سیاست جس پیسے سے فنانس ہوتی ہے اسی کا مالیاتی کردار ہی سیاست کے مزاج، ترجیحات اور مفادات کا تعین کرتا ہے۔
ماضی کی طرح حالیہ دنگل بھی اس لحاظ سے مضحکہ خیز ہے کہ ’’طالبان خان‘‘ اور ’’ان داتا‘‘ جیسے دونوں اطراف کے الزامات بڑی حد تک سچائی پر مبنی ہیں۔ عوام کو ان حقائق کا اندازہ تو پہلے ہی تھا، اب یقین ہو گیا ہے۔ انسانیت سے عاری سرمائے کے یہ پجاری بلدیہ ٹاؤن میں زندہ جلائے جانے محنت کشوں کے لئے مگر مچھ کے جتنے بھی آنسو بہاتے رہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں محنت کش طبقے کو کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ کراچی میں دہشت گردی اور خونریزی کا جو بازار گرم ہے وہ بنیادی طور پر بھتہ مافیا کی گینگ وار کا شاخسانہ ہے۔ اس ملک کی معیشت میں کلیدی کردار رکھنے والا کراچی اس لئے برباد ہے کہ یہاں کی صنعت، تجارت اور سروسز کا شعبہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح صحت مند سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چلنے سے قاصر ہے۔ تیسری دنیا کی سرمایہ داری وہ بنیادیں فراہم ہی نہیں کر سکتی جس پر جدید سماجی انفراسٹرکچرکھڑا ہوسکے۔
کراچی کی بربادی کا باقاعدہ آغاز ضیاالحق کے دور آمریت میں ہوا تھا۔ اس وحشی آمریت کو پاکستان کے پیٹروگراڈکا درجہ رکھنے والے صنعتی مزدوروں کے اس گڑھ سے خطرہ لاحق تھا کیونکہ محنت کش طبقہ تحریک میں ابھرتا ہے تو ریاستی جبر پاش پاش ہوجاتا ہے۔ ایوب خان کی مثال ضیاالحق کے سامنے تھی چنانچہ ممکنہ بغاوت کو قبل از وقت کچلنے کے لئے کراچی میں نسلی، مذہبی اور قومیتی تضادات کا زہر گھولا گیا اور ان تعصبات پر مبنی ’’سیاست‘‘ کو پروان چڑھایا گیا۔ یہ کم و بیش افغان ڈالر جہاد جیسا ہی عمل تھا جس میں افغانستان کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے امریکی سامراج نے پاکستانی ریاست اور عرب بادشاہتوں کے ذریعے مذہبی جنونیوں کو ریکروٹ کر کے دہشت گردی کا بازار گرم کیا تھا۔ افغانستان اور پختونخواہ کے عوام سامراج کی بھڑکائی اس آگ میں آج تک جل رہے ہیں۔ کراچی میں لسانی نفرت کی سیاست کو پروان چڑھا کر ریاست نے وقتی مفادات تو پورے کئے لیکن ان آلہ کاروں کی فنانسنگ مسلسل تو جاری نہیں رکھی جاسکتی۔ ڈالر بند ہونے کے بعد ’’مجاہدین‘‘ نے منشیات اور اغوا برائے تاوان کے دھندے کو وسعت دی تو کراچی میں ’’ہاتھ ‘‘اٹھ جانے کے بعد بھتہ مافیا اور قبضہ گروپ کا راج قائم ہونے لگا۔
سیاسی پارٹیوں کے ’’ملیٹنٹ ونگز‘‘ کا چرچا تو بہت ہوتا ہے لیکن اصل مال بھتہ ونگ، قبضہ ونگ، اغوا ونگ اور ڈکیت ونگ سے آتا ہے۔ لوٹ مار کرنے والے یہ گروہ دہشت اور وحشت کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ تشدد، بربریت اور خوف کے بغیر کالا دھن اکٹھا نہیں ہوسکتا۔ پارٹیوں کے ’’نظریات‘‘ اور سیاسی شناخت کے ذریعے اس دھندے کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس تحفظ کے لئے اقتدار کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لئے ہر پارٹی نے ’’انتخابی ونگ‘‘ بھی پال رکھے ہیں۔ جس کی دہشت جہاں زیادہ ہوگی وہاں ووٹ بھی ملیں گے اور سیٹ بھی…اور عوام کو ’’جمہوریت‘‘ کے تقدس کا درس دیا جاتا ہے، جمہوری لوٹ مار کو ’’وقت‘‘ دینے کی تلقین اور صبر کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔
ایم کیو ایم کا مسئلہ اب یہ بن گیا ہے کہ یہ اقتدار کے بغیر یکجا نہیں رہ سکتی اور پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے بغیر کراچی اور شہری سندھ کا اقتدار زیادہ دیر چلا نہیں سکتی۔ مقصد دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ بوقت ضرورت ان کے الحاق کروانا یا توڑنا ہے۔کاروبار میں مقابلہ اگر نقصان دہ ہو تو شراکت ہوجاتی ہے اور شراکت میں جب حصہ داری کی لڑائی بڑھ جائے تو الحاق ٹوٹ جاتے ہیں۔ اپنے لڑکھڑاتے اقتدار کو سہارا دینے کے لئے نازک صورتحال سے دوچار ایم کیو ایم کے ساتھ رحمان ملک نے اسی لئے سمجھوتہ کروایا ہے۔ یہ شخص اس ملک کی معیشت اور سیاست کا چلتا پھرتا تشخص ہے۔ اس کی شکل اور عقل اس عہد کے کردار کی غماز ہے۔
عمران خان بھی اب ’’پاور پالیٹکس‘‘ میں داخل ہو گیا ہے۔’’تبدیلی‘‘ کی ہوا توقع سے بھی پہلے ہی نکل گئی ہے۔کراچی کی سیاست میں وہ اہم حصہ دار بن کے ابھرا ہے اور اب متحارب ہو کر اپنا حصہ بڑھانے کے چکر میں ہے۔ گالی گلوچ کے اس شور شرابے میں میاں صاحب ہمیشہ کی طرح اپنی واردات کر گئے ہیں۔ پنکھوں سے لے کر کھانے کے تیل تک، بنیادی ضروریات زندگی پر 5 فیصد مزید ٹیکس لگا کر قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ کیسے کیسے فنکار ہیں! لیکن یہ فنکاری بھی اب بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔ عوام سب جانتے ہیں، پہچانتے ہیں۔ محنت کش طبقہ اس غلیظ سیاست کے کینوس کو کب پھاڑتا ہے بس یہی دیکھنا ہے۔ دیر شاید کم ہی رہ گئی ہے۔ یہ اندھیر زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔
متعلقہ: