| تحریر: عباس تاج |
ہر طرح کی دولت اور وسائل محنت کشوں کی ذہنی اور جسمانی محنت سے پیدا ہوتے ہیں۔ قوت محنت بھی ایک جنس ہے اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے تحت اس جنس کی خرید وفروخت سے ہی دولت مند طبقات پیدا ہوتے ہیں اور ان طبقات کے پیدا ہونے سے معاشی اور سماجی اونچ نیچ پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے، نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جائے تو طبقات سے پاک معاشرت قائم کی جا سکتی ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں دولت اور وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ جاتے ہیں اور پھر دولت پر قبضہ کرنیوالا بالادست طبقہ ایسی ریاست قائم کرتا ہے کہ جس کے ادارے اکثریتی عوام کی سہولت کی بجائے دولت مندوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں یہ دولت مند طبقات سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پر مسلط ہو کر مافیاز کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، سماجی دولت اور وسائل کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس طرح ریاستی ادارے ان مافیاز کا ہی تسلسل بن جاتے ہیں۔ یوں ریاست اندر سے کھوکھلی ہو کر آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہے اور سیاسی، معاشرتی اور معاشی بحران مزید بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
آج پاکستان کی سیاست اور ریاست بھی چھوٹے بڑے سرمایہ داروں کے مختلف کارٹیلز اور مافیا گروہوں میں تحلیل نظر آتی ہے۔ تباہ کن اور استحصالی عوامل کی طویل فہرست ہے جو عوام کی زندگیوں کو ہر روز اذیت میں مبتلا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ سامراجی آئی ایم ایف کی تباہ کن معاشی پالیسیاں، بارہ ارب ڈالر کا بڑھتا ہو ا تجارتی خسارہ، نا اہل سیاسی اور سرکاری ایڈمنسٹریشن، سیاست اورپرائیویٹ بزنس کا یکجا ہو جانا، وسیع پیمانے کی کرپشن، ٹیکس چوری اور بد عنوانی، محنت کشوں کی مسلسل گرتی ہوئی اجرت، کساد بازاری، عالمی مالیاتی بحران کے اثرات، 75 فیصد بلیک معیشت کا وجود وغیرہ وغیرہ۔ یہ موجودہ معاشی نظام کے اصل مضمرات ہیں، ریاست نے ہمیشہ دولت پرستوں کا تحفظ اور غریب عوام کو دبانے اور کچلنے کا کردار ادا کیا ہے، پاکستان میں عوام کے موجودہ گھمبیر مسائل کی وجہ معاشی بحران ہے جس سے سیاسی بحران جنم لے رہا ہے اور ریاست انتشار کا شکار ہے۔
جمہوریت اور پارلیمنٹ سے لے کر عدلیہ اور فوج سمیت ریاست کا ہر ادارہ اس کام میں ناکام نظر آتا ہے جو اس کی تخلیق یا وجود کا مقصد بتایا جاتا ہے۔ ہر طرف غربت، جہالت، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، لاقانونیت، کرپشن، بدعنوانی، جرائم، چائلڈ لیبر، خود کشیوں اور بیماریوں کا راج ہے۔ کاروباری سرگرمیاں مسلسل سکڑتی جا رہی ہیں، صنعت زوال کا شکار ہے اور اس کا سارا بوجھ بھی محنت کش طبقے پر لاد کر شرح منافع میں اضافے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 18 ہزار ارب روپے کا داخلی و بیرونی قرضہ ایک پہاڑ کی طرح معیشت پر مسلط ہے جس کی واپسی یا کمی ناممکن ہے، الٹا اس میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔ سترسال میں استحصال اور معاشی لوٹ مار کے باعث نوے فیصد عوام غریب سے غریب تر جبکہ دس فیصد طبقہ امیر سے امیر تک ہو تا چلا گیا ہے۔
سرمایہ دار، جاگیر دار، صنعتکار، سیاستدان، جج، جرنیل، بیوروکریسی، تاجر، ملاں ٹرانسپورٹرز، این جی اوز، تعلیمی اداروں کے مالکان، غرضیکہ ہر شعبے میں مافیا اور اجارہ داریاں قائم ہیں اور یہ مٹھی بھر افراد پورے سماج کی دولت کو نچوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ یہی استحصالی طبقہ بینکاری، سٹاک ایکسچینج کے شعبہ میں سرمایہ کاری کر کے لوٹ مار مچاتا ہوا نظر آئیگا، یہی لوگ سمگلنگ اور ٹیکس چوری کرتے نظر آئیں گے، رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ان کے نرغے میں ہے اور پھر یہی آپ کو ہر جگہ ’’مظلوموں کی مدد‘‘ کرتے، بھوکے ننگے عوام کو دستر خوانوں پر کھانے کھلا کر مسیحا بنتے نظر آئیں گے۔ یہ بالادست طبقہ اپنی دولت کے زور پر جب چاہے اعلیٰ عدالتوں سے لے کر الیکشن تک، سب کچھ خرید سکتا ہے۔ بڑے بڑے ’’میگا پراجیکٹس‘‘ کے ٹھیکوں میں اربوں روپے یہی کماتے ہیں، بلیک مارکیٹ کے یہ ان داتاہیں، زندگی کے ہر شعبے، دولت، وسائل، معیشت، سیاست، کاروبار پر یہ قابض نظر آئیں گے۔ کارپوریٹ میڈیا کے نام نہاد دانشو روں کے ذریعے عوام کی ’’رائے عامہ‘‘ یہی ہموار کرتے ہیں۔ انتہا پسندی اور بنیاد پرستی انہی کے سرمائے پر پھلتی پھولتی ہے اور پھر ملکی سالمیت اور اس کی بقا کا نعرہ بھی یہی لگاتے ہیں۔ یہی طبقہ حکومتیں گراتا اور اپنے من پسند لوگوں کو حکومتیں دلاتا ہوا نظر آئیگا۔ یہ استحصالی جال عوام کی دولت اور وسائل پر قابض ہے، انہی کی لوٹ مار اور مظالم کے باعث عوام ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جرائم، دہشت گردی، بھوک، غربت، نا انصافی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری اور تمام معاشرتی اور معاشی لعنتیں تب تلک قائم رہیں گی جب تک یہ استحصالی ٹولہ ذرائع پیداوار اور وسائل پر قابض ہے۔
اس ملک کے کروڑوں محنت کش دن رات ایک کر کے بیش بہا دولت پیدا کرتے ہیں۔ مزدور اور کسان ہوں یا اساتذہ اور عام ڈاکٹر، فوج کے سپاہی ہوں یا کارپوریٹ میڈیا کے مالکان کے استحصال کا شکار ہونے والے صحافی اور رپورٹر، یا پھر سروسز کے شعبوں میں اپنی قوت محنت بیچنے والے لاکھوں ملازمین… سماج کا پہیہ مختلف شعبوں اور درجات پر کام کرنے والے یہ محنت کش ہی گھماتے ہیں، یہی وہ طبقہ ہے جو نظام زندگی کو چلا رہا ہے۔ اسی لئے یہی وہ طبقہ ہے جو اس سماج کو بدل سکتا ہے اور اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر استحصال اور ہوس سے پاک ایک نئے نظام کی بنیاد قائم کر سکتا ہے۔ اپنے تمام تر بنیادی مسائل کے حل کیلئے محنت کشوں اور محکوم و محروم طبقات کو یکجا ہو کر سرمایہ داری کے خلاف صف آرا ہونا ہو گا۔ انسانیت کی نجات تبھی ممکن ہے جب محنت کش طبقاتی لڑائی لڑتے ہوئے سامراج، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں اور ان کے آلہ کاروں کو شکست دیں اور اشتراکی حکمرانی کانظام نافذ کیاجائے، انفرادی کاروبار کی بجائے منصوبہ بند معیشت کا اجرا کیاجائے۔ سیاست آخری تجزئیے میں معیشت کا ہی عکس ہوتی ہے، اس نظام کی موجودگی میں نہ تو سیاست اور نہ ہی ریاست کو کاروبار اور سرمائے سے الگ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حقیقی جمہوریت قائم کی جاسکتی ہے۔ اس نظام میں مسائل مسلسل بڑھ ہی سکتے ہیں، زندگی میں کوئی آسودگی نہیں آ سکتی۔ زندگی کو سہل بنا کر انسانیت کو تخلیق اور تسخیر کائنات کی حقیقی منزل سے روشناس کروانے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے، سوشلزم کے تحت ہی تمام تر محنت، ذرائع پیداوار اور وسائل کو انسانوں کی اجتماعی ضروریات کے تحت بروئے کار لا کر بہتات پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے!