لیاری سے عیاری کا انجام

تحریر: لال خان

اتوار یکم جولائی کو بلاول بھٹو زرداری کی لینڈ کروزر اور دوسری بدشکل بھاری گاڑیوں پر مشتمل پیپلز پارٹی رہنماؤں کے قافلے پر آخر کار لیاری کے ستائے ہوئے نوجوانوں اور خواتین نے دھاوا بول ہی دیا۔ ابلتے گٹروں، غلاظت اور بدبو سے آلودہ اور شدید گرمی میں پانی کی پیاسی لیاری کے ایک مرکزی علاقے میں اِن دیوہیکل ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں کا یہ لشکر پہنچا تو پہلے خواتین نے پانی کے خالی گھڑے اور برتن دکھا کر احتجاج کیا۔ لیکن بند شیشوں میں بیٹھے بڑے بڑے لیڈروں کی گاڑیاں اس مقام کی طرف رواں دواں رہیں جہاں سٹیج سجایا گیا تھا اور سپیکروں والا ٹرک کھڑا تھا۔ ایسے میں لیاری کے عوام میں طویل عرصے کی ذلت، محرومی اور بالخصوص پانی و بجلی کی اذیت ناک قلت کے خلاف سلگتا غم و غصہ اس حد کو پار کر گیا جہاں نفرت بھڑک کر بغاوت بننے لگتی ہے۔ نوجوانوں نے پہلے بلاول کے خلاف شدید نعرہ بازی کی اور پھر یہ مجمع ان گاڑیوں کی طرف بڑھتے ہوئے پتھراؤ کرنے لگا۔ پولیس نے اِس جم غفیر کو پہلے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی۔ لیکن جب حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال شروع کر دیا گیا۔ جس سے کم از کم پانچ افراد زخمی ہوئے۔ لیکن لوگوں کا غیض و غضب اتنا شدید تھا کہ آخر کار بلاول کی گاڑی کو ریورس کر کے وہاں سے لے جایا گیا۔ باقی لیڈروں کی بھاری بھرکم گاڑیاں بھی دم دبا کے بھاگنے کا منظر پیش کر رہی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے آج کل کے سرخیل لیڈر سعید غنی نے اس واقعے کو ’’شر پسند عناصر‘‘ کی کاروائی قرار دیا ہے۔ ’’شر پسند عناصر‘‘ کا لفظ اس ملک میں سب سے پہلے ایوب خان نے 1967ء کی تحریک کے ابتدائی مراحل میں شریک محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے استعمال کیا تھا۔ سرکاری ذرائع ابلاغ پر اس اصطلاح کا بھرپور استعمال ہوا کرتا تھا۔ لیکن پھر یہی لاکھوں کروڑوں ’’شر پسند‘‘ ہی تھے جنہوں نے نہ صرف طاقتور ایوبی آمریت کو اکھاڑا بلکہ قدامت پرست گردانے جانے والے اِس ملک میں 1968-69ء میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ سوشلزم کی منزل ابھر کر چند قدم کے فاصلے پر نظر آنے لگی۔
لیاری کے کرتا دھرتا نبیل گبول کے مطابق یہ ’’بیس پچیس‘‘ لوگ تھے جو شریفوں نے اس کاروائی کے لئے بھیجے تھے۔ لیکن جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ بھلا ’’بیس پچیس‘‘ لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے بھی کبھی آنسو گیس کی شیلنگ ہوئی ہے؟ بلاول کے قافلے میں دو درجن سے زیادہ تو گاڑیاں ہی تھیں جن میں بالفرض ایک ایک آدمی بھی سوار ہو تو اِن ’’شر پسندوں‘‘ کی بتائی گئی تعداد سے زیادہ بنتے ہیں اور نیچے اتر کر انہیں باآسانی روک یا بھگا سکتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ لیاری کے کوڑے کرکٹ سے اٹی گلیوں میں جہاں اتنی بیروزگاری، بھوک، ننگ اور افلاس پلتی ہے، جہاں کے باسی بوند بوند پانی کو ترستے ہیں، جہاں شدید گرمی میں مسلسل لوڈ شیڈنگ نے اِن غریب باسیوں کو ٹارچر کر رکھا ہے اور جہاں ہر طرف بدبو اور تعفن پھیلا ہوا ہے وہاں ایسی بھاری بھرکم ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں کے سوار اپنی کھڑکیوں کے شیشے کھولنے سے گھبراتے ہیں۔ یہاں کی غلاظت اور ذلت میں ان کا دم گھٹتا ہے۔ لیکن جو ساری زندگی یہاں گزار دیتے ہیں، بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں داخل ہو جاتے ہیں انسان تو وہ بھی ہیں۔ بلکہ ان بڑی بڑی گاڑیوں کے سوار بدعنوان نودولتیوں اور امیر زادوں سے بہت بہتر انسان ہیں۔ لیکن 1968-69ء میں پیپلز پارٹی کی پیدائش اور ابھار کے دنوں سے دل و جان سے اس کی حمایت کرنے والے لیاری کے عوام کو پارٹی قیادت نے کبھی انسان نہیں سمجھا۔ ان انقلابی ایام میں کراچی اور ملک بھر کے غریبوں کے چندوں اور جدوجہد نے ہی پیپلز پارٹی کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت بنایا تھا۔ جس کا بھرپور اظہار 1970ء کے انتخابات میں بھی ہوا۔ لیکن جب 1972ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران کراچی کی بہت سی صنعتوں پر سے مزدوروں کا جمہوری کنٹرول ختم کروانے اور انقلابی اقدامات کا مطالبہ کرنے والے عوام کے دباؤ کو کچلنے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا، کورنگی اور سائیٹ جیسے علاقوں میں مزدوروں پر گولی چلی تو پیپلز پارٹی سے وابستہ امید اور حمایت ایک پسپائی کا شکار ہونے لگی۔ لیکن پھر بھی لیاری اور ملیر جیسے علاقوں کے عوام اپنی قیادت کی تمام تر بے وفائیوں کو برداشت کرتے رہے اور پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا۔ لیاری کو تو آج تک پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اسی گڑھ میں اب زرداری قیادت والی اِس پارٹی کے لئے بہت گڑ بڑ ہو رہی ہے۔ یہاں کے باسیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
1980ء کی دہائی میں جب ضیاالحق کی آمریت نے کراچی کے محنت کش عوام کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کے لئے مذہبی اور لسانی سیاست کا زہر سماج میں گھولنا شروع کیا تو اِن رجعتی تنظیموں نے جبر اور غنڈہ گردی کے ذریعے خود کو مسلط کیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ 1988ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد اس کی حمایت والے علاقوں میں سرکاری جبر کے ذریعے ویسا ہی انداز اپنایا گیا جو لسانی اور مذہبی فرقہ واریت کی تنظیموں کا خاصا تھا۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں مختلف پارٹیوں نے جو نیٹ ورک بنائے وہ صرف سیاسی تنظیموں نہیں بلکہ مسلح ونگز اور کالے دھن کے کاروباروں پر مبنی تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی یہی کچھ کیا جس سے بھتہ خوری اور بدمعاشی کے اس عمل میں لیاری ایک نہ ختم ہونے والی خونریزی اور گینگ وار کا شکار ہونے لگا۔ پیپلز پارٹی کے مختلف لیڈروں کی آشیرباد سے مختلف مافیا ڈان اپنے دھندے چلاتے رہے۔ ان میں سے کئی تو خود پیپلز پارٹی کے سیاسی لیڈر بن کے اسمبلیوں تک بھی پہنچ گئے۔ لیکن جیسا کہ جرم کی ایسی سیاست میں ہمیشہ ہوتا ہے کہ جب کوئی گینگسٹر سرکش ہو کر پورا مال اوپر نہیں دیتا تھا یا اپنا ریٹ بڑھانے کی کوشش کرتا تھا تو سرکاری اقتدار کے زور پر پارٹی قیادت اس کی جگہ کوئی دوسرا مہرہ ابھارتی جو بھتہ خوری اور دوسرے جرائم سے ٹھیک ٹھاک رقوم اوپر پہنچانے کے قابل ہوتا۔ ان میں سے اہم ترین مہرہ آج کل ریاستی تحویل میں ہے اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ہولناک جرائم کے دستاویزی ثبوت کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے ۔ مقتدر حلقوں کی اطاعت اور کاسہ لیسی میں پارٹی قیادت کے ہر حد تک جانے کی یہ ایک اہم وجہ ہے۔
پیپلز پارٹی سے لیاری کے عوام کی یاری اور وفاداری کو پارٹی قیادتوں نے بہت فریب دئیے ہیں اور ان کے پرخلوص جذبات اور قربانیوں کی تضحیک کی ہے۔ ساری غداریاں برداشت کر کے بھی وہ اپنی پارٹی سے وفادار رہے۔ لیکن آخر کار وہ بھی تو انسان ہیں۔ انہوں نے پارٹی کی سندھ حکومت کے دس سالوں میں تڑپ تڑپ کر انتظار کیا کہ شاید ان کے دکھوں کا کوئی مداوا کیا جائے گا۔ لیکن وہی بیگانگی اور بے وفائی ہی ملی۔ ایسے میں لیاری کے غریب باسی یہ سب نہ کرتے تو پھر کیا کرتے؟ پتھراؤ تو ہونا تھا۔ لیاری کو کربلا جیسی پیاس سے دوچار کرنے والے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی کوئی آواز تو بلند ہونی تھی۔ اتوار کو بس یہی ہوا۔
زرداری کی قیادت میں پارٹی مکمل طور پر حکمران طبقات اور ریاست کی جوڑ توڑ والی سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کاسہ لیسی سے انہیں اقتدار کے ایوانوں میں کچھ جگہ تو شایدمل جائے گی لیکن عوام کے دلوں میں ان کے لئے اب صرف نفرت ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر کہتے نہیں تھکتے کہ زرداری کو عدالتوں نے تمام جرائم سے بری کر دیا ہے۔ لیکن عوام کی عدالت میں وہ اب مجرم ہے۔ پارٹیوں کی حمایت عوام کے دلوں میں ہوتی ہے۔ مقتدر قوتوں سے تعلقات تو عارضی اور ناقابلِ اعتماد ہوتے ہیں۔ لیکن جب کالے دھن کے انبار لگانا ہی سیاست کا مقصد بن جائے تو اس دولت کے تحفظ کے لئے سرکاری حاکمیت درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ اقتدار کے لئے ہر ضمیرفروشی انہیں قبول ہے۔
لیکن اگر ان بدعنوان قیادتوں نے عوام سے ان کی پارٹی چھین لی ہے، انہیں سیاست سے ہی بے دخل کر دیا ہے تو پھر بھی وہ زندہ ہیں۔ زندگی سے ہار ماننے کی بجائے وہ اسے پوری طرح سے جینے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اس جیون کے لئے انہیں اپنی پارٹی، اپنا انقلاب اور اپنا اقتدار درکار ہے۔