لودھراں: ریلوے بیوروکریسی کی بدترین بد عنوانی

[رپورٹ: جلیل منگلا]
لودھراں میں ریلوے کے ملازمین جہاں انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور آئے دن انہیں نجکاری کے نام پر نوکریوں سے برطرف کرنے کا خوف دلایا جاتا ہے وہاں افسران بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہیں اور عوام کے ٹیکسوں سے بنے ادارے کو تاراج کر رہے ہیں۔
ان افسران نے لودھراں ریلوے کا 550 ایکڑ رقبہ دریا برد ظاہر کر کے کروڑوں روپے خرد برد کر لئے ہیں۔ اہم ذرائع کے مطا بق صرف موضع آدام واہن میں 550 ایکڑریلوے کے موجود ہیں جنہیں AEN مقصود لاڑک اور AIOW وقاص نے ریلوے کی قیمتی زمین پر قابض لو گوں کے ساتھ ساز باز کر کے تمام رقبے کو دریا برد ظاہر کردیا جس کی وجہ سے کئی سال کی لیز کی رقم بھی ڈیڈ قرار دے دی گئی جبکہ تقریباً تمام رقبہ اب بھی زیر کاشت ہے جس پر درج ذیل لوگ قابض ہیں اور ریلوے کے لاکھوں روپے ڈکار رہے ہیں۔
*عبیدالر حمان خالد۔ جو کئی سال سے رقبہ پر قابض ہے، لیزکاوقت بھی گزرے عرصہ ہو گیا ہے لاکھوں کے نادہندہ ہیں
*اللہ دتہ چنڑ بھی نادہندہ ہے اور کئی سال سے لیز ختم ہو چکی ہے
*گلزار احمد چنڑ کی لیز بھی ختم ہو چکی ہے، قبضہ برقرار ہے، نادہندہ ہیں
*ربنواز پہوڑ ریلوے کا نادہندہ ہے، لیز ختم ہو چکی لیکن قبضہ برقرار ہے
*رانا انور، اس کی بھی لیز ختم ہو چکی پینتیس ہزار ایکڑ والا رقبہ صرف چند سو روپے فی ایکڑ کے حساب سے دیا گیا جس کو اس نے آگے کسی اور کو چالیس ہزار فی ایکڑ کے حساب سے دے رکھی ہے
*محمد اشرف جو کہ سرکاری ملازم ہے، گیارہ ایکڑ پر قابض رہا، عدالت کے ذریعے رقبہ خالی کرایا گیا اور یہ شخص 1210000 کا نادہندہ ہے جس کیلئے عدالت نے رقم وصو لی کیلئے عدالت سے رابطہ کر نے کا کہا مگر AEN اور AIOW نے رقم لے کر کیس دبایا ہوا ہے
* شاہ نواز، لیز ختم ہو چکی ہے، لیز سے بھی زیادہ رقبہ پر قا بض ہے اور واپڈا سے ملی بھگت کرکے ریلوے کے رقبہ غیر قانو نی ٹیوب ویل لگا لیا
*محمد علی راجپر،چھمب موڑ پر کروڑوں روپے کی کمرشل زمین پرAEN اور AIOW کو بھاری رقم دے کر قبضہ کیا ہوا ہے
*محمد اسلم، بوٹس مین جو کہ قومی خزانے سے تنخواہ لیتا ہے اور ان افسران کیلئے غنڈہ گردی کا کام کرتا ہے اور ریلوے کی بیس ایکڑ سے زیادہ رقبہ پر کئی سالوں سے قابض ہے جس کی لیز کی رقم کروڑوں میں بنتی ہے۔

ان تمام اشخاص کے تسلط میں ریلوے کی انتہا ئی قیمتی تقریبا 550 ایکڑ ہے جس کی مالیت ایک ارب کے قریب ہے۔ اس سے پہلے بھی کمرشل زمین کوڑیوں کے بھاؤ یہ دونوں افسر بیچ چکے ہیں جس کی آئی جی ریلوے نے پو لیس کو انکوائری کا حکم دیاتھا۔ ایس پی ریلوے نے ڈی ایس پی کوانکوائری آفیسر مقرر کیا دوران انکوئری انکشافات ہوئے کہ 2010ء میں حکومت نے سرکاری زمین پر آباد کچی آبادی کا صوبائی ریونیو اور ریلوے ملازمین پر مشتمل کمیٹیوں سے پورے پا کستان میں سروے کرایا گیا اور AEN نے زیادہ سے زیادہ ریلوے کو لوٹنے کیلئے اپنے ساتھی ہارون وقاص کا علاقہ خان پور تک وسیع کر دیا،اس کے لبرا سی این جی کے ساتھ لبرا ریسٹورنٹ کے مالکان کو دس لاکھ فی مر لہ والا رقبہ چند لاکھ لیکر ناجائز قبضہ کرایا گیا۔ اسی طرح ٹول پلازہ کے ساتھ مبینہ طور الماس گیسو لین کو بھی دس لاکھ مرلہ والا رقبہ کوڑیوں کے بھاؤ اور ٹوٹل پیٹرول پمپ اور اس کے ساتھ نرسری پر بھی کوڑیوں کے بھاؤ قبضہ کرایا گیا۔ اسی طرح خان پور سے میلسی تک کرپشن ہی کرپشن ہے۔ اپنی تجوریاں بھر نے کیلئے بیوروکریسی ریلوے کی قیمتی پراپرٹی کو گدھوں کی طرح نوچ رہی ہے۔
ریلوے کے خسارے کا شور مچا کے نجکاری کی باتیں کرنے والے حکمران خود ان افسران سے مل کر اس تمام کرپشن میں ملوث ہیں اور عوام سے سفر کی سستی اور آرام دہ سہولت چھیننے کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد کے منہ سے روٹی کا نوالا بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ ریلوے کے محنت کش ان مزدور دشمن عناصر کے خلاف متحد ہو کر نہ صرف ریلوے کی نجکاری کے خلاف جدوجہد کا آغاز کریں گے بلکہ ظلم اور استحصال پر مبنی اس پورے نظام کا خاتمہ کریں گے۔