[تحریر: جلیل منگلا]
’’کسانوں اور مزدوروں کے مسائل ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہو ئے ہیں، اب اپنے مسائل ہمیں خود ہی حل کر نے ہیں‘‘، ان خیالات کا اظہار کسان اتحاد کے رہنماؤں چوہدری نورالحسن گجر اور شیخ دلدار حسین نے کسان اتحاد کے ضلعی عہدیداروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں نائب صدر حاجی ارشاد گھلو، جنرل سیکرٹری حامد شیخ، سیکرٹری انفامیشن جلیل الرحمان منگلا، تحصیل صدر لودھراں عبدالکریم گھلو، سینئر نائب صدر جام مختیار احمد رہوجہ، جنرل سیکرٹری میاں عمیر جبلہ، جوائنٹ سیکرٹری سرور حسین شاہ، سیکرٹری فنانس راؤ محمد یو سف، سٹی صدر خواجہ محمد اکبر نے شرکت کی۔ ضلعی عہدیداروں سے خطاب کرتے ہو ئے دلدار حسین، چوہدری نورالحسن گجر اور دیگر مقررین نے کہاکہ کسانوں کے استحصال کا اندازہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطا بق کسانوں میں غربت کی زندگی گزارنے والوں کی تعداد پچا نوے فیصد ہے، ان کی اکثریت جھگیوں اور کچے گھروں میں رہتی ہے جہاں علاج اور پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ان کے اسی فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں، پچپن فیصد گاؤں بجلی سے محروم ہیں اور کاشتکاری میں مسلسل نقصانات کے باعث اناسی لاکھ خاندان دیہات چھوڑ کر شہروں میں مزدوری کی تلاش میں چلے گئے ہیں۔ کھاد، بیج، تیل، سپرے اور بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1972ء کی کمیشن رپورٹ کے مطا بق ملک میں صرف 600 جاگیرداروں کے پاس 71 لاکھ ایکڑ زمین ہے، فوجی جاگیرداروں کی کروڑوں ایکڑ زمینیں اس کے علاوہ ہیں، جبکہ محنت کرنے والے 75 فیصد کسان بے زمین ہیں۔ 1996ء کی زرعی رپورٹ کے مطا بق پا نی کی عدم دستیابی کی وجہ سے زرخیز زمین کا بڑا حصہ کاشت ہی نہیں ہو رہا، آبپاشی کا نظام ایک صدی پرانا ہے جو صرف دس لاکھ ایکڑ زمین کی آبپاشی کیلئے بنایا گیا تھا، ماضی میں بننے والے منگلا اور تربیلا ڈیم مٹی سے بھر چکے ہیں اور اس میں دن بدن پا نی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہو رہی ہے، ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو نے والے پا نی سے چار کروڑ ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ 2000ء کی زرعی رپورٹ کے مطا بق نہروں سے آبپاشی کا خرچہ ٹیوب ویل کی نسبت چھ گنا کم ہے، نااہل حکمران طبقے نے اس ملک کے ہر شعبے کی طرح زراعت کو بھی برباد کر دیا ہے۔ مقررین نے کہا کہ مزدور اور کسان کی خوشحالی کا واحد راستہ یہ ہے کہ تمام ذرائع پیداوار اور زرعی زمینوں کو قو می تحویل میں لے کر جاگیر داری اور سرمایہ داری کا یکسر خاتمہ کیا جائے اور جدید خطوط پر اشتراکی کا شتکاری کو فروغ دیا جائے۔