’’منافع کمانے کی بجائے ضروریات پوری کرنے کی غرض سے بجلی پیدا کی جائے تو تین ماہ کے دوران توانائی کا بحران حل ہوسکتا ہے‘‘
تحریر:جاوید ملک:-
سماجی ترقی کے دھارے میں یورپ کی نسبت تاخیر سے داخل ہونے والے پاکستان کی اشرافیہ ریاست کو اپنے مجرد پن کے باعث ایک فلاحی ملک تو نہ بنا سکی تاہم ابتدا سے ہی یہ اشرافیہ دیگر طاقت ور دھڑوں کی آلہ کار بن کر دوسرے درجے کی حکمرانی کرنے لگی۔ تاریخی تناظر میں دیکھاجائے تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اسٹیبلشمنٹ امریکہ اور دوسرے سامراجی اداروں کی جی حضوری کی کوششوں میں ہمیشہ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ 1968-69ء کی وہ انقلابی تحریک پاکستان کے محنت کش طبقے کی یادوں کا سنہری باب ہے جس نے ریاست کو ہوا میں معلق کر دیا تھا مگر ایک سو ترتالیس دن تک ایک طبقاتی انقلاب کے مواقع میسر ہونے کے باوجود ایک انقلابی پارٹی کے فقدان کی وجہ سے وہ انقلاب کبھی اپنی منزل نہ پاسکا اور بالآخر بائیں بازو کی مرحلہ وار انقلاب کی فرسودہ سٹالنسٹ تھیوری کی وجہ سے یہ پوری تحریک پیپلز پارٹی کی شکل میں جا ڈھلی جس کی لیڈر شپ نے تحریک کے دباؤ پر بہت سی اصلاحات تو کیں مگر انقلاب کے راستے میں سب سے بڑی دیوار بن کر کھڑی رہی۔ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں لکھی جانے والی اپنی آخری تصنیف میں بالاخر یہ اعتراف کر لیا تھا کہ دنیا کے اندر امیر اور غریب کے درمیان کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور وقت آنے پر ایک دوسرے کو کنٹرول کرنے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی اس پارٹی کا موازنہ آج کی پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا جائے تو دونوں ایک دوسرے کی ضد نظر آتی ہیں۔ بھٹو نے اداروں کو قومی ملکیت میں لیا اور بھٹو حکومت کے وزیر ڈاکٹر مبشر حسن وہ واحد وزیر خزانہ تھے جنہوں نے 1973-74ء کے بجٹ کے دوران 42.4 فیصد رقم تعلیم اور صحت کے لیے وقف کی۔ تاریخ کا جبر ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن سے پہلے یا ان کے بعد آج تک کوئی ایسا وزیر خزانہ نہیں آسکا جسے امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی آشیر با د حاصل نہ ہو یا اس کی ان اداروں سے نامزدگی نہ ہوئی ہو۔ اسی سرمایہ دارانہ نظام اور پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان جو اپنے کل قرض کا کئی گنا ادا کر چکا ہے ستر ارب ڈالر کے بیرونی قرضے کی حیثیت کو چھونے جارہا ہے اور اس وقت پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ستر ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے اندر کوئی بھی ایسا مالیاتی اشاریہ نہیں ہے جو ترقی کی غمازی کرتا ہو۔ منہدم ہوتی معیشت اور تباہ ہوتی ریاست میں بیرونی سرمایہ کاری کی غرض سے آنے والا ہر ڈالر اپنے ساتھ پچیس ڈالر واپس لے کر جاتا ہے اس کا معمولی سا اندازہ اس امر سے لگا یا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے اندر بجلی کی پیداوار کے لیے لگائی جانے والی آئی پی پیز نے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور گزشتہ پندرہ سال کے دوران آئی پی پیز منافع کی مد میں پنتالیس ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کر چکی ہیں حالانکہ آئی پی پیز کی تنصیب سے پہلے واپڈا ایک منافع بخش ادارہ تھا تاہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دباؤ پر ڈاؤن سائزینگ رائٹ سائزنگ جیسی پالیسیوں کے تحت ڈیڑھ لاکھ محنت کشوں کو اس ادارے سے نکالا گیا ناقص پالیسیوں اور اصلاحات کے نام پر بجلی کے نرخوں میں اس قدر اضافہ کیا گیا کہ دو ہزار آٹھ میں روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت آج اٹھتیس ارب روپے کی بجائے اپنے صارفین سے دو سوچالیس ارب روپے وصول کر رہی ہے مگر اس کے باوجود بجلی کا شارٹ فال ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے نتیجے میں ہی واپڈا کو بجلی کا فی یونٹ جو ایک روپے بیس پیسے میں تیار ہوتا تھا آٹھ روپے سے لے کر سو روپے تک جاپہنچا۔
بجلی کے بحران کو سنجیدگی سے دیکھا جائے تو درحقیقت واپڈا کی تباہی میں عالمی مالیاتی اداروں اور افسر شاہی کے ساتھ ساتھ کمیشنیں کمانے والے حکمران طبقے کا بنیادی ہاتھ ہے۔ اے ایم آر کے مطابق پاکستان کے اندر اس وقت سترہ ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کا حکمران طبقہ اگر کمیشنوں اور منافعوں کی بجائے عوام کو بجلی سپلائی کرنے میں سنجیدہ ہو تو پاکستان کے اندر بیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔گزشتہ دنوں بدین کے علاقہ سے ڈیڑھ ارب ٹن کوئلے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر پاکستان جو دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھتا ہے پانی، کوئلہ، شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنا شروع کر دے تو پھر اس بڑی لوٹ مار میں ار بوں روپے کما کر بیرونی ملکوں کے بنکوں میں لے جانے والوں کے منافعے کم ہوجاتے ہیں اور حکمران طبقہ لوڈشیڈنگ تو برداشت کر سکتا ہے کیونکہ ا س کا نقصان محنت کش یا درمیانے طبقے کو ہوتا ہے مگر وہ اپنے منافعوں کو کبھی کم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
آئی ایم ایف نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اگر اپنا رول صحیح طریقے سے ادا کرتے تو پاکستان کے اندر توانائی کا بحران کبھی پیدا نہیں ہوسکتا تھا اور اب بھی اگر یہاں کے اشرافیہ چاہے تو اس بحران پر تین ماہ میں قابو پایا جاسکتا ہے۔آئی ایم ایف کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستانی معیشت تباہی سے دو چار ہے بجلی کے نرخوں میں اضافے سے بلاشبہ پاکستان کی معیشت سی سی یو میں پڑے مریض جیسی ہے۔ صنعتیں بند ہورہی ہیں، چار کروڑ سے زائد لوگ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے معاشی بدحالی کا شکار ہیں تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف بھی یہ قرار دیتا ہے کہ پاکستان کے اندر واپڈا کو خسارے سے نکالنے کے لیے پاکستان کو اس کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا جس کا مطلب مزید مہنگائی مزید بیروزگاری مزید بدحالی ہوگا۔روٹی کپڑا اور مکان دینے کی دعوے دار حکمران جماعت نے لوگوں کے لیے بجلی صاف پانی صحت اور تعلیم کو بھی ایک ایسی عیاشی بنا دیا ہے جو اب صرف خواص کو میسر ہے تاہم محنت کش طبقہ جو کتابوں کی بجائے اپنے تجربات سے سیکھتا ہے دنیا میں چلنے والی تبدیلی کی تحریکوں سے بہت کچھ سیکھ رہا ہے جس کا اظہار کسی بھی موسم کسی بھی وقت اور کسی بھی علاقے سے ہوسکتا ہے۔1968-69ء کے ادھورے رہ جانے والے انقلاب کی سنہری یادیں آج بھی محنت کش طبقے کے شعور کا حصہ ہیں اور یہ طبقہ جب بھی تحریک کے میدان میں اترا توناصرف 1968-69ء سے بڑا انقلاب کرے گا بلکہ اس بار یہ انقلاب ادھورا نہیں رہے گا کیونکہ آج انسانوں کے سامنے صرف روٹی کپڑا اور مکان کا سوال نہیں ہے ان کی آنے والی نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔
متعلقہ: