مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے اسباق

| تحریر: قمرالزماں خاں |

ریاستی حملے میں ہلاکت سے چند گھنٹے قبل یوسف گوٹھ کراچی میں پارٹی کارکنان سے آخری بار خطاب کر رہے ہیں

18 ستمبر 1996ء کو کراچی میں دو ہلکے درجے کے بم دھماکے ہوئے جس میں معمولی سا جانی ومالی نقصان ہوا۔ اسی دن کراچی میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔ یہ ایک خونی ڈرامے کی تیاری کا حصہ تھاجس کا سکرپٹ ریاست کی انتہائی طاقتور اور بے لگام ایجنسیوں نے لکھا تھا، ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی اور حساس اداروں کی زیر نگرانی اس سکرپٹ کے مطابق اگلے دن خون کی ہولی کھیلی جانی تھی۔ 19 ستمبر کی رات ضلع سرجانی ٹاؤن میں پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے چیئرمین 42 سالہ مرتضیٰ بھٹو نے اپنے ایک جلسے میں بہت ہی جوشیلی تقریر کی اور ریاستی اداروں کو چیلنج کیا کہ وہ ان کو بغیر وارنٹ کے گرفتار نہیں کرسکتے۔ مرتضیٰ بھٹو پچھلے کئی دنوں سے اپنے قریبی ساتھیوں کی پولیس حراست، تشدد اور شہید بھٹو پارٹی پر الزامات سے خاصے خفا تھے اور بار بار ریاست اور اسکے اداروں کو للکار رہے تھے۔ انکے بہت سے ساتھیوں بالخصوص علی سنارہ پر دہشت گردی اور غیر ملکی امداد کے الزامات لگا کر انکی تشہیر کی جارہی تھی، انہی الزامات کی آڑ میں گرفتاریاں اور تشدد کیا جارہا تھا۔ یہ اس دور میں کیا جارہا تھا جب مملکت خداداد کی وزارت عظمیٰ پر میر مرتضیٰ بھٹو کی سگی بہن بے نظیر بھٹوفائز تھیں اور سندھ میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور سید عبداللہ شاہ وزیر اعلیٰ سندھ تھے۔ 19 ستمبر1996ء کومیر مرتضیٰ بھٹو کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کراچی کے بالکل قریب اور ڈی آئی جی کراچی شعیب سڈل کے بنگلے کے سامنے سپیڈ بریکر پر پولیس اور رینجر نے تین گاڑیوں پر مشتمل مرتضی بھٹو کے قافلے کو روکا۔ مرتضیٰ بھٹو اپنی گاڑی سے نکلے اور ایک آفیسر سے بات کررہے تھے کہ طے شدہ منصوبے کے مطابق ان پر فائرنگ شروع کردی گئی، گولیاں مرتضیٰ کی گردن، چھاتی اور پیٹ میں لگیں اور وہ زمین پر گرگئے۔ اسی دوران انکی جیپ کے پچھلے حصے پر بھی فائرنگ ہوتی رہی جو کہ تیس منٹ سے زائد جاری رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند میر مرتضیٰ بھٹو اور انکے چھ ساتھی عاشق جتوئی، رحمان بروہی، سجادحیدر، عبدالستارراجپر، یارمحمد بلوچ اوروجاہت جوکھیو بھی اس جان لیوا حملے میں زندگی کی بازی ہارگئے۔
میر مرتضی بھٹو کی ریاست کے ہاتھوں ہلاکت، دوغلط انتہاؤں کے منفی نتائج کا کھلا اظہار ہے۔ ایک انتہا، محنت کش طبقے کے ساتھ کے بغیر اور مسلح جدوجہد کے ذریعے سرمایہ دارانہ ریاست اور اسکے سفاک اداروں کو شکست دینے کا عزم اور انفرادی دہشت گردی کی ہے، جس کا انتخاب شعوری یا لاشعوری طور پر میر مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے اپنے والد اور پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے فوج کے ہاتھوں قتل کے بعد کیا تھا۔ دوسری انتہا، مفاہمت کی سیاست، جس کی پھر انتہاؤں کو اپنا لینے، پارٹی کے بنیادی منشور، نظریات اور مقاصد کو خیر باد کہنے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو ریاست کا دل نہیں جیت سکیں اور اپنے دونوں بھائیوں کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے بعد خود اسی خونخوار ریاستی اداروں کا شکار بن گئیں۔
مارکسی اساتذہ نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ کسی سرمایہ دار ریاست سے زیادہ دہشت گرد طاقت کوئی نہیں ہوتی، اس لئے اس کو شکست مزدوروں اور کسانوں کی سیاسی اور نظریاتی جدوجہد کے ذریعے دی جاسکتی ہے، سماج میں انقلابی نظریات پہنچائے بغیر کسی قسم کی انفرادی مسلح جدوجہد، چھاپہ مارلڑائی یا مہم جوئی سے ریاستی دہشت گردی کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ ایک مسلح حملہ، ریاست کو سینکڑوں حملوں کا جواز فراہم کرتا ہے۔ مسلح حملے یا ان کا تاثر، فیصلہ کن نتائج حاصل کرلینے والی سیاسی جدوجہد کو بے پناہ مسائل اور شکست وریخت کا شکار بناسکتی ہے۔ پاکستان میں جنرل ضیا ء الحق کے سیاہ اور خونی دور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر بائیں بازو کے کارکنان نے بے مثال دلیری، جرأ ت اور عزم سے سالہا سال مسلح جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کا محور اور مرکز میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی سربراہی میں چلنے والی ’’الذوالفقار‘‘ نامی تنظیم تھی۔ چونکہ اس تنظیم کے قائم ہونے کے سالوں میں بھٹو برادران کے دائیں بائیں مختلف نظریات اور سیاسی بیک گراؤنڈ رکھنے والے خواتین و حضرات تھے، جنکے نظریات کی وضاحت کہیں اور نہیں بلکہ پاکستان میں ہونے والے چند ایک حملوں سے ہوتی ہے جس میں ریاست اور فوجی حکمرانوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ اس کے جواب میں فوجی جنتا نے پاکستان کے محنت کشوں اور سیاسی کارکنان کے خون سے ہولی کھیلنے سے اجتناب نہیں کیا۔ سیاسی کارکنان سے پاکستان بھر کی جیلیں بھر دی گئیں، شاہی قلعے میں ظلم وستم کی داستانیں رقم کی گئیں اور پورے ملک میں دہشت کی فضا طاری کردی گئی۔

الذوالفقار کا سلام اللہ ٹیپو اغوا شدہ تیارے کے کاک پٹ میں سے ہتھیار لہرا رہا ہے

ایم آر ڈی کی تحریک جس کی (بطورخاص سندھ میں) شدت نے فوجی جنتا کے پاؤں اکھاڑ دیے تھے، حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق اور اسکے قریبی جرنیلوں نے اپنے اہل خانہ کو دبئی منتقل کر دیا تھااور تاثر تھا کہ اب اس ملک میں فوجی آمریت کو اکھاڑا جاسکتا ہے۔ مگر مارچ 1981ء میں کراچی سے پشاور جانے والے پی آئی اے کے طیارے کو اغوا کرکے کابل لے جایا گیا، جس کی ذمہ داری الذوالفقار نے اپنے ذمہ لے لی تھی۔ اس واقعے نے ایم آرڈی کی تحریک کا عملاََ دم نکال کر رکھ دیا تھا۔ تیرہ دن کی اس اغوا کی کاروائی کے دوران ایک فوجی آفسر کے مارے جانے پر فوج بہت برہم ہوئی، (بعد ازاں ایک فوجی عدالت نے مرتضیٰ کو موت کی سزا سنادی تھی) ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال اس طیارے کے اغوا کی خبر کے بعد بغیر خود بخود ختم ہوگئی اور پورے ملک میں ریاستی جبر کے ایک نئے اور خوفناک دور نے جنم لیا جسکے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور سینکڑوں کارکنان کو عقوبت کدوں میں دھکیل دیا گیا۔ الذوالفقار کاجنم جس غصے اور انتقام کے جذبے سے ہوا تھا وہ اسکو ایک مکمل سیاسی، نظریاتی اور مارکسی پروگرام سے ہمکنارنہیں کرسکتا تھا۔ ریاستی جبر اور انتقامی کاروائیوں کی نہ ختم ہونے والی لہروں نے نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو اپنی لپیٹ میں لے کر ان سے حال اور مستقبل چھین لیا اور یہ تحریک بغیر کسی اعلان کے اپنے اختتام کی طرف بڑھ گئی۔
ایک لمبے سیاسی تعطل کے بعد مرتضیٰ بھٹو کی پاکستان میں دوبارہ آمد 1993ء میں ہوئی جب پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت قائم تھی۔ اپنی گرفتاری، رہائی، الیکشن اور سیاسی جدوجہد کے دوران مرتضیٰ بھٹو نظریاتی تذبذب کا شکاررہے۔ ایک طرف ریاست ان سے انتقام لینے کے درپے تھی تو دوسری طرف ایک علیحدہ پارٹی کے غلط فیصلے نے ان کو ایک بڑے سیاسی رجحان سے کاٹ کر ایک علیحدہ گروپ میں رہنے پر مجبور کردیا۔ پیپلز پارٹی کے کارکن مرتضیٰ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پیپلز پارٹی کا کارکن مرتضیٰ سے محبت کرتا تھا مگر پارٹی کے دوحصوں کی تقسیم نے کارکن کو بہت دکھی کیا۔ وہ نہ اپنے مرکزی سیاسی رجحان سے علیحدہ ہوسکتا تھا جہاں اس نے بہت قربانیاں دیں تھیں اور طویل سیاسی جدوجہد کی تھی اور نہ ہی مرتضیٰ بھٹو کی پارٹی کو ایک مدمقابل اور مخالف پارٹی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار تھا۔ دوسری طرف مرتضیٰ بھٹو پیپلز پارٹی کے بنیادی اور تاسیسی پروگرام (جس کو بے نظیر بھٹو ترک کرچکی تھیں) کو شہید بھٹو پارٹی کا پروگرام قراردینے کے باوجود غیر متذبذب رویہ اور انداز سیاست اختیار نہیں کرسکے۔ ایک طرف وہ اپنے ماضی کی مسلح جدوجہد اور جارحانہ رویے کو سیاسی زندگی سے نہیں نکال سکے، دوسری طرف بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر جس قسم کے الزامات لگاتے رہے اس سے کئی درجہ زیادہ مفادپرستی کے شکار اور ضیاء الحق کے وزیر رہنے والے سیاسی نوسر بازوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پارٹی کی مرکزی قیادت میں آنے سے نہیں روک سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی پروگرام پر عمل درآمد کسی سرمایہ دارانہ پارلیمانی نظام کا حصہ بن کر یا اقتدار حاصل کرکے نہیں کیا جاسکتا، اس نقطے پر بھی وہ واضح پوزیشن اختیا رنہ کرسکے، وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ 1967-68ء کی طاقت اور پارٹی کا بننے کے چند مہینوں بعد ہی ایک وسیع سیاسی قوت کی شکل اختیار کرلینے کی حقیقی وجہ سرمایہ دارانہ ریاست یا اسکے اداروں کی حاکمیت تسلیم کرنے کی بجائے ان سے بغاوت اور سوشلسٹ انقلاب کے راستے پر چلنے کا عندیہ تھا۔ اس راستے سے انحراف کا نتیجہ ’’تحریک نظام مصطفی‘‘، فوجی بغاوت، محنت کش طبقے کا پارٹی سے عملاً لاتعلق ہوجانا اور پارٹی چیئرمین کا جزوی اقدامات کے ردعمل میں ریاست کے ہاتھوں قتل ہوجانا تھا۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے طبقاتی کردار، منتقم مزاجی اور ہلاکت خیزی کے حقیقی کردار سے چشم پوشی کرنے سے نقصان کے نتائج کے علاوہ کچھ نہیں برآمد ہوسکتا۔ مسلح افراد کے جتھوں پر مبنی سرمایہ دارانہ ریاست نہ صرف اپنے نظام اور حکمران طبقے کا تحفظ کرتی ہے بلکہ اسکے خلاف متذبذب اور ادھوری جدوجہد کرنے والوں پر کبھی ترس نہیں کھاتی۔ یہ اقرار تو خود بھٹو صاحب نے کیا تھا کہ اسکے خلاف ریاست، حکمران اور فوجی جنتا اس لئے لڑنے پر اتر آئی ہے کہ اس نے پوری بغاوت (انقلاب) کی بجائے متحارب طبقوں کے مابین ’’آبرومندانہ‘‘ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی۔
اس مفاہمت نے پہلے بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو سے انتقام لیا، دوسری طرف انتہاپسندی اور ادھورے نظریاتی عمل نے شاہ نواز اور میر مرتضیٰ بھٹو کی جان لے لی۔ یہ تاریخ کے اسباق ہیں، ماتم کے لئے نہیں، سیکھنے اور درست نتائج اخذ کرتے ہوئے جدوجہد کا راستہ متعین کرنے کے لئے۔ مرتضیٰ بھٹو کی دلیری، دیانت داری، سچائی اور جان سے گزر جانے کے سچے عزم کے باوجود نظریات، لائحہ عمل اور محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں تک رسائی نہ پانے کے خوفناک مضمرات، نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے محنت کش عوام، انقلابیوں اور سیاسی کارکنان کے لئے تاریخ کا سبق ہیں۔

متعلقہ:

اداریہ جدوجہد: مرتضیٰ بھٹو کا لہو کب دُھلے گا؟

مرتضیٰ بھٹو کی اصل جدوجہد کیا تھی؟

مارکسسٹ انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟

دھرنے، پیپلزپارٹی اور مفاہمت کی سیاست