تحریر: قمرالزماں خاں
آج سے اڑتیس سال پہلے 4 اپریل 1979ء کی صبح پاکستان کے حکمران طبقے نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دیکر جس خونی کھیل کا آغاز کیا تھا وہ اب تک جاری ہے، اگرچہ اسکی شکل، ہیئت اور اندازمسلسل بدلتا رہا ہے۔ بھٹو کی پھانسی پر عظیم شاعر احمد فرازنے کہا تھا کہ ’’امید کے دئیے کو بجھادیا گیاہے۔‘‘ ایسا کہنا کم از کم اس وقت کسی طور بھی مبالغہ آرائی نہ تھا۔ اگرپاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ تین اقتدار، قیادتوں کی غداریوں، عوام سے بے وفائی اور نظریاتی جرائم سے ذرا دور ہٹ کر 2017ء کی بجائے 1979ء میں جاکر ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے عمل کو محسوس کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک فرد کی بجائے پاکستان کے 12 کروڑ عوام کو سولی پر لٹکا دیا گیا ہو۔ اپنی نظریاتی، سیاسی غلطیوں اور پارٹی کی بنیاد سے انحراف کے باوجود اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ہی تھی جو مظلوموں، محکوموں، غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی امیدوں کا محور، خواہشات کی تکمیل کا سہارا اور پچھڑے ہوئے طبقات کی نجات کا استعارہ تھی۔ اسکی وجوہات ماضی قریب میں موجود تھیں۔
ہندوستان کے خونی بٹوارے کے بعد اگلے بیس سال تک پاکستان کے عوام کوہر قسم کے حقوق سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ انکا شدید مالی استحصال کیا جارہا تھا۔ 1958ء تک خونخوار بیوروکریسی کاراج تھا، جس نے سامراجی اطاعت گزاری کے تحت سابقہ کالونیل نظام کو ہی چلانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ پھرایک فوجی نے اقتدار براہ راست سنبھال کر پہلے سے ہی سہمے، دبکے اور خوفزدہ لوگوں کا جینا تک اجیرن کردیا۔ اس حکومت کے تحت ایک طرف امریکی سامراج کے مفادات کواولیت دی گئی تو دوسری طرف سرمایہ داری کو تمام تر ریاستی مراعات اور تحفظ فراہم کرکے محنت کش طبقے کی اجرتی غلامی اور گہری کردی گئی۔ یہ دور پاکستانی اشرافیہ کیلئے سنہری مگر محنت کش طبقے، نوجوانوں، مظلوم قوموں اور استحصال زدہ طبقات کیلئے بدترین ثابت ہوا۔ ایوب آمریت اپنے اقتداراور اختیارات کے نشے میں دھت اپنی حکمرانی کے دس سالوں کے جشن کو ’’جشن خوشحالی‘‘ قراردیکر بدمست ہوچکی تھی۔ اسی اثنا میں غریب اور امیر کے مابین فرق اتنا اجاگر ہوچکاتھاکہ ہر طرف مراعات یافتہ 22 خاندانوں کی دولت کے چرچے تھے۔ پاکستان میں پھیلتی ہوئی سرمایہ داری کے یہ نئے نئے دن تھے، نوخیز مزدوراپنی تازہ دم صفت کے ساتھ منڈی کی معیشت میں لٹ کر برباد ہونے کی طرف گامزن تھا۔ پھرایک چھوٹے سے واقعہ پر سماج ایسے ہی پھٹ پڑا جیسے 17 دسمبر2010ء کو تیونس بے روزگار گریجویٹ محمد بوالعزیزی پر بلدیہ اہلکاروں کے تشدد اور رہڑی لگانے کی اجازت نہ ملنے کی صورت میں خود سوزی پر اچانک سماجی بغاوت ابل پڑی تھی۔ 7 نومبر 1968ء کو پولی ٹیکنکل کالج پنڈی کے طالب علم عبدالحمید کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت بھی ایوب آمریت کے خاتمے تک ایک ایسی عظیم الشان تحریک کی شکل میں ڈھل گئی، جو طلبہ سے شروع ہوکر مزدوروں میں پھیلتی گئی۔ اس تحریک کا مرکز ایک سال پہلے بننے والی نوخیزپاکستان پیپلز پارٹی تھی۔ 30 نومبراوریکم دسمبر 1967ء کو بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی معاشی اورسماجی استحصال کے خاتمے کا پروگرام، جو اسکی اپنے دستاویزات کے مطابق صرف سوشلزم کے نفاذ سے ہی ممکن تھا، لیکر معرض وجود میں آئی تھی۔ سرمایہ داری اور جاگیر داری کے خاتمے اور ہرقسم کے پیداواری ذرائع کو قومی ملکیت میں لیکر تمام دولت کو عوامی دھارے میں پھیلانے، تعلیم، صحت کی مفت فراہمی اور روزگار کو یقینی بنانے کے عزم کا تحریری اظہار کرنے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ایک وسیع عوامی حمایت حاصل کرنے کی وجوہات موجود تھیں۔ 7 نومبر 1968ء کی طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کی تحریک نے پیپلز پارٹی کو نہ صرف انقلابی تحریک کی قیادت سونپ دی بلکہ اس ملک کی قسمت کافیصلہ کرنے کا اختیاربھی دے دیا۔ اس تحریک کے پاس اگلے کچھ ہفتوں میں ایک مکمل انقلاب برپا کرنے کی طاقت آچکی تھی، ملکیت کے پہلے سے موجود سرمایہ دارانہ رشتے ٹوٹ کر بکھرچکے تھے، فیکٹریوں، جاگیروں پر قبضے ہورہے تھے۔ یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا، ایک سوشلسٹ انقلاب کی راہ میں سوائے قیادت کے کوئی رکاوٹ موجود نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت فوری طور پر سوشلسٹ انقلاب کیلئے نظریاتی و ذہنی طور پر تیار نہ تھی، مرحلہ وار انقلاب کے سٹالنسٹ نظریات کی بازگشت نے قیادت کے تذبذب کو گہرا کرتے ہوئے اس تاریخی لمحات کے ثمرات سے محروم کردیا۔ عملی طور پر انقلاب کے موجود ہونے کے باوجود ’’پرچی یا برچھی‘‘ کے ایجنڈے پر ہالہ کنونشن میں سوشلسٹ انقلاب کی جگہ سرمایہ دارانہ پارلیمنٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ موجود انقلاب کو بتدریج سرمایہ دارانہ ردانقلاب کی طرف موڑتے ہوئے پارلیمانی انتخابات کو منزل قراردے دیا گیا۔ قبضہ شدہ ریاست واگزار کرکے پھر استحصالی حکمران طبقے کے سپرد کردی گئی۔ سرمایہ داری نظام کے رکھوالوں نے اپنی اس غیر متوقع جیت پر بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیابلکہ کچھ سال انتظار کرکے بعدازانقلاب اثرات کو زائل کیا اورپھر انقلاب کا محور بننے والی پارٹی سے انتقام لینا شروع کردیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعدایک طرف تحریک کی ابھی تک محسوس کی جانے والی حدت کی وجہ سے تاریخی اصلاحات کیں، جس کی وجہ سے کسی حد تک سابق نوآبادیاتی تصورات اور اثرات کی شدت کم ہوئی، مگر ساتھ ہی دشمن طبقات کو اپنے ساتھ ملانے کی شدید خواہش کے تحت تواتر کیساتھ رجعتی اقدامات تک سے بھی گریز نہیں کیا۔ جس بنیاد پرستی اور مذہبی سوچ کو 68-69ء کی تحریک اور بعد ازاں 70ء کے الیکشن میں عوام نے شکست فاش سے ہمکنارکیا تھا، اس کو خوش کرنے کیلئے اپنے ایجنڈے کی نفی کرتے ہوئے دقیانوسی سوچوں کو بھی پروان چڑھانا شروع کردیا۔ دشمن طبقات سے یکطرفہ محبت بڑھانے کیلئے خواہ مخواہ کی یکجہتی کو فروغ دیتے ہوئے ’’آئین پاکستان‘‘کوانقلابی اور عوامی کی بجائے رجعتی نکات سے مزین کیا گیا۔ اپنے بنیادی پروگرام اورتاسیسی منشور سے انحراف کرتے ہوئے عوام اور محنت کش طبقے کے مفادات کی محافظ عوامی ملیشیاقائم نہ کی گئی، سرمایہ داری کو ضربیں لگا کر چھوڑ دیا گیا۔ ٹوٹی پھوٹی، شکست خوردہ اور عزم وہمت سے محروم اسٹیبلشمنٹ کو نئی زندگی اورطاقت دیکر خود پر حملہ کرنے کیلئے تیارکیا گیا۔
بھٹو نے ایسا کیوں کیا؟ جس کے نتیجے میں اس کو 5 جولائی 1977ء کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور پھر اسی کے تسلسل میں بعد ازاں 4 اپریل 1979ء کا خونی دن دیکھنا پڑا۔ بھٹو کے اپنے الفاظ میں اس نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو جوڑنے کیلئے متضادات مفادات کے حامل طبقات کے درمیان جو ’آبرومندانہ مصالحت‘ کروانے کی کوشش کی تھی وہ ایک یوٹوپیائی خواب ثابت ہوئی، 5 جولائی کی فوجی بغاوت کے بعد خود ذوالفقارعلی بھٹو اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ’’متضادمفادات کے حامل طبقات کے مابین ایک جنگ ناگزیر ہے، جس کے نتیجے میں ایک طبقہ مکمل تباہ اور دوسرا فتح یاب ہوگا۔‘‘ یقینی طور پر بھٹو محنت کش طبقے کی مکمل فتح یابی کے حوالے سے اپنی کتاب’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘ میں اپنے تجزیے کو سمیٹ رہے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کے اپنے کئے گئے تجزے کے علاوہ کسی اور تناظر میں 1977ء کی فوجی بغاوت یا پھر بھٹو کے قتل کو دیکھنے سے کبھی بھی درست نتائج پر نہیں پہنچا جاسکتا۔ بدقسمتی سے بھٹو کے بعد کی پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے بھٹو کی انہی نظریاتی غلطیوں اور اقدامات کواپنا نقش راہ بنایا جس کو وہ خود مسترد کرکے اپنی شدید غلطی قراردے چکے تھے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ غلطی کرکے دائیں طرف موڑ کاٹ جانے والے سے نہیں بلکہ غلطی کا ادراک کرکے ایک ’’طبقاتی جنگ‘‘کو ناگزیر قراردینے والے بھٹو سے خوفزدہ تھا۔ اب جب کہ اس نتیجہ پر تمام فریقین خود ہی پہنچ چکے ہیں کہ 4 اپریل1979ء کی صبح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی موت کی سزا حکمران طبقے کے اپنے نام نہاد قانون سے کھلا انحراف تھا، بھٹو کیس کی سماعت کرنیو الے بنچ کے رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اسکو ’’جوڈیشل مرڈر‘‘قراردیا تھا۔ لیکن یہ ایک انقلاب کو نامکمل چھوڑنے اور سوشلزم سے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی طرف مراجعت کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ انقلابی بغاوت کی کامیابی میں حکمران طبقے کے نمائندگان کی اور ناکامی میں انقلابی جسارت کرنے والوں کی موت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ سماج کی نجات اور محنت کش طبقے کی فتح یابی کے راستے میں اگر مگر، ’مراحل، ‘تساہل یا تذبذب کی کہیں گنجائش نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی جس مقصد کیلئے بنی تھی وہ بالکل واضح اور غیرمبہم تھا:’’پاکستانی سماج کی طبقات سے پاک تشکیل جو آج کے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘‘ اس مقصد سے پارٹی قیادت جتنا گریز کرے گی اسکی ناکامی اتنی ہی بڑھتی جائیگی۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ شریک چیئرپرسن ’آصف علی زرداری‘ امریکی سامراج کو اپنی حمایت اور اعانت کی کہانی کا آغازامریکہ کوپشاور کے نزدیک ’’بڈبیڑ‘‘ کے جاسوسی کے اڈے دینے سے کرتے ہیں۔ یہ پیپلز پارٹی کی انقلابی تاریخ کی تذلیل اور پارٹی کارکنوں کی سامراج مخالف قربانیوں کی تحقیر کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بعد ازاں بے نظیر بھٹو کے قتل سے طے ہوچکا ہے کہ حکمران طبقہ کسی مصالحت اور مفاہمت کے ’’معافی نامے‘‘ کو درخوراعتنا سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ 4 اپریل کاسبق ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا آغاز ذوالفقارعلی بھٹو کے اس تجزے سے کرے جس کے آخر میں انہوں نے پاکستان کی نجات کیلئے ایک طبقاتی جنگ کو ناگزیر قراردیا تھا۔