تحریر: ولادیمیر لینن | تلخیص و ترجمہ: عمر شاہد
زیر نظر تحریر 1899ء کے آخری آیام میں لکھی گئی جس کو پہلی دفعہ 1924ء میں ’پرولتاری انقلاب‘ نامی میگزین میں چھاپا گیا۔
حالیہ برسوں میں روس میں محنت کشوں کی ہڑتالیں ایک معمول بن گئی ہیں۔ ایسا کوئی صنعتی مرکز نہیں جو مسلسل ہڑتالوں کی لپیٹ میں نہ ہو اور بڑے شہروں میں تو ہڑتالیں کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ان سوالات پر ہم اپنے خیالات کا ایک خاکہ تشکیل دینے کی کوشش کریں۔ پہلے حصے میں ہمارا ارادہ ہے کہ ہم محنت کش طبقے میں ہڑتالوں کی اہمیت پر بات کریں؛ دوسرے حصے میں ہم روس میں ہڑتال مخالف قوانین پر روشنی ڈالیں گے؛تیسرے حصے میں ہم دیکھیں گے کہ روس میں ماضی اور حال کی ہڑتالیں کیسے ہوئیں اور طبقاتی شعور رکھنے والے محنت کشوں کا ان کی جانب کیسا رویہ ہونا چاہیے۔
سب سے پہلے ہمیں جا بجا پھوٹنے والی ہڑتالوں اور ان کے متواتر پھیلاؤکی وضاحت کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو بھی اپنے ذاتی تجربے، دوسروں کی رپورٹوں یا اخبارات کے ذریعے ہڑتالوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرتا ہے اسے فوراً ہی نظر آئے گا کہ جوں جوں کارخانوں کے حجم اورتعداد میں اضافہ ہو رہا ہے توں توں ہڑتالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جن بڑے کارخانوں میں سینکڑوں( بعض اوقات ہزاروں) محنت کش کام کرہے ہیں ان میں سے شاذو نادر ہی ایسا کارخانہ ہو گا جہاں ہڑتال نہ ہوئی ہو۔ جب روس میں چند ایک ہی بڑے کارخانے تھے تب ہڑتالیں بھی کم کم ہوا کرتی تھیں۔ لیکن جیسے جیسے پرانے صنعتی مراکز، نئے قصبوں اور دیہاتوں میں کارخانے تیزی سے پھیل رہے ہیں ویسے ویسے ہڑتالیں بھی بکثرت ہونے لگی ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ کارخانوں کی بڑے پیمانے کی پیداوار ہمیشہ ہڑتالوں کی جانب لے جاتی ہے؟ کیونکہ سرمایہ داری لازماً آجر کے مقابل محنت کشوں کی جدوجہد پر منتج ہوتی ہے اور جب پیداوار بڑے پیمانے پر ہو تو جدوجہد بھی لازماً ہڑتالوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
آئیے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
سرمایہ داری اس سماجی نظام کا نام ہے جس کے تحت زمین، کارخانے اور آلات و مشینری وغیرہ کی ملکیت زمیندار اور سرمایہ دارو ں پر مبنی اقلیت کے پاس ہوتی ہے جبکہ عوام کی اکثر یت کے پاس کوئی جائیداد سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مزدور کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ زمیندار اور کارخانہ دار ان مزدوروں کو کام پر رکھ کر ان سے مختلف اشیاتیار کرواتے ہیں جو وہ بازار میں فروخت کر سکیں۔ کارخانہ دار کی جانب سے ان مزدوروں کو فقط اتنی سی ہی اجر ت ادا کی جاتی ہے جس سے ان کا اور ان کے گھرانے کا بمشکل ہی گزر بسر ہو سکے۔ جبکہ مزدور کی محنت کے برابر حاصل ہونے والی ’’پیداواری قدر‘‘ میں سے کچھ حصہ اجرت نکالنے کے بعد بڑا حصہ منافع کی صورت مالکان کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ معیشت میں عوام کی بڑی تعداد اجرتی مزدور ہوتے ہیں جو اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے آجر کے لئے اجرتوں پر کام کرتے ہیں۔ یہ قابلِ فہم ہے کہ کیوں مالکان‘ مزدوروں کی اجرتوں میں کمی کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں کیونکہ جتنا وہ مزدوروں کو کم ادا کریں گے اتنا زیادہ منافع کمائیں گے۔ مزدور ہمہ وقت ’جتنا ممکن ہو‘ زیادہ سے زیادہ اجرت کے حصول کے لئے سر گرم عمل رہتا ہے تاکہ اپنے اہل و عیال کو اچھا کھانا، بہتر رہائش اور بھکاریوں کی بجائے دیگر افراد جیسے کپڑے مہیا کر سکے۔ اسی وجہ سے آجر اور مزدور کے مابین اجرتوں پر مستقل کھینچاتانی چلتی رہتی ہے۔ آجر کے پاس آزادی ہوتی ہے کہ وہ جس مزدور کو سستا اور بہتر سمجھے اس کو ملازم رکھ لے۔ اسی طرح مزدور کے پاس بھی آزادی ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق بہتر معاوضے کے لئے بہترین آجرکے پاس ملازمت کرے۔ مزدور چاہے شہر یا قصبے میں کام کرے، چاہے وہ زمیندار، جاگیردار، ٹھیکیدار یا کارخانہ دار کے پاس کام کرے وہ ہمیشہ اپنے آجر سے تنخواہوں کے اضافہ کے لئے بھاؤ تاؤ اور تگ و دو کرتا ہے۔
لیکن کیا کسی واحد مزدور کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ تنِ تنہا جدوجہد کر سکے؟ مزدوروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، کسان برباد ہورہے ہیں اور تیزی سے دیہی علاقوں سے قصبوں اور کارخانوں کا رخ کر رہے ہیں۔ زمیندار اور کارخانہ دار نئی مشینری لگا رہے ہیں جس سے محنت کشوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔ شہروں میں بیروزگاروں اور دیہاتوں میں بھکاریوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جو بھوک کے ستائے ہیں وہ (کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہو کر) اجرتوں کو کم سے کم سطح پر لانے کاموجب بن رہے ہیں۔ اسی لئے مزدور کے لئے اپنے آجر کے خلاف تنہا لڑنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اگر کوئی مزدور بہتر اجرت کا مطالبہ کرتا ہے یا اجرت میں کٹوتی پر سر تسلیم خم نہیں کرتا تو آجر جواب میں اسے فیکٹری سے باہر کی راہ دکھاتے ہوئے کہتا ہے کہ دروازے پر کئی بھوکے افراد کھڑے ہیں جو کم اجرتوں میں بھی بخوشی کام کرنے کے لئے تیار ہیں، تم باہر کا رستہ ناپو۔
جب لوگوں کی بربادی کا یہ عالم ہو کہ قصبوں اور دیہاتوں میں ہمہ وقت بڑی تعداد میں بیروزگار موجود ہوں، جب کارخانہ دار خوب دولت کے انبار لگا رہے ہوں اور چھوٹے کاروباری کروڑ پتیوں کے ہاتھوں کچلے جا رہے ہوں، ایسے میں انفرادی مزدور سرمایہ دار کے سامنے بالکل ہی بے اختیار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ دار کے لئے مزدور کو مکمل طور پر کچلنا، بلکہ اس کو اہل و عیال سمیت جبری مشقت کے ذریعے اسی کے اپنے ہاتھوں نابود کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم ان پیشوں کا جائزہ لیں جن میں محنت کش اب تک قانونی تحفظ حاصل نہیں کرسکے ہیں اور جن میں وہ سرمایہ داروں کے خلاف مزاحمت نہیں کر پاتے، ان میں ہم روزانہ کام کے غیر معمولی حد تک طویل اوقاتِ کار دیکھتے ہیں جو بعض اوقات سترہ سے انیس گھنٹے پر محیط ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پانچ چھ سال کے بچے اپنی سکت سے کہیں بڑھ کر کام کرنے پر مامور ہیں۔ ہمیں فاقہ کش مزدوروں کی پوری نسل دکھائی دیتی ہے جو بھوک کے ہاتھوں بتدریج اپنی جاں گنوا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ غلام داری یا جاگیردار ی نظام میں بھی محنت کشوں کا ایسا استحصال نہیں ہوا جتنا بھیانک یہ سرمایہ داری میں ہے کہ محنت کش نہ تو مزاحمت کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسے قوانین کا تحفظ میسر آ سکتا ہے جو آجر کے صوابدیدی اختیارات پر حد مقرر کریں۔
ایسے میں خود پر اس قدر ڈھائے جائے والے مظالم کا سدباب کرنے کے لیے محنت کش بے دھڑک جدوجہد کا آغاز کر دیتے ہیں۔ جب انہیں نظر آتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک انفرادی حیثیت میں بالکل ہی بے اختیار ہے اور سرمائے کا جبر اُن کو ملیامیٹ کر دے گا تو محنت کش اپنے آجروں کے خلاف متحد ہو کر علم بغاوت بلند کرنے لگتے ہیں۔ یوں محنت کشوں کی ہڑتال کا آغاز ہوتا ہے۔ شروع شروع میں محنت کش اکثریہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ وہ کن اہداف کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔ اپنے اقدام کے محرکات کے شعوری ادراک سے نابلد ہونے کی وجہ سے وہ مشینیں اور کارخانے تباہ کر دیتے ہیں۔ وہ مل مالکان کے روبرو محض اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، اس اِدراک کے بغیرکہ ان کے حالات کیوں کسمپرسی کا شکار ہیں اور انہیں کس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ وہ ناقابل برداشت حالات سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنی مشترکہ طاقت کو آزماتے ہیں۔ سبھی ملکوں میں محنت کشوں کا قہر پہلے الگ تھلگ بغاوتوں کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے۔ روس میں پولیس اور مل مالکان انہیں سرکشی کا نام دیتے ہیں۔ تمام ممالک میں ان الگ تھلگ بغاوتوں نے ایک جانب تو کم و بیش پر امن ہڑتالوں اور دوسری جانب محنت کش طبقے کی نجات کے لیے ہمہ جہت جدوجہد کو اُبھار دیا ہے۔
محنت کش طبقے کی جدوجہد میں ہڑتالوں (یا کام بند کرنے) کی کیا اہمیت ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں ہڑتالوں کا کامل جائزہ لینا ہو گا۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مزدور کی اجرت کا تعین آجر اور مزدور کے مابین ایک معاہدے کے تحت ہوتا ہے اور پھر ایسے میں جب انفرادی مزدور مکمل بے اختیار ہوتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ محنت کشوں کو یکجا ہو کر اپنے مطالبات کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔ وہ مجبور ہیں کہ آجر کے ہاتھوں اجرتوں میں کٹوتیوں کی روک تھام کے لئے یا بہتر معاوضے کے حصول کیلئے ہڑتال پر جائیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سرمایہ دار ملک میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ ہر جگہ، تمام یورپی ممالک اور امریکہ میں محنت کش جب منقسم ہوں تو خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔وہ اکٹھے ہو کر ہی ہڑتال کر کے یا ہڑتال کی دھمکی دے کر آجر کے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں۔ جیسے جیسے سرمایہ داری پروان چڑھتی ہے، جیسے جیسے بڑے بڑے کارخانے دھڑا دھڑ کھلتے جاتے ہیں، جوں جوں چھوٹا کاروباری بڑے سرمایہ دار کے ہاتھوں بے دخل ہوتا جاتا ہے، محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہد کی ضرورت بھی اشد ضروری ہوتی جاتی ہے کیونکہ بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، سرمایہ داروں کے مابین مسابقت میں شدت آتی جاتی ہے جو اپنی مصنوعات کی سستی تیاری کے لیے کوشاں رہتے ہیں ( ایسا کرنے کے لئے وہ مزدوروں کو ہر ممکن حد تک کم سے کم معاوضہ دیتے ہیں)۔ صنعت کا اتار چڑھاؤ کرخت ہوتا جاتا ہے اور بحران مزید شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔ جب صنعت پھلتی پھولتی ہے تو کارخانہ دار بھاری منافعے کماتے ہیں مگر ان منافعوں میں سے مزدوروں کو حصہ دینے کا سوچتے تک نہیں۔ مگر جب بحران پھوٹ پڑتا ہے تو مل مالکان نقصانات کا بوجھ مزدوروں پر لادنے کی کوشش کرتے ہیں۔’ سرمایہ دارانہ سماج‘ میں ہڑتال کی ضرورت ہر کوئی اس حد تک مانتا ہے کہ ان ممالک کے قوانین ہڑتال کرنے کے مانع نہیں ہیں۔ صرف روس میں ہڑتال کے مانع وحشیانہ قوانین رائج ہیں۔ ہم کسی اور موقع پر ان قوانین اور ان کے اطلاق پر بات کریں گے۔ تاہم ہڑتالیں، جو سرمایہ دارانہ سماج کی کوکھ سے پھوٹتی ہیں، اسی نظام کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد کے آغاز کا عندیہ دیتی ہیں۔ جب دولت مند سرمایہ داروں کے مقابل اکیلے مزدور ہوں، جن کی ملکیت میں کچھ نہ ہو، تو یہ مزدوروں کی مطلق غلامی کا اشارہ ہے۔ مگر جب وہی مزدور، جن کی ملکیت میں کچھ نہیں ہوتا، ایک گٹھ (یکجا) ہو جائیں تو صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔ کوئی دولت سرمایہ داروں کے لئے سودمند نہیں ہے اگر وہ ایسے مزدور نہ ڈھونڈ پائیں جو ان کے زیرملکیت اوزاروں اور خام مال پر اپنی قوت محنت صرف کر کے نئی دولت پیدا کرنے پر آمادہ ہوں۔ جب تک مزدوروں کو انفرادی بنیادوں پر سرمایہ داروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب تک وہ غلام ہی رہتے ہیں جنہیں اپنے لئے روٹی کے ٹکڑے کے حصول کے لئے اور دوسرے کے منافع کے لئے تابعدار اور بے زبان چاکر کی طرح مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ مگر جب محنت کش ایک گٹھ ہو کر اپنے مطالبات سامنے رکھتے ہیں اور سرمایہ دار کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو وہ اپنی غلامی کے طوق اتار پھینکتے ہیں۔ ان کا شمار بھی انسانوں میں ہونے لگتا ہے۔ وہ مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ ان کی محنت محض مٹھی بھر کاہلوں کی تجوریاں بھرنے کے لئے ہی نہ استعمال ہو بلکہ اس سے ان کو بھی مستفیدہونا چاہیے جو انسانوں کی مانند زندہ رہنے کے لئے کام کرتے ہیں۔ غلام مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ وہ اپنے آقا خود بنیں گے۔ وہ یوں زندگی گزاریں گے اور کام کریں گے جیسے خود چاہتے ہیں۔ نہ کہ ویسے جیسے کہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی منشا ہو۔ اس لئے ہڑتالیں ہمیشہ ہی سرمایہ داروں کو خوف میں مبتلا کر دیتی ہیں کیونکہ وہ سرمایہ داروں کی حاکمیت کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ جرمن محنت کشوں کے ایک گیت کے الفاظ ہیں کہ ’’سب پہیے رک جائیں‘ اگر تمہارے ہاتھ ایسا چاہیں‘‘ اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔ کارخانے، جاگیرداروں کی زمینیں، مشینری، ریلوے وغیرہ وغیرہ ایک بہت بڑی مشین کی پھرکیوں کی مانند ہی تو ہیں۔ وہ مشین جو مختلف پیداوار کشید کرتی ہے اور پھر مختلف مراحل سے گزار کے تیار مصنوعات کو ان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ یہ مزدور ہی ہے جو اس مشین کو حرکت میں لاتا ہے۔ جو زمینوں پر کھیتی باڑی کرتا ہے، جو کان کنی کر کے دھاتیں نکالتا ہے، کارخانوں میں مصنوعات تیار کرتا ہے، گھروں اور کارخانوں کی تعمیر کرتا ہے اور ریل کا جال بچھاتا ہے۔ جب مزدور کام کرنے سے انکار کر دیں تو پوری مشین رکنے کو آ جاتی ہے۔ ہر ہڑتال سرمایہ داروں کو یاد دلاتی ہے کہ اصل آقا ان کی بجائے محنت کش ہی ہیں، جو بلند سے بلند تر آواز میں اپنے حقوق کا اعلان کر رہے ہیں۔ ہر ہڑتال محنت کشوں کو یاد کرواتی ہے کہ ان کی حیثیت لاچار نہیں ہے، کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ دیکھیں کہ ہڑتالوں کے نہ صرف ہڑتالی مزدوروں پر بلکہ پاس پڑوس اور قرب و جوار میں اسی صنعت سے وابستہ دیگر کارخانوں کے محنت کشوں پر کتنے شاندار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عام حالات میں مزدور بلا چوں چراں اپنا کام کرتا ہے، اپنے آجر سے الجھتا نہیں ہے اور نہ ہی اپنے حالات زیر بحث لاتا ہے۔ ہڑتال کے دن ہوں تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنے مطالبات بیان کرتا ہے، وہ آجروں کو ان سے سرزد ہوئی ہر زیادتی یاد کراتا ہے، وہ اپنے حقوق کا تقاضا کرتا ہے، وہ صرف اپنی ذات اور اپنی اجرت کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ اپنے تمام ساتھی محنت کشوں کے بارے میں سوچتا ہے جو کسی تنگی کی پرواہ کیے بغیر اس کے ساتھ اوزار چھوڑ کے بیٹھ گئے ہیں، جو محنت کشوں کے مقصد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہر ہڑتال کا مطلب ہے: محنت کشوں کے لیے بہت سی عسرتیں، بھیانک تنگدستی اور محرومیاں جن کا موازنہ صرف جنگ کی تباہ کاریوں سے ہی کیا جا سکتا ہے، بھوک سے ستائے اہل و عیال، آمدنی میں گراوٹ، اکثر و بیشتر گرفتاریاں اور ان قصبوں سے بے دخلی جہاں کبھی ان کے گھر ہوا کرتے تھے، جہاں ان کا روزگار تھا۔ لیکن ان تمام تکالیف کے باوجو د محنت کش اپنے ان ساتھیوں جو انہیں دھوکہ دے کر مالکان کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہڑتال کی وجہ سے تمام مصائب کے باوجود قریبی فیکٹریوں کے محنت کش جب اپنے ساتھیوں کو جدوجہد میں سرگرم عمل پاتے ہیں تو ان کو شکتی ملتی ہے۔ عظیم سوشلزم کے استاد فریڈرک اینگلز نے برطانوی محنت کشوں کی ہڑتالوں پر کہا تھا، ’’اگر محنت کش ایک سرمایہ دار کو جھکانے کے قابل ہو سکتے ہیں تو سارے سرمایہ دار طبقے کی طاقت کو توڑنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ اکثر کئی فیکٹریوں میں فوری طور پر ہڑتال کا آغاز کرنے کے لئے ایک فیکٹری میں ہڑتال ہونا کافی ہوتا ہے۔ ہڑتالوں کے کیا عظیم اثرات ان محنت کشوں پر مرتب ہو تے ہونگے جب وہ دیکھتے ہیں کہ بے شک مختصر وقت کے لئے ہی سہی لیکن اپنی غلامی کا خاتمہ کر کے وہ امیروں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ ہر ہڑتال زبردستی محنت کشوں کے ذہنوں میں سوشلزم کے نظریات، پورے محنت کش طبقے کی سرمائے کے جبر سے نجات کے نظریات پیدا کرتی ہے۔ یہ اکثر ہوتاہے کہ کسی بڑی ہڑتال سے پہلے کسی فیکٹری یا انڈسٹری کی کسی مخصوص شاخ یا کسی شہر کے محنت کش بمشکل ہی سوشلزم کے بارے میں سوچتے ہوں۔ لیکن ہڑتال کے بعد سٹڈی سرکل اور انجمنیں تیزی سے ان میں پھیلتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ محنت کش سوشلسٹ نظریات کے حامل ہو جاتے ہیں۔
ایک ہڑتال محنت کشوں کو سکھاتی ہے کہ ان کے مالکان کی کیا حیثیت ہے اور محنت کشوں کی کتنی طاقت ہے۔ یہ انہیں صرف اپنے مالکان یا اپنے ساتھیوں کے بارے میں ہی نہیں بلکہ پورے سرمایہ دار طبقے اور محنت کش طبقے کے بارے میں سوچنا سکھاتی ہے۔ جب محنت کش بار بار دیکھتے ہیں کہ فیکٹری مالک اُن کے پورے کے پورے خاندانوں کو اجرتوں میں ذرا سے اضافے یا اجرتوں میں کمی کی شرح کو کم کرنے کی مانگ پر سڑکوں پر پھینک دیتا ہے تو وہ پورے سرمایہ دار طبقے کو محنت کش طبقے کا دشمن گردانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کو صرف اپنے زور بازو پر یقین کرتے ہوئے متحد ہوکر ان کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔ یہ بھی اکثر ہوتا ہے کہ فیکٹری مالک مزدوروں کو دھوکہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو مسیحا ثابت کرتا ہے۔ جھوٹے وعدوں اور دلاسوں کے ذریعے محنت کشوں کے استحصال کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک ہڑتال ہمیشہ اس دھوکے کا پردہ فاش کرتے ہوئے محنت کشو ں پر واضح کرتی ہے کہ یہ ’مسیحا‘ بکری کی کھال میں چھپا بھیڑیا ہے۔
ایک ہڑتال سرمایہ داروں کی فطرت کے ساتھ ساتھ ریاست اور اس کے قوانین کے بارے میں بھی محنت کشوں کی آنکھیں کھولتی ہے۔ جیسے ایک فیکٹری مالک اپنے آپ کو مسیحا ثابت کرتا ہے اسی طرح حکومتی عہدے داران اور ان کے خوشامدی بھی محنت کشوں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ زا ر شاہی (ریاست) فیکٹری مالکان اور محنت کشوں کو یکساں انصاف دیتی ہے۔ مزدو رملکی قوانین کے بارے میں نہیں جانتا، اسکا حکومتی عہدے داران خاص طور پر اعلیٰ عہدوں پر براجمان افسروں سے رابطہ نہیں ہوتا، اس لئے اکثر ان سب پر یقین کر لیتا ہے۔ لیکن پھر ہڑتال ہوتی ہے۔ سرکاری پراسیکوٹر، فیکٹری انسپکٹر، پولیس اور اکثر فوج فیکٹری میں نمودار ہوتے ہیں۔ محنت کشوں کو ادراک کروایا جاتا ہے کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، مالکان کے پاس قانونی اختیار ہے کہ وہ اجرتوں میں کمی کا آزادانہ اظہار کریں، لیکن اگر محنت کش کسی مشترکہ معاہدے پر رضامندنہ ہوئے تو انہیں مجرم قرار دیا جائے گا۔ محنت کشوں کو گھروں سے نکال دیا جاتا ہے، ان کو ادھار سودا دینے والی دکانوں کو پولیس بند کروا دیتی ہے۔ اس سب کا مقصد محنت کشوں اور سپاہیوں کے مابین انتشار پیدا کرنا ہوتا ہے۔ سپاہیوں کو محنت کشوں پر گولی چلانے کا حکم بھی دیا جاتا ہے اور جب وہ نہتے محنت کشوں کو قتل کر کے ہجوم کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتے ہیں تو خود ’زارشاہی‘ (ریاست) کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔
یہ ہر مزدور پر واضح ہو چکا ہے کہ زار شاہی اس کی بدترین دشمن ہے کیونکہ یہ سرمایہ داروں کو تحفظ دیتی ہے اور مزدور کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتی ہے۔ محنت کش سمجھنا شروع کرتے ہیں کہ قوانین صرف امیروں کے مفادات میں بنائے جاتے ہیں، حکومتی عہدے دار ان بھی انہی کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ محنت کشوں کے منہ پر پٹی باندھ کر انہیں خاموش کیا جاتا ہے اور انہیں اپنے مطالبات (محنت کشوں کو ہڑتال کا حق، مزدور اخبارات کی اشاعت کی آزادی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی کا حق) کا اظہار کرنے کی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔ ریاست خود بھی جانتی ہے کہ ہڑتالیں محنت کشو ں کے شعورکو بلند کرتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک جرمن وزیر داخلہ ( وون پٹکومر)، جو سوشلسٹوں اور طبقاتی شعور رکھنے والے محنت کشوں کو سخت سزائیں دینے کے لئے مشہور تھا، نے عوامی نمائندگان کے سامنے کہا تھا، ’’ہر ہڑتال کے پیچھے انقلا ب کا بھوت منڈلا رہا ہوتا ہے۔‘‘ ہر ہڑتال محنت کشوں میں احساس پیدا کرتی ہے کہ ریاست ا ن کی بدترین دشمن ہے اور محنت کشوں کو مل کر اپنے حقوق کے لئے ریاست کے خلاف جدوجہد کرنا ہو گی۔
چنانچہ ہڑتالیں محنت کشوں کو متحد ہونا سکھاتی ہیں، انہیں سکھاتی ہیں کہ سرمایہ داروں کے خلا ف صرف متحد ہو کر ہی جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ ہڑتالیں محنت کشوں کو ایک طبقہ کے طور پر فیکٹری مالکان، پولیس، ریاست اور ظالم حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کا سبق دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلسٹ ہڑتالوں کو ’جنگ کاسکول‘ کہتے ہیں۔ ایک ایسا سکول جو محنت کشوں کو اپنے بدترین دشمنوں، ریاستی اہلکاروں اور سرمائے کے خلاف پوری عوام کی آزادی کی جنگ کے اصول سکھاتا ہے۔
لیکن ’جنگ کا سکول‘ خود جنگ نہیں ہوتا۔ جب ہڑتالیں محنت کشوں میں پھیلتی ہیں تو کچھ محنت کش (کچھ سوشلسٹوں سمیت) سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ صرف ہڑتالوں، ہڑتالی فنڈز یا ہڑتالی انجمنوں کے ذریعے ہی وہ محنت کشوں کی زندگیوں میں بہتری بلکہ آزادی تک بھی لا سکتے ہیں۔ جب وہ یکجا محنت کش طبقے کی طاقت کو چھوٹی ہڑتالوں میں دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ صرف محنت کشوں کی عام ہڑتال کے ذریعے پورے ملک کے محنت کشوں کے لئے سرمایہ داروں اور ریاست سے اپنے تمام مطالبات پورے کروا سکتے ہیں۔ اس خیال کا اظہار دیگر ممالک کے محنت کشوں نے بھی کیا جب محنت کش طبقے کی تحریک اپنے اوائل میں تھی اور محنت کش غیر تجربہ کا ر تھے۔ یہ غلط خیال ہے۔ ہڑتالیں محنت کش طبقے کی نجات کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ کار ہیں۔ لیکن اگر محنت کش جدوجہد کے دیگر طریقہ کار پر توجہ نہیں دیں گے تووہ محنت کش طبقے کی بڑھوتری اور کامیابیو ں کو ماند کر دیں گے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ محنت کشوں کو کامیاب ہو رہی ہڑتالوں کے دوران ثابت قدم رکھنے کے لئے فنڈ درکا ر ہوتے ہیں۔ مزدور فنڈ (صنعت کی مختلف شاخوں میں مزدوروں کا الگ فنڈ) تمام ممالک میں قائم کیا جاتا ہے لیکن روس میں یہ کرنا مشکل ہے کیونکہ پولیس ان سب کا حساب رکھتی ہے۔ وہ رقم چھین کر مزدوروں کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ لیکن مزدور‘ پولیس سے فنڈ چھپانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ان فنڈوں کو منظم کرنا بہت اہم ہے اور ہم مزدوروں کو انہیں قائم نہ کرنے کی صلاح نہیں دیں گے۔ لیکن یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ قانونی قدغنوں کے باعث بہت زیادہ افراد فنڈ عطیہ کریں گے۔ جب تک ان مزدور تنظیموں کی ممبر شپ میں اضافہ نہ ہو یہ مزدور فنڈ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں بھی جہاں مزدور یونینیں کھلے عام کام کر رہی ہیں اور ان کے پاس خطیر فنڈ بھی موجود ہیں، محنت کش طبقہ اپنے آپ کو صرف ہڑتالوں تک محدود نہیں کر سکتا۔
صنعت کی موجودہ ہیجانی اور بحرانی کیفیت میں فیکٹری مالکان خود کوشش کریں گے کہ ہڑتالیں ہوں کیونکہ یہ ان کے مفاد میں ہے کہ کچھ دیر کے لئے کام رک جائے اور مزدور فنڈ خرچ ہوتے رہیں۔ ایسی کسی صورتحال میں محنت کشوں کو اپنے آپ کو ہڑتالوں اور ہڑتالی تنظیموں تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف ہڑتال صرف اس صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب محنت کش کافی حد تک طبقاتی شعور کے حامل ہوں اور ہڑتال کرنے کے مواقع کو بھانپتے ہوئے اپنے مطالبات رکھنے کا فن جانتے ہوں۔ اس طرح کے بہت کم مزدور روس میں ہیں اور ان کی تعداد کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتیں یہ شعور حاصل کر سکیں ۔ انہیں سوشلزم کے نظریا ت سے مسلح کرنا ہو گا۔ یہ فریضہ سوشلسٹوں اور طبقاتی شعور کے حامل محنت کشوں کو سرانجام دینا ہوگا۔ ہڑتالیں محنت کشوں کو باور کرواتی ہیں کہ ریاست ان کی دشمن ہے اور ریاست کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ درحقیقت تمام ممالک میں محنت کشوں کو یہ بات ہڑتالوں نے ہی باور کروائی ہے۔ جیسا ہم نے پہلے ہی کہا کہ صرف ایک سوشلسٹ پارٹی ہی ریاست کے خلاف محنت کش طبقے کی حتمی نجات کی جدوجہد کر سکتی ہے۔ یہاں ہمیں دوبارہ نشاندہی کرنا ہو گی کہ ہڑتالیں ’جنگ کے سکول‘ ہیں اورخود جنگ نہیں ہیں۔ یہ محنت کش طبقے کی تحریک کا صرف ایک حصہ ہیں۔ جب طبقاتی شعور کے حامل محنت کش پورے ملک میں متحد ہو کر محنت کش طبقے تک سوشلزم کا پیغام پھیلائیں گے، جب وہ مل کر ایک انقلابی پارٹی، جو ریاستی جبر اور سرمائے کی غلامی سے تمام محنت کشوں کو نجات دلا سکے، کی تعمیر کر لیں گے تب ہی محنت کش طبقہ تمام ممالک کے محنت کشوں کی اس عظیم تحریک کا حصہ بن پائے گا جو تمام محنت کشوں کو یکجا کرے گی اور وہ سرخ پرچم سربلند کرے گی جس پر نقش ہوگا:’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!‘