قانونی لوٹ مار

[تحریر: لال خان]
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں سیاست کے ناخداؤں اور معیشت کے ماہرین کے پاس معاشی شرح نمو میں اضافے کے لئے بیرونی سرمایہ کاری یا فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (FDI) کا نسخہ ہی بچا ہے۔ سماج کے سب کے اہم پہلو، یعنی معیشت کے بارے میں سیاسی افق پر مسلط تمام سیاسی جماعتوں کی پالیسی مشترک ہے۔ لبرل اور سیکولر سیاستدان ہوں، شریعت کے نفاذ کی بات کرنے والی اسلامی پارٹیاں یا پھر دائیں بازو کے اصلاح پسند رجحانات، سب نیو لبرل سرمایہ داری، آزاد منڈی کی معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ عمران خان ’’ڈالروں کی بارش‘‘ کروانے کے چکر میں ہیں تو جماعت اسلامی جیسی مذہبی پارٹیاں امیر اسلامی ممالک کے مطلق العنان بادشاہوں اور آمروں سے ’’اسلامی سرمایہ کاری‘‘ کروانے کی خواہاں ہیں۔ دیگر پارٹیاں چین جیسے ’’پاکستان کے دوست ممالک‘‘ کو اکٹھا کر کے سرمایہ کاری اور اقتصادی امداد کی بھیک مانگنے کا پروگرام پیش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے لبرل سرمایہ دار اور سیاستدان ہیں جو ہندوستان سے تجارت میں اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ امریکی اور یورپ کی سامراجی اجارہ داریوں کو سرمایہ کاری کے لئے ’’سازگار حالات‘‘ فراہم کرنے پر بھی کم و بیش سب متفق ہیں۔
2008ء کے تاریخی کریش کے بعد عالمی سطح پر شدید بحران کے شکار عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اتنی سکت نہیں ہے بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے غریب اور ترقی پزیر ممالک کی معیشتوں کو نحیف اور وقتی سہارا ہی دے سکے۔ بڑی سامراج اجارہ داریاں اور سرمایہ دار مزید سرمایہ کاری کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ اس وقت یورپ، امریکہ اور چین جیسے ممالک سے وابستہ ملٹی نیشنل اجارہ داریوں نے ہزاروں ارب ڈالر آف شور بینکوں اور ٹیکس ہیونز میں چھپا رکھے ہیں۔ ایک مستند اندازے کے مطابق یہ رقم 32 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ کمپنیاں سرمایہ کاری سے اس لئے کترا رہی ہیں کیونکہ منڈی میں قوت خرید ہی موجود نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا درمیانہ طبقہ، جو بحران سے پہلے قرضوں اور کریڈٹ فنانسنگ کی بنیاد پر وسیع منڈی فراہم کرتا تھا اب رفتہ رفتہ سکڑتا اور مٹتا جارہا ہے۔ مظاہرے، ہنگامے اور ہڑتالیں یورپ کا معمول ہیں۔ زائد پیداوار کا بحران آج کے ترقی یافتہ عہد میں اپنا اظہار ’’زائد پیداواریت‘‘ کی شکل میں کررہا ہے۔ منڈی کی مندی کی وجہ سے امریکہ اور چین جیسے ممالک میں صنعتی سیکٹر کی ایک چوتھائی پیداواری صلاحیت زیر استعمال ہی نہیں ہے۔ دونوں ممالک کی ریاستیں معیشت کو مسلسل اربوں ڈالر کے انجیکشن لگا رہی ہیں تاکہ کھپت اور مصنوعی طور پر برقرار رکھا جاسکے۔ اس عمل کوبورژوا معیشت کی پرفریب زبان میں Quantitative Easing کہا جاتا ہے جس میں ریاست بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر یاقرض لے کر منڈی کو مصنوعی طور پر سرگرم رکھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سرمایہ داری کا حال منشیات کے عادی اس مریض کا سا ہوچکا ہے جو مارفین کا ٹیکہ لگائے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتا۔
ان حالات میں جب ملٹی نیشنل کمپنیاں پہلے سے موجود پیداواری صلاحیت کو ہی بروئے کار نہیں لاپارہی ہیں تو مزید سرمایہ کاری کی کیا منطق بنتی ہے؟ سرمایہ دارانہ معیشت کے سنجیدہ ماہرین بھی بحران سے نکلنے کی قریب ترین تاریخ 2019ء کو قرار دے رہے ہیں۔ جن ممالک میں تھوڑی بہت بحالی ہوئی بھی ہے وہاں نہ تو روزگارپیدا ہورہا ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی آمدن میں کوئی اضافہ ہوا ہے کہ منڈی میں کھپت بڑھ سکے۔ ان حالات میں سرمایہ کاری بہت کم اور ’’قیمتی‘‘ ہوجاتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں تھوڑی سی سرمایہ کاری کی شرائط بھی انتہائی ظالمانہ اور سخت کردیتی ہیں جس سے محنت کا استحصال کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات دہشت گردی، بدعنوانی، عدم استحکام اور توانائی کے بحران کے باعث اور بھی مخدوش ہیں۔ لہٰذہ یہاں انتہائی خوفناک شرائط پر ہی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ حکمران ان تمام شرائط کے آگے جھکنے کے باوجود بھی سرمایہ کاری میں کمی کے مسلسل رجحان کو روکنے میں ناکام ہیں۔ آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی ادارے ہر حکومت سے ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے استحصال کو فروغ اور ان کی شرح منافع میں تیز تر اضافہ یقینی بنانے والی شرائط منواتے ہیں۔ یہ شرائط منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔ عام طور پر ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی شرائط میں مزدوروں کی اجرتوں میں من مانی کٹوتی، مستقل ملازمتوں کی جگہ ٹھیکیداری نظام کا اجرا، تمام منافعوں اور دولت کی بنا کسی ریاستی روک ٹوک کے ملک سے باہر منتقلی اور ٹیکسوں میں چھوٹ جیسی شقیں شامل ہوتی ہیں۔ آج تک کسی حکومت نے عوام کو نہیں بتایا ہے کہ کس ملٹی نیشنل نے کتنا منافع کمایا اور ملک سے باہر کتنا سرمایہ منتقل کیا ہے۔ تاہم سامراجی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کی شدت کا مبہم سا اندازہ سرکاری خانہ پوری کے لئے پیش کئے گئے اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2013ء سے فروری 2014ء کے درمیانی عرصے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 728 ملین ڈالر کے منافعے ملک سے باہر منتقل کئے ہیں جبکہ اسی عرصے کے دوران بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں آنے والی کل رقم صرف 606 ملین ڈالر ہے۔ یعنی کل سرمایہ کاری ان اجارہ داریوں کے ملک سے باہر جانے والے منافعوںٍ سے بھی کم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے مالیاتی سال کے اسی عرصے کے دوران بیرون ملک منتقل ہونے والی رقم 548 ملین ڈالر تھی۔ یہ صرف چند مہینوں کا حال ہے تو پورے سال میں کتنا سرمایہ ملک سے باہر جاتا ہوگا؟ اور پچھلے 30 سال میں IPPs، بینکنگ اور ٹیلی کمیونی کیشنز جیسے منافع بخش شعبوں پر حاوی اجارہ داریوں نے کتنے ارب یا کھرب ڈالر لوٹے ہوں گے؟اور پھر پچھلے 67 سال میں؟ بیرونی قرضہ 60 ارب ڈالر ہے، یہ جتنا ادا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ محنت کش عوام کی ہر آنے والی نسل سرمائے کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ تلے دبتی جارہی ہے۔ غریب، غریب تر اور امیر، امیرتر ہوتا جارہا ہے۔ کروڑوں انسانوں کی ذلت کتنی سستی اور سرمایہ کتنا مقدس ہے!
اس سامراجی استحصال اور لوٹ مارکے بارے میں سیاستدان، اسمبلیاں، کارپوریٹ میڈیااور ’’دانشور‘‘، سب خاموش ہے۔ ان سرمایہ کاریوں پر ہمارے سیاسی حکمران اور ریاستی افسر شاہی کتنا کمیشن کماتے ہیں؟ یہ بھی انتہائی خفیہ راز ہے۔ اسلحے کی ہر ڈیل پر کون کتنے ’کک بیکس ‘ لیتا ہے ؟ یہ سوال تو وطن کی ’’سالمیت‘‘ کے لئے ہی خطرہ ہے۔ یہ حکمران تو اتنے بے شرم ہیں کہ کوڑیوں کے بھاؤ PTCL اور KESC خریدنے والوں سے ’’منہ بولی رقم‘‘ بھی نہیں لے سکتے۔ 8 سال کے دوران جنہوں نے اربوں ڈالر کمانے کے باوجود قلیل سی واجب الادا رقم بھی ادا نہیں کی ان کے کاروبار نہ صرف چل رہے ہیں بلکہ منافعے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ الٹا انہوں نے ریاست کے ذمے کئی قسم کے قرضے اور واجبات ڈال دئیے ہیں۔ لیکن جب چور سپاہی ایک ہی کھیل کا حصہ ہوں تو کون کسے پوچھتا ہے؟ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان کے نجکاری کمیشن نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے 20 ملین ڈالر ’’ماہرین‘‘ کی خدمات حاصل کرنے کے لئے مانگ لئے ہیں۔ یہ ’’ماہرین‘‘ کہاں سے آئیں گے اور کس اثاثے کا کیا بھاؤ لگائیں گے، یہ سب کو پتاہے۔
لیکن یہ تو سامراجی لوٹ مار کا صرف ایک پہلو ہے۔ سامراجی قرضوں پر شرح سود، خام مال کی قیمتوں کا تعین، مقامی حکمرانوں کی مدد سے زمینوں پر قبضے، منافع بخش شعبوں کو دانستہ طور پر برباد کروا نااور پھر مٹی کے بھاؤ خریدنا، کرنسی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کے ذریعے لوٹ مار، کارٹیل بنا کے منڈی پر قبضہ۔ ۔ ۔ غرضیکہ واردات کے طریقوں اور ہتھکنڈوں کی طویل فہرست ہے۔ اس نظام زر پر یقین رکھنے والی ہر پارٹی، ہر سیاستدان، ہر حکومت اور ہر حکمران، خون نچوڑنے والی اس مشین کا ایک پرزہ ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ ’’سرمایہ داری کی درندگی کا کوئی انت نہیں ہے۔ ‘‘جب تک سرمائے کا یہ راج قائم رہے گا، محنت رسوا ہوتی رہے گی اور یہاں کے باسی محرومی، غربت اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جائیں گے۔

متعلقہ:
مرتے ہوئے نظام کی وحشت