[تحریر: لال خان، ترجمہ: نوروز خان]
30نومبر1967ء کی دھندلی صبح پاکستان کے مختلف علاقوں سے تین سوکے قریب افراد ہر طرح کی مشکلات اور سماج کے جمود کا مقابلہ کرتے ہوئے سماجی و معاشی انصاف کی جدوجہد میں لاہور میں اکٹھے ہوئے۔ موسم خزاں کی فضا میں انقلاب کی مہک تھی۔ پارٹی کی تاسیسی دستاویزات غیر مبہم تھیں، ’’پارٹی کے پروگرام کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔ لیکن پی پی پی کو عوامی قوت بنانے والے واقعات کا نکتہ آغاز راولپنڈی میں طلباء کی بغاوت سے ہوا جس نے ملکی تاریخ کے سب سے طاقتور انقلاب کا آغاز کیا۔ چھ نومبر 1968ء سے 25 مارچ 1969ء تک اقتدار عوام کے ہاتھ میں تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہی139دن اس ملک کے مجبور عوام کے ہیں۔ پہلی مرتبہ پاکستان کے پرولتاریہ کا نکتہ نظر نام نہاد ’جمہوری انقلاب‘ سے آگے بڑھ کر انقلابی سوشلزم اور سرمایہ داری اور جاگیر داری کے خاتمے تک بلند ہوا۔ جہاں بائیں بازو کی زیادہ تر جماعتیں جمہوریت کی جدوجہد کر رہی تھیں وہاں پیپلز پارٹی کا سوشلسٹ پروگرام اپنی تقدیر بدلنے کی خاطر تاریخ کے میدان میں آئے عوام کی امنگوں کے عین مطابق تھا۔ اس انقلابی تحریک سے نہ صرف اسلام آباد بلکہ اس سے کہیں دور اقتدارکے ایوان لرز اٹھے۔ اس وقت کے امریکی اور برطانوی سفارتی اہلکاروں کے ڈی کلاسی فائیڈ مراسلوں سے سامراج کو لاحق خوف کا بخوبی اندازہ لگایا جس سکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک پر زور عوامی طاقت اور روایت بننے کی بنیادہ وجہ بھی یہی ہے، جو ابھی تک قائم ہے اگرچہ اس کی حالت قابلِ رحم ہو چکی ہے۔
حکمران طبقات اور سامراجی آقاؤں نے اس انقلابی تحریک کا زور توڑنے اور اسے زائل کرنے کے لیے انتخابات کی جانب اس کا رخ موڑنا چاہا۔ لیکن 1970ء کے انتخابات نے پاکستان کی انتخابی سیاست پر چھائے روایتی سرمایہ دار اور جاگیر اشرافیہ کا تختہ الٹ دیا۔ پھر اشرافیہ نے انقلاب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جنگ اور پاکستان کی تقسیم کا سہارا لیا۔ تحریک اور دباؤ اور انقلاب کا خوف اس قدر شدید تھا کہ 1971ء کے آخر میں فوج کو اقتدار بھٹو کے ہاتھ میں دینا پڑا جس نے فوری طور پر صحت، تعلیم، لیبر، زمین اور معیشت اور سماج کے دیگر کئی شعبوں میں انتہائی ریڈیکل اصلاحات کیں۔ لیکن پاکستان پیپلزپارٹی بورژوا ریاستی نظام کی تنگ حدود کے اندر رہتے ہوئے بر سرِ اقتدار آئی جس کا تختہ الٹنے کے لیے عوام نے دلیرانہ جدوجہد کی۔ پرانی ریاست برقرار رہی اور اپنے جابرانہ کردار کو بحال کرنے لگی۔ پارٹی کے ناتواں ڈھانچوں میں بورژوا سیاست دانوں کی آمد سے پارٹی کے پرولتاری انقلابی کردار میں مزید ملاوٹ ہوئی۔
پاکستانی سرمایہ داری میں پائیدار اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اس کا بڑھتا ہوا بحران دھماکہ خیز شکل میں بے پناہ افراط زر کی شکل میں سامنے آیا جس نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم اور بالآخر اس کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن انقلاب کے بھٹکنے کی حقیقی وجہ پارٹی میں نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی تیاری کا فقدان تھا۔ اپریل 1979ء میں جب بیگم نصرت بھٹو کال کوٹھڑی میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملیں تو بھٹو نے اپنی رہائی کے لیے پارٹی کی جانب سے لڑاکا اور پرزور کمپین نہ کرنے کی شکایت کی۔ نصرت بھٹو نے جواب دیا کہ ’’ذوالفقار کیا تم اپنے پیچھے کوئی بالشویک پارٹی چھوڑ آئے ہو جو لڑ کر تمہیں لڑ کر آزاد کروائے‘‘۔
جنرل ضیا الحق کی قیادت میں1977 ء کی فوجی بغاوت کی شکل میں رد انقلاب کا انتقام سامنے آیا جسے امریکی سامراج کی حمایت حاصل تھی، اور بھٹو کو قتل کر دیا گیا جو کہ ضبطگیوں اور نیشنلائیزیشن کی پالیسیوں سے گھائل اشرافیہ کا انتقام تھا۔ ضیا کی حکومت میں پاکستان ایک خوفناک سماج میں تبدیل ہو گیا جہاں مسلسل ریاستی جبر اور سفاکانہ جنونیت نے عوام کو برباد کر دیا۔ شہریوں کی نجی زندگیوں میں ریاست اور خدائی فوجداروں کی جانب سے بدمعاشی سے مداخلت کی جانے لگی۔ منافقت، فریب، خودغرضی، دھوکہ دہی اور نفرت سماجی اقدار بن گئیں۔ ریاست نے امریکی سامراج کی حمایت سے اسلامی بنیاد پرستی کو آمریت کے خلاف مزاحمت کو کچلنے کے لیے ابھارا۔ قیادت میں دائیں بازو کے ابھار کے باوجود عوام اور مخلص کارکنان کی اس مزاحمت نے پارٹی میں نئی جان ڈال دی۔ کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں عوام ایک مرتبہ پھر پی پی پی کے گرد اکٹھے ہوئے اور 1988ء میں اسے اقتدار میں لائے۔ لیکن اب نظریات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ سوشلزم اور انقلابی پالیسیاں ترک کر دی گئیں اور پارٹی نے سرمایہ داری کو اپنا کر سامراجی پالیسوں کی حمایت کردی۔
1980ء کی دہائی سے پیپلز پارٹی کی ہر قیادت اور حکومت دائیں بازو کی جانب مزید جھکتی گئیں۔ ان لیڈروں نے سٹیٹس کو کا حصہ بننے اور سامراج کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لبرلائیزیشن، ڈی ریگولیشن، ری سٹرکچرنگ، نجکاری اور آئی ایم ایف اور سامرجی اداروں کی پالیسیوں نے عوام کو تباہ اور سماج میں شدید غربت اور محرومی میں اضافہ کیا ہے۔ کسی متبادل کی عدم موجودگی میں ان کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں۔ ہر سطح پر پیپلز پارٹی کی نامزد قیادت کے لیے سوشلزم کا نام لینا بھی ممنوع ہے۔ پارٹی کے موجودہ سرمایہ دار لیڈروں کے خلاف واحد حقیقی مخالفت ان قوتوں کی جانب سے آئے گی جو پارٹی کی سوشلسٹ شروعات سے ناطہ جوڑ کر انہیں پھر سے اجاگر کریں گے۔
پی پی پی کی موجودہ قیادت سمجھتی ہے کہ پارٹی کو عوام کی حمایت ہمیشہ حاصل رہے گی۔ چار دہائیوں سے پی پی پی مجبور عوام پر مسلط رہی ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کب تک مجبورر طبقات کی روایت کے طور پر قائم رہے گی؟ جمود کے عہد میں ایک متبادل عوامی پارٹی تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ عام ادوار میں عوام بظاہر آسان ترین اور دستیاب راستے کو چنتے ہیں۔ لیکن تجربہ اور عظیم تاریخی واقعات انہیں انقلاب کی راہ پر دھکیل دیتے ہیں۔ شہرہ آفاق کتاب ’’بائیں بازو کا کمیونزم۔ ایک طفلانہ بیماری‘‘ میں لینن لکھتا ہے کہ ’’اگر آپ ’عوام‘ کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور’عوام‘ کی ہمدردی اور حمایت حاصل کرنا ہتے ہیں تو پھر مشکلات، چبھتی ہوئی باتوں، دھوکوں، توہین اور ’لیڈروں‘ کے عتاب سے گھبرانہ نہیں چاہیے (جو موقع پرست اور سوشل ساؤ نسٹ ہوتے ہوئے زیادہ تر بلواسطہ یا بلاواسطہ بورژوازی اور پولیس سے ملے ہوتے ہیں)، بلکہ لازمی طور پر وہاں کام کرنا چاہیے جہاں عوام موجود ہوں‘‘۔ پاکستان میں طبقاتی جنگ کی مرکزی لڑائی پیپلز پارٹی کے اندر لڑی جائے گی، بشرطیکہ یہ آنے والے عہد میں بطور روایت ختم نہ ہو۔
ایک نیا انقلابی ابھار نا گزیر ہو چکا ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی نہیں ہے بلکہ ایک بلند تر میعار پر سامنے آتی ہے۔ سماج میں گردش کرنے والے رجعتی واقعات اور توجہ ہٹانے والے سطحی عوامل کے نیچے ایک بغاوت سلگ رہی ہے۔ اس کا ابھار شروعاتی مرحلے میں پیپلز پارٹی کو دہلا دے گا۔ لیکن یہ بغاوت ایک حقیقی مارکسی قیادت کے ساتھ اس مسلط کردہ قیادت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک حقیقی انقلابی پارٹی کو تراشے گی جو پیپلز پارٹی کے تاسیسی پروگرام میں شامل سوشلسٹ انقلاب مکمل کرے گی۔