فیڈل کاسترو کی میراث

| تحریر: لال خان |

26 نومبر کو کیوبا میں چے گویرا کے ہمراہ سوشلسٹ انقلاب بر پا کرنے والے انقلابی قائد اور تقریباًآدھی صدی تک اس منصوبہ بند معیشت پر برسراقتدار رہنے والے فیڈل کاسترو 90 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ کاسترو کا شمار دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے مقبول سوشلسٹ رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ کارپوریٹ میڈیا کے مطابق یہ ’’آخری‘‘ سوشلسٹ لیڈر تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کاسترو کی وفات جہاں ایک عہد کا اختتام ہے وہاں دنیا بھر میں بھڑکتی طبقاتی کشمکش اور سوشلزم کے احیا کے نئے دور کا آغاز بھی ہے۔

_92672813_cheandcastro2
فیڈل کاسترو اور چے گویرا

عام طور پر کسی سیاسی لیڈ رکی جو روایتی پذیرائی کی جاتی ہے وہ شاید کاسترو کی جدوجہد اور نظریاتی سوچ اور فکر کے حوالے سے بہت حد تک بے معنی اور فروعی ہوجاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کاسترو نے اتنے طویل اقتدار میں کبھی پرتعیش زندگی نہیں گزاری۔ ایک چھوٹے سے مکان میں عام انسان کی طرح زندگی کو بسر کیا۔ وہ مزاج میں سچائی او ر تعلقات میں منافقت سے پاک رویہ رکھتا تھا۔ سیاسی، نظریاتی یا معاشی کرپشن کا الزام امریکی سامراج جیسے کاسترو کے بدترین دشمن بھی نہیں لگا سکتے۔ انسان دوستی، محروم طبقات کے لیے تڑپ، انقلابی نظریات اور جدوجہد اس کے کردار اور فطرت کے لازمی اجزا تھے۔ ایسی دوسری بہت سے صفات جو اعلیٰ ظرف انسانوں میں پائی جاتی ہیں وہ کاسترو میں کہیں بلند پیمانے پر تھیں۔ لیکن یہ کاسترو کی نہ پہچان ہے اور نہ ہی اس کی میراث! فیڈل کاسترو کی اصل میراث دیوہیکل امریکی سامراج، جو تاریخ کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے، کے سامنے ڈٹ جانا اور اس کے آگے آخری وقت تک جھکنے سے انکار تھا۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ اگر نظریات سچے اور ٹھو س سائنسی حقائق پر مبنی ہوں تو انسان کی روح اور احساس میں اتنی ہمت اور جرات پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی استعماری قوت سے ٹکرا بھی سکتا ہے اور اس کو پچھاڑ بھی دیتا ہے۔
چے گویرا اور کاسترو کی قیادت میں برپا ہونے والے والا 1959ء کا انقلابِ کیوبا، 1917ء کے بالشویک انقلاب (انقلابِ روس) کی طرح کوئی کلاسیکی مارکسی بنیادوں پر برپا نہیں ہوا تھا۔ بلکہ یہ ’26 جولائی کی تحریک‘ کی ایک گوریلا جنگ تھی۔ کاسترو، جو کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں پہلے ایک وکیل تھا، وہ امریکی سامراج کی گماشتہ فوجی آمریت کے خلاف جن نظریات کے ساتھ ابھرا تھا وہ ابتدا میں سوشلزم کی بجائے انقلابی جمہوریت پر مبنی تھے۔ اس وقت کیوبا میں امریکی سامراج کے کٹھ پتلی جنرل بیٹسٹا نے 10 مارچ 1952 ء کو جابر فوجی آمریت مسلط کی تھی۔ کس حد تک وہ بدعنوان، بدکردار اور وحشی تھا، اس کا اندازہ اس مکالمے سے ہوتا ہے جو 1958ء میں امریکی صدر آئزن ہاور اور اس کے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلس کے درمیان ہوا۔ فاسٹر ڈلس نے بیٹسٹا کے بار ے میں شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ کتیا کا بچہ ہے‘‘۔ صدر آئزن ہاور نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ’’ہاں! لیکن ہماری کتیاکا بچہ! ‘‘
بیٹسٹا کا تختہ یکم جنوری 1959ء کو انقلاب نے اکھاڑ دیا جس کی قیادت فیڈل کاسترو کررہا تھا لیکن یہ تاثر غلط ہے کہ صرف گوریلا جنگ کے ذریعے ہی یہ انقلاب مکمل ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چے گویرا اور کاسترو کی گوریلا فوج ابھی ہوانا کے قریب بھی نہیں پہنچی تھی کہ ہوانا اور دوسرے شہروں میں صنعتی محنت کشوں اور دہقانوں نے سامراجی کارخانوں، فیکٹریوں اور جاگیروں پر قبضے شروع کر دئیے تھے۔ جب سرمایہ دارانہ ریاست ٹوٹی اور کاسترو نے نئی ریاست کی بنیادر کھی تو اس کے سامنے دو صورتیں تھیں: وہ مزدوروں کے قبضے چھڑواکر نجی ملکیت کو بحال کرتا، یا پھر معیشت کی نیشنلائزیشن کی طرف بڑھتا۔ اس نے دوسرا راستہ اپنایا اور معیشت نجی ملکیت اور منڈی کے قبضے سے آزاد ہو کر نئی انقلابی ریاست کے مکمل کنٹرول میں آگئی تھی۔ شاید کاسترو کو احساس نہیں تھا کہ کیوبا کا انقلاب ناگزیر طور پر انقلابی جمہوریت کے مرحلے کو چیر کر سوشلزم کی طرف آگے بڑھ گیا تھا۔
ابتدا میں کاسترو میں امریکی ریاست سے متعلق کچھ ’’جمہوری‘‘ خوش فہمیاں تھیں جو امریکی حکمرانوں نے دور کردیں۔ سامراجی اثاثوں کو قومی تحویل میں لینے کی پاداش میں امریکی سامراج نے 1961ء میں سی آئی اے کی گہری اور طویل سازش کے ذریعے کیوبا پر ایک خفیہ حملہ کروا دیا۔ کیوبا کے عوام کی مزاحمت اور نئی انقلابی ریاست کا جوابی حملہ اس قدر بھر پورتھا کہ اس بدنام زمانہ ’’بے آف پگز‘‘ کے حملے کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہاں پہلی مرتبہ فیڈل کاسترو نے یہ اعلان کیا کہ’’کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب فتح یاب ہوگیا ہے‘‘۔ یوں کیوبا پورے براعظم امریکہ میں پہلے سوشلسٹ انقلاب کا مرکز بن گیا۔ پورے خطے میں امریکی سامراج کے مفادات اور جبر کو ایک کاری ضرب لگی۔ اس کے بعد بھی سامراجیوں نے اس انقلاب کو کچلنے کی مسلسل سازشیں اور گھناؤنے اقدامات جاری رکھے۔ نہ صرف کیوبا پرمفلوج کردینے والی اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں بلکہ ذاتی طور پر کاسترو کی زندگی پر سی آئی اے کے 637 قاتلانہ حملے ہوئے جن سے وہ بار بار بچتا رہا۔ کاسترو کے الفاظ میں ’’اگر قاتلانہ حملوں سے بچنا اولمپکس کا کھیل ہوتا تو مجھے گولڈ میڈل ملتا‘‘۔ انقلابِ کیوبا کو ہر طرح سے برباد کرنے کی کوششوں اور کارپوریٹ میڈیا کے دہائیوں پر مبنی غلیظ پراپیگنڈے کے باوجود یہ انقلاب فیڈل کاسترو کی موت تک، آج تلک قائم ہے۔ اسکی بقا اور طاقت کی سب سے اہم وجہ بالخصوص علاج، تعلیم اور روزگارکے شعبوں میں اس کی بے نظیر حاصلات اور عوام میں اس کی بے پناہ مقبولیت اور متحرک حمایت رہی ہے۔
انقلاب اگرچہ کلاسیکی مارکسی بنیادوں پر برپا نہیں بھی ہوا تھا لیکن منڈی کی معیشت کی جگہ عوام کی ضروریات کے تحت استوار ہونے والی منصوبہ بند معیشت نے تیز ترین سماجی ترقی دی۔ لاطینی امریکہ میں کسی ملک کے عوام کو بنیادی سہولیات اس وسیع پیمانے پر حاصل نہیں ہو سکیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق کیوبا میں مفت نظام صحت امریکہ اور کئی یورپی ترقی یافتہ ممالک سے بہتر ہے۔ کیوبا میں اوسط عمر امریکہ سے زیادہ اور بچوں میں اموات کی تعداد اس سے کم ہے۔ غذائی قلت ناپید ہے۔ بیروزگاری بھی برائے نام ہے۔ شرح خواندگی 99.8 فیصد ہے۔ ہر طرف سے سرمایہ داری میں گھرے، دہائیوں سے معاشی پابندیوں میں جکڑے، تکنیکی لحاظ سے ترقی پذیر ملک کے لئے یہ بہت بڑی کامیابیاں ہیں۔
لیکن کیوبا کے ڈاکٹر، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف صرف وہاں کے عوام کے لیے خدمات انجام نہیں دیتے۔ دنیا بھر کے مظلوم عوام سے یکجہتی کی مارکسی بین الاقوامیت کی سوچ کے تحت کیوبا کے میڈیکل سٹاف دنیا بھر میں قدرتی آفات اور جنگی تباہ کاریوں سے گھائل ہونے والے عام انسانوں کے لیے اپنی خدمات مفت فراہم کرتے ہیں۔ گو کارپوریٹ ذرائع ابلاغ نے کافی حد تک اس حقیقت کو پس پردہ رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن پاکستان اور کشمیر میں 2005ء کے ہولناک زلزلے کے بعد سب سے بڑا طبی امداد کا کام ہزاروں افراد پر مشتمل کیوبا کے اسی میڈیکل سٹاف نے کیا تھا۔ لاکھوں زخمیوں کا علاج کیا اور یہاں جو میڈیکل کا سازوسامان لے کر آئے وہ بھی یہیں چھوڑ گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک ہزار سے زائد کشمیری اور پاکستانی طلبا اور طالبات کو کیوبا منگوا کر ان کو اعلیٰ پائے کے ڈاکٹر بنانا بھی کیوبا کی اس منصوبہ بند( سوشلسٹ) معیشت کا ہی کارنامہ تھا۔ کیوبا میں ڈاکٹر کی اجرت ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہے جبکہ پرائیویٹ پریکٹس کا تصور ہی وہاں نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح کیوبا کے ہر باشندے کے لیے اعلیٰ ترین یونیورسٹی کی تعلیم بھی مفت ہے۔ یہی صورتحال رہائش اور دوسری بنیادی انسانی ضروریات کے معاملے میں ہے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کاسترو کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب نے خصوصاً لاطینی امریکہ میں ایک سائنسی سچائی کے طور پر منصوبہ بند معیشت کی منڈی کی معیشت پر برتری کوثابت کیا ہے۔ انسانوں کی مساوی ترقی کی وہ مثال قائم کی ہے کہ اگر کیوبا کے انقلاب کو کچل بھی دیا جاتا ہے تو اشتراکی کامیابیوں کے ان نقوش کو تاریخ کے اوراق سے مٹایا نہیں جا سکتا۔
نظریاتی کمزوریوں کے باوجود فیڈل کاسترو کی سب سے اہم میراث یہی ہے کہ اس نے تمام تر جبر اور دباؤ کے باوجود مرتے دم تک سوشلزم کا عَلم سر بلند رکھا، دنیا بھر میں ریاستی و سامراجی جبر و استحصال کے سامنے قومی آزادی کی تحریکوں کی سیاسی اور عملی حمایت کی اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا یکسر خاتمہ کرکے ہی انسان کی زندگی مانگ اور ذلت سے آزاد ہو سکتی ہے۔

متعلقہ:

انقلابِ کیوبا خطرے میں؟

امریکہ کیوبا سفارتی تعلقات کا مستقبل

کیوبا امریکہ سفارتی تعلقات کی بحالی، مضمرات اور تناظر