مارکسزم، آرٹ اور سماج؛ ایلن ووڈز کا نیشنل کالج آف آرٹس لاہورمیں لیکچر

رپوٹ: عتیق خان
15مارچ کو لاہور کے تاریخی اور مشہور نیشنل کالج آف آرٹسNCA) (میں ایلن ووڈز کا ایک لیکچر منعقد کیا گیا۔نیشنل کالج آف آرٹس 1875ء میں میو لاسکول آف آرٹس کے نام سے قائم ہوا اور اس ادارے نے کئی نامور فنکار اور مصور پیدا کئے ہیں اوراس وقت پاکستان میں فن سے متعلقہ اداروں میں سب سے اہم نام بن چکا ہے۔
لیکچر سے کئی دن پہلے NCA کے طلباء نے پوسٹر تیار کر کے تمام ڈیپارٹمنٹس، ہاسٹلز اور کیفے ٹیریا میں آویزاں کر دیے تھے جن پر لیکچر کا وقت، جگہ اور ایلن ووڈز کا مختصر تعارف درج تھا۔لیکچر کا عنوان ’’مارکسزم،آرٹ اور سماج‘‘ تھا جس میں150 سے زائد طلباء و طالبات نے شرکت کی۔
لیکچر کا آغاز کامریڈ آدم پال نے بھرپور تالیوں کی گونج میں ایلن ووڈز کو سٹیج پر مدعو کر کے کیا۔کامریڈ ایلن ووڈز نے ایک گھنٹے سے زائد آرٹ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی اور مارکسزم کے تناظر سے آرٹ کی تاریخ بیان کی۔غاروں میں قدیم انسانوں کی بنائی گئی تصاویر اور پھر غلام دارانہ سماج میں آرٹ کی مختلف اشکال سے لے کر جدید زمانے میں آرٹ کے مختلف پہلووں پر کامریڈ ایلن ووڈز نے سیر حاصل بحث کی۔انہوں نے کہا کہ مختلف زمانوں میں ہونے والے مختلف نوعیت کے انقلابات نے نہ صرف سماج بلکہ آرٹ کو بھی آگے بڑھایا اور ہر انقلاب کے بعد فنون میں ایک نئی جدّت آئی۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حکمران طبقات کی جانب فن اور فنکاروں پر کئے جانے والے حملوں پر بھی کڑی نقطہ چینی کی۔ایلن ووڈز نے کہا کہ سرمایہ داری اس عہد میں آرٹ کی بڑھوتری کے راستے میں رکاوٹ بن چکی ہے اور بڑے شہروں کا بے ہنگم پن اور آسمان کو چھوتی بد صورت عمارتیں فن تعمیر کی تنزلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔انہوں نے گویا، پیبلو پیکاسو، بیتھاون، شوستا کووچ جیسے عظیم فنکاروں کو سراہا جن کی تخلیقات میں ان کے عہد کے انقلابات کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حاظرین کی توجہ اس افسوسناک حقیقت کی طرف بھی مبذول کروائی کہ ان تمام عظیم فنکاروں کی زندگی انتہائی مفلسی میں گزری اور ان کے اہلِ خانہ تمام عمر دو وقت کی روٹی کو ترستے رہے ۔ آج انہی کے فن پاروں کی قیمت منڈی میں کروڑوں ڈالر لگتی ہے۔سرمایہ داری میں ہر چیز کا دام لگتا ہے اور اپنے آپ کو فنونِ لطیفہ کا دلدادہ کہنے والے دراصل پیسے کے پیچھے بھاگنے والے سرمایہ داروں سے بڑھ کے نہیں ہیں جنہوں نے آرٹ کو بھی کاروبار بنا دیا ہے۔ یہ لوگ فن پاروں کو خرید کر بینکوں کے لاکروں میں رکھ دیتے ہیں تاکہ بعد میں انہیں مہنگے داموں بیچ کر پیسہ بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ سماج میں مزدوروں ، کسانوں اور عام انسانوں کی زندگی اس قدر کٹھن ہے کہ ادب اور فنونِ لطیفہ کو سراہنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ۔ایک ایسا نظام جو انسانوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہو وہ آرٹ کو کس طرح ترقی دے سکتا ہے؟ اپنے لیکچر کے آخر میں ایلن ووڈز نے کہا کہ سماجوں کی تبدیلی اور بہتری میں فن کاروں کا کردار ہمیشہ سے کلیدی رہا ہے۔اس عہد میں جب سرمایہ دارانہ نظا م انسانیت کو بھوک ، افلاس، بیماری اور جنگوں کے علاوہ کچھ دینے سے قاصر ہے نوجوان فن کاروں کی یہ تاریخی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فنونِ لطیفہ کو اس نظام وحشت کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اسے اکھاڑ پھینکنے کی راہ ہموار کریں۔
لیکچر کے بعد طلباء و طالبات نے بہت سے دلچسپ سوالات کیے جن کا جواب ایلن ووڈز نے انتہائی خوبصورتی سے دیا۔انہو ں نے فن کے طالبِ علموں کو دعوت دی کہ وہ عالمی مارکسی رجحان میں شامل ہو کر عالمی سوشلسٹ انقلاب کا حصہ بنیں تاکہ سرمایہ داری کو کچل کر ایک انسانی معاشرہ تعمیر کیا جا سکے جہاں آرٹ پر ایک اقلیتی طبقے کی اجارہ داری نہ ہو۔

اس لیکچر کی ویڈیو بہت جلد ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔