رسوا ہے نسواں آج بھی!

| تحریر: لتا |

آج جہاں سماج میں ہر طرف محنت کش طبقہ شدید استحصال کا شکار ہے وہیں ہمیں اس سرمایہ داری کے دردناک دو رمیں عورت کی حیثیت انتہائی بدتر نظرآتی ہے۔ وہ جہاں اس سماج میں خاندانی جکڑبندیوں اور بندھنوں میں بندھی ہے وہیں دولت کی لوٹ مار پر مبنی یہ نظام اُس کا دوہرا، تہرااستحصال بھی جاری رکھتا ہے۔ کبھی عزت اور غیرت کے نام پر اُسے قتل کردیا جاتا ہے تو کبھی وہ کسی کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے پسماندہ سماجوں میں گزشتہ دنوں ہونے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک طرف انہیں غیرت کے نام پر مار ڈالا گیا تو دوسری طرف بیچ چوراہے ان کے ساتھ بلادکار کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ یہاں ہر قسم کے حقوق کی باتیں عام ہیں، کوئی عورتوں کو صرف گھریلو جکڑبندیوں سے آزاد کروانا چاہتا ہے تو کوئی انہیں گھر میں قید رکھنا چاہتا ہے، کوئی انہیں مغربی لباس میں دیکھنا چاہتا ہے تو کوئی انہیں برقعے میں مقید دیکھنے کا خواہاں ہے۔ لیکن یہاں اگر بات نہیں ہوتی تو وہ صرف عورت کو انسان تسلیم کرنے کی! ہر کوئی اسے اپنے مطابق رکھنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ جو خواتین ’’عورتوں کے حقوق‘‘ کے لئے جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں وہ بھی صرف ’’مڈل کلاس‘‘ کے مسائل اور ان کے معاملات پر بات کرتی ہیں۔ عورتوں کی اکثریت جن سنگین مسائل سے دوچار ہے ان کی طرف کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا کیونکہ ان مسائل پر بات کرنا درحقیقت سرمائے کے اس وحشی نظام کے خلاف بات کرنے کے مترادت ہے۔
لیکن عورت کا سماجی کردار ہمیشہ نہ ہی ایسی تھااور نہ ایسی رہ سکتا ہے۔ ہمیں تاریخ میں ایسے پورے پورے سماج نظر آتے ہیں جہاں عورتیں نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ تھیں بلکہ اس سماج و خاندان کی سربراہی کاکردار بھی عورتیں ہی ادا کر رہی تھیں۔ اس دورمیں نہ ہی کسی ذاتی ملکیت کا تصور تھا اور نہ عورت ان اذیتوں سے جھلس رہی تھی۔ جب سے ذاتی ملکیت اور وراثت کا ظہور ہوا تب سے ہی عورت کو مرد کی ذاتی ملکیت سمجھا جانے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف عورت سے اس کی خودمختیاری چھین لی گئی بلکہ آہستہ آہستہ اس کا سماج میں انسانی درجہ بھی اس سے چھین لیا گیا۔ عورت کے وجود کو صرف مردوں کی نسلیں بڑھانے کا ایک ذریعہ مانا جانے لگا اور یہی وہ حالات تھے جہاں سے عورتوں کا استحصال شروع ہوتے ہوئے آج کے بدترین استحصال میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسی کے چلتے ہمیں مختلف اوقات اور انسانی سماجوں میں عورت کے استحصال کی مختلف شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ غلام داری سماج میں جہاں مردوں کو غلام بنایا گیا وہاں ایک عورت بھی اپنے آقا کی غلام بن کر اس کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کو پورا کرنے کی پابند ہوتی تھی۔ جاگیرداری نے عورت کے پیروں میں شوہر کی غلامی کی زنجیریں ڈال دیں۔ وہ سماج کی پیدوار میں مرد کے برابر حصہ ادا کرتی تھی لیکن جاگیرداری نے اس کا درجہ ہمیشہ اُس کے شوہر سے کم رکھا۔ صنعتی انقلاب برپا ہوتے ہی سرمایہ داری نے جہاں ہر چیز کو ایک جنس بنا دیا وہیں جس چیز کو باآسانی جنس تسلیم کیاگیا وہ عورت تھی۔ بظاہر مغربی ممالک میں عورتوں کو کچھ آزادی ضرور ملی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آزادی کا فائدہ ہونے کے بجائے اس کی بدولت مزید اذیتوں میں اضافہ ہوااور عورت کو صرف بازار کی زینت بنا کر رکھ دیا گیا۔ جسے پچھلے لمبے عرصے سے ایک سستی مشین کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
آج جس قدر عورت کو اشتہاری بنا دیا گیا ہے شاید ہی کبھی ایسا کیا گیا ہو۔ سرمایہ داری کی ترقی نے عورت کو اس قدر کمرشلائز کردیا ہے کہ وہ ہمیں ہر جنس (پروڈکٹ) کے اشتہار میں لازمی دیکھنے کو ملتی ہے گویا اس شے سے اس کا تعلق ہو یا نہ ہو۔ اس جنس کے مالکان بڑی شان سے ایک عورت کی نمائش کرتے ہیں اور سماج اس تشہیر سے متاثر ہوکر ان کے کاروبار میں اضافہ بھی کرواتا ہے۔ این جی اوز اور سول سوسائٹی کی ’رونقی‘ خواتین یورپ سے متاثر ہوکر عورتوں کے کم کپڑوں کو ہی اس کی آزادی قرار دیتی ہیں۔ یہ محترمائیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ کوسوں دور دکھائی دیتی ہیں کہ جس یورپ کی وہ پیروی کررہی ہیں وہاں تیزاب پھنکنے اور گھریلو تشدد کے واقعات اب عام ہوچکے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہاں تک کہ انگلینڈ اور وینزویلا جیسے ممالک میں ہرہفتے دو سے زائد خواتین اپنے شریک حیات کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ اس کے علاہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر 90 سیکنڈ میں ایک عورت بچے کو جنم دینے کے دوران اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ ہندوستا ن جیسے ممالک میں عورتوں پر وحشی اور غیر انسانی انداز میں تشدد کے واقعات اب عام ہورہے ہیں۔ پچھلے دنوں دہلی بس ریپ اور حالیہ نئے سال کی تقریب کے دوران بنگلور میں ہوئے واقعات عورتوں کی سماج میں کیفیت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ بالی وڈ میں دیکھائی جانے والی رنگین خواتین اورچمکتے بھارت کے برعکس آج وہاں عورت اندھیروں میں غرق ہے۔ جس پر جبر کی انتہائیں کردی گئی ہیں۔ دہلی جیسے جدید شہر کو دنیا کا ’’ریپ کیپیٹل‘‘ بھی کہا جاتا ہے جہاں ہر بیس منٹ میں ایک عورت اپنی عزت گنوا بیٹھتی ہے۔ دوسری جانب نا جانے کتنی معصوم بچیوں کی لاشیں آئے دن کچرے کے ڈھیر اورگٹر کی نالیوں اور کنوؤں میں پڑی ملتی ہیں۔ جن کے والدین انہیں لڑکے کی خواہش یا پھر جہیز کے خوف سے ان کی پہلی سانس کو آخری سانس میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ان تمام تر واقعات کی بنیادی وجہ پھر ملکیت ہی ہے کیونکہ لڑکی جوان ہوکر پرائی ہوجاتی ہے جبکہ لڑکا بڑھاپے کا سہارااور ملکیت کا وارث بنتا ہے یا ملکیت بنانے اور بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ دولت کے اس نظام نے سوچ و فکر کو بھی اپنی زد میں لیا ہوا ہے۔ آج لڑکوں کی اکثریت بڑھاپے میں ان کے ماں باپ کا سہارا بننے کے بجائے انہیں بوجھ سمجھ کر گھر سے بے دخل کردیتے ہیں۔
اس ساری کیفیت سے بچ کر اگر کچھ خواتین تعلیم حاصل کرکے آگے بڑھ بھی جائیں تو سماج کے دوہرے رویے انہیں اذیت اور رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں دیتے۔ روزگار سے لیکر دیگر تمام تر شعبوں میں ہمیں عورتوں کی شراکت مردوں کی نسبت انتہائی کم نظر آتی ہے۔ بنگلادیش، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں خاص طور پر جس طرح گارمنٹس کے شعبے میں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے دنیا کے شاید ہی کسی کونے میں ہوتا ہو۔ این جی اوز سے لیکر دنیا بھر میں چیخ پکار کرنی والی ’’رونق مافیا ‘‘ کسی طور پر بھی محنت کش خواتین کے لئے آواز نہیں اٹھاتیں، حالانکہ اس سماج میں سب سے زیادہ استحصال اگر کسی کا ہوتا ہے تو وہ وہی خواتین ہیں جو ایک طرف اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے بارہ گھنٹے سے زائد فیکٹریوں میں مشقت کرتی ہیں اور گھر کا سارا کام اور بچوں کی تربیت کا بوجھ بھی انہی کے سرہوتا ہے۔
پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک میں جہاں مہنگائی آسمان چھو رہی ہے وہاں محنت کش خواتین کی زندگیاں دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہیں۔ انہیں ایک مرد کے مقابلے میں انتہائی کم اجرت دے کر ان کا دہرا استحصال کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں جہاں مردوں، بچوں اور مجموعی طور پر محنت کش طبقے کا جینا مشکل ہوتا جارہا ہے وہیں عورت کی زندگی ایک اذیت سے کم نہیں۔ لیکن تاریخ کے اسباق بتاتے ہیں کہ اگر عورت سماج کو چلا سکتی ہے تو وہ اسے بدلنے کی شکتی بھی رکھتی ہے۔ روس میں ہونے والے فروری انقلاب (جس نے زار کا تختہ الٹ دیا) کا آغاز بھی بہادر محنت کش خواتین نے ہی کیا تھا۔ اس سال 8 مارچ کو ایک بار پھر عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔ تمام ٹی وی چینلزاور ان پر بیٹھی ’’آزاد خیال خواتین‘‘ محنت کش خواتین کے لئے مگرمچھ کے آنسو بھی بہائیں گی لیکن ان کے وہ جذبے احساسوں سے مبراہونگے۔ کیونکہ ان کے پاس ان مسائل کا کوئی حل موجود ہی نہیں ہے۔ فیمن ازم کا کھوکھلا نظریہ بھی آج اپنی موت آپ دم توڑ رہا ہے۔ کیونکہ اس نظام میں محض جنسی استحصال نہیں بلکہ طبقاتی استحصال شدت اختیار کرچکا ہے۔ اس لئے آج ماسوائے محنت کش خواتین کی محنت کش مردوں کے ساتھ طبقاتی جڑت کے کوئی بھی طریقہ یا لائحہ عمل گھریلو تشدد کے قوانین سے لیکر عورت کی جنسی آزادی کے قوانین تک، عورت کے مسائل کو حل نہیں کرسکتا۔ کیونکہ مسئلہ محض جنسی تفریق کا نہیں بلکہ طبقاتی استحصال کا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین جدوجہد کی علامت کے اس عظیم دن کے موقع پر ایک بار پھر یہ عہد کریں کے وہ خود کو معاشی جکڑبندیوں سے آزاد کروا منصوبہ بند معیشت کی جانب پہلا قدم بڑھاتے ہوئے سارے سماج کو ضرور آزاد کروائیں گی، کیونکہ جس سماج میں عورت آزاد نہیں وہ سماج بھی آزاد نہیں!