[تحریر: لال خان]
پاکستان میں حکمرانوں کی سیاسی شعبدہ بازی اور نان ایشوز کی بھرمار جاری و ساری ہے۔ ریاست کی جانب سے عوام پر مسلط کی جانے والی سیاست اور ثقافت کا مقصد حقیقی ایشوز کو دبا کر سماجی زندگی کی اذیتوں کی پردہ پوشی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ برطانوی شاہی خاندان میں اضافے سے لے کر پاکستان میں نئے صدر کے انتخاب اور جعلی سیاسی لڑائیوں سے لے کر مفاد پرستی پر مبنی ناپائیدار سیاسی اتحادوں تک، رنگ برنگے نان ایشوز مسلسل ابھارے جاتے ہیں لیکن واقعات میڈیا پر چلنے والی ان بے معنی بحثوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
حالیہ صدارتی انتخابات کے گرد جاری سیاسی ناٹک اور حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے مابین نورا کشتی کابھلا مسائل کے انبار تلے دبے عوام کی زندگیوں سے کیا تعلق ہے؟ اس نظام میں کوئی بھی صدر بنے، ایک عام آدمی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بالفرض صدر کا عہدہ ہی ختم کر دیا جائے تو کون سی قیامت آجائے گی؟ یہ نظام جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس میں کوئی صدر یا وزیراعظم چاہتے ہوئے بھی کچھ بہتر نہیں کرسکتا۔ اپوزیشن اور حکومت میں بیٹھی جماعتوں کے انتخابی منشوروں کی طرح ان کے صدارتی امیدواروں میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ سرمائے کی اس سیاست میں غریبوں کا منشور بھلا کس کے پاس ہے؟ سب اس نظام کی تنگ وتاریک گلی کے تھڑے باز جواری ہیں۔ یہ سیاست نہیں تماشا ہے۔ عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا اسکا نہ کوئی مقصد ہے نہ منزل۔
ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی جاری ہے اور معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ جرائم اور بدعنوانی اس سماج کا معمول بن چکے ہیں۔ سماجی زندگی اور سیاست میں کرپشن توکم و بیش جائز سمجھی جانے لگی ہے۔ طبقاتی استحصال کو ایک فطری عمل بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ امارت اور غربت کی بڑھتی ہوئی تفریق کو ازلی، ابدی اور حتمی سچائی قرار دیا جاچکا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، محرومی اور ذلت زندگی کے لازمی جزو محسوس ہونے لگے ہیں۔ سماج میں بلکتے بچوں، بیمار بزرگوں، لاچار ماؤں اور بے روزگار نوجوانوں کو یہ باور کروادیا گیا ہے کہ دکھوں سے بھری یہ زندگی ہی ان کا مقدر ہے اور انسانی سماج کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ تاریخ کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے۔ لیکن بار بار دہرائی جانے والی اس بیہودگی سے کیا سرمایہ دارانہ سماج کے تضادات ختم ہوجائیں گے؟ جعلی سیاست، بکاؤ صحافت اور منافقانہ دانشوری سے کب تک اس آتش فشاں کو ڈھانپا جاسکتا ہے جس کی گہراؤں میں سلگنے والے کروڑوں انسانوں کے سینوں میں اس نظام کے خلاف نفرت کا لاوا دہائیوں سے پک رہا ہے؟
سرکاری معیشت کا دیوالیہ برسوں پہلے ہی نکل چکا ہے۔ پیدا ہونے والا ہر بچہ 85 ہزار روپے سے زائد کا قرض لے کر اس جہنم ارضی میں آتا ہے۔ ریاستی قرضہ ملکی تاریخ کے بلند ترین حجم تک پہنچ چکا ہے۔ ماضی کی ہر فوجی اور ’جمہوری‘ حکومت کی طرح آج بھی قرضوں کا یہ ہمالیہ معاشی بربریت سے گھائل محنت کش عوام کے کندھوں پر رکھا جارہا ہے۔ پرانا کشکول توڑ کر اس سے زیادہ بڑا اور پائیدار کشکول آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی اداروں کے آگے پھیلایا جارہا ہے۔ پاکستانی حکمران قرضے لینے میں ذرا سی عار یا ہچکچاہٹ محسوس ہی نہیں کرتے کیونکہ بھاری سود سمیت ان کی واپسی کا ذمہ پچھلی چھ دہائیوں سے عوام کے سر ہے۔ دوسری طرف سامراجی مالیاتی ادارے یہ قرضے اس ملک کی بہتری یا ترقی کیلئے نہیں دیتے۔ یہ قرضے اس ڈرپ کی مانند ہیں جس کا واحد مقصد بستر مرگ پر پڑے مریض کی نبض کو چالو رکھنا ہے اور اس حد تک ہی دئے جاتے ہیں جس سے یہ نظام اور ریاست قائم رہے تاکہ یہاں کے محنت کشوں کا استحصال، معدنیات کی لوٹ مار اور وسائل پر تصرف جاری رہ سکے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے جنت کا درجہ رکھتے ہیں جہاں کم ترین اجرتوں پر محنت کشوں کی دستیابی، آسمان کو چھوتی شرح منافع کو یقینی بناتی ہے۔ پاکستان کو جدید صنعتی ریاست بنانے کے تاریخی فریضے میں ناکام ہوچکے ہمارے حکمران ان سامراجی گدھوں کے کمیشن ایجنٹ ہیں اور پچھلے 65 سالوں سے دلالی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ان سامراجی ممالک کی ریاستوں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کو پاکستان کے ’’دفاع‘‘ کی فکر بھی ہر وقت ستائے رکھتی ہے چنانچہ ’’دوست‘‘ ممالک کا ’دل رکھنے‘کے لئے پاکستانی ریاست اربوں ڈالر کے ہتھیارہر سال درآمد کرتی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار اسلحہ سازی کی صنعت ہے اورجدید اسلحے کی قیمتوں میں اضافے کی شرح کسی دوسری جنس سے زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شما ر کے مطابق پاکستانی حکومت ’دفاع‘ پر صحت سے 500 فیصد زیادہ سرمایہ خرچ کرتی ہے۔
ہمارے جمہوری اور غیر جمہوری حکمران ڈینگیں مارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن دفاع اور ایٹمی پروگرام، سامراجی قرضہ جات اور ان پر سود کی ادائیگی یعنی Debt Servicing اورخارجہ پالیسی جیسے بنیادی شعبوں میں ان کا داخلہ ’ممنوع‘ ہے۔ یعنی ان معاملوں میں وہ نہ تو کوئی فیصلہ سازی کر سکتے ہیں اور نہ ہی پالیسی نافذ کر سکتے ہیں۔ معاشی اور اقتصادی پالیسیاں ظاہری طور پر وزارت خزانہ پیش کرتی ہے لیکن درحقیقت یہ معاملات واشنگٹن میں قائم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دفاتر میں طے پاتے ہیں۔ یعنی طمنچہ کامو کے ہاتھ اور گولیاں نیتا جی کے پاس ہیں۔
لینن کے بقول سیاست محض مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے۔ لہٰذہ اس محکوم معیشت کے گرد آزادانہ سیاست اور ’قومی خودمختیاری‘ کی لفاظی ایک دھوکہ ہے۔ منڈی کی معیشت میں سیاست سمیت ہر چیز کی سودہ بازی ہوتی ہے۔ سیاست میں سرمایہ کاری کر کے بھاری منافعے کمائے جاتے ہیں۔ اس لین دین کو کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کے پردے میں چھپایا جاتا ہے۔ اس لوٹ مار پر حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی لڑائی کو مختلف ’دیدہ زیب‘ رنگوں میں سیاسی افق پر پیش کیا جاتا ہے۔ عوامی شعور کو الجھا کر یہ تنازعات ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی بھوک، ننگ، افلاس او محرومی کو بھلا کر ان بیہودہ تماشوں کے تماشائی بنے رہیں۔ لیکن پھر ایسے ادوار بھی آتے ہیں جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں اور ان کے نظام سے نفرت اجتماعی شعور کی شکل اختیار کرکے بھڑک اٹھتی ہے۔ تماشائی میدان میں چھلانگ لگا کھیل اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ماضی میں دوست دشمن کا کھیل رچا نے والے حکمران محنت کش عوام کے خلاف ایک ہوجاتے ہیں اورکھیل کا میدان، میدان جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے جہاں طبقاتی لڑائی کے معرکے لڑے جاتے ہیں۔ دونوں طرف سے پیش قدمیوں اور پسپائیوں کے ساتھ یہ انقلابی جنگ آگے بڑھتی ہے۔
طبقات کی موجودگی میں طبقاتی کشمکش ماند تو پڑ سکتی ہے لیکن کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ فی الحال پاکستان میں محنت کش طبقہ سیاسی بے حسی اور لا تعلقی کا شکار ہے۔ سماج میں عدم اطمینان، معاشی بدحالی اور حکمرانوں سے نفرت اگرچہ موجود ہے لیکن کسی تحریک کی عدم موجودگی میں نیم رجعت اور مایوسی عمومی طور پر حاوی ہے، لیکن ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔ آنے والے دنوں میں معاشی تنزلی بڑھے گی اور دیوالیہ معیشت کو مصنوعی طور پر سہارہ دینے کے لئے عوام پر مزید حملے کئے جائیں گے جس سے عام آدمی کے معاشی حالات بد تر ہوں گے اور اس کے پاس بغاوت کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ پاکستانی سماج میں طبقاتی تضادات اپنی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں اور غور سے سنیں تو بظاہر خاموشی میں بھی طبقاتی جنگ کا طبل دور کہیں بج رہا ہے!