جمہوری اور فوجی انصاف

| تحریر: لال خان |

لگتا ہے کہ آخر کار پاکستان کی پارلیمنٹ سیاسی پارٹیوں کی حمایت سے 6 مارچ کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کو قائم اور جاری رکھنے کی مزیددو سال کی توسیع کرہی دے گی ہے۔ ویسے یہ توہوناہی تھا،بس کچھ پارٹیاں اورلیڈرایک جمہوری ڈھونگ رچاکریہ باورکروانے کی سعی ناکام کررہے ہیں کہ وہ سویلین عدالتوں اورحاکمیت کو فوقیت دیتے ہیں۔ لیکن عوام نے نہ اس ناٹک پر زیادہ غور کیا اور نہ ہی جمہوریت اور آمریت کے تضاد کے گرد وہ جمہوری طرز کی حاکمیت کے لیے اب کوئی جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہونگے۔ ان جمہوری حکومتوں اور پارلیمانوں نے انکا جو حشر کیا ہے، جس بے دردی سے انکے مسائل اور مانگوں کو فراموش کیا ہے، انکے ووٹوں کی جو تضحیک کی گئی ہے، ان کی زندگیوں میں جمہوری ادوار نے جو مہنگائی، محرومی اور ذلت کا بے پناہ اضافہ کیا ہے، اس کے بعد اگر اب عوام میں اس نام نہاد نظام کے لیے حقارت پیدا ہوچکی ہے تو یہ کسی کے لیے کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔
بدعنوانی اور جرائم میں ملوث سیاست بھلا اس ریاست کے کسی اقدام کی مخالفت کیسے کرسکتی ہے جس کی چھتری تلے وہ یہ ساری وارداتیں کرتے ہیں۔ مروجہ عدلیہ میں دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف کوئی کاروائی ہی بہت کم ہوتی رہی ہے بلکہ اکثریت ایسے مقدمات کی ہے جن میں عدالتوں نے ان لشکری تنظیموں سے منسلک افراد اور اداروں کے حق میں فیصلے بھی دیئے ہیں۔ جن چند نچلی پرتوں کے ججوں نے دہشت گردی کے خلاف کوئی جراتمندانہ اقدامات کیے اور ان حیوانی جرائم پر سزائیں دیں، ان میں سے قتل ہونے والے ججوں کے نام سب جانتے ہیں۔ دوسری جانب یہ دہشت گرد وسیع تر کالے دھن کی بدولت افسر شاہی اور عدالتی اہلکاروں کو دہشت کی بجائے دولت سے خرید لیتے تھے۔ جوبکنے سے انکاری تھے ان کو موت ملتی رہی ہے۔ ان کا تحفظ کرنے والے ریاستی ادارے محض تماشائی بنے رہے ہیں۔ اس خوف سے بیشتر جج یا تو کیس چھوڑ دیتے ہیں یا پھر چھٹی پر چلے جاتے ہیں۔ یہ اس ملک کے نظامِ انصاف کا ایسا پہلو ہے جو ریاست کی معاشرے پررِٹ کی اصلیت کو بے نقاب کرتا ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیشتر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے اپنی ریٹائر منٹ کے بعد عدلیہ کی ہولناک کرپشن کے رونے روئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فوجی عدالتوں میں حقیقی انصاف مل جایا کرتا ہے؟ کیا یہ انصاف شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوتا ہے؟ یا پھر کیا اس انصاف سے معاشرے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ ان سوالات کا اگر دیانتداری سے جواب دیا جائے تو یہ نفی میں بنتا ہے۔ لیکن جب مروجہ ریاستی انصاف کے ادارے ناکام ہوجائیں تو پھر حکمران اپنے انصاف کے ادارے ہی بدلتے ہیں۔ وہ کبھی بھی اس عدم مساوات اور اونچ نیچ کے نظام میں حقیقی انصاف کو یقینی نہیں بناسکتے۔ کیونکہ جو معاشرہ ہی ناانصافی پرمبنی ہو اس میں انصاف کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انصاف کے ان ایوانوں کے طویل راستوں کی ہر سیڑھی پر پیسے کا تقاضا ہے۔ جب عدالت کی چوکھٹ تک کوئی محنت کش سائل پہنچتا ہے تو وہ لٹ چکا ہوتا ہے۔ انصاف اتنامہنگاہے کہ اس تک رسائی آبادی کی بھاری اکثریت کی پہنچ سے باہرہے!
جمہور ی دور میں فوجی عدالتوں کا استعمال ہو یا مارشل لاؤں کے مسلط کیے جانے کا عمل ہو، حکمران طبقات اور ریاست کے ماہرین حاکمیت کے ان طریقوں کو لمبے عرصے تک نہیں چلنے دیتے اورجلد ہی فوجی آمر شیروانیاں پہن کر جمہوری بن جاتے ہیں اورسویلین وفوجی کھچڑی پر مبنی حکومتیں، براہ راست مارشل لا کے ادوار سے تھوڑا زیادہ عرصہ چلتی ہیں۔ پھر مکمل جمہوری حکومت استوار ہوجاتی ہے جس میں بڑھتے ہوئے انتشار کی صورتحال میں براہ راست مارشل لا کی بجائے بالواسطہ طور پر فوج ہی حکومتی معاملات اور پالیسیوں میں فیصلہ کن عنصر ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم پورے معاشرے کاجائزہ لیں تودہشت گردی کے مقدمات تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ لاکھوں کروڑوں ایسے مقدمات ہیں جو کئی نسلوں سے اس ملک کی چھوٹی بڑی سبھی عدالتوں میں چل رہے ہیں اورچلتے ہی جارہے ہیں۔ میڈیا اگرکسی مقدمے کو ابھارتا ہے توعدلیہ بھی اسکی جانب متوجہ ہوتی ہے، ورنہ کروڑوں ’’نامعلوم‘‘ انسان انصاف کے ان مندروں کے ٹل بجا بجا کر،دروازے کھٹکا کھٹکا کر چلے جاتے ہیں لیکن زندگی بھر ان کو انصاف نہیں ملتا۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات لڑتے لڑتے عام انسانوں کی نسلیں لٹ گئیں لیکن انکا مسئلہ حل نہ ہوا، انصاف ان کو جیتے جی نہ مل سکا۔ لیکن اگرمسلح دہشت گردی اور خود کش دھماکوں سے معصوم انسانوں کی ہلاکتوں پر دل دکھتا ہے،انصاف کے ادارے اور حکومتیں ’’حرکت‘‘ میں آجاتی ہیں تو دوسری غیر فطری وجوہات سے مرنے والوں کے بارے میں نہ کسی کو کوئی خبر ہوتی ہے، نہ کسی حکمران کو کوئی پرواہ ہے۔
لاکھوں ایسے معصوم پھول ہیں جو غربت کی ذلت اور غلاظت سے ہر سال بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔ لاکھوں ایسی مائیں ہیں جو نئی زندگیوں کو جنم دیتے ہوئے خوداپنی زندگیاں صرف اس لیے ہار دیتی ہیں کہ انکو علاج کے ذرائع اور سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ لاکھوں ایسے بزرگ ہوتے ہیں جو ادویات اور علاج کی خریداری کی مالی صلاحیت سے محروم ہونے کی وجہ سے اپنے وقت سے کہیں پہلے گزر جاتے ہیں۔ یہ بن موت کے جو افراد مرتے جارہے ہیں کیا یہ مررہے ہیں یا ان کو مارا جارہا ہے ! اگر آپ غور کریں تو یہ قتل عام بھی ایک دہشت گردی ہے۔ اس کو معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس کو ’’معاشی دہشت گردی‘‘ کہتے ہیں! اس دہشت گردی کا مرتکب کون ہورہا ہے؟ سب کہتے ہیں اور بیشتر اہل دانش مانتے بھی ہیں کہ یہ دہشت گردی اس سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہے۔ لیکن نظام خود بخود نافذتو نہیں ہوتا، خود ہی نہیں چلتا بلکہ اسکو لاگو کرنے والے بھی افراد ہوتے ہیں اور اس کو جبر سے مسلط کرنے اور چلانے والے بھی افراد ہیں، جن کے بڑے بڑے نام ہیں،بڑا مقام ہے، بہت نیک اور پاکباز ہیں۔ خیرات بھی بہت کرتے ہیں اور غریبوں کے لیے درد رکھنے کا ناٹک بھی بہت کرتے ہیں۔ یہ مذہبی بھی ہیں اورلبرل بھی۔ سیکولرازم کی بھی بات کرتے ہیں اور قوم پرستی کے بھی لیڈر ہیں۔ مذہبی عقیدوں پر مبنی معاشروں کو تشکیل دینے کی سیاست بھی کرتے ہیں اور جمہوریت کابول بالا بھی کرتے ہیں۔ ظاہری طور پر متصادم بھی ہیں اور ان کی نورا کشتیاں بھی جاری ہیں۔ انکو میڈیا ابھارتا بھی ہے اور انکی اچھائیوں اور سیاسی بصیرت کے گن بھی گائے جاتے ہیں۔ لیکن اندر سے یہ سب ایک ہیں، کیونکہ بالادست طبقہ ایک ہے۔ یہ معاشرے کی ایک قلیل اقلیت ہیں لیکن اسکی وسیع تر اکثریت پر ان کا راج ہے۔ اس لیے انکے مفادات ایک ہیں۔ ان کے ظلم واستحصال سے نہ صرف عوام بیزار اور محنت کش بدحال ہیں بلکہ اس نظام زر کے بحران سے پورا معاشرہ اضطراب اورعدم استحکام کاشکارہے۔ اس سماجی انتشار کو کبھی جبر سے دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی جمہوریت میں عوام کی حکمرانی کا فریب دے کر!لیکن یہ انتشار ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ اور یہ بھلا ختم بھی کیسے ہوسکتا ہے؟کیونکہ جب تک جبر و استحصال رہے گا معاشرے میں بدحالی اورذلت کی شورش اسکو عدم استحکام کے ہچکولے دیتی رہے گی۔ جب ظلم کی اتنی انتہا ہوجائے اور اسکو ذرائع ابلاغ کی مجرمانہ خاموشی کے اندھیرے میں اوجھل کردیاجائے تو وہ ختم نہیں ہوتی۔ کچھ نہ کرسکنے کے باوجود بھی خلق اس اذیت سے چھٹکارے کے لیے تڑپتی رہتی ہے۔ یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ ظلم رہے اورامن بھی ہو۔ لیکن ان پر یہ اندھیرے کا غلبہ مسلط نہیں رکھا جاسکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ رات کے تاریک ترین آخری پہر کے بعد سحر ہوتی ہے۔ سرخ سویرے کی روشنی میں ظلم وبربریت کی کالی رات کا وجود کبھی نہیں ہوسکتا۔ اور انصاف دولت کے عالیشان محلات کی اونچائیوں میں مقید نہیں رکھاجاسکتا۔

متعلقہ:

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!