طبقہ پروری

[تحریر: لال خان]
قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ایم این اے لال چند کے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ ’’جولائی 2013ء سے فروری 2014ء تک حکومت نے سرمایہ دار طبقے کو 320 ارب روپے سے زائد کی چھوٹ دی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ وزیر خزانہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’سرکاری ملازمین کفایت شعاری سیکھیں‘‘ اورآنے والے بجٹ میں ’’تنخواہوں میں اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ‘‘ایسے اقدامات کے ذریعے سرمایہ داروں کی موجودہ حکومت اپنا چہرہ خود بے نقاب کرتی چلی جارہی ہے۔ تاریخ کے بلند ترین خساروں اور معاشی سکڑاؤ کا تمام تر بوجھ غریب عوام کے کندھوں پر ڈالا جارہا ہے جبکہ سرمایہ داروں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ گردشی قرضے اور قرضوں پر سود کی مد میں نجی شعبے، سامراجی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں پر ہزاروں ارب روپے نچھاور کئے جارہے ہیں۔ دفاعی بجٹ میں مزید اضافے کا عندیہ بھی دیا جاچکا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی کے ’’ثمرات‘‘ بھی عوام کو ملنا شروع ہوچکے ہیں اور 25 مارچ کو بجلی کی قیمت میں 2 روپے 24 پیسے فی یونٹ اضافے کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے بدحال عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے ’’مزید قربانی‘‘ کے بھاشن دئیے جارہے ہیں۔ معاشی جارحیت کا یہ عمل گزشتہ 67 سال سے ہی جاری ہے۔ اس ملک کی ہر جمہوری اور آمرانہ حکومت نے عوام کو صبر اور قربانی کے درس کے علاوہ کچھ نہیں دیا ہے۔ تاہم معاشی بحران کتنا ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو، بے حس حکمران اپنی تجوریاں بھرنے اور شرح منافع بڑھانے میں ذرا سی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔
ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مشہور روزنامے کو دئیے گئے بیان میں کہا ہے کہ ’’معیشت کی موجودہ نازک صورتحال میں حکومت کو مٹھی بھر امراء کو چھوٹ اور کاروباری مراعات دینے کی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اس ملک کی ہر حکومت نے ہمیشہ اپنی پسند کے کاروباری طبقے کو ہی نوازا ہے۔ ‘‘یہ کسی مارکسسٹ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ ایک سینئر بیوروکریٹ واضح طور پر کہ رہا ہے کہ برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت اپنے مالیاتی اور سیاسی مفادات کے تحت حکمران طبقے کے ایک مخصوص دھڑے کی ہی نمائندہ رہی ہے۔ اس وقت سیاسی افق پر حاوی تمام سیاسی جماعتیں یا تو خود بڑے سرمایہ داروں یا جاگیر داروں پر مشتمل ہیں یا پھر مالیاتی سرمائے کے کسی حصے کی نمائندگی کرتی ہیں۔
مسلم لیگ سرمایہ داروں اور درمیانے درجے کے کاروباری طبقے کی نمائندہ جماعت ہے۔ 1906ء میں برصغیر کے مسلمان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی طرف سے بنائی جانے والی اس پارٹی کا طبقاتی کردار روز اول سے ہی واضح رہا ہے۔ موجودہ حکومت پہلے سے ہی معاشی اور سماجی طور پر گھائل محنت کش طبقے اور غریب عوام پر ایک کے بعد دوسرا گھاؤ لگاتی چلی جارہی ہے۔ پاکستان کی سرمایہ داری اس قدر تباہ حال ہو چکی ہے کہ حکمران طبقہ منافقت کے تمام لبادے اتارتے ہوئے کھل کر طبقاتی جنگ کا اعلان کررہا ہے۔ سرمایہ دارانہ ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ سے خوش فہمیاں وابستہ کرنے اور کروانے والے دانشوروں کا منہ، موجودہ جمہوری حکومت نے خود ہی بند کردیا ہے۔
مسلم لیگ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے حکم پر نجکاری، ڈی ریگولیشن، لبرلائزیشن اور ری سٹرکچرنگ کی معاشی پالیسیاں لاگو کرنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ یہ عوام دشمن پالیسیاں عالمی سطح پر متروک سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت بن چکی ہیں۔ سرمایہ داروں کو ٹیکسوں کی مد میں دی جانے والی چھوٹ کی کسر عوام پر لگائے گئے باالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے پوری کی جارہی ہے۔ پاکستان میں باالواسطہ ٹیکسوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور حکومت کل ٹیکس ریونیو کا 90 فیصد تک عوام سے اکٹھا کرتی ہے۔ ایک عام شہری ماچس کی ڈبیہ سے لے کر آٹے، ادویات، پٹرول۔ ۔ ۔ غرضیکہ ہر بنیادی ضرورت پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ سرمایہ داروں کو دی جانے والی چھوٹ کا نتیجہ بد ترین مہنگائی اور افراط زر کی شکل میں برآمد ہورہا ہے۔ آبادی کی وسیع اکثریت کی پہلے سے ناکافی قوت خرید مزید کم ہورہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ’’قومی غذائی سروے‘‘ کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 60 فیصد پاکستانی شہری غذائی قلت کا شکار ہیں۔ خوراک کی قیمتوں میں مزید اضافے سے مناسب غذا عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور ہوجائے گی۔ ابھی دو دن پہلے ہی فلور ملز مالکان گندم کی قیمت میں کمی کے باوجود آٹے کی فی بوری قیمت میں مزید 50 روپے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ بعید نہیں کہ تھر اور چولستان جیسی صورتحال پورے ملک میں پیدا ہوجائے۔
نجکاری کا مطلب روزگار میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہے۔ ’’لبرلائزیشن‘‘ کا مطلب ہے کہ سامراجی ملٹی نیشنل اجارہ داریاں اور سرمایہ دار اس ملک میں عوام کے خون پسینہ نچوڑنے اور اس استحصال سے کمایا گیا پیسہ بیرون ملک منتقل کرنے میں بالکل آزاد ہیں۔ ’’ری سٹرکچرنگ‘‘ کا مطلب مستقل روزگار، ملازمین کو دی جانے والی سہولیات کا خاتمہ اور شرمناک حد تک کم اجرتوں پر ٹھیکہ داری نظام کے تحت دہاڑی یا ماہانہ بنیادوں پر پر لی جانے والی مزدوری کا اجراء ہے۔ اس صورتحال میں ’’قانون‘‘ اور ’’ریگولیشن‘‘ جیسی اصطلاحات پر یقین رکھنے والے دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ یہ ریاست اور حکومت سرمایہ داروں کی ہے اور وہ قوانین کو مذاق اور دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ٹیکس اصلاحات اورخسارے پر قابو پانے کے لئے امیروں پر ٹیکس لگانے کی باتیں کرنے والے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ دوسرے کئی سابق نوآبادیاتی ممالک کی طرح اس ملک کا حکمران طبقہ اپنی تاریخی تاخیر زدگی اور معاشی و تکنیکی پسماندگی کی وجہ سے ریاست کی لوٹ مار، ٹیکس چوری اور قرضہ خوری پر منحصر رہا ہے۔ یہاں کی اشرافیہ کا حقیقی کردار جرائم پیشہ مافیا سے مختلف نہیں ہے!
دوسری جنگ عظیم میں بڑے پیمانے کی تباہی کی قیمت پر 1945ء کے بعد شروع ہونے والا عالمی سرمایہ داری کا عروج کم و بیش 25سال قائم رہا۔ اس معاشی ابھار کے ثانوی اثرات تیسری دنیا پر مرتب ہوئے۔ اس عہد میں پاکستان جیسے ممالک کی معیشتوں نے نسبتاً تیز شرح نمو سے ترقی کی اور بڑے پیمانے کی صنعتکاری ہوئی۔ لیکن ’’غیر ہموار اور مشترک‘‘بنیادوں پر ہونے والی اس ترقی نے سماج کو آگے بڑھانے کی بجائے سماجی تضادات کو بڑھاوا دیا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک انہیں تضادات اور بڑھتی ہوئی معاشی خلیج کا نتیجہ تھی۔ 1970ء کی دہائی کے آغاز میں سرمایہ داری کا عالمی ابھار اپنے انجام کو پہنچا اور دنیا بھر میں حکمران طبقات نے ریاستی سرمایہ داری اور ویلفیئر ریاست کے برعکس نیو لبرل ازم اور ٹریکل ڈاؤن معیشت کا ماڈل اپنایا۔
ضاالحق کے مارشل لاء کے بعد سے پاکستان میں بننے والی ہر حکومت آزاد منڈی کی انہی پالیسیوں پر کارفرما رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم کی لیگ کی جمہوری حکومتوں میں بھی مالیاتی سرمائے کی آمریت بدستور قائم رہی۔ اس ملک کے کروڑوں محنت کش عوام کی زندگیوں میں کسی بہتری کے لئے آخری بار سماجی اور معاشی اصلاحات ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں کی گئی تھیں۔ لیکن اس گلے سڑے نظام میں اصلاحات کی گنجائش اس وقت بھی موجود نہ تھی اور نتیجہ افراط زر میں اضافے جیسے مسائل کی شکل میں برآمد ہوا۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت نے پارٹی کے نظرئیے اور بنیادی پروگرام کو پس پشت ڈالتے ہوئے ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ کے پر فریب نام سے نجکاری کی پالیسی کو جاری رکھا۔ تاہم مسلم لیگ کی حکومت اپنی عوام دشمن پالیسیوں کو لفاظی اور اصطلاحات میں چھپانا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔ موجودہ حکمران سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقہ مر گیا ہے اور وہ سرمایہ دار طبقے کے استحصال اور جبر کوبلا روک ٹوک تیز کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متروک سرمایہ دارانہ نظام کے تحت حکمرانی کرنے والی ہر حکومت کو وہی کرنا پڑے گا جو آج ہورہا ہے۔
پاکستان کے 1973ء کے آئین میں درج ہے کہ ریاست استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ کرتے ہوئے اس اصول کو لاگو کرنے کی پابند ہے کہ ’’ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق لیا جائے اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق دیا جائے۔‘‘ یہ پیرا گراف دراصل کارل مارکس کی تحریر ’’گوتھا پروگرام پر تنقید‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس ملک کی کسی حکومت نے آج تک آئین کی اس شق پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے حضرات عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ یہ لوگ جمہوریت کے نام پر اپنے طبقے کے مفادات کی حفاظت کے لئے اقتدار کے ایوانوں میں جاتے ہیں۔ محنت کش طبقے کو اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے اس نظام کی حدود سے آگے بڑھنا ہوگا!

متعلقہ:
نجکاری کے وار
نجکاری: سرمایہ داروں کی خوشحالی، مزدوروں کی بدحالی
گھر کے برتنوں کی نیلامی