[تحریر: لال خان]
جب بھی کوئی سماجی نظام تاریخی طور پر متروک ہوجائے تو اس کا بحران معاشرے کی رگوں اور شریانوں میں ایک شورش اور خلفشار پیدا کردیتا ہے۔ ایسے معاشروں کی زندگی کا ہر پہلو، ہر شعبہ گلنے سڑنے لگتا ہے۔ حکمران اس نظام کو مسلط رکھنے کے لیے ہر حربہ، ہرہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔ آج عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام بھی ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے جس نے ہر ملک، ہر معاشرے میں کہرام مچا رکھا ہے۔
جب زندگی کی راہیں مسدود ہو جائیں یا کر دی جائیں، راستے محدود ہو جائیں اور منزلیں کھو دیں، مقاصد چھوٹے اور سوچیں محدود ہو جائیں، دوسرے انسان کے لئے کیا جانے والا ہر کام احسان بن جائے، ہر رشتہ ایک بیوپار بن جائے، ہر جذبہ بازار کی جنس بن جائے، تعلقات مطلب پر مبنی ہوں، اچھائی اور دکھاوے میں فرق مٹ جائیں، سچ بولناکم عقلی قرار پائے اور فریب و بے غیرتی کامیابی کے اوزار بن جائیں، وحشت جمہوریت بن جائے، مذہب ایک کاروبار بن جائے، مرد ایک درندہ اورعورت ایک جنس بن جائے اور اس کی نیم برہنگی کو کاروبار اور مارکیٹنگ کے لیے استعمال کیا جائے، مذہب کے نام پر وحشت اور جنون کے ذریعے نوجوانوں کو زندگی کی رعنائیوں سے محروم کر دیا جائے، سیکولرازم اوربنیاد پرستی کی جعلی لڑائی کے پیچھے کروڑوں انسانوں کے حقیقی مسائل کو چھپا دیا جائے۔ جب تاریخ کے خاتمے کا اعلان کر دیا جائے اوربڑے بڑے زر خرید دانشور سرمایہ داری کو انسانیت کی آخری منزل قرار دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ایک عہد، ایک تہذیب اور ایک نظام اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
ہاں! یہی اس مرتے ہوئے نظام اور ختم ہوتے ہوئے عہد کا کردار ہے۔ فن، ادب، موسیقی، فلم، ڈرامہ اور ثقافت کے ہر شعبے کے معیاروں کی تنزلی، اتنی زیادہ تکنیکی ترقی میں فنون کی اتنی تذلیل! معاشی ذلت میں گھرے نوجوانوں کیلئے جنسی محرومی اور روحانی بیگانگی سے جنم لینے والی وحشت اور بے راہ روی، باہمی اور اجتماعی زندگی کو تار تار کرکے انفرادیت، خود غرضی اور اپنوں کی پیٹھ میں چھرے گھوپنے کی نفسیات۔ ۔ ۔ دولت اور ہوس کی پرستش کا سماج کی ہڈیوں میں سرائیت کر جانا، عوامی قیادت کی غداری، حکمرانوں کی بے حسی، ریاست کی بے بسی اس معروض کا خاصہ ہیں۔ شرافت کے نام پربدمعاشی اوراحتساب کے نام پر بدعنوانی آج معمول بن چکے ہیں۔ ’غیرت مندی‘ کی علامت سمجھے جانے والے رشتے بیٹیوں اور بہنوں کو جسم فروشی پر مجبور کررہے ہیں۔ ٹریڈ یونین لیڈر این جی اوز کا حصہ بن کر بکنے کیلئے سامراجی گاہکوں کے متلاشی ہیں، کالم نگار حکمرانوں اور ان کے اس نظام کے مکروہ چہروں پر میک اپ کرنے میں مصروف ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے سیاستدان بے دلی سے بڑے مبہم الفاظ میں اصلاحات کے وعدے کر رہے ہیں، ایسی اصلاحات جن کی رتی بھر گنجائش بستر مرگ پر پڑے ہوئے اس نظام میں ممکن ہی نہیں اور اس حقیقت سے تبدیلی کے دعوے دار حکمران طبقے کے یہ نمائندے بخوبی واقف ہیں۔ انتخابی مہم کے جلسوں میں ان کی تقریریں بازاری زبان اور ذو معنی الفاظ سے پر ہیں۔ میڈیا کے تعاون سے سجایا گیا یہ جمہوری سرکس، اس میں ناچتے مداری اور اقتدار کے حصول کے لئے ان کا بیہودہ ناچ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نظام کے رکھوالوں کے پاس بیہودگی اور دھوکے کے سوا دینے کو کچھ نہیں ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کے ’‘معیشت دانوں‘‘ کو خود بورژوا معیشت کی الف ب کا نہیں پتا۔ ہوا کے ایک جھونکے کی طرح الیکشن آ کے گزر جائے گا۔ عدم استحکام، عوام پر معاشی حملوں اور مہنگائی کی ایک نئی لہر آئے گی، پچھلی پانچ سالوں کے جمہوری سیلاب میں جو کچھ بچا ہے اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گی۔
مڈل کلاس کی کچھ پرتوں کو چھوڑ کر محنت کش عوام کی اکثریت اس نظام اور اس کی جمہوریت اور سیاست کی اصلیت سے بخوبی واقف ہے۔ بورژوا جمہوریت کی وحشت کے اس شور میں اکثریتی عوام کی سیاسی بے حسی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ لیکن جب سب راستے بند ہو جائیں تو انسانوں کے پاس صرف بغاوت کا راستہ ہی رہ جاتا ہے۔ غیر معمولی خاموشی اور سکوت کسی بہت بڑے طوفان کا پتا دیتی ہے۔ اس جمود میں بھی ایک اضطراب پنہاں ہے۔ متبادل راستہ نہ ملنے کے باوجود لوگوں کی نجات کے راستے کی تلاش کے لئے تڑپ شدت اختیارکرتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں اس اذیت ناک عہد کے باوجود محنت کشوں کی بغاوت کی ایک نئی لہر ابھر رہی ہے۔
اس عہد کا اذیت ناک جبر اور اس نظام کے رکھوالے ہمیں ایک ہی درس دے رہے ہیں کہ ’’ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو!‘‘ لیکن انسان ہے کہ مانتا نہیں۔ اپنی ذلت کو اپنا مقدرتسلیم کرتا نہیں۔ وہ جب تک محکوم ہے لڑتا ہے اور لڑتا رہے گا۔ بے غیرتی اور منافقت حکمرانوں کا کردار اور خاصہ ہوتی ہے۔ تمام تر ذلت محکوموں پر مسلط ہے لیکن ہار ماننا ان کی فطرت نہیں۔ وہ اپنی غیرت کو راہ میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ پرولتاریہ کی غیرت ہی ان کی زندگی میں باقی واحد اثاثہ ہے۔ ان کے پاس تو صرف زنجیریں ہیں۔ ان کے علاوہ وہ کھو بھی کیا سکتے ہیں؟
حکمران طبقات اور ان کے پروردہ جرنیل، سیاست دان اور دانشورانسان نہیں درندے ہیں۔ جو اس وحشت کا کھلواڑ کر رہے ہیں۔ انسانی زندگی کو مجروح اور برباد کر رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے آگے ہتھیار ڈال چکے دانشور محنت کش عوام کو کتنا بھی یقین دلائیں لیکن یہ عذاب اور اذیتیں نسل انسان کا مقدر نہیں ہیں۔ یہ جنگیں، یہ جارحیتیں، یہ استحصال، یہ وحشتیں اس نظام کی دین ہیں جو حتمی و آخری نہیں۔ اس نظام کے خاتمے کے بغیر بربادیاں ہی بربادیاں ہوں گی۔ لیکن انسان کیوں برباد ہو؟ انسان لڑے گا۔
تمام تر طبقاتی لڑائی آخری تجزئے میں اس قدر زائد پر تصرف کی لڑائی ہے جو محنت کش طبقہ پیدا کرتا ہے۔ اس لئے محنت کش طبقے کی نجات کے بغیر انسانیت کی نجات ممکن نہیں اور محنت کش طبقے کی نجات سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔ اس نظام کا خاتمہ مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ سویر ے کی کرنیں بہت جلد اس طویل رات کی تاریکی کے خاتمے کا اعلان کریں گی۔ جرأت اور سچائی کی بغاوت اس وحشت کا خاتمہ کرے گی۔ یہ بغاوت محنت کشوں اور نوجوانوں کے اندر پنپ رہی ہے اور راستے کی طلبگار ہے۔ راستہ موجود ہے۔ اسے اس جم غفیر تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ یہ تاریخی فریضہ ہے جو کچھ من چلے ادا کر بھی رہے ہیں۔ 1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کے پاس کسی کامیاب سوشلسٹ انقلاب کی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ ہمارے پاس لینن اور ٹراٹسکی کے سوویت یونین کی عظیم مثال موجود ہے، سٹالنزم اور سامراج نے جسے بربادکیا، نوجوانوں اور محنت کشوں کو اسے دوبارہ پورے کرہ ارض پر آبادکرنا ہے۔