| تحریر: لال خان |
پی آئی اے کے محنت کشوں کی جانب سے گزشتہ ایک مہینے سے نجکاری کے خلاف احتجاج، نیم ہڑتال اور ایجی ٹیشن کا سلسلہ 2 فروری کو ڈرامائی انداز میں ایک دھماکہ خیز شکل اختیار کر گیا جب جوائنٹ ایکشن کمیٹی (JAC) کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہوئی۔ 2 فروری کی صبح پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (PIA)کے محنت کش ریاست کی تمام تر دھونس کو مسترد کرتے ہوئے مکمل ہڑتال پر چلے گئے اور فلائٹ آپریشن معطل کر دئیے گئے۔ حکومت نے اس ہڑتال کو ناکام بنانے کے لئے ایک کمزور سا قانونی جواز بھی پیدا کیا اور 1952ء کے ’’لازم سروس ایکٹ‘‘ کو لاگو کر کے چھ مہینے تک ایئر پورٹس کے اندر اور باہر ٹریڈ یونین سرگرمی کو معطل کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہوئی۔ محنت کشوں اور پائلٹس کی جانب سے فلائٹ آپریشن معطل کئے جانے کے بعد نجی ایئر لائنز اور بحریہ کے پائلٹس کے ذریعے پروازیں جاری رکھنے کی نحیف سی کوشش بھی کی گئی۔
2 فروری کی صبح جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ کراچی کے باہر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ محنت کشوں نے جب پروازیں معطل کرنے کے لئے مرکزی ٹرمینل کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تو ریاست کھلے جبر پر اتر آئی ۔ پہلے واٹر کینن، آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں اور لاٹھیوں کا استعمال کیا گیا لیکن محنت کش جب آگے بڑھتے گئے تو ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ اس موقع پر تین محنت کش شہید ہو گئے اور صحافیوں سمیت کئی افراد شدید زخمی ہوئے۔ JAC کے مرکزی رہنما اور سینئر پائلٹ سہیل بلوچ کے مطابق ’’پیرا ملٹری اہلکاروں نے مظاہرین پر نشانہ باندھ کر سیدھی فائرنگ کی…ہم نے پروازیں معطل کرنے کی کال دی تھی لیکن کسی فلائٹ کو ہم نے جبراً نہیں روکا تھا۔‘‘اس قتل عام کے بعد شام 4 بجے تک پورے ملک میں ہوائی ٹریفک تقریباً جام ہو گئی۔ رینجرز نے کئی یونین رہنماؤں کو حراست میں بھی لیا لیکن بعد ازاں انہیں چھوڑ دیا گیا۔ اسی رات ایک غیر معمولی پیش رفت میں پی آئی اے کے چیئرمین ناصر جعفر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ’’مسافروں کی سہولت‘‘ کے پیش نظر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے نجی ایئر لائن ’ایئربلیو‘ سے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے لئے خصوصی پروازیں چلانے کی درخواست کی لیکن ہڑتال کو ناکام بنانے کی یہ کوشش بھی ناکام گئی۔ ایئر بلیو کے محنت کش بھی ریاستی بربریت پر سراپا احتجاج تھے، علاوہ ازیں ’پاکستان ایئرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن‘ (PALPA) نے بھی اپنے ممبران کو پروازیں اڑانے سے منع کر دیا۔ کل شام تک 35 ملکی اور غیر ملکی پروازیں معطل ہو چکی تھیں۔کئی پائلٹس، کیبن کا عملہ، فلائٹ ڈسپیچر وغیرہ جو پہلے ڈیوٹی پر تھے ، وہ بھی گولی چلنے کے بعد کام چھوڑ گئے۔ اسی طرح جہازوں کی مرمت اور پرواز سے پہلے ان کی سیفٹی کو یقینی بنانے والے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے کئی اہلکار بھی ہڑتال پر چلے گئے جس سے حکام مزید خوفزدہ ہو گئے۔
ریاست نے پہلے تو سخت اور جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے خود کو طاقتور دکھانے کی کوشش میں بیان دیا کہ ’’ایسا (ہڑتال) نہیں ہونے دیا جائے گا، احتجاج کرنے والے ملازمین کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا، انہیں نوکری سے نکال کر ایک سال کے لئے جیل ڈالا جائے گا، ایسے عناصر کو دی جانے والی کوئی رعایت ملک سے زیادتی ہوگی…جو ملازمین ہڑتال میں شامل نہیں ہوئے انہیں انعام دیا جائے گا۔‘‘ تاہم محنت کشوں کی طاقت کے سامنے ایسے بیانات کاغذی شیر کی دھاڑ ہی ثابت ہو رہے ہیں، ریاست پہلے ہی گہرے بحران اور عدم استحکام کا شکار ہے اور نواز شریف کی اپنی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔ بدھ 3 فروری کو پی آئی اے کی تمام ملکی اور بیرونی پروازیں معطل رہی ہیں اور ہڑتال دوسرے روز میں داخل ہو چکی ہے۔ ایئر پورٹ کے ایک اہلکار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’’پی آئی اے کی تمام پروازیں غیر معینہ مدت کے لئے معطل ہو چکی ہیں۔‘‘ اسی طرح کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ، اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پی آئی اے کے نمائندگان نے پروازیں منسوخ ہونے کی تصدیق کی ہے۔ آخری اطلاعات تک تمام شہروں میں جلسے اور احتجاجی مظاہرے منعقد ہو رہے ہیں۔
یہ نجکاری کی کوئی پہلی یا آخری کوشش نہیں ہے۔ ماضی کی تمام فوجی اور ’جمہوری‘ حکومتیں نجکاری کی نیو لبرل پالیسیوں پر عمل پیرا رہی ہیں۔ واپڈا، سٹیل مل اور دوسرے اداروں کی طرح باقاعدہ منصوبہ بندی سے پی آئی اے کی بربادی کا عمل بھی کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ فی الوقت پی آئی اے کا سالانہ خسارہ تقریباً 30 ارب روپے ہے اور اب تک تقریباً 300 ارب روپے اس خسارے کی نذر ہو چکے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا، سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقے کے تجزیہ نگاروں کی طرف سے اس ادارے کے زوال اور مالی نقصان کی تمام تر ذمہ داری ریاستی حکام، منیجمنٹ اور سیاسی مداخلت کی بجائے محنت کشوں پر عائد کر دی جاتی ہے۔ کبھی ملازمین کی زیادہ تعداد تو کبھی ان کی تنخواہوں پر اعتراض کیا جاتا ہے۔آمدن کے مقابلے میں تمام ملازمین کی مجموعی اجرت پی آئی اے میں دوسری تقریباً تمام ایئر لائنز سے کم ہے۔ تمام سہولیات اور تنخواہیں ملا کر بھی ادارہ اپنی آمدن کا صرف 18 فیصد ملازمین کو دیتا ہے، اگر ملازمین کی تعداد دو گنا بھی کر دی جائے تو بھی یہ مالی خسارے کی وجہ نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف ادارے کے اعلیٰ حکام اور بیوروکریٹ ہیں جن کی مراعات اور تنخواہیں کروڑوں میں ہیں، کمیشن اور کرپشن کا مالی حجم اس سے کہیں زیادہ ہے، یہی پالیسی ساز پی آئی اے کے خسارے کے اصل ذمہ داران ہیں جو منافع بخش روٹس نجی ایئرلائنز کو فروخت کر چکے ہیں اور شعوری طورپر بدانتظامی کرتے ہیں ۔آج پی آئی اے میں درجنوں ’’ڈائریکٹر‘‘ اور ’’جی ایم‘‘ موجود ہیں جن کا کام ادارے کو لوٹنے، سیر اور عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پی آئی اے کا ٹیکنیکل اور انجینئرنگ سٹاف دنیا میں اپنی مہارت اور تیز کارکردگی کی وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے، ماضی میں پی آئی اے نے کئی ایسی ایئرلائنز کی تعمیر اور سٹاف کی ٹریننگ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جن کا شمار آج چوٹی کی ایئرلائنز میں کیا جاتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ پی آئی اے کے دنیا بھر میں موجود اثاثوں کی کل مالیت ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے جب کہ حکومت صرف 200 ارب روپے کی مالیت ظاہر کر رہی ہے۔ 26 فیصد شیئرز خرید کر منیجمنٹ حاصل کرنے والے سرمایہ دار پی آئی اے کو چلانے میں نہیں بلکہ ان اثاثوں کی لوٹ سیل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی قسم کی واردات پہلے PTCL میں بھی کی جاچکی ہے۔

کشکول توڑنے کا نعرہ لگا کر مئی 2013ء میں برسر اقتدارآنے والی نواز لیگ کی حکومت نے فوراً ہی آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلادیا تھا۔ 6.7 ارب ڈالر کے قرضوں کا پیکج اپنے ساتھ کئی سخت شرائط بھی لایا جن میں پی آئی اے کے 26 فیصد شیئرز کی فروخت بھی شامل تھی۔ اس سلسلے میں صدارٹی آرڈیننس نمبر 17 جاری کیا گیا جس پر پارلیمنٹ میں 4 دسمبر 2015ء کو خاصا ہنگامہ ہوا۔ ’’پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن (کنورژن) آرڈیننس 2015ء‘‘ کا مقصد پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنا تھا تاکہ اس کے شیئر سرمایہ داروں کو فروخت کئے جا سکیں۔ اس اقدام میں ناکامی کے بعد پارلیمنٹ میں قراردار پیش کی گئی اور مستقل غیر حاضر رہنے والے ممبران پارلیمنٹ کو بھی اجلاس میں لاکر قراردار کے حق میں ہاتھ کھڑے کروائے گئے۔ یہ عمل محنت کشوں کو مشتعل کرنے کا باعث بنا اور حالیہ ہڑتال پر منتج ہوا۔ قابل ذکر بات ہے کہ حکمران طبقے کی ہی نمائندہ کچھ اپوزیشن پارٹیاں، کارپوریٹ میڈیا اور ریاست کے کچھ دھڑے بھی اپنے مالی مفادات، داخلی تضادات اور محنت کش طبقے کی وسیع اشتعال انگیزی کے خوف کے تحت اس نجکاری کی مخالفت کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سرمایہ داروں کی روایتی پارٹی نواز لیگ کی موجودہ حکومت نسبتاً جمود کے عہد میں کھل کر محنت کش اور عوام دشمن پالیسیاں نافذ کر رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشی بحران کے اس عہد میں پی آئی اے کو مکمل طور پر خرید کر چلانا بھی کسی سرمایہ دار کے بس کی بات نہیں ہے۔ شعوری طور پر برباد کئے گئے اس دیوہیکل ادارے کے گاہک نہیں ملیں گے۔ لہٰذا نواز حکومت کے پالیسی ساز اور ان کے سامراجی آقاقصائی کی طرح ادارے کو ٹکڑوں میں مرحلہ وار فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ ملازمین کی تعداد پہلے ہی 19000 سے کم کر کے 14000 پر لائی جا چکی ہے۔ نجکاری اگر ہوتی ہے تو مزید ڈاؤن سائزنگ کی جائے گی اور اجرتوں کے ساتھ ساتھ صحت اور پنشن وغیرہ کی سہولیات بھی ختم کی جائیں گی۔
پی آئی اے میں پہلے بھی نجکاری کے خلاف تحریکیں اٹھی ہیں لیکن موجودہ ہڑتال اپنے حجم اور عزم میں سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کی شدت اور محنت کشوں کی قربانیوں کی وجہ سے کارپوریٹ میڈیا بھی مسخ شدہ انداز میں ہی سہی لیکن کوریج دینے پر مجبور ہوا ہے۔ نان ایشوز ابھارنے کی کوشش اگرچہ کی گئی لیکن عوام کی ہڑتال میں دلچسپی کے پیش نظر ایسے چینلوں کی ریٹنگ گرنے لگی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ محنت کش جب قدم بڑھاتے ہیں تو سماج کی توجہ کسی دوسری جانب مبذول کروانا اتنا آسان نہیں رہتا۔
موجودہ ہڑتال تقریباً چھ ہفتے پہلے چھوٹے احتجاجی مظاہروں سے شروع ہوئی تھی لیکن نجکاری، نوکریوں سے برطرفی اور بنیادی سہولیات کی صلبی کے خلاف محنت کشوں کا غم و غصہ بتدریج بڑھتا گیا۔ نیچے سے محنت کشوں کے دباؤ کے تحت جوائنٹ ایکشن کمیٹی (JAC) تخلیق پائی جس میں رجعتی جماعت اسلامی سے لے کر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی تک، کئی سیاسی رجحانات کے نمائندے شامل ہیں۔ اس کمیٹی کا چار نکاتی ایجنڈا یہ ہے:
* پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی بنانے کے لئے 21 جنوری کو پاس کیا گیا بل فوراً واپس لیا جائے۔
* پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے کے لئے کنٹرول ملازمین کے ہاتھ دیا جائے، اگر وہ ناکام رہیں تو حکومت کو آزادی ہے کہ جو چاہے کرے۔
* کسی بھی شکل میں نجکاری، چاہے وہ سٹریٹجک پارٹنر شپ کے نام پر ہو یا شیئرز بیچ کر کی جائے، ملازمین کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے۔
* حکومت فوری طور پر ہوابازی (Aviation) کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ اس سلسلے میں کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے ماہرین خورشید انور، کامران حسن اور صلاح الدین کو بھی شامل کیا جائے۔
پی آئی اے کے محنت کشوں نے اپنی جرات، قربانی اور عزم سے ریاست کو لرزا دیا ہے لیکن اس جدوجہد میں کئی کمزوریاں اور رکاوٹیں بھی موجود ہیں، مثلاً ایک یکجا یونین کی عدم موجودگی، نجی سروسز اور صنعت کے غیر منظم محنت کشوں سے عدم تعلق۔ سب سے اہم نجکاری سے برسر پیکار دوسرے ریاستی اداروں مثلاً واپڈا ور ریلوے کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت بنانے اور مشترکہ نجکاری مخالف پلیٹ فارم پر یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے شعوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔بدھ کی صبح مختلف شہروں ، بالخصوص کراچی، میں مختلف ٹریڈ یونین فیڈریشنز کے جلسے پی آئی اے کے محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کے لئے منعقد کئے گئے ہیں جو خوش آئند پیش رفت ہے لیکن اتناکافی نہیں۔
یہ ہڑتال ایک چنگاری ہے جو سماج کی سطح کے نیچے سلگتی طبقاتی جدوجہد کا اظہار ہے۔وسیع پیمانے کی طبقاتی جدوجہد فی الوقت مشکل معروضی حالات اور نسبتاً سماجی جمود کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ محنت کشوں کی قیادت اور ٹریڈ یونین کارکنان کا تاریخی فریضہ ہے کہ پی آئی اے کی ہڑتال کی حمایت ہر ممکن طریقے سے کریں۔ حکمران طبقے کے حملوں کو پسپا کرنے کے لئے یونائیٹڈ فرنٹ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ نجکاری اور دوسرے معاشی حملے، جن کی تیاری حکمران مستقبل کے لئے کر رہے ہیں، کے خلاف جدوجہد کی حتمی فتح کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے جن میں سب سے اہم عام ہڑتال کی کال ہے۔ عام ہڑتال کی کامیابی کے لئے صنعت، زراعت، نجی اور سرکاری اداروں سمیت محنت کش طبقے کی تمام پرتوں اور نوجوانوں کو متحرک کرنا ہو گا۔دفاعی مطالبات کو حکمران طبقے اور ان کے نظام کے خلاف جارحانہ مطالبات میں تبدیل کرنا ہوگا اور تمام معیشت اور صنعت کی محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں نیشنلائزیشن کا نعرہ بلند کرنا ہوگا۔
’’اپوزیشن‘‘ کی کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران پی آئی اے کے احتجاجی مظاہروں اور دفتروں کے چکر لگا رہے ہیں۔ یکجہتی خوش آئند ہے لیکن حکمران طبقے اور ریاستی ایجنٹوں کی منافقت اور مداخلت کو ہر صورت میں روکنا ہوگا جو ’’مصالحت‘‘ کے ذریعے ہڑتال کو توڑنے کی کوشش کریں گے۔ ملک بھر کے محنت کشوں میں پی آئی اے میں جاری جدوجہد کے لئے ہمدردی کے جذبات موجود ہیں۔لیکن ایک ادارے تک محدود ہڑتال زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چل سکے گی، اسے پھیلانا اور آگے بڑھانا ہو گا۔مذاکرات کی بھول بھلیوں میں ڈال کر مظاہرین کو تھکانے اور حوصلے پست کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی ۔اگر حکومت فی الوقت مطالبات تسلیم کر لیتی ہے تو بھی پاکستان کی دیوالیہ سرمایہ داری میں اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ دیوہیکل ریاستی اداروں اور محنت کشوں کو حاصل جزوی سہولیات اور مراعات کو برقرار رکھا جا سکے۔ حکمران ناگزیر طور پر پلٹ کر زیادہ بڑے حملے محنت کشوں پر کریں گے۔ آخری تجزئیے میں محنت کش طبقے اور عوام کو بیروزگاری، محرومی اور ذلت سے نجات کے لئے فوی مطالبات کی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ پاکستان میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب پورے جنوب ایشیا میں طبقاتی جدوجہد اور انقلابات کے نئے عہد کا آغاز کرے گا۔