لاہور: سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں فیکٹری زمین بوس، حقائق کیا ہیں؟

| رپورٹ: PTUDC لاہور |

4 نومبر کو شام 5 بجے کے قریب لاہور کے نزدیک رائیونڈ روڈ پر موجود سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں ایک فیکٹری کے منہدم ہونے سے 400 سے زائد محنت کش ملبے تلے دب گئے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے سے جاری ریسکیو آپریشن میں ابھی تک تقریباً 100 مزدوروں کو زندہ نکالا جا چکا ہے جبکہ 26 محنت کشوں کی لاشیں بھی نکالی گئی ہیں۔یہ افسوس ناک خبر ملتے ہی پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے نمائندگان ڈاکٹر آفتاب اشرف، عدیل زیدی، رضوان اختر اور احسن موقع پر پہنچ گئے، بطور عینی شاہدین اکٹھی کی گئی معلومات ان تمام تر خبروں اور بریکنگ نیوز سے مختلف ہیں جو میڈیا پر اس وقت گردش کر رہی ہیں۔
Lahore factory collapsed in Sundar Industrial Estate (1) PTUDC کے ان نمائندگان کے مطابق فیکٹری کا نام راجپوت پولی پیک تھا جو پولی تھین کے شاپنگ بیگز بناتی تھی اور اس میں کل تقریباً 500 محنت کش 12 گھنٹے کی دو شفٹوں میں کام کرتے تھے اور ان محنت کشوں کی بڑی اکثریت ٹھیکیدار کے ذریعے کام پر رکھی گئی تھی۔ ان میں 100 کے قریب بچے بھی تھے جن کی عمریں 12 سے 15 سال تھی۔ زیادہ تر مزدوروں کا تعلق جنوبی پنجاب کے دیہاتوں سے تھا۔ اطلاعات کے مطابق فیکٹری مالک نے اسی سال فیکٹری اور اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے پہلے سے موجود دو منزلہ بلڈنگ کے اوپر دو مزید منزلیں بنانے کے لئے کام شروع کیا جس کی وجہ سے نچلی منزل ناقص تعمیر کی وجہ سے زمین میں دھنسنا شروع ہو گئی اور رفتہ رفتہ اس کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگیں اور وہ وقت کے ساتھ بڑھنے لگیں۔ فیکٹری تعمیر کرنے والے مستریوں نے بار بار مالک کو یہ تنبیہہ کی کہ نچلی منزلوں کے پلر اور چھتیں بہت کمزور ہیں اور یہ مزید بوجھ سنبھالنے کے قابل نہیں۔ اسی طرح فیکٹری کے محنت کشوں نے بھی بار بار مالک سے درخواست کی کے وہ تعمیر کا کام روک دے مگر منافع کی ہوس میں اندھے ہو چکے فیکٹری مالک حاجی اشرف نے ان کی ایک نہ سنی۔ تیسری منزل کا کام مکمل ہوتے ہی اس نے ہیوی مشینری کو اس منزل پر منتقل کر دیا اور گزشتہ دن اس مشینری کے چالو کرنے کے لئے فیکٹری مالک،جو عمومی طور پر فیکٹری باقاعدگی کے ساتھ نہیں آتا تھا، فیکٹری پہنچا اور اس مشینری کی انسپیکشن کے لئے تیسری منزل پر چلا گیا جس کے محض پندرہ منٹ بعد فیکٹری منہدم ہو گئی۔
فیکٹری منہدم ہوتے ہی ساتھ کی فیکٹریوں کے مزدور اور قریبی دیہاتوں سے لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے اور اپنی مدد آپ کے تحت دبے محنت کشوں کو نکالنے کی کوششیں شروع کر دیں، لیکن وسائل کی کمی کے باعث یہ عمل مکمل نہیں ہو پایا، ایسے میں محنت کشوں نے ہتھوڑوں اور کدالوں سے لینٹروں میں شگاف ڈال کے پھنسے ہوئے مزدوروں کو پانی پہنچانا شروع کر دیا۔ مزید دو گھنٹے تک ریسکیو آپریشن کا آغاز نہیں کیا جا سکا اور جب آغاز کیا بھی گیا تو محض ایک کرین کی مدد سے۔ آخری اطلاعات آنے کے مطابق محض 4کرینیں موقع پر پہنچیں جن میں سے ایک بھی کسی سرکاری ادارے کی نہیں تھی۔ میڈیا پر جاری کئے جانے والے بیانات اور ’’ایکشن‘‘ لینے کی تمام تر باتیں محض بڑھک بازی ہے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Lahore factory collapsed in Sundar Industrial Estate (2)سانحے کے کچھ وقت بعد جب وہاں محنت کشوں کی بڑی تعداد اکٹھی ہو گئی تو انہوں نے ریسکیو آپریشن کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا مگر ریسکیو آپریشن تو تیز نہ ہو سکا لیکن محنت کشوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے پولیس اور فوج کے مسلح دستے اس علاقے میں تعینات کر یئے گئے۔ ہمارے نمائندوں کے مطابق آٹو میٹک رائفلوں سے مسلح تقریباً 400 کے قریب فوج اور اتنی ہی تعداد میں پولیس اہلکار (خصوصاً ایلیٹ فورس) وہاں پہنچا دیئے گئے اور پورے علاقے کا کنٹرول ملٹری پولیس کو دے دیا گیا۔ نام نہاد ریسکیو آپریشن میں ریسکیو ورکر کم تھے اور رائفل بردار سرکاری اہلکار زیادہ تھے۔ میڈیا کے ریسکیو آپریشن کے تمام تر واویلے کے باوجود ہمیں ذہن نشین کرنا چاہئے کہ ریسکیو آپریشن کے لئے رائفلوں کی نہیں بلکہ کرینوں اور دیگر جدید مشینری کی ضرورت ہوتی ہے جس کی موقع پر شدید قلت تھی۔
PTUDC کے نمائندگان نے اسی فیکٹری میں کام کرنے والے سابق ورکرز اور ملبے تلے دبے مزدوروں کے لواحقین سے گفتگو بھی کی۔ ان میں سے ایک شخص، جس کا چھوٹا بھائی ملبے تلے دبا تھا، نے یہ کہا کہ ’’میرے بھائی نے بار بار مجھے کہا تھا کہ فیکٹری عمارت کی حالت بہت تشویشناک ہے، بالخصوص 26 اکتوبر کے زلزلہ کے بعد، لیکن فیکٹری مالک چونکہ حکمران جماعت (ن لیگ) سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ فیکٹری میں کام کرنے والے ایک سابق مزدور نے بتایا کہ ’’زیادہ تر فیکٹری مزدور 9 ہزار روپے اجرت پر کام کر رہے تھے اور 12 گھنٹے کی شفٹ کے دوران مزدوروں کو ٹوائلٹ جانے تک کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔‘‘ ایک اور محنت کش نے بتایا کہ ’’فیکٹری کے کسی مزدور کے پاس کوئی سوشل سیکیورٹی یا ای او بی آئی کارڈ یا رجسٹریشن موجود نہیں تھی اور کبھی کسی سرکاری ادارے یا لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کوئی اہلکار فیکٹری کا معائنہ کرنے نہیں آیا۔‘‘محنت کشوں کے مطابق رائیونڈ کے محلات کے سائے تلے موجود اس انڈسٹریل اسٹیٹ کی اکثریتی فیکٹریوں میں ٹریڈیونین کا نام تک موجود نہیں ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو محض خانہ پری کے لئے۔
جب PTUDC کے نمائندگان نے مزدوروں سے پوچھا کہ اس سانحے کا ذمہ دار کون ہے تو محنت کشوں کا جواب تھا کہ یہ حکمران اور ان کی ریاستی مشینری اس کے ذمہ دار ہیں اور اس سانحے کے تمام تر ذمہ داران کو سزائے موت ہونی چاہئے۔