| تحریر: کرشن چندر |
دانی لمبا اور بدصورت تھا۔ اس کی ٹانگوں اور بانہوں پر بال کثرت سے تھے اور بے حد کھردرے تھے۔ صبح سویرے چارک روڈ کے ہائیڈرینٹ پر نہاتے ہوئے وہ دور سے دیکھنے والوں کو بالکل بھینس کا ایک بچہ معلوم ہوتا تھا۔ اس کے جسم میں واقعی ایک بیل کی سی طاقت تھی۔ اس کا سر بڑا، ما تھا چوڑا اور کھوپڑی بڑی مضبوط تھی۔ دن بھر وہ چارک روڈ کے ناکے پر ایرانی رستوران میں بڑی مستعدی سے کام کرتا اور رات کو ٹھرا پی کر ایک مینڈھے کی طرح سر نیچا کر کے ہر کسو ناکس سے کہتا۔ ’’آؤ میرے سر پر ٹکر مارو۔‘‘ مگر یار لوگ ہنس کر طرح دے جاتے تھے۔ کیونکہ دانی کا سر ہی نہیں اس کا جسم بھی بے حد مضبوط تھا۔ دو تین بار تھوگالین اور ڈورا گلی کے چند کسرتی نوجوانوں نے اس کا چیلنج منظور کرتے ہوئے اسے نکڑ پر گھیرا تھا اور نتیجہ میں اپنے سر پھڑوا کر چلے گئے تھے۔ پھر کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ دانی کے سر سے ٹکر لے سکے۔
غالباً دانی کے سر میں ہڈی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اگر مغز کا گودا ہوتا تو وہ باآسانی تھوڑی سی عقل صرف کر کے بمبئی کا دادا بن سکتا تھا۔ اس سے کم ڈیل ڈول اور طاقت والے نوجوان اپنے اپنے علاقوں کے ذی اثر دادا بن چکے تھے اور غنڈوں کی پلٹنوں پر حکومت کرتے تھے۔ شراب اسمگل کرتے تھے۔ سٹہ کھلاتے تھے۔ سینما کے ٹکٹ بلیک میں بیچتے تھے۔ رنڈیوں کے کوٹھے چلاتے تھے اور الیکشن کے موقعے پر اپنے علاقے کے ووٹ بیچتے تھے۔
مگر شاید دانی کی کھوپڑی میں بھیجا نہ تھا۔ کیونکہ اسے اس قسم کے تمام کاموں سے الجھن سی ہوتی تھی۔ جب کوئی اسے اس قسم کا مشورہ دیتا تو اس کے چہرے پر شدید بیزاری کے اثرات نمایاں ہو جاتے اور وہ کہنے والے کی طرف اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور بھی چھوڑی کر کے، ہونٹ بھینچ کر سر جھکا کے۔ کندھے سکیڑ کے ایک حملہ کرنے والے مینڈھے کی طرح خطرناک پوز لے کر کہتا۔ ’’پھر بولا تو ٹکر مار دوں گا۔‘‘
اور مشورہ دینے والا کھسیا کر ہنس کر پرے ہٹ جاتا۔
دانی کو پڑھنے سے نفرت تھی۔ وہ تعلیم یافتہ آدمیوں کو بڑی حقارت سے دیکھتا تھا۔ دانی کو شہرت سے نفرت تھی۔ جب کبھی کسی بڑے اور مشہور آدمی کا جلوس چارک پارک سے گزرتا اور اس عظیم الشان ہستی کو پھولوں میں لدے ہوئے، ایک کھلی کار میں بیٹھے ہوئے دو رویہ ہجوم کی سلامی لیتا ہوا دیکھتا تو کہتا:
’’واہ، کیا سجا ہوا مینڈھا ہے۔ اس سے پوچھو، میرے سر سے ٹکر لے گا؟‘‘
واقعی ذرا غور کرو تو صرف جنگ آزادی کے دنوں میں دبلے پتلے لیڈر آتے تھے۔ آجکل جوں جوں عوام کی حالت پتلی ہوتی جاتی ہے، لیڈر موٹے ہوتے جاتے ہیں۔ اس قدر لحیمو شحیم اور موٹے تازے دستیاب ہوتے ہیں۔ آجکل کہ ان پر باآسانی کسی مینڈھے یا ناگوری بیل کا شبہ کیا جا سکتا ہے۔
دانی کو سیاست سے بھی سخت نفرت تھی۔ اونچی سیاست تو خیر اس کے پلے ہی نہ پڑتی تھی۔ لیکن وہ جو ایک سیاست ہوتی ہے، گلی، محلے، بازار اور رستوران کی، وہ بھی اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ بس اسے صرف کام کرنا پسند تھا۔ حالانکہ دانی مسلسل سولہ گھنٹے کام کرنے کے لئے تیار تھا۔ مگر رستوران کا مالک بھی کیا کرے، وہ قانون کے ہاتھوں مجبور تھا اور دانی اپنی فطرت کے ہاتھوں، اس لئے وہ صبح سویرے سب سے پہلے رستوران میں آتا اور سب نوکروں کے بعد جاتا اور دن بھر کھڑے کھڑے انتہائی چوکسی سے سب کام سب سے پہلے کرتا اور جب رستوران بند ہو جاتا اور دن بھر کی مشقت سے بھی دانی کا جسم نہ تھکتا تو وہ انتہائی بیزار ہو کر ٹھرا پی لیتا اور فٹ پاتھ پر کھڑا ہو کر اپنے دوستوں سے ٹکریں لڑانے کو کہتا اور جب کوئی تیار نہ ہوتا تو وہ مایوس ہو کر اپنا بدن ڈھیلا چھوڑ دیتا اور فٹ پاتھ پر گر کر سو جاتا۔ بس یہی اس کی زندگی تھی۔
کمو بیش یہی اس کے دوسرے ساتھیوں کی زندگی تھی، جو اس کے ساتھ رستوران میں کام کرتے تھے اور اسی فٹ پاتھ پر سوتے تھے۔ جو چارک چوک کے رستوران کے بالکل سامنے سڑک پار کر کے چارک چرچ کے سامنے واقع ہے۔ چارک چرچ ایک چھوٹے سے میدان میں ایک طرف نیلے پتھروں کا بنا ہوا ایک خوبصورت گراٹو ہے۔ جس میں مقدس ماں کا بت ہے۔ ایک طرف گل مہر کے دو پیڑ ہیں۔ جن کا سایہ دن میں فٹ پاتھ کے اس حصے کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔ ان پیڑوں کی چھاؤں میں غریب عیسائی، مومی شمعیں، یسوع مسیح اور مریم کے مومی بت اور گیندے کے ہار بیچتے نظر آتے ہیں۔ دو بھکاری دن میں بھیک مانگتے ہیں اور رات کو کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر سڑک کے کنارے چھتے ہوئے بس اسٹاپ میں، جہاں بس کا کیو لگانے والوں کے علاوہ آس پاس کے نوجوانوں کا بھی مجمع رہتا ہے۔ کیونکہ یہ بس اسٹاپ مسافروں کے ویٹنگ روم ہی نہیں، عاشقوں کے ملاقات گھر بھی ہیں۔ پانچ بجے ڈی اسٹاپ پر مل جانا، روزی گرجا سے نکلتے ہوئے، دزدیدہ نگاہوں سے اپنے عاشق وکٹر کو دیکھتی ہوئی آہستہ سے کہتی ہے اور پھر اپنی خوفناک اماں کے ساتھ گھبرا کر آگے بڑھ جاتی ہے اور پھر وکٹر یا جیمس یا چارلس دھڑکتے ہوئے دل سے اور بے چین نگاہوں سے کبھی گھڑی دیکھتا ہوا، کبھی اپنی پیٹی کستا ہوا روزی کا انتظار کرتا ہے، ساڑھے چار بجے ہی سے۔ اور دیکھتا ہے کہ جوزف اپنی ڈیزی کو لے کر گیا اور ٹام اپنی ازابیل کو لے کر بھاگا اور شیلا، فوجا سنگھ کے ساتھ چلی گئی۔ اس سالی شیلا کو کوئی عیسائی پسند ہی نہیں آتا۔ بلڈی شٹ! اور یہ لارا بھی گئی اس یہودی چھوکرے کے ساتھ، جس کا جانے کیا نام ہے۔ لیکن جو ہر روز پانچ بجے اپنی موٹر سائیکل یہیں کھڑی کرتا ہے۔ اب ساڑھے پانچ ہو گئے۔ اب پونے چھ ہو گئے۔ اب اگر روزی نہیں آئی تو وہ لوگ ’’گن آف نو وارد‘‘ دیکھ کر کیا کرے گا۔ سن آف ایگن، چھ بج گئے۔ روزی نہیں آئی۔ وہ نہیں آئے گی۔ شاید وہ فرانسس کے ساتھ چلی گئی۔ جس کے ساتھ اس کی ماں، اس کی شادی کرنا چاہتی ہے۔ بلڈی سوائین۔ وہ فرانسس کو گولی مار دے گا۔ روزی کو بھی گولی مار دے گا اور اس کی منحوس ماں کو جو ہر وقت سائے کی طرح روزی کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ وہ برگائین فیملی کے ہر فرد کو گولی سے مار دے گا اور پھر خود بھی گولی مار کر مر جائے گا۔ یکایک وکٹر نے دور سے روزی کو ہلکے لیمن رنگ کے تافیتا فراک میں پھولوں کی ایک شاخ کی طرح جھولتے دیکھا اور اس کے دل سے گولی مارنے کا خیال ایک دم نکل گیا اور اس کا چہرہ مسرت سے کھل اٹھا اور وہ بے اختیار روزی کی طرف بھاگا اور بھاگتے بھاگتے ایک دوڑتی ہوئی لاری کے نیچے آنے سے بال بال بچ گیا۔ روزی کے منہ سے خوف کی ایک چیخ نکلی۔ مگر دوسرے لمحے میں وکٹر کا ہاتھ اس کی کمر میں تھا اور وہ اسے دوڑاتے ہوئے لاریوں، گاڑیوں، ٹیکسیوں کی بھیڑ سے نکالتے ہوئے ڈی بس اسٹاپ پرلے گیا۔ بس چل چکی تھی۔ مگر دونوں نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا۔ چند لمحوں کے لئے روزی کا لیمن رنگ فراک کا گول گھیرا تماشائیوں کی نگاہوں میں گھوما۔ پھر وہ دونوں پھولی ہوئی سانسوں میں ہنستے ہوئے ایک دوسرے کو بازو سے پکڑے ہوئے ڈی بس کی اوپر کی منزل میں چلے گئے۔ جہاں سے آسمان نظر آتا ہے اور ہوا تازہ ہوتی ہے اور نیچے سڑک پر مرد، عورتیں، بچے سنگیت کے سروں کی طرح بکھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کون کہتا ہے محبت کرنے کے لئے پہلگام، نینی تال یا دار جلنگ جانا ضروری ہے۔ محبت کرنے والے تو کسی بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر بھی اپنی جان پر کھیل کر محبت کر جاتے ہیں۔
مگر دانی کو عورتوں سے بھی دلچسپی نہ تھی۔ اس لئے جس رات اس نے سریا کو غنڈوں کے ہاتھوں بچایا، اس کے دل میں سریا سے یا کسی عورت سے بھی محبت کرنے کا کوئی خیال تک پیدا نہ ہوا تھا۔ پیچھے مڑ کر دور دور تک جب وہ نظر ڈالتا تو اسے اپنی زندگی میں کوئی عورت دکھائی نہ دیتی۔ بہت دور بچپن میں اسے ایک زرد رو مایوس چہرہ دکھائی دیا تھا۔ جس نے اسے ایک جھونپڑے سے باہر نکال کر اس کے چچا کے حوالے کر دیا تھا۔ اس سے زیادہ اس کے دل میں اپنی ماں کی کوئی یاد نہ تھی۔ پھر اس کے ذہن میں ایک خوفناک چچی کی صورت تھی، جو متواتر چار برس تک اسے پیٹتی رہی تھی۔ ذرا بڑا ہونے پر وہ فوراً ہی اپنی چچی کے گھر سے بھاگ کھڑا ہوا تھا اور جب سے وہ آزاد تھا۔ مگر ہمیشہ وہ اپنی بھوک کے ہاتھوں عاجز رہا، اسے بہت بھوک لگتی تھی۔ اسی وجہ سے اس کی ماں نے اسے اس کے چچا کے حوالے کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ فاقوں سے اپنے بیٹے کا پیٹ نہیں بھر سکتی تھی اور آج دانی کہہ سکتا تھا کہ اس کی چچی بھی کوئی نامہربان عورت نہ تھی۔ ہر گز کوئی ظالم عورت نہ تھی۔ مگر اس کے اپنے پانچ بچے تھے اور دانی کی بھوک اتنی وسیع اور عریض، جید اور مضبوط، بلند اور دیو زاد تھی کہ چچی نے اس کے بار بار کھانا مانگنے پر مجبور ہو کر اسے پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ وہ دانی کو نہیں پیٹتی تھی۔ وہ اس کی بھوک کو پیٹتی تھی اور آج بھی کتنی ہی بیویاں اور شوہر، مائیں اور بیٹے اور بہوئیں اور نندیں اور بھاوجیں اور چچیرے بھائی اور خلیرے بھائی اور دوست اور یار اور دل کے پیارے اور جگر کے ٹکڑے ہیں جو اس بھوک کی خاطر ایک دوسرے کو پیٹتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں۔ بے وفائی کرتے ہیں، جان لیتے ہیں، پھانسی چڑھ جاتے ہیں۔ مگر کوئی اس ظالم دیو زاد خوفناک بھوک کو پھانسی نہیں دیتا۔ جس کے منحوس وجود سے اس دنیا میں کوئی انسانی رشتہ اور کوئی تہذیب قائم نہیں ہے۔
دانی یہاں تک تو نہ سوچ سکتا تھا۔ وہ جب بھی سوچنے کی کوشش کرتا تھا اس کے ذہن میں ایک بہت بڑی خوفناک بھوک کا خیال آتا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی ماں نے تنگ آ کے اسے اس کے چچا کے حوالے کر دیا۔ جس کی وجہ سے اس کی چچی اسے دن رات چار سال تک مارتی پیٹتی رہی اور جس کی وجہ سے وہ آگے جا کر اپنی زندگی میں بار بار مختلف ہاتھوں سے پٹا اور مختلف گھروں سے نکالا گیا۔ اس لئے اس کے ذہن میں عورت کی محبت، باپ کی شفقت، دوست کی رفاقت، کسی کا کوئی احساس نہ تھا۔ ایک مسلسل تشنہ، ترسی ہوئی ناآسودہ بھوک کا احساس تھا جو بچپن سے جوانی تک اس کے ساتھ چلا آیا تھا۔ چونکہ اس کا بدن دوسروں سے دگنا لمبا اور بڑا تھا۔ اس لئے وہ دوسروں کے مقابلے میں دگنی خوراک کا طالب تھا۔ دانی کو زندگی بھر ایک ہی ارمان رہا۔ کوئی اسے پیٹ بھر کر کھانا دے دے اور پھر چاہے اس سے چوبیس گھنٹے مشقت کرائے۔ مگر دانی کا یہ خراب چارک روڈ کے ایرانی رستوران ہی میں آ کے پورا ہوا۔ ایرانی رستوران کا مالک اس سے چار آدمیوں کے برابر مشقت کراتا تھا۔ مگر پیٹ بھر کے کھانا دیتا تھا اور بیس روپے تنخواہ دیتا تھا جس سے ٹھرا پیتا تھا اور پیٹ بھر کے کھانا کھا کے اور ٹھرا پی کر وہ فٹ پاتھ پر سو جاتا تھا اور اسے دولت اور سیاست اور شہرت اور عورت وغیرہ کسی چیز کی پرواہ نہ تھی۔ اب وہ دنیا کا خوش قسمت ترین زندہ انسان تھا۔
جس رات سریا کو اس نے غنڈوں کے ہاتھوں سے بچایا تو اس روز بھی اس کے دوست علی اکبر نے اسے بہت منع کیا تھا۔ تین چار غنڈے مل کر سریا کو ایک ٹیکسی میں بھگانے کی کوشش کر رہے تھے جو چرچ کے آہنی جنگلے سے باہر فٹ پاتھ کے کنارے کھڑی تھی۔ چوک کا سپاہی ایسے موقع پر کہیں گشت لگانے چلا گیا تھا۔ جیسا کہ ایسے موقع پر اکثر ہوتا ہے۔ سریا خوف اور دہشت سے چلا رہی تھی اور مدد کے لئے پکار رہی تھی اور علی اکبر نے دانی کو بہت سمجھایا تھا۔ یہ بمبئی ہے۔ ایسے موقعوں پر یہاں کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا۔ ایسے موقع پر سب لوگ کان لپیٹ کر سو جاتے ہیں۔ حماقت مت کرو۔ مگر دانی اپنے کانوں میں انگلیاں دینے کے باوجود سریا کی چیخوں کی تاب نہ لا سکا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر ٹیکسی کی جانب بھاگا۔ غنڈوں کے قریب جا کے اس نے ان سے کوئی بات چیت نہیں کی۔ اس نے سر نیچا کر کے ایک غنڈے کے سر میں ٹکر ماری۔ پھر دوسرے کے، پھر پلٹ کے تیسرے کے۔ اگلے چند لمحوں میں تینوں غنڈے فرش پر پڑے تھے اور ان کے سر پھٹ گئے تھے۔ پھر پلٹ کر دانی نے چوتھے غنڈے کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سے سریا کو فٹ پاتھ پر چھوڑ کر ٹیکسی کے اندر کود گیا اور ٹیکسی والا گاڑی اسٹارٹ کر کے یہ جا وہ جا۔ دانی مینڈھے کی طرح سر نیچا کر کے ٹیکسی کے پیچھے بھاگا۔ مگر موٹر کا پہیہ بہت تیز رفتار ہوتا ہے۔ اس لئے دانی مایوس ہو کر پلٹ آیا اور واپس آ کر سریا سے پوچھنے لگا۔
’’یہ لوگ کون تھے؟‘‘
’’ایک تو میرا بھائی تھا۔‘‘ سریا نے سسکتے سسکتے کہا۔
’’تمہارا بھائی تھا؟‘‘ دانی نے پوچھا۔
’’ہاں !‘‘ سریا نے سر ہلا کر کہا۔ ’’وہ مجھے ان غنڈوں کے ہاتھ فروخت کر رہا تھا۔‘‘
’’کتنے روپوں میں؟‘‘
’’تین سو روپوں میں۔‘‘ سریا نے جواب دیا۔
’’پھر؟‘‘
’’پھر میں نہیں مانی۔‘‘
’’تم کیوں نہیں مانی؟‘‘
’’میں چھ سو مانگتی تھی۔‘‘
’’تم چھ سو مانگتی تھیں؟‘‘ دانی نے حیرت سے پوچھا۔ ’’وہ کیوں؟‘‘
’’میرا بھائی تین سو روپے لے جاتا تو مجھے کیا ملتا، میں جو بک رہی تھی تو مجھے بھی کچھ ملنا چاہئے تھا۔‘‘ سریا نے دانی کو سمجھایا۔
دانی خفا ہو کے بولا: ’’واہ! جو چیز بیچی جاتی ہے، اسے کیا ملتا ہے؟‘‘ ایسا دستور تو ہم نے زندگی میں کہیں نہیں دیکھا نہ سنا۔ ہماری دوکان سے جو گاہک چار آنے کا کھارا بسکٹ خریدتا ہے۔ اسے چار آنے کے عوض کھارا بسکٹ ملتا ہے۔ دوکاندار کو چار آنہ ملتا ہے۔ مگر کھارا بسکٹ کو کیا ملتا ہے؟ ایں؟‘‘
’’میں کھارا بسکٹ نہیں ہوں۔‘‘ سریا غصے سے بولی۔
دانی نے سر سے پاؤں تک سریا کو دیکھا، تیز اور تیکھی اور نکیلی اور سانولی۔ بولا:
’’مگر بالکل کھارا بسکٹ کی طرح لگتی ہو۔‘‘
سریا مسکرائی، کچھ شرمائی۔ اگر وہ ساڑی پہنے ہوتی تو ضرور اس وقت اس کا پلو اپنے سینے پر لے لیتی کہ ایسے موقعوں پر عورتوں کی یہ ایک پیٹنٹ ادا ہوتی ہے۔ مگر اس بیچاری نے تو سیاہ بلاؤز پہن رکھا تھا۔ اس لئے اس نے صرف گردن جھکانے پر اکتفا کی۔
دانی پلٹ کر فٹ پاتھ پر اپنی جگہ پر آ گیا اور بولا: ’’اچھا اب جاؤ، کہیں دفع ہو جاؤ۔‘‘
سریا اس کے پیچھے پیچھے آتے ہوئے بولی: ’’مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
ایرانی رستوران تو بند ہو چکا تھا۔ اس لئے دانی اس کے لئے ڈورا گلی کے ایک چائے خانے سے، چائے اور آملیٹ ادھار لایا اور جس طرح سے سریا نے اسے کھایا، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بھوک میں بھی دانی کا اسٹائل جھلکتا ہے۔ دو لقموں میں وہ چار سلائس کھا گئی۔ ایک لقمے میں آملیٹ۔ پھر اس نے ایک ہی گھونٹ میں ساری چائے اپنے حلق سے نیچے اتار دی۔ دانی اس کی اس حرکت پر بے حد خوش ہوا۔ یکایک اسے ایسا محسوس ہوا، جیسے اسے ایک جگری دوست مل گیا۔ بولا:
’’تمہیں بہت بھوک لگتی ہے؟‘‘
’’بہت!‘‘
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ دانی نے اب پہلی بار اس سے نام پوچھا۔
’’سریا یعنی سوسنا!‘‘ سریا جھجکتے جھجکتے بولی۔
’’میں دانی ہوں۔‘‘ دانی اپنے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے بولا۔ ’’یعنی ڈینیل!‘‘
پھر وہ دونوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور یکایک پہلی بار انہیں آسمان بہت صاف دکھائی دیا اور دور سمندر سے نغمے کی صدا آنے لگی اور میٹھی گداز رات گل مہر کے پھول پہنے ان کے ترسے ہوئے جسموں کے قریب سے گزرتی گئی۔
روز رات کو فٹ پاتھ پر دانی اور سریا کا جھگڑا ہوتا تھا۔ کیونکہ دانی نے سریا کو ایرانی رستوران کے کچن میں نوکر کرا دیا تھا۔ پہلے تو اس نے کئی دن تک سریا کو فٹ پاتھ سے بھگانے کی کوشش کی۔ وہ مینڈھے کی طرح سر جھکا کر جب سریا کی جانب رخ کرتا تو سریا وہاں سے بھاگ جاتی اور دانی کے سو جانے کے بعد واپس اسی فٹ پاتھ پر چلی آتی اور ہولے ہولے اس کے پاؤں دابنے لگتی اور جب صبح سویرے دانی اٹھتا تو اسے اپنا بدن بہت ہلکا اور عمدہ اور مضبوط معلوم ہوتا اور وہ دیکھتا کہ کسی نے اس کی بنیان دھو دی ہے اور قمیض اور پتلون بھی۔ تو پہلی بار اسے زندگی میں ایسا معلوم ہوا، جیسے وہ اپنے گھر میں آ گیا ہو۔ پہلی بار اس نے سریا کی انگلیوں کو عجیب انوکھے انداز میں دیکھا۔ وہ دیر تک اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر راتوں کو اسے فٹ پاتھ پر اپنا بستر اور تکیہ لگا ہوا ملنے لگا اور وہ جگہ بھی صاف ستھری اور مسلسل جھاڑ پونچھ سے چمکتی ہوئی محسوس ہونے لگی جہاں وہ ہر روز سوتا تھا اور وہ سریا کے وجود کا عادی ہوتا گیا۔ مگر اب بھی ہر روز کھانے کے وقت رات کو فٹ پاتھ پر دونوں کی لڑائی ہوتی تھی۔ کیونکہ سریا بھی بہت کھاتی تھی اور دانی بھی۔ دونوں رات کا کھانا رستوران سے لے آتے تھے اور مل کر کھاتے تھے اور دونوں کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کون کس سے زیادہ کھاتا ہے۔ اکثر اوقات دانی کامیاب رہتا تھا۔ لیکن جس دن سریا زیادہ کھانے میں کامیاب ہو جاتی تھی اس دن وہ دانی کے ہاتھوں ضرور پٹتی تھی۔
ایک دن سریا نے دانی سے کہا۔
’’اب تم مجھے مت پیٹا کرو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیوں کہ اب میرے بچہ ہونے والا ہے۔‘‘ سریا نے اسے سمجھایا۔
دانی نے یکایک کھاتے کھاتے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ حیرت سے سریا کو سر سے پاؤں تک دیکھنے لگا، پھر بولا۔
’’بچہ!‘‘
’’ہاں !‘‘ سریا خوش ہو کر بولی۔
’’وہ بھی کھائے گا؟‘‘ دانی کی آواز میں خوشی کے ساتھ ساتھ خفیف سی مایوسی بھی تھی۔
’’ہاں وہ بھی کھائے گا۔‘‘ سریا نے اسے سمجھایا۔ ’’پہلے تو میں ایک تھی، اب دو ہوں۔ ایک میں، ایک میرا بچہ، تمہارا بچہ، پیٹ میں۔ اب ہم دو ہیں۔ ہم دونوں کو زیادہ روٹی ملنی چاہئے۔‘‘
دانی نے اپنے سامنے فرش پر پڑے ہوئے کاغذات کے ٹکڑے پر کھانے کو دیکھا۔ پھر اس نے سریا کو دیکھا۔ پھر اس نے اپنا منہ بڑی سختی سے بند کیا اور دونوں جبڑوں کو ہلا کر اس طرح جنبش کی، جیسے وہ مایوسی کا ایک بہت بڑا لقمہ نگلنے جا رہا ہو۔ پھر اس نے آہستہ سے کاغذ کا ٹکڑا سریا کی جانب بڑھا کر کہا۔
’’لو کھاؤ۔‘‘
’’نہیں، تم بھی کھاؤ، تم نے کچھ کھایا ہی نہیں۔‘‘ سریا نے کہا۔
’’نہیں، پہلے تم کھا لو، بعد میں جو بچے گا وہ میں کھا لوں گا۔‘‘ دانی نے ایک عجیب ملامت سے کہا۔
پہلے دن تو سریا سب چٹ کر گئی۔ اس زور کی بھوک لگی تھی اسے۔ دوسرے دن اس نے کچھ تھوڑا سا چھوڑا دانی کے لئے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ دانی کے لئے زیادہ کھانا چھوڑنے لگی۔ پھر بھی جو باقی بچتا تھا وہ دانی کے لئے اس قدر کم ہوتا تھا کہ اس کی آدھی بھوک تشنہ ہو کر رہ جاتی تھی۔ لیکن اب اس نے خالی پیٹ یا آدھے پیٹ رات کو بھوکے سو جانا سیکھ لیا تھا۔ پرانی عادت کو واپس بلانا اس قدر مشکل نہیں ہوتا۔ جس قدر نئی عادت کو پالنا۔ ہولے ہولے اس نے شراب پینا چھوڑ دیا۔ کیونکہ بچے کو خوراک چاہئے اور کپڑے بھی اور سریا نے ابھی سے اپنے بچے کے لئے کپڑے سینے شروع کر دیئے تھے۔ چھوٹے سے منے سے گڈے کے کپڑے۔ رنگ دار اور ملائم اور ریشمی جن پر ہاتھ پھیرنے سے دانی کے جسم اور روح میں مسرت اور شادمانی کی پھریریاں سی گھومنے لگتی تھیں۔
’’ہمیں زیادہ سے زیادہ بچانا چاہئے۔‘‘ کئی دنوں کی سوچ بچار کے بعد دانی اس نتیجہ پر پہنچا۔
رات کے بارہ بجے تھے اور اب وہ دونوں فٹ پاتھ پر ایک دوسرے کے قریب لیٹے تھے اور سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔
’’مجھے اپنے بچپن اور لڑکپن میں کوئی دن ایسا یاد نہیں آتا، جس دن میں بھوکا نہیں رہا۔‘‘ دانی بولا۔
’’میں کوئی رات ایسی یاد نہیں کر سکتی، جب میں کھانے چرانے کے الزام میں نہ پٹی ہوں۔‘‘ سریا بولی۔
’’مگر ہمارا بچہ بھوکا نہیں رہے گا۔‘‘ دانی نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’اس کے پاس سب کچھ ہو گا۔‘‘ سریا نے پر امید لہجے میں کہا۔
’’پیٹ بھرنے کے لئے روٹی، تن ڈھکنے کے لئے کپڑا۔‘‘ دانی خواب ناک لہجے میں بولا۔
’’اور رہنے کے لئے گھر!‘‘ سریا بولی۔
’’گھر!‘‘ دانی نے چونک کر پوچھا۔
’’کیا اپنے بچے کو گھر نہ دو گے؟‘‘ سریا نے شکایت کے لہجے میں پوچھا: ’’کیا وہ اسی فٹ پاتھ پر رہے گا؟‘‘
’’مگر گھر کیسے مل سکتا ہے؟‘‘ دانی نے پوچھا۔
’’میں نے سب معلوم کر لیا ہے۔‘‘ سریا نے سمجھایا۔ ’’چرچ کے پیچھے نورا مینشن بن رہی ہے۔ اس میں پانچ کمرے والے فلیٹ ہوں گے اور چار کمرے والے اور تین کمرے والے اور دو کمرے والے اور دس فلیٹ ایک کمرے والے بھی ہوں گے جن کا کرایہ سترہ روپے ہو گا اور پگڑی سات سو روپے۔‘‘
’’مگر سات سو روپے ہم کہاں سے دیں گے؟‘‘ دانی نے پوچھا۔
’’اب تم کو سیٹھ تیس روپے دیتا ہے، مجھ کو پچیس روپے دیتا ہے۔ اگر ہم ہر مہینہ پچاس روپے نورا مینشن کے مالک کو دیں تو چودہ مہینے میں ایک کمرہ کا فلیٹ ہم کو مل سکتا ہے۔‘‘
بہت دیر تک دانی سوچتا رہا۔ سریا کا ہاتھ دانی کے ہاتھ میں تھا۔ یکایک دانی کو ایسا محسوس ہوا، جیسے ایک ہاتھ میں ایک ننھے بچے کا ہاتھ بھی آ گیا ہے۔ اس کا دل عجیب طریقے سے پگھلنے لگا۔ گھلنے لگا، اس کی آنکھوں میں خود بخود آنسو آ گئے اور اس نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھیں سریا کے ہاتھ کی پشت پر رکھ دیں اور رندھے ہوئے گلے سے بولا:
’’ہاں میرے بچے کا گھر ہو گا، ضرور ہو گا۔ میں سوچتا ہوں سریا۔ میں تین گھنٹے کے لئے ڈورا گلی کے چائے خانے میں رات کے گیارہ بچے سے دو بجے تک کام کر لوں۔ جب تو اپنا رستوران بھی بند ہو جاتا ہے، گیارہ بجے۔ پھر گیارہ بجے سے دو بجے تک چائے خانے میں کام کرنے میں کیا ہرج ہے۔ چائے خانے کا سیٹھ دس روپے پگار دینے کو بولتا تھا۔ مگر میرے خیال میں وہ بارہ پندرہ روپے تک دے دے گا۔‘‘
’’جب تو ہم جلدی گھر لے سکیں گے۔‘‘ سریا نے خوش ہو کر کہا۔
’’اور اگر ایرانی سیٹھ ادھار روپے دے تو شاید اپنے گھر پر ہی بچہ پیدا ہو گا۔‘‘ دانی کا چہرہ خوش آئندہ امید کی روشنی سے چمکنے لگا۔ یکایک اس نے سریا کا ہاتھ زور سے دبا کر کہا۔ ’’آؤ دعا کریں۔‘‘
وہ دونوں اٹھ کر گرجا کے آہنی جنگلے کو پکڑ کو دو زانو ہو گئے۔ جالی دار آہنی سلاخوں کے درمیان گرجا کے وسیع صحن کے وسط میں یسوع مسیح کا بت صلیب پر آویزاں تھا اور ایک طرف نیلے پتھروں کے گراٹو میں مریم نے مقدس بچے کو گود میں اٹھا رکھا تھا اور گراٹو میں مومی شمعیں روشن تھیں اور گل مہر کی نازک پتیاں ہوا کے جھونکوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر چاروں طرف گر رہی تھیں اور مقدس مریم کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا، جیسا بچہ ہر ماں کے تصور میں ہوتا ہے اور یہ رات مریم کے لبادے کی طرح مہربان تھی اور کسی نیند میں ڈوبے ہوئے یسوع کے خواب کی طرح معصوم….
دعا پڑھ کر دانی نے سریا سے پوچھا۔
’’یہ پادری آج بار بار اپنے وعظ میں آزادی، روٹی اور کلچر کی بات کر رہا تھا۔ آزادی اور روٹی تو خیر سمجھ میں آتی ہیں، مگر یہ کلچر کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’میرے خیال میں کوئی میٹھا کیک ہو گا۔‘‘ سریا سوچ سوچ کر بولی۔
اور وہ دنیا میں امن کی بات بھی کرتا تھا…. دانی بولا: ’’مگر ہمیشہ تو میرے پیٹ میں ایسی جنگ ہوتی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ پیٹ کی جنگ کیسے بند ہو گی۔ او خدا کیسی بھیانک جنگ ہوتی ہے میرے پیٹ میں ….‘‘
’’میں جانتی ہوں، میری ماں بھی جانتی تھی۔ میری بہنیں بھی، میرے بھائی بھی اور ہم سب کا باپ بھی۔‘‘ سریا تاسف انگیز لہجے میں بولی: ’’اور میرے باپ کا باپ بھی…. بے چارہ بڈھا…. کوئی رشتہ ہم سے اس قدر قریب نہیں رہا، جس قدر بھوک کا۔‘‘
’’خدا کرے ہمارا بیٹا بھوکا نہ رہے۔‘‘
پیٹ میں امن، اور دنیا میں امن، جیسا کہ وہ پادری کہتا تھا…. آمین!
ایک دن سریا جس غیر متوقع طریقے سے آئی تھی، اسی طرح وہاں سے چلی گئی۔ خبر سنتے ہی دانی بھاگا بھاگا رات کے ڈیڑھ بجے ڈورا گلی کے چائے خانے سے فٹ پاتھ پر آیا تو اس نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک اژدہام ہے اور پولیس کے بہت سے سپاہی سڑک پر اور فٹ پاتھ کے آس پاس کھڑے ہیں اور ایک ٹرک فٹ پاتھ پر چڑھا ہوا ہے اور اس کا انجن گرجا کے آہنی جنگلے کو موڑتا ہوا گل مہر کے پیٹ سے ٹکرا گیا۔ پچھلے پہیوں پر سریا اور علی اکبر کی لاشیں رکھی ہیں۔ کیونکہ یہی دو لوگ فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے ٹرک کی زد میں آ گئے تھے۔ اگر دانی بھی سویا ہوتا تو اس وقت اس کی لاش بھی یہیں پڑی ہوتی۔ کبھی کبھی رات کی تاریکی میں تیزی سے گزرتے ہوئے یا ایک دوسرے سے ریس کرتے ہوئے ٹرک فٹ پاتھ پر چڑھ جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔
دانی ایک احمق کی طرح خون میں لت پت سریا کی لاش پر جھکا رہا۔ پھر وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجمع کی طرف دیکھنے لگا اور کانپتے ہوئے لہجے میں کہنے لگا:
مگر ابھی تو وہ زندہ تھی۔
دو گھنٹے پہلے اس نے اور میں نے اپنی جگہ پر کھانا کھایا تھا۔
وہ بالکل زندہ اور تندرست تھی۔
اس کی عمر صرف سترہ سال تھی۔
اس کے پیٹ میں میرا بچہ تھا۔
چھ مہینے کا بچہ۔
میرا بچہ….
’’کس نے مارا انہیں؟‘‘ یکا یک دانی دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کستے ہوئے زور سے چیخا۔
ایک تماشائی نے ٹرک کی طرف اشارہ کیا۔ فوراً پولیس کے دو سنتریوں نے دانی کو پکڑا۔ مگر دانی نے گھونسے مار کر دونوں سنتریوں سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیا۔ اس عرصہ میں دونوں سنتری اس سے کشمکش کرتے ہوئے اسے ٹرک سے دور گھسیٹ کر لے گئے تھے۔ دانی ان سے آزاد ہو کر ٹرک کی جانب لپکا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ بدن جھک گیا، اور پھر ایک مینڈھے کی طرح تن گیا۔ اس کے ہونٹوں سے جانور نما ایک بھنچی ہوئی سی غراہٹ نکلی۔ وہ اپنے سر کو ایک خوفناک طریقے سے آگے بڑھائے اور جھکائے تیزی سے ٹرک پر حملہ آور ہو گیا….
پورے چھ ماہ وہ ہسپتال میں رہا۔ کیوں کہ اس کا سر کھل گیا تھا۔ وہ بچ تو گیا تھا مگر اس کے دماغ کا حصہ تقریباً ناکارہ ہو چکا تھا اور اب اس کا سر پینڈولم کی طرح ہولے ہولے آپ ہی ہلتا تھا اور اس کا وحشی مینڈھے کی طرح پلا ہوا مضبوط جسم سوکھے ہوئے بانس کی طرح دبلا ہو گیا تھا اور اسے سب کچھ یاد تھا اور بہت کچھ یاد بھی نہیں تھا اور اب وہ کوئی کام نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر گاہک اس سے چائے مانگتا تو وہ اس کے سامنے پانی لا کر رکھ دیتا اور اگر کوئی آملیٹ مانگتا تو وہ اس کے سامنے ماچس کی ڈبیا رکھ دیتا۔ اس لئے ایرانی رستوران کے مالک نے مجبور ہو کر اسے ملازمت سے الگ کر دیا تھا مگر وہ ابھی تک فٹ پاتھ پر اسی جگہ سوتا تھا جہاں سریا سوتی تھی اور اس نے اپنے بچے کے کپڑے گرجا کے آہنی جنگلے کے کونے میں چھپا کر رکھ دیئے تھے اور رات کے سناٹے میں وہ اکثر انہیں نکال کر بجلی کے کھمبے کے نیچے بیٹھ کر تکا کرتا تھا اور فٹ پاتھ پر حجامت کرنے والا رامونائی اکثر اس سے پوچھتا۔
’’یہ کس کے کپڑے ہیں؟‘‘
’’میرے بچے کے ہیں۔‘‘
’’تیرا بچہ کہاں ہے؟‘‘ تھاگولین کے چائے خانے کا قاسم اس سے پوچھتا۔
’’وہ میری سریا کے پاس ہے۔‘‘
’’تیری سریا کہاں ہے؟‘‘
’’وہ میکے گئی ہے۔‘‘
’’وہاں سے کب لوٹے گی؟‘‘ گوپی جیب کترا اس سے پوچھتا۔
’’جب میرا گھر بن جائے گا۔‘‘ دانی انتہائی معصومیت سے جواب دیتا۔
یہ جون سن کر مذاق کرنے والوں کے چہرے فق ہو جاتے اور وہ وہیں بیٹھے بیٹھے خلاؤں میں تکنے لگتے۔ جیسے دور سے کسی ٹرک کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ رہے ہوں اور ہل نہ سکتے ہوں۔ فٹ پاتھ پر رہنے والے اپنی مجبوری سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ فٹ پاتھ سے اپنا بستر تو تہ کر سکتے ہیں لیکن فٹ پاتھ کو تہ نہیں کر سکتے۔ ابھی تک کوئی ایسا طریقہ ایجاد نہیں ہوا ہے، اس لئے دانی کے گھر کا تخیل ایک بہت بڑا مذاق معلوم ہوا۔
دوسرے دن دانی بڑے انہماک سے اپنا گھر بنانے میں مصروف نظر آیا۔ کہیں سے دو تین اینٹیں اٹھا لایا تھا اور اب وہ ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھ کر اس پر تیسری اینٹ لگانے میں مصروف تھا کہ قاسم نے اس سے پوچھا۔
’’دانی! یہ کتنا بڑا گھر ہو گا؟‘‘
دانی کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔
’’یہ ایک بہت بڑا گھر ہو گا۔‘‘ وہ بولا: ’’اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اسے چارک روڈ کے عین بیچ میں تعمیر کروں گا۔ اس کے دس مالے ہوں گے، ہر مالے میں بتیس فلیٹ ہوں گے۔ ہر فلیٹ میں تین کمرے ہوں گے۔‘‘
’’تین کمرے کس کے لئے؟‘‘ گوپی جیب کترے نے پوچھا۔
’’ایک میاں کے لئے، ایک بیوی کے لئے، ایک بچے کے لئے۔‘‘
’’مجھے بھی اس گھر میں جگہ دو گے؟‘‘ رامو حجام نے پوچھا۔ ’’میری بیوی، میرے دو بچے ہیں اور وہ تینوں میرے گاؤں میں ہیں، کیوں کہ یہاں میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے اور میری ماں بوڑھی ہے۔‘‘ ‘
گوپی بولا: ’’اور میرے پاس کوئی کام نہیں، سوائے جیپ کاٹنے کے اور میں تین دفعہ جیل کاٹ چکا ہوں اور مجھے تم اپنے گھر کا چوکیدار رکھ لینا اور رہنے کے لئے صرف ایک کمرہ دے دینا۔‘‘
’’یہ ایک بہت بڑا گھر ہو گا۔‘‘ دانی انتہائی خلوص سے بولا اور شدت جذبات سے اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں باہر نکلی پڑتی تھیں۔ ’’اور اس میں تم سب کے لئے جگہ ہو گی، قاسم کے لئے اور رامو کے لئے اور گوپی کے لئے اور دھیرج کے لئے اور واسنت کے لئے، اور پائل کے لئے اور رنگا چاری کے لئے اور تھاگولین اور ڈوراگلی کے فٹ پاتھ پر سونے والوں کے لئے بھی جگہ ہو گی۔ میرا خیال ہے، میں اسے بیس مالے کا بناؤں گا۔ ہر مالے میں تیس فلیٹ ہوں گے، ہر فلیٹ میں چار کمرے ہوں گے، ہر کمرے کے ساتھ باتھ روم ہو گا…. فلش اور شاور۔‘‘
’’موزیک کا فرش۔‘‘ قاسم بولا۔
’’اور کھڑکیاں سمندر کی طرف کھلتی ہوئیں۔‘‘ گوپی نے لقمہ دیا۔
یکایک ایک لمحہ کے لئے ان سب نے باور کر لیا۔ یقین کر لیا، ایک لمحہ کے لئے انہوں نے چارک روڈ کے چوک پر اس بڑے گھر کو تعمیر ہوتے ہوئے، بلند ہوتے ہوئے، آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ دوسرے لمحے میں ایک بہت بڑا ٹرک گھوں گھوں کرتا ہوا ان کے قریب سے گزر گیا اور وہ سہم کر چپ ہو گئے۔
اس کے بعد کئی ماہ تک دانی وہ گھر بناتا رہا۔ اینٹیں تو اس کے پاس وہی تین تھیں۔ مگر گھر کا نقشہ ہر روز بدلتا تھا۔ وہ اب پچاس منزل کا ایک محل تھا، جس میں صرف فٹ پاتھ پر رہنے والے داخل ہو سکتے تھے۔ اس محل میں زندگی کی ہر سہولت اور آسائش مہیا تھی۔ بجلی کی لفٹ اور ٹیلیفون۔ ایک چھوٹا سا سینما اور نرسری اسکول اور چھت پر خوبصورت پھول والا گارڈن۔ دیوار گیر روشنیاں، اور مدھم مدھم رنگوں والے غالیچے اور خوبصورت، تتلیوں کی طرح آہستہ خرام عورتیں اور بچے اور دھیمے دھیمے بجتے ہوئے ارغنوں اور مہذب مرد مسکراتے ہوئے سگریٹ پیتے ہوئے، ایک دوسرے سے جام ٹکراتے ہوئے اور ان کے کپڑے بھی عمدہ اور خوشبودار اور جیبیں سکوں سے بھری ہوئی اور وہ سب کچھ جو غریب لوگ سینما میں دیکھتے ہیں اور امیر اپنے گھر پر رکھتے ہیں۔ وہ سب کچھ اس گھر میں موجود تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ بلند، خوبصورت، درخشاں، عالیشان۔ وہ گھر اتنا ہی خوبصورت تھا جتنا کسی بے گھر کا تخیل ہو سکتا ہے۔
اور پھر جب کئی ماہ کی کاوش کے بعد وہ گھر مکمل ہو گیا تو رات کے گیارہ بجے سے ایک بجے تک دانی ٹین کا ایک ڈبہ پیٹتے ہوئے چارک روڈ کے دونوں فٹ پاتھ اور گھوگا لین کے فٹ پاتھ اور ڈورا گلی بلکہ کراس بازار اور چارک پارک کے فٹ پاتھیوں کو اس نئے گھر میں آنے کی دعوت دیتا پھرا۔ ظاہر ہے کہ اس کے پاس وہی تین اینٹیں تھیں مگر اب اس نے تین اینٹوں کو چارک چوک کے ٹریفک آئی لینڈ کے اندر رکھ دیا تھا اور اس طرح اپنا محل تعمیر کر لیا تھا اور اب وہ سارے فٹ پاتھیوں کو اپنے بیوی بچوں سمیت گھر میں آنے کی دعوت دے رہا تھا۔
ڈورا گلی کے پائل نے روک کر کہا۔ ’’لیکن میرے تو سات بچے ہیں اور ہم سب کے سب اس کھلے فٹ پاتھ پر بڑے آرام سے سوتے ہیں۔ تمہارے تین کمروں والے فلیٹ سے ہمارا کیا ہو گا؟‘‘
’’میں تمہیں سات کمروں والا فلیٹ دوں گا۔‘‘ دانی نے ٹین پیٹتے ہوئے چلا کر کہا۔
’’کب آئیں ہم لوگ۔‘‘ پائل کی بیوی نے اپنی مسکراہٹ کو ساڑھی کے پلومیں چھپا کر اس سے پوچھا۔ اس کی ہنسی رکی نہیں پڑتی تھی۔
’’کل صبح جب سریا بچے کو لے کر میکے سے آ جائے گی۔ میں اپنے گھر کے دروازے سب لوگوں کے لئے کھول دوں گا۔ دروازے پر ہینڈ ہو گا۔ رنگا رنگ جھنڈیاں ہوں گی اور بندھن داریں اور میں پادری کو گھر کے مہورت کے لئے بلاؤں گا اور وہ بائبل سنائے گا اور گرجا کے گھنٹے بجیں گے اور اس وقت تم سب لوگ میرے گھر میں داخل ہو گے۔‘‘
دانی کی کانپتی ہوئی آواز میں انتہائی خلوص تھا۔ اس کا دبلا چہرہ زرد اور بخار زدہ دکھائی دیتا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ اور بے چین تھیں اور متواتر چلانے سے اس کے ہونٹوں پر کف آ چلا تھا اور اس کے روکھے سوکھے بالوں کی لٹوں میں فٹ پاتھ کی خاک چمک رہی تھی۔
دوسرے دن دانی بلوگراٹو کے باہر مقدس مریم کے قدموں میں مردہ پایا گیا۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور نیلے آسمان میں کسی نامکمل سپنے کو تک رہی تھیں۔ اس کے کپڑے پھٹے چیتھڑے اور تار تار تھے اور اس کے سینے پر وہی تین اینٹیں رکھی تھیں اور اس نے مقدس مریم کے قدموں کے فرش پر اپنا سر مار مار کر توڑ دیا تھا۔
گرجا کھول دو۔
اور گھنٹے بجاؤ۔
دیکھو یسوع مسیح جا رہا ہے۔
اپنے سینے پر اینٹوں کی صلیب لئے ہوئے۔
اب جنت کے دروازے غریبوں کے لئے کھل گئے ہیں۔
کیونکہ ایک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہیں گزر سکتا۔ لیکن ایک امیر قانون کے ہر ناکے سے گزر سکتا ہے۔
اور اب اس دھرتی کے مالک غریب ہوں گے۔
اور غریبوں کے مالک امیر ہوں گے۔
دیکھو وہ یسوع مسیح جا رہا ہے۔
آؤ اسے سنگسار کریں۔