سانحہ کوٹ رادھاکشن: مذہب کی آڑ میں سرمائے کی وحشت!

[تحریر: قمرالزماں خاں]
پاکستان میں ریاست کی طرف سے پھانسی کی سزا پر عملاً پابندی ہے۔ یہ پابندی نام نہاد عالمی برادری کی طرف سے یورپ میں ٹیکسٹائل کوٹا کی بحالی کی شرط پر منوائی گئی تھی،اس پابندی سے یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ انسانی زندگی انمول چیز ہے اور خواہ کسی انسان نے کتنا بھیانک جرم کیوں نہ کیا ہو مگر ’’ریاست‘‘ اسکے بدلے میں اسکی زندگی چھیننے کا حق نہیں رکھتی۔ موت کی سزا سننے والے ہزاروں قیدی جیلوں میں ہیں جن کو اس ’’عالمی دباؤ‘‘کی وجہ سے موت کی سزا نہیں دی جارہی۔ ’’ریاست‘‘، جو خود بقول فریڈرک اینگلز جبر کا ادارہ ہے، جس کو مسلح جتھے برقراررکھتے اور چلاتے ہیں،کا اپنا کردار ان انسانی تقاضوں سے کسی طور مماثلت نہیں رکھتا جس کا تاثر پھانسی پر پابندی لگانے جیسے جعلی قوانین کے ذریعے دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر اس قسم کے جبری قوانین کی حیثیت ہی کیا ہے؟ کیا جبر ی قوانین سے کوئی سماج اعلی انسانی درجے پر فائز ہوسکتا ہے؟اس کا جواب خود پاکستانی سماج میں پے درپے وقوع پذیر ہونے والے تشد دکے واقعات،قتل وغارت گری، بلوے،جعلی اور اصلی پولیس مقابلے ،دہشت گردی اور فوجی آپریشن، مسخ شدہ لاشیں، ٹارگٹ کلنگ، ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات، فرقہ وارانہ بربریت ، بھوک اور بیماریوں سے مرنے والے بالخصوص بچے اوربالعموم غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی 73 فی صد آبادی کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کتنی بے وقعت اور ارزاں ہے۔ قتل وغارت گری کے ان واقعات کااگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان کا رخ بالعموم غربت زدہ،طبقاتی اور سماجی طور پر کمزورحیثیت رکھنے والی آبادی کی طرف ہے۔

کوٹ رادھا کشن میں مذہبی جنونیوں کا شکار بننے والا عیسائی جوڑا

پاکستان میں مسیحی اور ہندو برادری کی کمزور پرتوں کو نشانہ بنانا سماجی معمول کا درجہ بنتا جارہا ہے۔ تشدد اور بربریت کی اس نفسیات کے کئی پہلو ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مذہبی نفرت بھی اس کا ایک حصہ ہومگر متعدد واقعات کے پیچھے مالیاتی مفادات کے ساتھ ساتھ سماجی پسماندگی اور ثقافتی پستی کی گراوٹ غالب نظر آتی ہے۔ کوٹ رادھا کرشن میں تین بچوں کی ماں اور حاملہ نوجوان عورت اور اسکے شوہر کو جس انداز میں بلوا کرکے، کمرے کی چھت کو پھاڑ کر نکالا گیا، گھسیٹا گیا، اینٹوں اور لاٹھیوں سے مارمار کر اذیتیں دی گئیں، ان کی دلدوزچیخ وپکار اور فریادیں کسی سماعت پر اثر انداز نہ ہوسکیں، اس کے پیٹ کے اندر پنپنے والا چند ماہ کا بچہ جو ماں کے پیٹ کے ابھار سے اپنے وجود کا احساس دلا رہا تھا پر اینٹوں کے وار کئے گئے۔ رحم، معافی، ترس، محبت، پیار اور انسانی رشتے کس جذبے کے تحت حیوانیت سے مغلوب ہوگئے۔ درندگی کا کھیل کئی گھنٹے جاری رہا۔ قریبی آبادی، پولیس، معززین شہر، شہ زور سورمے، بے جگری سے لڑنے والے نوجوان، دل کے تمام گداز سے سرشار نوجوان لڑکیاں اور خواتین، سب ہی قرب و جوار میں تھے اور بات کا بتنگڑ بنانے، نان ایشوز پر گھنٹوں پروگرام کرنے اور عزتیں اچھالنے والے میڈیا کی برقی آنکھ کو بھی اس وقت اونگھ آگئی۔ تماشا دیکھنے والے بھی کم نہ تھے اور مسجد کے لاؤڈسپیکر سے اس بلوے کی اطلاع سن لینے والے بھی سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے۔ مگر کسی کی ہمت اورجواں مردی، انسان دوستی اور اعلی انسانی آدرشیں جنونیت اور ذلت کے اس عمل کامقابلہ کرنے کی سکت نہ کرسکیں۔ مبینہ طور پر اجرت کے تنازعے کے سزاوار جوڑے کے خلاف سازش کرنے والے بھٹہ مالک کی معیت میں جنونی بلوائیوں، جن کی اکثریت نے شاذہی کبھی مسجد کا رخ کیا ہو اور مذہبی احکامات کے مطابق زندگی کاکوئی عمل ادا کیا ہو، نے زندہ انسانوں کو اٹھا کر کچی اینٹوں کو پتھر میں بدل دینے کی صلاحیت رکھنے والی آگ کی بھٹیوں میں اٹھا کر پھینک دیا۔ نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا اور نہ ہی منظم انداز میں حیوانیت کی سوچ کی ترویج کرنے والی ریاست کے کانوں میں جوں رینگی۔ چند تھکے ہارے اور مایوسی میں ڈوبے ہوئے مظاہرے اور چند سرکاری ملاؤں کی ریاکارانہ بیان بازی کا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ پنجاب کے ہی ایک پولیس اسٹیشن میں زیر حراست ایک فاترالعقل نوجوان جس کا تعلق ایک کمزور مذہبی فرقے سے تھا کو ایک تفتیشی آفیسرنے کلہاڑے کے جان لیوا حملوں سے زندگی سے محروم کردیا، کچھ عرصہ قبل ایک ذہنی امراض کے اسپتال سے علاج کراکے آنے والے اس مقتول نوجوان نے پولیس آفیسر کی مغلظات کے جواب میں گالیاں دی تھیں۔ اس کے رد عمل میں اس کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کی عمارت میں ہی قتل کردیا گیا۔
جولائی 2009ء میں گوجرہ میں عیسائیوں کے گھروں پر حملوں میں چالیس گھر او ربیگناہ آٹھ زندہ انسانوں کو جلادیا گیا۔ اس واقعہ پر احتجاج کرنے والے متحرک مسیحی راہنمااور وزیر شہباز بھٹی کو قتل کردیا گیا۔ سترہ جنوری 1997ء میں بائبل کی توہین پر احتجاج کی پاداش میں بیس ہزارسے زائد بلوائیوں نے فیصل آباد کے قریب شانتی نگر کی اینٹ سے اینٹ بجادی اوردرجن سے زائد گرجا گھروں، سکولوں اورپندرہ سو مکانوں کو گرا دیا گیا۔ 2005ء میں سانگلہ ہل میں ایک مسیحی کے جوا جیت جانے پرہارنے والوں نے اسکے خلاف مذہبی الزامات لگاکر بلوا ئیوں کو اکٹھا کیا اور گرجا گھر،کانونٹ سکول،ڈسپنسری اور مکانات تباہ کردیئے گئے۔ بادامی باغ کا سانحہ جس میں قبضہ گروپ نے بلوے کے ذریعے مسیحیوں کو بے گھر کردیا اور ثابت کیا کہ کمزور اقلیت اپنے ہی وطن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ مسیحیوں پر حملوں کی اور قتل وغارت گری کی وسیع فہرست ہے مگر اندرون سندھ ہندو آبادی کو بہت بڑے حملے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہندو لڑکیوں کو مسلمان کرکے شادی کرنے کے واقعات میں تیزی آرہی ہے۔ زیادہ تر واقعات ایک جیسے ہورہے ہیں جن میں ضلع گھوٹکی کے ایک گدی نشین جو کہ جاگیردار بھی ہیں مگر ان کے خان وادے کی وجہ شہرت بیسیوں افراد کا قتل ہے۔ قتل وغارت کی اس وحشت میں درجنوں مقتول سگے بھائی اور قریبی رشتہ دار ہیں۔ اس قتل و غارت گری کی وجہ سے اس گدی سے منسلک افراد کی دہشت کو اب اقلیتی مذہب کی لڑکیوں کو اغوا کرنے، املاک پر قبضہ اور بھتہ وصول کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ بلوچستان میں ایک طرف مسخ شدہ لاشوں کا طریقہ کار اختیار کرکے’’قومی مسئلے ‘‘ کو حل کرنے کی ریاستی کوششوں کی وجہ سے سینکڑوں نوجوانوں کو زندگی سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس آپریشن کے ذریعے سامراجی عزائم رکھنے والے ممالک کے لئے معدنیات سے مالا مال علاقے کو ’’شدت پسندوں‘‘ اور قوم پرستوں سے صاف کیا جارہا ہے۔ جب کے اس کے رد عمل کے طور پر ’’پنجابی مزدوروں‘‘ کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان میں ہی ہزارہ کمیونٹی پر منظم اور وحشیانہ حملوں کے ذریعے سینکڑوں بے گناہ عورتوں، بچوں اور جوانوں کو زندگی سے محروم کیاجاچکا ہے اور یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔ شیعہ اور دیوبندی لڑائی دو برادر ممالک کی مدد سے جاری ہے اور اس لڑائی میں ریالوں کی آمد جاری ہے۔ اعلیٰ ترین اسلحے سے مسلح جتھے پورے ملک میں ہزاروں افراد کو بہیمانہ انداز میں قتل کرچکے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی میں کئی ’’دوست اور اسٹریٹیجک پارٹنر ‘‘ کہلوانے والے ممالک کی پراکسی جنگ کئی برسوں سے جاری ہے اور ہلاکتوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ 1996ء میں امریکہ ، پاکستان اور سعودی عرب کی عسکری اور سیاسی قیادتوں نے طالبان نامی جس عفریت کو خلق کیا تھا،اس کی قتل و غارتگری کے محور بدلتے رہے ہیں مگر بربریت کا کھیل جاری ہے۔ افغانستان میں شروع کیا گیا وحشت کا کھیل پاکستان میں داخل ہوکر مبینہ طور پر 65000 سویلین بے گناہ آبادی اور 5000 فوجی سپاہ کو لقمہ اجل بنا چکا ہے۔ جوابی کاروائی میں کئے گئے متعدد فوجی آپریشنز میں شدت پسندوں سے کئی گنا زیادہ سویلین آبادی کو ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
انسانی زندگیا ں کتنی بے وقعت ہوچکی ہیں اس کا اندازہ مغربی افریقہ میں مبینہ طور پر پھیلائے گئے’’ ا یبولا وائرس‘‘ سے ہو سکتا ہے، جس کی لپیٹ میں ا ب تک 15000 سے زائد افراد آچکے ہیں اور 6000 کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ یہ غریب آبادی پر سامراجی قوتوں کا بائیولوجیکل ویپن ٹیسٹ قرار دیا جارہا ہے۔ اگر اس الزام کو واضح ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ہم زیادہ اہمیت نہ بھی دیں تو’’ایبولا وائرس‘‘ سمیت، ہیپاٹائیٹس، ملیریا، ٹی بی، غذائی قلت اور دیگر امراض کا شکار ہونے والے لاکھوں افراد کی تعداد کا تعلق غریب ممالک سے ہے۔ تھرپارکر کی ہولناک کہانی میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی بنیادی وجہ غذائی قلت، سفری سہولیات کی عدم موجودگی اورسستے علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ حکمرانوں کی تمام پرتوں کا ان ہلاکتوں پر واویلا اور رد عمل شرمناک اور سفاکیت پر مبنی ہے۔ قابل علاج امراض کی ادویات کو بنانے کی راہ میں ادویات ساز ملٹی نیشنل کمپنیاں حائل ہیں جس کی وجہ سے دنیا میں سالانہ کروڑوں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ عراق، افغانستان، شام اور پاکستان میں سامراجی مقاصد اور جنگی سامان بنانے والے کارخانوں کے مفاد میں مسلط کی گئی جنگوں میں دسیوں لاکھ ہلاکتوں کی وجہ ایک ہے مگر ان کے ذریعے مختلف ہیں۔ پہلی عراق جنگ میں ہزاروں افراد کے مارے جانے کے بعد امریکی پابندیوں کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت کی وجہ سے مرگئے۔ دوسری جنگ میں ہزاروں افراد کو امریکی اسلحے کے ٹیسٹ میں مارا گیا۔ یہاں پر چھوٹی سطح کے ویسے ہی نیوکلئیر اور کیمیکل ہتھیار استعمال کئے گئے جن کا استعمال افغانستان میں کیا گیا تھا۔ شام میں موجودغیر موثر کیمیکل ہتھیاروں کا واویلا کرنے والے چہرے اور نام نہاد انسانی حقوق کے ادارے امریکی اور اتحادیوں کی کیمیکل بمباری اور نیوکلئیر بموں کے استعمال پر ہمیشہ کی طرح چپ رہے۔ جنگوں کے دوران امریکی اقدامات کی باقیات، جنہیں موجودہ عہد میں داعش، طالبان، القاعدہ کے ناموں سے جانا جاتا ہے،کے ہاتھوں ہلاکتیں بھی دسیوں ہزار ہوچکی ہیں۔ آبادیوں کو تاراج کرکے مکینوں کے سرقلم کرنا‘ خواتین کو برہنہ کرکے سینکڑوں کی لائین لگا کر ان کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح ماردینا اس بربریت کے ظہور کے عنوان ہیں جن کی طرف مارکسی اساتذہ نے نشاندہی کی تھی کہ اگر دنیا کو سوشلسٹ بنیادوں پر انسانی بستی میں تبدیل نہ کیا جاسکا تو ماضی کی بربریت دنیا کا مقدر بن جائے گی۔ تمام تر تضادات کے باوجود ا ن عفریتوں کے پنپنے کے تمام لوازمات موجود ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء کی نسبت 2013ء میں دنیا بھر میں دہشت گردی میں 61 فی صد اضافہ ہوا۔ دس ہزار دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے 18000 افراد میں سے 80 فی صد افراد کا تعلق عراق، افغانستان، پاکستان، شام اور نائیجیریا سے ہے۔ ان حملوں کے پیچھے مذہبی بنیاد پرستی کا عنصر ہے۔ داعش، القاعدہ، طالبان، بوکو حرام، لشکر جھنگوی اور دیگر بنیاد پرست گروپ جو اس خون کی ہولی کے ذمہ دار ہیں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان گروپوں کی تشکیل میں کسی نہ کسی طرح امریکی سامراج اور اسکے حلیف ممالک کا براہ راست یا بالواسطہ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔
سرمایہ داری نظام نے اپنی بقا کے لئے ہمیشہ جنگوں اور خانہ جنگیوں کوا ستعمال کیا ہے مگر حالت امن میں ہلاکتوں کی شرح جنگوں میں ہلاک ہونے والے انسانوں سے کہیں زیادہ ہیں جو بھوک، عدم علاج، پسماندگی، غربت، موسموں، حادثات اور دیگر سماجی، معاشی وجوہات سے مرتے ہیں۔ ذاتی ملکیت اور شرح منافع کے نظام کو برقراررکھنے کے لئے ہر غیرانسانی حربہ استعمال میں لایا جاتا ہے مگر اس کے سب سے مضراثرات لالچ، طمع اور ظلم و جبر کی شکل میں رونما ہورہے ہیں۔ دوسری طرف سماجی پسماندگی اور محرومی نے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو بیگانگی کا شکار کردیا ہے۔ غربت،بے چارگی اور بے بسی کی حالت میں انسان، انسانی جذبوں سے بیگانہ ہوکر اپنی زندگی اور کسی کی زندگی کی پرو اہ کرنا چھوڑدیتا ہے۔ اس کیفیت میں وہ خود بھی جرائم، تشدد، قتل وغارتگری کا شکار ہوسکتا ہے اور کسی کے اکسانے پر بھی بلوا، قتل، بم دھماکوں، دہشت گردی کا مواد فراہم کرنے والی انتہا پسند تنظیموں اور بنیاد پرستی کا ایندھن بن سکتا ہے۔ مذہبی شدت پسند تنظیموں کی بہت بڑی تعداد انہیں علاقوں سے بھرتی کی جاتی ہے جہاں نہ روزگار کے مناسب ذرائع ہیں اور نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کے لئے درکارمالی سکت ہوتی ہے۔ جیسے برطانوی راج میں جہلم، گجرات، وادی سون سکیسر جیسے علاقوں میں فوجی بھرتی کے نقطہ نظر سے روزگار کے مواقعوں کو شعوری طور پر روکا جاتا تھا اسی طرح آج جنوبی پنجاب،پختون خواہ،بلوچستان کے بہت سے حصوں کو جہادی جنونیوں کی نرسری کے طور پر پروان چڑھایا گیا ہے۔
سرمایہ دار اپنے منافعوں کی حرص میں اندھے ہوچکے ہیں۔ عدم استحکام کے فارمولے کے تحت سرمایہ داری کو قائم رکھنے کی یہ کوشش پورے انسانی سماج کو ماضی قدیم کی بربریت کی طرف واپس لاسکتی ہے جس کا ہلکا سا ٹریلر اس وقت پوری دنیا میں چل رہا ہے۔ اس جنونیت کا راستہ روکنے کے لئے اسی محنت کش طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو اس جنونیت کے ہاتھوں ہلاک ہورہا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشوں کے اتحاد اور انکی نظریاتی جدوجہد سے سامراجی نظام اور اسکی خون ریزی کا راستہ روکا جاسکتا ہے نہ بربریت کے لئے میدان سازگار ہے۔

متعلقہ:

مذہبی جنون کے کاروبار

مذہبی بنیاد پرستی اور انقلابی سوشلزم

کہاں سے آتی ہے یہ کمک؟

دہشت کی شہ رگ

فتویٰ گردی