| تحریر: قمرالزماں خاں |
ایک زمانہ تھا جب کسانوں کی انجمن سازی اور مزدوروں کی ٹریڈ یونینزکو ’’بھائی کو بھائی سے لڑانے کی سازش‘‘ قراردیاجاتا تھا۔ ’مزدور کسان کے راج‘ یا سوشلزم کو کفر اور طبقاتی تقسیم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج کردینے کے فتوے عام تھے۔ ان فتووں کا مرکز و منبع ’منصورہ‘ ہوا کرتا تھا۔ اسی زمانے میں ’جماعت‘ کے بانی اور نظریاتی راہنما مولانا ابوالاعلی مودودی نے ’’ذاتی ملکیت کے تقدس‘‘ اور سرمایہ دارنہ نظام معیشت کے حق میں اپنے قلم کا خوب استعمال کیا اور درجنوں کے حساب سے پمفلٹ اور کتابیں لکھی گئیں۔ مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لئے بائیں بازو کے سیاسی کارکنان پر جسمانی تشدد اور بہتان تراشی کو ’ثواب دارین‘قراردیا جاتا تھا۔ ابھی تک وہ دیواریں اپنی شکستگی کے باوجود سلامت ہیں جن پر ’جماعت ‘کی طرف سے کرائی گئی وال چاکنگ میں ’’زمین دارمزارعہ بھائی بھائی‘‘ کے مکروہ نعرے درج کئے جاتے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بنی تو اسکے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کے نعرے کو ’شرک‘ قراردیاگیا۔ پیپلزپارٹی کے پروگرام میں مزدوروں اور کسانوں کے راج کے نعرے اور سوشلزم کے ذریعے اسکے نفاذ کے خلاف فتووں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا توان حملوں کے پیچھے بھی ’جماعت اسلامی‘ کی ہی توانائی اور وسائل پائے گئے۔
پیپلز پارٹی اپنے سوشلسٹ پروگرام اور نعروں کی وجہ سے دنوں میں ہی ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تو مخالفین کو ہر میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فتووں کے برعکس ملک بھر کے مزدور، کسان اور طلبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن بنتے گئے۔ سرمایہ داروں اورجاگیر داروں کی نیندیں حرام ہونے لگی۔ اگلے مرحلے میں 22معروف مذہبی سکالرز اور علما بشمول جامعتہ الزہرکے سربراہ سے ایک فتوی جاری کروایا گیا کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی کافروں کی جماعت ہے اور اسکو ووٹ ڈالنا کفر ہے، جو ایسا کرے گا وہ کافر ہوگا اور اسکا نکاح فسخ ہوجائے گا‘‘۔ محنت کش عوام نے ہمیشہ کی طرح سیاسی ملاؤں کو حقارت دے دھتکارا اور 1970ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اکثریتی ووٹ لیکر مغربی پاکستان سے جیت گئی۔
تاریخ میں بہت سے مضحکہ خیز المیے ملتے ہیں۔ آج 2015ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اگر نظریاتی انحراف، کرپشن، موقع پرستی، ضمیر فروشی اور ’’مصالحت‘‘ کا طویل سفر طے کر کے پارٹی کو مکمل انہدام کے قریب تر لے آئی ہے تو آج کی جماعت اسلامی بھی اپنی مخصوص سماجی بنیادیں یکسر کھو چکی ہے۔ تمام تر رجعت، قدامت پرستی اور محنت کش طبقے کی کھلی دشمنی کے باوجود کچھ دہائیاں پہلے کی جماعت اسلامی کم از کم ایک نظریاتی پارٹی ضرور تھی۔ لیکن سرمائے کی سرایت نے تمام دوسری پارٹیوں کی طرح اسے بھی کھوکھلا کر کے ’این جی او‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ درحقیقت بحیثیت مجموعی اسلامی بنیادی پرستی کا دیوالیہ پن ہے جس کی مکروہ حقیقت عوام کی نظروں میں بالکل عیاں ہو چکی ہے۔ مسلسل گرتی ہوئی ساکھ سے جنم لینے والی بوکھلاہٹ جماعت کی قیادت کی حرکتوں میں خوب عیاں ہے جو کبھی رکشے تو کبھی اونٹ پر بیٹھ کر فوٹو گرافی کرواتی ہے اور مقبولیت کے حصول کے لئے اپنے بنیادی نظریات سے منحرف ہوکر آج کل ’’مزدور، کسان‘‘ کی لفاظی کرنے میں مصروف ہے۔ غریبوں کو ’’قسمت‘‘ اور ’’مقدر‘‘ کا درس دینے کی پالیسی کو اب جاری رکھنا ممکن نہیں رہا ہے۔ اور تو اور گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے جماعت کو ’’پروگریسو پارٹی‘‘ تک قرار دے دیا ہے۔ اسی سلسلے میں نجی ملکیت اور جاگیر داری کی سب سے بڑی محافظ اور علمبردار جماعت اسلامی نے گزشتہ دنوں ’’کسان راج تحریک‘‘ کے ایک خاص مرحلے کا آغاز کیا ہے۔
صادق آباد سے شروع ہونے والی اس ’’تحریک‘‘ کی نسبت سراج الحق نے تو 1958ء میں صادق آباد میں ہی علیانی کاٹن فیکٹری ماچھی گوٹھ میں ہونے والی جماعت اسلامی کی کانفرنس سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، اس متنازعہ کانفرنس میں جماعت اسلامی ایک بڑی سپلٹ کے بعد اپنے اچھے کیڈرز سے محروم ہوگئی تھی۔ ان دنوں جماعت اسلامی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے اثاثوں اور دولت کے انباروں کو ’’اللہ کا انعام‘‘ اور مزدوروں، کسانوں کو غربت پر صبر، شکر اور تسلیم ورضا کی بات کھل کر کیا کرتی تھی۔ آج حالات اس قدر نازک ہو گئے ہیں کہ اپنے ایک حالیہ مضمون میں جماعت اسلامی پنجاب کے امیر مولانا ادریس نے کسانوں کی نجات کے لئے بہت سے انقلابات کا نام لیتے ہوئے روس کے بالشویک انقلاب کا ذکر بھی کر ڈالا ہے۔ قاضی حسین احمد کے بھٹو کی قبر پر پر فاتحہ خوانی کے بعد یہ ایک قابل ذکر ارتقائی مرحلہ ہے!
پانچ اکتوبر کو صادق آباد میں تقریر کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ جب تک کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کے چہروں پر رونق نہیں دیکھ لیتا ان کے حقوق کی جدوجہد جاری رکھوں گا، پاکستان صرف اسلام آباد میں بیٹھے شہزادوں کا نہیں بلکہ اس کی خاطر خون پسینہ ایک کرنے والے کسانوں کا بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد کسانوں اور مزدوروں کی ہے جو ملکی ترقی و خوشحالی اور عوام کا پیٹ پالنے کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں مگر ان کی محنت کا پھل وہ لوگ کھا رہے ہیں جو اقتدار پر قابض ہیں۔ سراج الحق جب یہ تقریر کررہے تھے تو انکے سامنے سینکڑوں کسان(جن میں بغیر ملکیت والے دہقان بھی شامل تھے) کھڑے تھے جبکہ انکے دائیں اور بائیں آڑھتی، خونخوار جاگیر دار، زمین داراور سرمایہ دار کھڑے تھے۔ ’’کسان راج‘‘ کے مطالبات بھی بالواسطہ طور پر بالادست طبقے کے ہی نمائندہ ہیں اور خاکوانی، لغاری، قریشی اور دیگر نسلوں کے جاگیردار اور زمیندار خانوادوں کی ہی نمائندگی کرتے ہیں۔ جمال دین والی شوگر ملز یونٹ نمبر 2، فاطمہ فرٹیلائیزر اور فوجی فرٹیلائزرکمپنی کے پہلو میں کھڑے ہوکر مزدوروں کا نام لیکر بات ضرور کی گئی مگربطور طبقہ مزدوروں کے استحصال پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ سراج الحق کے اسٹیج پر موجود جماعت اسلامی کے مقامی رہنما کی ادویات ساز فیکٹری میں مزدوروں کا بہیمانہ استحصال طویل عرصے سے جاری ہے جہاں جعلی ٹھیکے داری نظام کے ذریعے بیس تیس سالوں سے کام کرنے والے مزدوروں کو قانونی اجرت، مراعات اور سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ’’کسان راج‘‘ میں جاگیر دارانہ ملکیت پر معمولی سی ضرب بھی نہیں لگائی گئی ہے اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کر کے کارپوریٹ زرعی سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور چھوٹے بڑے زمینداروں کی خوشنودی کے ذریعے ’’کسان راج‘‘ قائم کیا جا رہا ہے!
پاکستان کا زرعی مسئلہ ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی سے بہت مختلف شکل اختیار کرچکا ہے۔ اُس عہد کی پاکستان پیپلز پارٹی کے کسان مسئلے پر موقف کے برعکس اب کسان مسئلہ مختلف جہتوں سے اپنی ہیئت ہی تبدیل کرچکا ہے لہٰذا چھیالیس سال بعددیکھنا ضروری ہے کہ چھوٹے کسانوں کی کتنی بڑی تعداد زمین سے محروم ہو کریا تو جدید دور کے زرعی غلام بن چکے ہیں یا فیکٹریوں میں اپنی محنت کا استحصال کرارہے ہیں۔ شہروں کے قرب وجوار میں کسی وبا کی طرح پھیلتی کچی بستیاں اورٹبے، ان سابق کسانوں کا مسکن بن چکے ہیں جو منڈی کی معیشت میں بطور کسان اپنا وجود برقرارنہ رکھ سکنے کی وجہ سے دیہی علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ چار زرعی اصلاحات بدنیتی اور جعل سازی کا شکار ہوچکی ہیں، جاگیر داروں نے زمینوں کی تقسیم کو جعلی انتقالوں، اراضی کے تبادلوں اور بعد ازاں فاروق لغاری کیس کے ذریعے غیر موثر کردیا تھا۔ اگرچہ جاگیر دار اور بڑے زمیند ار بارہا ان زمینوں کے عوض بینکوں سے کئی بار قرضے لیکر ڈکار چکے ہیں، اصولی طور پر وہ ان جاگیروں کے مالک بھی نہیں رہے ہیں مگر ہمیشہ حکمرانی میں رہنے کی وجہ سے وہ اب بھی سینکڑوں بلکہ کئی جگہوں پر ہزاروں ایکڑ کے مالکان ہیں۔
زرعی مسئلے کا آغاز غیر حاضر مالکان (جاگیر داروں اور بڑے زمینداروں) اور زمین پر عملاً کاشت کاری کرنے والے( بیل داروں، مزارعوں اور نوکروں)کے دو متضاد مفادات کے حامل طبقوں سے شروع ہوتا ہے۔ اس لئے زرعی مسئلے کو طبقاتی نگاہ سے دیکھے بغیر اس مسئلے کی ابجد بھی سمجھ نہیں آ سکتی، کجا اس کا حل نکالا جائے۔ جاگیروں (خلیجی حکمرانوں کو اونے پونے لیز پر دی گئی اور اسٹیبلشمنٹ کی بندربانٹ والی زمینوں سمیت) کی نجی ملکیت کے خاتمے اور مشترکہ کاشت کاری کو اختیار کئے بغیر لفظ ’کسان ‘ایک مبہم اصطلاح ہے۔ زمینوں پر محنت کرکے فصل اگانے والے اور فصلوں کے دام وصول کرکے اپنی جیبوں میں ڈالنے والوں میں تمیز کرنا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ منڈی کی معیشت میں قیمتوں میں اضافے کا مطلب کاشت کاری سے باہر کروڑوں صارفین پر بوجھ ڈالنا ہے۔ جب کہ سبسڈی کا مطلب بھی بالواسطہ بوجھ عوام کی طرف منتقل کرنا ہی ہوتاہے۔ اصل مسئلہ پیداواری لاگت کو کم کرنا ہے۔ اس راستے میں فوجی فرٹیلائیزر جیسی کھاد اور سپرے کی مقامی اور غیر ملکی اجارہ داریاں حائل ہیں جو سیاست اور ریاست پر بھی حاوی ہیں۔ ہمہ قسم کی کھادوں، کیڑے مار ادویات، بیج، بجلی کی غیر حقیقی قیمتوں میں کئی سو گنا کمی کئے بغیر زرعی مسئلے میں پیش رفت نہیں ہوسکتی اور سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا سرے سے ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف آبی وسائل میں اضافے، آبپاشی کے نظام میں دیوہیکل اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے جو سرمایہ دارانہ معیشت کی موجودہ دگرگوں حالت اور پاکستان جیسی دیوالیہ ریاست کے پیش نظر بالکل ناممکن ہے۔ پانی کے وسائل کو بے دردی سے ضائع کیا جارہا ہے، 63 فی صد پانی کھیت میں پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں کا تعین بھی سامراجی اور مقامی سرمایہ داروں کی آئی پی پیپز کی شرح منافع کے تحت ہوتا ہے اور بجلی کے پیداواری شعبے کو نیشنلائز کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ بیج کی صحت کا مسئلہ زرعی شعبے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر کس وناکس نے سیڈ کارپوریشن کھولے ہوئے ہیں اور کسانوں کو ناقص بیج مہنگے داموں بیچ کر فصلوں کا بیڑا غرق کیا جاتا ہے۔ کھاد، بیج اور کیڑے مارادویات کا تعلق چونکہ سرمایہ داروں اور آڑھتی طبقے سے ہے‘ اس لئے زمیند اروں اور آڑھتیوں کی قیادت میں چلنے والی بیشتر کسان تحریکوں میں اس سنجیدہ شعبے کے متعلق چپ سادھ کر صرف اجناس کی قیمتوں کے تعین کے گرد نعرہ بازی کی جاتی ہے۔
ایگریکلچر سروے آف پاکستان کے مطابق 10 فی صدبڑے زمین داروں، جاگیرداروں کے پاس کل زمین کی 54 فی صد ملکیت ہے، جبکہ نچلے 10 فی صد چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کے پاس کل اراضی کا 17 فیصد اور باقی 29 فی صد اراضی درمیانے زمینداروں کی ملکیت میں ہے۔ اس طبقاتی تقسیم کے بعد کسان لفظ کا ترجمہ کئے بغیر ’’کسان راج‘‘ کا نعرہ مبہم اور بے معنی ہوجاتا ہے۔ اگرطبقاتی طور پر جاگیر دار اور زمینوں پر ہل چلانے والے کاشت کاروں کے فرق کو اجاگر کئے بغیر کسانوں کے حقوق کی بات کی جائے گی تو اس کا مطلب جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے مفادات ہیں اور وہ جتنے مالی طور پر اور زیادہ مستحکم ہوتے جائیں گے، چھوٹے کسانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ اتنا ہی بڑتا جائے گا۔ مگر سب سے اہم مسئلہ زراعت سے منسلک ان دہقانو ں (زرعی مزدوروں) کا ہے جو پیداواری عمل میں سب سے زیادہ اہم کردار ادارکرتے ہیں، تعداد میں سب سے زیادہ ہیں، محنت وہی کرتے ہیں اور پسینہ بھی انکا ہی بہتا ہے مگر ان کو بطور ’’کسان ‘‘ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی کسان پیکج اور ’’کسان راج تحریک ‘‘ میں انکا ذکر ہے!’’کسان راج‘‘ کے نعرے کا مطلب طبقات کے توازن کے مطابق حق حکمرانی کو تبدیل کرنا ہونا چاہئے مگر کاشت کاری کے عمل میں موجود اکثریتی دہقان کو اگر کسان ہی تسلیم نہیں کیاجاتا تو پھر اب بھی بوسیدہ نظریات کے حاملین زراعت سے منسلک اقلیتی حکمران طبقے کے مفادات کی تحریک کو اکثریتی طبقے کے نام (کسان) سے چلا کر محض ہیراپھیری کررہے۔ رسی جل گئی مگر بل نہ گیا کے مصداق یہ نیادھوکہ بھی پرانے ہتھکنڈوں کی طرح سیاسی بازی گری کے کھیل میں جان ڈالنے سے عاری ثابت ہوگا۔ سرمایہ داری کے موجودہ عہد میں، زراعت اور منڈی کی معیشت ایک دوسرے کے ساتھ ناقابل علیحدگی انداز سے منسلک ہیں۔ دہقانوں کے مفادات مزدوروں کے مفادات سے جڑے ہوئے ہوئے ہیں۔ اصطلاحات کے پرفریب استعمال، شعبدہ بازی اور سیاسی ڈراموں کے اس عہد میں صنعتی مزدور کی قیادت میں ہی دہقانوں اور نوجوانوں کوانقلابی سوشلزم کے پروگرام کے گرد اپنی جدوجہد کو استوار کرنا ہوگا۔ ماضی بعید کے فرسودہ خیالات اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کے لئے کسی بھی تحریک کا مطلب موجودہ ظالمانہ نظام کی گرفت کو اور زیادہ مضبوط کرنا ہے۔
متعلقہ: