صفائی؟

تحریر: لال خان

خواجہ آصف کے بیان کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کی صفائی کرنی ہے، سے اس مالیاتی سیاست اور ابلاغ کے پیالے میں ایک طوفان برپا ہے۔ صفائی تو ہونے والی ہے لیکن صرف پاکستان کی ہی نہیں بلکہ بھارت اور ہراس ملک کی جس میں حکمرانوں نے اپنی بحرانی کیفیت کو بچانے کے لیے سیاسی، سماجی اور اخلاقی غلاظت سے معاشروں کو تعفن زدہ کردیا ہے۔ جہاں حکمرانوں نے اپنے اقتصادی نظام کو طوالت دینے کے لیے مذہبی، قومیتی اور نسلی فسطائیت کی درندگی سے عوام کو مجروع کرنے کی واردات جاری رکھی ہوئی ہے۔ لیکن ہوس کے اس نظام نے سماجی نفسیات میں رجعت کی اس غلاظت کے لیے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ سڑکوں، گلیوں، کچی آبادیوں، دیہاتوں اور مضافاتی علاقوں میں گندگی کے ڈھیر اور بدبوؤں کے بھبھوکے نہ صرف انسانی حسیات کو گھائل کر رہے ہیں بلکہ یہ نفسیاتی طور پر ایسی مایوسی میں مبتلا کردیتے ہیں جس سے انسانوں میں گندگی کو صاف کرنے کی ہمت ہی جواب دے جاتی ہے۔ غلاظت ہمیں معاشرتی اخلاقیات سے لے کر تمام سماجی اقدار میں ملتی ہے۔ جہاں منافقت اور فریب کا دور دورہ ہے۔ غربت محرومی اور ذلت نے انسانی زندگی کو ایک عذابِ مسلسل بنا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن جوں جوں برصغیر کا بحران شدت اختیار کررہا ہے یہاں کے حکمرانوں کے جارحانہ بیانات میں شدت آتی جا رہی ہے۔
بھارت میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ہم نے پہلے پاکستان کے دوٹکڑے کیے تھے اب ہمیں پاکستان کی دہشت گردانہ پشت پناہی پر رونا نہیں چاہیے۔ چین کو ہم نے رام کر لیا ہے۔ ہم تیاری کر رہے ہیں اور امید ہے مارچ یا اپریل 2018ء تک اب پاکستان کے چار ٹکڑے کردیں گے۔۔۔‘‘ پاکستان میں بھی ایسے سبرامنیم سوامیوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے بیانات بھارت کے ہندو بنیاد پرست حکمرانوں کی صرف جنونیت کی غمازی نہیں کرتے بلکہ یہ وہ واردات ہے جس سے وہ بھارت میں قومی اور ہندوتوا شاونزم کے ذریعے کھوکھلے اقتدار کو قائم رکھنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ معاشرے میں رجعت کے ذریعے ہندوستان کے محنت کش عوام کی بغاوتوں کو کچلنے کی واردات پنہاں ہے۔ اور یہ سرمایہ دارانہ دہشت گرد‘ بی جے پی حکومت کے اپنے عدم اعتماد کی کیفیت کا اظہار ہے۔ بھارتی جرنیل اور فوجی اشرافیہ اس کھلواڑ پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ انکے کک بیکس اور بجٹوں میں اضافے جاری رہیں گے۔ لیکن ایسے بیانات پاکستان میں سب سے زیادہ تقویت کا باعث کس کے لیے بنتے ہیں؟مذہبی بنیاد پرست قوتیں، جن کی صفائی کا بیان خواجہ آصف نے دیا ہے، اس ہندو وحشت کو اپنے وجود اور خونی وارداتوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بہت سی ایسی طاقتیں ہیں جن کو جنگی کاروبار سے بہت فائدے حاصل ہوتے ہیں وہ اس دشمنی کی دہشت کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ بھارت میں اس ہندو جنونیت نے ہولناک سرمایہ دارانہ استحصال اور مزدوروں کے حقوق کوسلب کرنے کاجارحانہ کھلواڑ شروع کر رکھا ہے۔ اس درندہ صفت حاکمیت کو نیست ونابود صرف ہندوستان کے محنت کش ایک تحریک کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔ وہی ایک ایسا طبقہ ہے جو اس درندگی کا خاتمہ کر سکتا۔ درمیانے طبقے کے سیکولر سیاستدان اور لبرل دانشور اور بھارتی سول سوسائٹی قطعاً کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے اور نہ ہی بی جے پی کو شکست دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ ہندو توا حاکمیت (جس میں فسطائی عناصر ابھرے ہیں) کے خلاف ہندوستان کے معاشرے کی کوکھ میں شدت سے نفرت اور باغی رحجانات بھڑک رہے ہیں۔ اگر خواجہ آصف اور اسکی پارٹی کے رہنما پاکستان کی صفائی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو ایسے پاکستانی سبرامنیم سوامی جیسے درندوں کی صفائی کے لئے اقدامات کرنے ہونگے۔ جنگ وہ کرنہیں سکتے۔ فی الحال دہلی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف کے وزرا ایسے بیانات سے ان ارادوں کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو ایک جدید، خوشحال اور ترقی پسند قومی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ان کو وہ سماجی بنیادیں بھی استوار کرنی ہونگی جنکے ڈھانچوں پر یہ عمارت کھڑی کی جاسکتی ہو۔ لیکن المیہ یہ ہے ایک تاخیر زدہ معاشی نظام کی بحرانی کیفیت میں ان ڈھانچوں کی تعمیر سماجی و اقتصادی نظام بدلے بغیر ممکن نہیں۔ وہ انتہائی دائیں بازو کی قوتیں جو اِس بیان پر خواجہ آصف کو ملک دشمن قرار دے رہی ہیں انکی سماجی اور سیاسی حمایت کی وجہ وہ پسماندگی اور ذلت ہے جس کو ختم کرنے میں نوازلیگ حکومت ناکام رہی ہے۔
دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں اور بھارت کی ’’سرجیکل سٹرائیکس‘‘ اسی تناؤ اور رجعت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اور جب پاکستانی سفارتکار یا انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کے نمائندے و میڈیا ’’ایٹمی جنگ‘‘ کی جوابی دھمکی دیتے ہیں توا س سے پھر بھارت میں ہندوتوا رجعتی قوم پرستی کو مزید بڑھاوا دلوایا جاتا ہے۔ یہ ایسا گھناؤنا گھن چکر ہے جس میں برصغیر کے ڈیڑھ ارب بے قصورانسان ذلتوں اور بربادیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ بہت سے بین الاقوامی تجزیہ کار یہ بیانیہ پیش کر رہے ہیں کہ دونوں جوہری ریاستوں کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ لیکن حکمرانوں کی بڑھک بازی اور جنون اتنا پاگل پن کا شکار نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ اندر سے بڑے سیانے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک جوہری تصادم برصغیر کی آبادی، معیشت، صنعت و زراعت کے وسیع تر حصے کا ’’صفایا‘‘ کر دے گا۔ اس سے انکے مالیاتی منافع خوری کے کاروبار بھی برباد ہو جائیں گے۔ اس لئے بھارت اور پاکستان کے درمیان ماضی کی مکمل چند روزہ جنگوں کے دہرائے جانے کے امکانات کم ہیں۔ نہ ہی بھارت یا پاکستان کی ریاستیں ایک دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھارتی افواج کے سپہ سالار جنرل مانک شاہ نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے کہا تھا کہ اس وقت پاکستان کی فوج شکست خوردگی اور مایوسی کا شکار ہے۔ یہ بہت اعلیٰ موقع ہے کہ ہم مغربی پاکستان کے کچھ اہم حصوں پر قبضہ جمالیں۔ اندرا گاندھی نے جنرل مانک شاہ کو ڈانٹ دیا تھا۔ اندرا نے کہا ’’مانک شاہ کیا تم پاگل ہوگئے ہو۔ ہم سے پہلے ہی بھارت سنبھالا نہیں جارہا، ہم بھلا پاکستان کے مزید علاقے اپنی حکمرانی میں لے کر اپنے لئے نئی بغاوتوں اور عدم استحکام کی مصیبت کھڑی کرلیں؟‘‘ لیکن اگر جنگ کے امکانات نہیں ہیں تو اسی نظام کی شدید تنزلی کی وجہ سے حکمرانوں کے لئے امن بھی قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان باہمی تضادات، تناؤ اور دھمکیوں میں مذاکرات کے چھوٹے وقفوں کے کھلواڑ میں یہ اپنی حاکمیت کو منفی اوررجعتی انداز اور طریقہ واردات سے ہی جاری رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کا صفایا کرنے کی ہر کوئی کم از کم بات کرتا ہے۔ لیکن پھر اس بدعنوان سیاست اور حاکمیت میں ان کو ایسی قوتوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے جنکے صفائے کی بات کی جاتی ہے۔ اس نظام نے معاشروں کو اس طرح تعفن زدہ بنا دیا ہے کہ اسکے جمود میں رجعت کا زہر بہت سے حصوں میں سرایت کر گیا ہے۔ اس سرطان کا علاج جس جراحی کے ذریعے ممکن ہے وہ بہت پیچیدہ ہو چکی ہے اور ریاستی حدود سے تجاوز کرچکی ہے۔ برصغیر کی ثقافت سے لے کر سیاست تک کا جو باہمی تعلق اور انحصار ہے ایسے میں انقلابی جراحی کو بھی کسی ایک ملک کی سرحدوں میں مقید رکھ کر ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستان اور بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے جدلیاتی طور پر کہیں نہ کہیں آپس میں جا کرملتے ہیں۔ حکمرانوں کے مخصوص دھڑوں کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ یہاں کے متروک حکمران طبقات کی سیاست اور ریاست میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ ان تضادات کو حل کر سکیں۔ اس لئے تاریخ کے اگلے طبقے ’پرولتاریہ ‘کو تاریخ کے میدان میں اترنا پڑے گا۔ اس حاکمیت کا خاتمہ کیے بغیر ’’صفائی‘‘ نہیں ہوسکتی!