| تحریر: عمر شاہد |
اسکینڈلز، سانحہ، المیہ اور روگ اس سوہنی دھرتی کے معمولات بن چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی صبح ایسی ہو جس کا یہاں رہنے والے بدنصیب باسی آہوں، سسکیوں سے استقبال نہ کرتے ہوں۔ تہواریا خوشی کے لمحات بھی کھوکھلے اور مصنوعی دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بھی روایتی ’جشن‘ کے ڈھونگ کی آمد سے پہلے ہی شعور زیست پر ایک اور سانحہ کا کرب لگ جاتا ہے۔ محرومی اور ذلت گویا کہ یہاں کے خون میں رچ بس گئے ہوں، جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے تو یہاں کے آزاد میڈیا کی چاندی ہو جاتی ہے جس پر نام نہاد اپوزیشن جماعتوں کے سیاستدان ان ٹی وی سکرینوں پر رونما ہو کر اپنی مرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی سر توڑ کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں تو سول سو سا ئٹی جیسی مخلوق ان کے زخموں کو نیلام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ان معمولات میں مڈل کلاس اپنی روایتی اخلاقی، سماجی، ثقافتی اورسیاسی پسماندگی کی بنیاد پر سانحوں سے محض اس انداز میں لطف اندوز ہوتی ہے کہ گویا ان کے بغیر ان کی زندگیوں کی رنگینیاں ماند پڑ جائیں گی۔
ظلم کی مذمت کرنا احسن قدم ہے لیکن اس سماج میں ظلم کی ایک تصویر کومعیار بنا کر اس کے پیچھے رونما ہونے والے عوامل کا تجزیہ یا ان پر بات کرنا ناقابل تلافی جرم کے مترادف ہے۔ موجودہ سماج کی اصلاح پسند باشعور پرتیں بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو بڑا مقصد سمجھتی ہیں لیکن ہر ظلم کی بنیاد بھی استحصال پر ہی ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال جتنا زیادہ شدید اور سنگین ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ ظلم اور زیادتی کے خلاف پیش کئے جانے والے حل بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کی قید میں رہ جانے کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں:
میر کیا سادہ ہیں، بیمارہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
حال ہی میں میڈیامیں آنے والے سانحہ قصور نے ایک مرتبہ پھر یہاں کی نام نہاد ’غیرت بریگیڈ ‘ اور مملکت خداداد پاکستان کی اخلاقی، مذہبی، ثقافتی پسماندگی کو عیاں کیا ہے۔ وہ جو نام نہاد مشرقی اقدار کی بلندی کے دعوے کیا کرتے تھے آج منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اس سکینڈل، جو کہ ایک سانحے کا درجہ رکھتا ہے، نے واضح کیا کہ معاشرہ کس قدر ثقافتی پراگندگی کا شکار ہے جہاں پر کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
اس اسکینڈل میں چند بااثر لوگوں کا گروہ پچھلے عشرے سے ضلع قصور کے گاؤں حسین خانوالہ میں نہ صرف بچوں سے جسمانی زیادتی کرتا بلکہ ان کی ویڈیوز تیار کرکے ان کے رشتہ داروں کو بلیک میل کرکے ان سے رقم بھی بٹورتا رہا۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 280 سے 300 بچوں کے ساتھ یہ فعل ہوا۔ اس ظلم کے خلاف پورے پاکستان میں غصے کی فضا بن چکی ہے جس کی وجہ سے اس کو قومی اسکینڈل کہنا بھی غلط نہیں ہوگا، اسکینڈل نے انٹرنیشنل میڈیا میں بھی اپنی جگہ بنائی جس سے کئی ایک NGOs بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو نہ صرف تیار ہیں بلکہ رنگ برنگ سیمینارز، ٹریننگ، ورکشاپس اور احتجاجات کے نام پر ان کے لئے نئے کاروبار کے مواقع پیدا ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد روایتی طور پر وزیر اعلٰی شہباز شریف نے داد رسائی کے لئے جوڈیشل انکوائری کا اعلان کیا جبکہ اس کی تحقیقات ملٹری کورٹ کے ذریعے کروانے کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے جس کی وجہ عوام کی عدلیہ پر مکمل بد اعتمادی ہے۔ مظاہرو ں کے دوران کئی مواقع ایسے نظر آئے جہا ں پر ریاست کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی ریاست ایک نیم مردہ تعفن زدہ جسم کے سوا کچھ نہیں۔
لیکن اگر دستیاب حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس واقعہ کے علاوہ بھی یہاں بچوں کے ساتھ زیادتی، خودکشیوں، پولیس تشدد، جبراً شادی وغیرہ کے ان گنت وقوعے موجود ہیں۔ 2014ء میں یونیسیف اور پاکستان کی غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے کام کرنے والے ادارے مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے 2014ء کے اعدادو شمار کے مطابق پورے پاکستان میں سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے 4,572، بدفعلی کے 3,429، تشدد کے 4,996 کیسز رجسٹر ہوئے جبکہ دیگر عوامل مثلاً خود کشیوں، پولیس جبر، اغوا وغیرہ کو بھی شامل کر لیں توصرف 2014ء میں 69,604 کیسز رجسٹر ہوئے جن میں زیادہ کا تعلق پنجاب اور سندھ سے ہے۔ ستمبر 2014ء میں جاری کردہ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 190 ممالک میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں پاکستان پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ بچوں سے جسمانی زیادتی کے بارے میں غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق 2014ء کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان سے 1,786 کیس رجسٹر ہوئے جس میں 1,086 کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ 2015ء میں اسی عرصہ میں رجسٹر ہونے والے کیسز میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق170,000 سٹرک کے بچوں میں سے 90 فیصد جسم کی تجارت میں شامل ہیں، پاکستان میں صرف 20 فیصد کیسز ہی رجسٹر کئے جاتے ہیں اور پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر لڑکوں کے ساتھ جسمانی زیادتی کا خدشہ لڑکیوں سے زیادہ ہے۔ محض ان چند رپورٹس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کا مسئلہ اس قدر شدید ہے۔
مسئلہ صرف اخلاقی توجیہات یا مرد شاونزم کا نہیں بلکہ یہاں کی دم توڑتے تاخیر زدہ سرمایہ داری کے سماجی ارتقا کی وجہ ہے۔ جہاں ایک طرف تو نیم جاگیرداری اور نیم غلامی کی شکلیں موجود ہیں تو دوسری جانب عالمی سرمایہ داری کے تھپیڑوں میں یہ مملکت خداد پاکستان ایک عجیب عبرت کا مرکب بن چکا ہے جہاں پر زیست پر ہر روز درد کے نئے پیوند لگاتی ہے۔ پاکستان کے بدتر معاشی حالات کی وجہ سے آدھی سے زیادہ آبادی غربت میں رہتی ہے جہا ں پر زندہ رہنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ SDPI کی 2014ء رپورٹ کے مطابق صرف 27.1 فیصد آباد ی ہی زندہ رہنے کے لئے پوری غذا لے پاتی ہے جبکہ باقی آبادی خوراک کے سنگین بحران کا شکار ہے۔ ان حالات میں بچوں کی حالت زیادہ خراب ہے۔ مثلاً یونیسیف کی 2014ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پیدائش کے پہلے روز مرنے والے بچوں کا تناسب 1000 میں 40.7 ہے جو کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں روزانہ 1189 بچے غذائیت کی کمی سے مر جاتے ہیں، ایک تہائی بچے وزن میں کمی کا شکار اور ہر چوتھے میں ایک بچہ جسمانی طور پر نامکمل (Stunted) ہے۔ صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے قابل علاج بیماریوں سے بڑے پیمانے پر بچوں کی اموات میں پاکستان سر فہر ست ہے مثلا ہر سال 71000 بچے نمونیا سے، 580,000 ہیضہ جبکہ عام بخار سے 25000 بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ نئی جان کو جنم دیتے وقت ہر گھنٹے تین میں سے ایک ماں دم توڑ دیتی ہے ان چند اعدادو شمار سے یہ بات عیاں ہوتی ہے نئی نسل کے لئے یہ ملک ایک جہنم بن چکا ہے۔ ایک ایسے سماج میں کس طرح کی اخلاقیات اور رویے پروان چڑھ سکتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا کچھ محال نہیں! جس سماج میں بنیادی ترین ضروریات زندگی کا حصول چیلنج بن جائے وہاں سے تشدد، اذیت اور بربادی ہی برآمد ہو سکتی ہے۔
مارکس کے مطابق کسی بھی سماج کی اخلاقیات، قوانین، رسم و رواج کی بنیاد اس سماج کا معاشی نظام ہوتا ہے جو کہ دیگر بالائی ڈھانچے مثلاً سیاست، ریاست وغیرہ کو جنم دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اہم صفت اس کے معاشی بحرانات اور عروج کے عہد ہیں۔ ایک وقت میں جو عوامل سرمایہ دارانہ کے عروج کا باعث بنتے ہیں وہی عوامل ایک عہد میں اس کے زوال کا باعث بنتے ہیں۔ یہ معاشی عروج و زوال انسانی شعور پر بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں، مارکسزم سکھاتا ہے کہ انسانی شعور پیداواری قوتوں سے مبرا نہیں ہوتا، اسی وجہ سے جب زوال کا عہد ہو اور آگے جانے کا راستہ نہ دکھائی دے تو ماضی کی ہر غلاظت حال پر حاوی ہو کر مستقبل تاریک بنا دیتی ہیں۔ وقتی جمود کے عہد میں شعوری پراگندگی، غلاظتوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے، وہی انسانی شعور جو انسان کو معراج پر لے کر جاتا ہے اسی شعور سے انسان پستی کی ان گہرائیوں میں گر جاتا ہے اور جانوروں کے رتبے سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔
یہی سب کچھ ہمیں قصور اسکینڈل میں نظر آرہا ہے جہاں انسان اس قدر وحشی ہو گیا کہ معصوم بچوں سے بھی بدکاری کے فعل سرانجام دینے سے دریغ نہیں کیا گیا۔ یہاں مدرسوں خصوصاً جنوبی پنجاب میں یہ خباثت معمول بن چکی ہے۔ اس طرح کے واقعات کی اصل ذمہ داری سرمایہ داری کی ’برکات‘ مثلاً غربت، عدم مساوات اور مفادات پر مبنی خاندان پر ہے۔ سرمایہ داری نظام کے مبلغین بڑے پیمانے پر خوشی اور انفرادی ضروریات کی تکمیل کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت برعکس ہے۔ پیداواری عمل سے بیگانہ انسان ناگزیر طورسماجی طور پر بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ جس قدر معاشی بحران میں اضافہ ہوتا ہے اسی قدر معاشرتی پراگندگی میں اضافہ ہو تا ہے جس کی عکاسی سماج میں موجود بیماریوں مثلاً بچوں سے زیادتی، گھریلو تشدد، منشیات کا استعمال، تنہائی کی شرح میں مسلسل اضافے سے ہوتی ہے۔ وجودیت کے فلاسفر جان سارترے اور البرٹ کامیو کے مطابق بیگانگی انسانی وجود کا لازمی حصہ ہے لیکن مارکس کے مطابق بیگانگی طبقاتی معاشرے کی پیداوار ہے۔ آج کے عہد میں جتنی تیزی سے نام نہاد ترقی ہورہی ہے اسی تیزی سے اخلاقی اقدار زیادہ پست اور رویے زیادہ ا بتر ہو رہے ہیں۔
اخلاقی اور مذہبی ’’نیک انسانوں‘‘ کی خواہشات کے برعکس انسانی اقدار کا بحران اور اس میں مزید ابتری کی بنیاد ٹھوس مادی حقیقتوں پر ہے۔ اسی طرح سے انسانی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن اور رویے بھی مادی ترقی سے مبرا نہیں ہیں۔ قدیم انسانی سماجوں سے لے کر آج تک مرد اور عورتوں کے کردار مسلسل تبدیل ہوئے ہیں۔ غیر طبقاتی قدیم سماجوں میں بچوں کی پرورش کمیون یا قبیلے میں موجود تما م بڑے کرتے تھے۔ ان سماجوں میں نجی خاندان کے ادارے کی جگہ اجتماعی خاندان تھے جہاں پر ہر ایک کی ماں سب کی ماں اور سب کے بچے یکساں سمجھے جاتے تھے۔ یہاں پیداوار اجتماعی ہونے کی بنیاد پر رویے بھی اجتماعی تھے۔ مرد کے کفالتی اور عورت کے نگہداشتی کردار تک پہنچنے کا سفر انسان نے ارتقا کے ایک لمبے مرحلے میں کیا۔ غلام داری کے طبقاتی سماج نے مل جل کر رہنے کے اس طرز زندگی کو ختم کیا۔ پیداواری قوتوں کی ترقی نے یہ ممکن بنایا کہ ایک اقلیت ایک اکثریت کو غلام رکھ سکے۔ اسی دور میں عورت کی محکومی کا آغاز ہوا۔ آج کا خاندان ماضی کی نسبت زیادہ پر پیچ اور کمزور ہے جو کہ بحران میں ٹوٹ رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے عروج میں محنت کش مرد و زن اور ان کے بچوں کو زیادہ سہولیات میسر تھیں تا کہ زیادہ ہنر مند صحت مند مزدور دستیاب ہو سکیں لیکن اب یہ صورتحال یکسر مختلف ہے۔ آج پرورش پانے والے بچوں کے اردگرد طبقاتی، نسلی، معاشرتی، معاشی تقریق ماضی کی نسبت زیادہ بلند ہے، اس خاندان میں عورت دوہرے استحصال کا شکار ہے جو کہ صرف بغیر تنخواہ کے مزدور بن چکی ہے، اس میں جسمانی طور پر کمزور بچے زیادہ ظلم کا شکار ہیں۔
منڈی کی معیشت میں ہر چیز منڈی طے کرتی ہے حتٰی کہ نئے بچے کی قسمت کا فیصلہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی ہوتا ہے کہ یہ کیا کھائے گا، کیا پیے گا وغیرہ۔ اس کے لئے نیسلے اور موری ناگا جیسی کمپنیاں سر توڑ کوششیں کرتی ہیں کہ نیا آنے ولا بچہ ان کا ہی دودھ پیے (بشرطیکہ کہ والدین کے پاس اتنے پیسے ہوں)۔ پیار محبت، احساس، دوستی جیسے رشتے انسانی جبلت کا حصہ ہیں لیکن ہر الگ تھلگ خاندان میں جبراً ان تعلقات پر بہت سخت رویہ ہوتا ہے جس سے ان تعلقات کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ سرمایہ داری میں جنسی جذبات کی بنیاد باہمی عزت، احترام، احساس اور ہمدردی کی بجائے صنفی تفریق، استحصال، ہوس اور ظلم پر ہوتی ہے۔ مرد اور عورت کو الگ تھلک کیا جاتا ہے، عورت مرد کے رشتے کو محض تسکین لذت تک محدود کر کے آوارگی اور ہیجانیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ منڈی کی معیشت میں عورت کے جسم کو بھی جنس بنا دیا گیا ہے جہاں سے ایسی ثقافت پروان دی جا چکی ہے جہاں پر عورت کے جسم کو محض جنسی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی صورتحال میں خاندان کا ادارہ لڑکے اور لڑکیوں کی جنسی ضروریات کو بیان کرنے سے بھی قاصر ہے۔ جنسی بنیاد پر تعلیم کے مرتب شدہ نظام میں جنسی استحصال مزید شدید ہو تا جاتا ہے۔ اسی طرح بورژوا میڈیا کے ذریعے جنسی اشتعال انگیزی میں اضافے اور دوسری طرف شدید گھٹن کی کیفیت میں ایسی قباحتوں کا پروان چڑھنا حیران کن نہیں۔ معاشی پسماندگی میں جہاں تاریخی طور پر محنت کش مرد و عور ت زیادہ پریشانی میں مبتلا ہوں وہاں پر بچوں کی نفسیات بھی شدید متاثر ہو گی۔
صرف مارکس نے یہ حقیقت دریافت کی تھی کہ تہذیب تمدن، فلسفے اور سوچ سے پہلے انسان کو پیٹ کی فکر ہوتی ہے۔ تہذیب اور اعلٰی اقدار کوجبراً نافذ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لئے پیداواری قوتوں کو اور سماج کوآگے لے جانے کی ضرورت ہے۔ قصور کا واقعہ نہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری۔ اس نظام میں رہتے ہوئے اس پسماندہ سماج میں اس طرح کے کئی واقعات مزید رونما ہوتے رہیں گے۔ بہت سے واقعات تو میڈیا میں رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ اسی لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لعنتوں کے خلاف نفرت کو اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں منتقل کیا جائے۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی وہ سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے انسان ا علیٰ اقدار کی معراج پر حتمی طور پرپہنچ سکتا ہے اور انسان کو انسان کے ظلم سے نجات مل سکتی ہے۔
متعلقہ: