[تحریر: لال خان]
ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں کے بد ترین سیلاب نے ہر طرف تباہی پھیلا دی ہے۔ وہاں بھی ’’آسمانی آفات‘‘ غریبوں اور محروموں کو ہی بربادکرتی ہیں۔ جہاں ہندوبنیاد پرستوں نے نسل پرستی اور مذہبی فسطائیت کا زہر پھیلا رکھا ہے وہاں بھارتی ریاست بھی سیلاب میں گھرے عوام کو بچاؤ اور امداد دینے سے قاصر ہے۔ دنیا کے ہر دوسرے خطے کی طرح اس ’’جنت بے نظیر‘‘ میں بھی مشکل کی گھڑی میں غریب ہی غریب کے کام آیاہے۔ برباد ہونے والے ہی ایک دوسرے کا سہارا بنے ہیں۔ محنت کش ہی محنت کشوں کا احساس کرنے والے ہیں۔ یہ سیلاب ہر قسم کی مذہبی بنیاد پرستی کو بھی ساتھ بہا لے گیا ہے۔ کہیں کسی بھوکے پنڈت اور اس کے خاندان کو سیلابوں میں گھرے مسلمان کشتی بانوں نے ڈوبنے سے بچایا اور کئی دنوں تک پناہ اور غذا دی تو کہیں بے گھر مسلمانوں کے زخموں پر ہندو باسیوں نے مرہم رکھا۔ نسل اور مذہب سے بالاتر انسانوں کا یہ ملاپ اور خصوصاًجموں کے مختلف پنڈتوں کی جانب سے شکر گزاری کے بیانات بی جے پی، آر ایس ایس اور دوسرے ہندو بنیاد پرست گروہوں پر بجلی بن کے گرے ہیں۔ باطل عزائم بکھر گئے ہیں۔
اس سیلاب سے پہلے بھارتی ریاست کی طرف سے ہندو بنیاد پرستی کو ابھارنے کے لیے مہم چلائی گئی تھی۔ وزیر اعظم نریندرامودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج بجرنگ دل، آر ایس ایس اور ویشوا ہندو پریشت جیسے فسطائی گروہوں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ہر گروہ جنونیت میں دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ ظاہر ی طور پر ایک ’’متعدل‘‘ سیٹس مین ہونے کا ناٹک کرنے والا نریندرا مودی ہندوستان اور خصوصاً کشمیر میں مذہبی بنیاد پرستی کو ابھار کر آنے والی نسلوں کو شعوری طور پر غرق کر دینے کے درپے ہے۔
مکاری اور عیاری کا روپ دھارنے کے ماہر اس انسان کے عزائم کشمیر کے بارے میں انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ مودی ہندوستان کے آئین میں سے شق نمبر 370 کو ہی ختم کردینا چاہتا ہے جس کے تحت بھارتی کشمیر کو کم از کم کاغذی طور پر دوسرے صوبوں سے زیادہ خود مختیاری حاصل ہے۔ اگر اس دستاویز کو گہرائی میں پڑھا جائے تو اس میں دیئے گئے کچھ حقوقِ خودمختیاری پاکستان کے زیرِ انتظام ’’آزاد کشمیر‘‘ سے بھی زیادہ ہیں۔ لیکن لکھے گئے قوانین اور حکمرانوں کے اعمال دو الگ چیزیں ہیں۔ کشمیر سمیت دنیا کے ہر خطے میں سرمایہ دارانہ ریاستوں کے آئین اور قوانین کی تشریح حکمران طبقات اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ اصل مقصد اپنے مالیاتی مفادات کا تحفظ اور عوام کو قانونی پیچیدگیوں کے ذریعے بے وقوف بنانا ہوتا ہے۔ ضیاء الحق نے اپنی وحشت اور جنون کے نشے میں یہ بات ذراکھل کر بیان کر دی تھی۔
بی جے پی کی واجپائی حکومت میں وزیر خاجہ ایل کے ایڈوانی نے کشمیر کو دو کی بجائے 4 حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ مودی کے مذہبی مشیر اب اسی منصوبے کا نیا چربہ تیار کر لائے ہیں۔ اس پالیسی کو تین ’’پ‘‘ (پراکاش، پریاورن اور پریاتن یعنی توانائی‘ ماحولیات اور ٹورازم) کا فارمولا بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ لداخ، جموں اور کشمیر پر مشتمل خطہ کشمیر کے یہ تین مجوزہ خطے ہندوستانی وفاق کی ریاستوں کا درجہ حاصل کریں گے۔ اصل منصوبہ، کشمیر پر پہلے سے مسلط جابرانہ کالے قوانین کے ذریعے بی جے پی کی حکومت کو برسرِ اقتدار لانا ہے جس کے بعد آبادیوں کی نقل و حمل اور ہجرت وغیرہ کے ذریعے ہند ومت کا مکمل راج قائم کر دیا جائے گا۔
پاکستان سے بھارتی ریاست محض لائن آف کنٹرول پر امن کے مسئلہ پر مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ یہ ہندوبنیاد پرست حکمران اپنے منصوبوں کو عملی شکل دے پائیں گے یا نہیں؟ دارومدار ہندوستان کے محنت کشوں کی اس حکومت اور نظام کے خلاف جدوجہد اور تحریک پر ہے۔ لیکن ماضی قدیم کی توہمات پر مبنی حکومتیں آج کے عہد میں زیادہ عرصہ چل نہیں سکتیں۔ کشمیر کے بارے میں ہندومت کی رجعت پر مبنی یہ تخیل پیدا کیا گیا ہے کہ مودی جیسے انتہا پسند جس گنگا کی پوجا کرتے ہیں اس کو پوتر ( پاک) کرنا ضروری ہے۔ گنگا چونکہ کشمیر سے پھوٹتی ہے لہٰذا اس پر ہندومت کی حاکمیت کا جواز تراشا جارہا ہے۔ لیکن ’’اقوام متحدہ‘‘ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی ایک حالیہ تجزیاتی رپورٹ میں دریافت ہوا کہ گنگا، دریائے سندھ، براہما پترا، میکونگ اور ییلو دریاایک ہی علاقے کے ایکولاجیکل سسٹم سے جنم لیتے ہیں۔ سرمایہ داری کی متروکیت، معاشی بحران، گھٹن اور سیاسی جمودکا ہی نتیجہ ہے کہ قدیم مذہبی توہمات کی تاریکی آج کے سائنسی عہد میں سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
ہمالیہ کے گلیشیر پگھلنے سے کشمیر، پنجاب، پشتونخواہ، اتر کھنڈ، بہار اور آسام…سب برباد ہو جائیں گے۔ برصغیر کے حکمرانوں کی بے معنی چپقلش سے متعلق ایک مغربی صحافی نے لکھا ہے کہ’’سیاچن گلیشیرپر ہندوستان اور پاکستان کی لڑائی ایسے ہی ہے جیسے دو گنجے آپس میں کنگی کے لیے لڑ رہے ہوں۔ ‘‘ اگر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں غربت، محرومی اور ذلت کی انتہا ہے تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر بھی عوام کے لئے جنت بے نظیر کسی صورت نہیں ہے۔ بے روزگاری کی ذلت میں کشمیر کے نوجوان دنیا بھر کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی ریاستوں نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اپنے داخلی، خارجی اور عسکری مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ اگر انہیں کشمیر کے عوام سے اتنی محبت ہوئی تو لائین آف کنٹروک کے دونوں اطراف کے عوام ذلیل و خوار نہ ہورہے ہوتے۔
کشمیر پر بھارت کے سامراجی قبضے کے خلاف محنت کش عوام اور نوجوانوں نے کئی بڑی بغاوتیں برپا کی ہیں۔ خصوصاً 1987ء میں چلنے والے کشمیر انتفادہ نے بھارتی ریاست کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس کی پسپائی کے بعد اسلامی بنیاد پرستی اور ’’جہاد‘‘ سے نہ صرف عام کشمیری تحریک آزادی سے متنفر ہوئے بلکہ ہندوستان کی وحشی ریاست کو جبر کا جواز میسر آیا۔ ایک دہائی بعد سامراجی دباؤ کے تحت اسلامی بنیاد پرستوں کے آقا تو ’’جہاد‘‘ کو خیر آباد کہہ کر پیچھے ہٹ گئے لیکن ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی اب تک جاری وساری ہے۔ پاکستان کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں بھی بہت سی عوامی تحریکوں کو بے دردی سے کچلا گیا۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ مذہبی بنیاد پرستوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کی حدود میں رہ کر ’’آزادی‘‘ ڈھونڈنے والے قوم پرستوں کو کشمیر کے عوام نے یکسر مسترد کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان دونوں رجعتی نظریات کے ذریعے سے ان کے سلگتے ہوئے معاشی و سماجی مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے آزادی کشمیر حاصل ہوسکتی ہے نہ ہی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس ریاست کو چلایا جاسکتا ہے۔ ایل او سی کے دونوں طرف حکمران ریاستوں کی آشیر آباد سے بننے والی حکومتوں کو عوامی حمایت حاصل رہی ہے نہ ہی قوم پرست ان کٹھ پتلی حکومتوں کے خلاف کوئی بڑی تحریک برپا کرسکے ہیں۔ کشمیر سے لے کر افریقہ تک مظلوم قوموں کو برباد کرنے والے اقوامِ متحدہ جیسے سامراجی اداروں سے ’’آزادی‘‘ کی بھیک مانگنا مضحکہ خیز نہیں المناک ہے۔
کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کا مستقبل اتنا بھی اندھیر نہیں ہے۔ ایل او سی کے دونوں اطراف ایک نئی نسل ماضی کے تلخ تجربات کی بھٹی سے گزر کر جوان ہوئی ہے۔ یہ نوجوان زیادہ ریڈیکل نظریات اور بین الاقوامی تناظر سے لیس ہیں۔ وہ سماجی و معاشی نظام کی یکسر تبدلی کے ذریعے آزادی کے راستے پر گامزن ہیں۔ پچھلے سال سری نگر اور ہندوستانی کشمیرمیں نوجوانوں اور محنت کشوں کے انتہائی جرات مندانہ احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں جس سے بھارتی ریاست بوکھلا گئی تھی۔ ان مظاہروں میں معاشی اور اقتصادی ایشوز کو قومی آزادی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یہ ایک نئی شروعات ہے۔ اسی طرح مظفر آباد میں نئے عزم اور ہمت سے سرشار جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (JKNSF) کا 19واں کنونشن نہ صرف ایل او سی کے اُس پار بلکہ پورے خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو سوشلسٹ انقلاب اور حقیقی آزادی کا پیغام دے رہا ہے۔