| تحریر: راشد شیخ |
ہندوستانی مقبوضہ کشمیر ایک بار پھر نہ تھمنے والی تحریک کی لپیٹ میں ہے۔ جہاں پوری دنیا میں عید کے تہوار کی تیاریاں تھیں وہیں کشمیر کے نوجوان ہندوستانی جبر کیخلاف دوبارہ سربکف ہو رہے تھے۔ ان مظاہروں نے ایک تحریک کا روپ اس وقت اختیار کیا جب نو عمر باغی رہنما برہان وانی کو دو ساتھیوں سمیت ہندوستانی فوج نے قتل کر دیا۔ برہان وانی ہائیرسیکنڈری سکول کے پرنسپل کا بیٹا اور ایک ہونہار طالبعلم تھا جسے ریاست کے اکثریتی دیگر نوجوانوں کی طرح بھارتی قابض فورسز کی جانب سے تشدد اور جبر نے عسکریت پسندی پر اکسایا۔ نئی نسل کے اس عسکریت پسند نے بیرونی جہادی ایجنٹ بننے کی بجائے کشمیر پر جبری قبضے اور غریب عوام کو فوجی بربریت کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ حزب المجاہدین میں اس کی شمولیت کی وجہ اس کا کوئی خونخوار اور بنیاد پرست قسم کا جہادی ہونا نہیں تھی بلکہ ایک انقلابی متبادل کی عدم موجوگی بہت سے نوجوان سامراجی قبضے کے خلاف اس طرح کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مہم کا بھی آغاز کیا جس میں بھارتی قبضے کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کشمیر سے ہجرت کر جانیوالے کشمیری پنڈتوں کو انکی آبائی جگہوں پر واپس بسائے جانے اور ہندو یاتریوں کی حفاظت کا پیغام بھی وہ دیتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیا نے بھی برہان وانی کی جدوجہد کو نئے عہد کی خود رو عسکریت سے تعبیر کیا۔ برہان وانی کی ہلاکت ایک ایسا واقعہ تھا جو سطح کے نیچے پک رہے تضادات کو ابھار کر سطح پر لے آیا۔
بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر برصغیر کی خونی تقسیم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ برطانوی سامراج کیخلاف 1946ء میں جب برصغیر کے محنت کش عوام اور فوجی سپاہیوں نے سرکشی کی تو سامراج کے برصغیر پر قبضے کے ساتھ ساتھ نظامِ سرمایہ داری کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا اور اس طرح کی انقلابی تحریکوں کو مستقبل میں زائل کرنے کے لئے برطانوی سامراج نے برصغیر کے زندہ جسم کو ریڈ کلف لائن کے ذریعے چیر دیا۔ تقسیم کے نتیجے میں بننے والے دونوں ممالک کی افواج کے سربراہ برطانوی جرنیل ہی تھے جنہوں نے ایک منصوبے کے تحت 1947ء میں، جب کشمیر ایک خودمختیار ریاست کے طور پر موجود تھا، اس کو دونوں اطراف سے قبائلی اور فوجی یلغار کے ذریعے سے اپنے اپنے تسلط میں لے لیا۔ جو حصہ ہندوستان کے کنٹرول میں آیا اسے ہندوستانی مقبوضہ علاقہ اور جو پاکستان کے قبضہ میں آیا اسے پاکستانی مقبوضہ یا ’’آزاد ریاست‘‘ کا نام دیا گیا۔
برصغیر کے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑنے کیلئے کشمیر کا رستا زخم ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کے فارمولے کے تحت چھوڑا گیا۔ مسئلہ کشمیر کو استعمال کرتے ہوئے آج تک دونوں ممالک بھاری بھرکم افواج کو پالنے کیلئے دونوں طرف بجٹ کا بڑا حصہ دفاع کے نام پر خرچ کرتے ہیں۔ جہاں ان دونوں ممالک کی حکمران اشرافیہ کے مفادات کے گرد گھومتی دوستی اور دشمنی کے ناٹک کی بھینٹ پاکستان اور ہندوستان کے عوام چڑھے ہیں وہیں کشمیر کے عوام براہ راست دونوں ریاستوں کے ریاستی، معاشی اور سیاسی جبر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی واضح مثال بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی ریاست کا کشمیری نوجوانوں پر مسلسل جبر ہے۔ چھ جولائی سے شروع ہونیوالی حالیہ تحریک، جسکو ایک ماہ ہونے کو ہے، اب بھی جاری ہے۔ بھارتی مسلح افواج کا ہر جبر اور ریاستی ہتھکنڈا کشمیری نوجوانوں کی تحریک کو کمزور کرنیکی بجائے انکے حوصلے اور جرأت کو مزید تقویت دے رہا ہے۔
برہان وانی کی تدفین کے وقت برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ریاستی پابندیوں، کرفیو اور فوجی جبر کے باوجود چالیس ہزار جبکہ کشمیر کے میڈیا کے مطابق تین لاکھ سے زائد نوجوان، محنت کش اور خواتین سلامی کیلئے حاضر ہوئے اور نو جولائی 2016ء سے اب تک یہ تحریک کشمیر کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔ وادی کے دس اضلاع اور جموں کے ضلع کشتواڑ میں گزشتہ ایک ماہ سے کرفیو نافذ ہے، روزانہ کی بنیاد پر نوجوان، عورتیں اور بچے کرفیو اور پابندیوں کو پاؤں تلے روندے ہوئے مظاہرے کر رہے ہیں اور نہتے مظاہرین پر بھارتی سکیورٹی فورسز آنسو گیس، فائرنگ اور پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کر رہی ہیں جس کے نتیجہ میں ایک ماہ کے دوران سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 74 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں، پانچ ہزار سے زائد شدید زخمی یا اپاہج ہوئے ہیں اور اتنی ہی گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔
کشمیر کے ایک ڈاکٹر کے بیان کے مطابق پیلٹ گن کا استعمال جبر کا نیا ذریعہ ہے جس کے ذریعے سے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے استعمال سے سینکڑوں نوجوان اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس دوران مظاہرین پولیس تھانوں اور فوج کی چوکیوں سے براہ راست متصادم ہو رہے ہیں۔ تھانے جلانے اور فوجی چوکیوں پر پتھراؤکے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے روز مظاہرین کشمیر کے محکمہ تعلیم کے وزیر کے گھر پر حملہ آور ہو گئے اور پٹرول بم پھینکے گئے۔ مقبوضہ ریاست کے منتخب ممبران اسمبلی اور وزرا مظاہرین کے خوف سے روپوش ہو چکے ہیں۔ اس دوران جوں جوں ریاستی جبر بڑھ رہا ہے ساتھ ہی مظاہرین کے اشتعال میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
کشمیر کے محنت کش اور نوجوان پچھلے اڑسٹھ سال سے ہندوستانی ریاست کے جبر کا نشانہ بن رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں افغانستان کے ڈالر جہاد کی کشمیر میں مداخلت کی وجہ سے ہزاروں نوجوانوں کو قتل کروایا گیا۔ کشمیر کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ ہندوستانی یا پاکستانی ریاست کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔ ریاست کوئی بھی ہو، کسی بھی ملک کی ہو وہ ہمیشہ جبر کا آلہ ہوتی ہے اور حکمران طبقات کیخلاف ابھرنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ انہی قابض ریاستوں کی آشیرباد سے کشمیریوں پر مسلط نام نہاد قیادتیں اس تحریک میں بری طرح سے بے نقاب ہو رہی ہیں۔ علیحدگی پسندی کا نقاب اوڑھے دونوں قابض ریاستوں کے پے رول پر کام کرنیوالے نام نہاد حریت لیڈر اس خود رو عوامی بغاوت کی قیادت کرنے کی اہلیت اور صلاحیت سے عاری ہونے کی وجہ سے محض ہڑتال میں توسیع کی کال دینے کے علاوہ کوئی واضح لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں۔ جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کی اتحادی حکومت اپنے وعدوں اور اعلانات کے برعکس ریاستی جبر کو مزید سخت کرتے ہوئے مودی کی عوام دشمن پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔
کشمیر میں موجود تحریک کا اگر سائنسی تجزیہ کیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ پچھلے لمبے عرصے سے بیروزگاری اور غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، عوام کا معیار زندگی آئے روز گرتا چلا جا رہا ہے۔ اکانومسٹ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’کشمیر میں نوجوانوں کو بہتر روزگار میسر نہیں ہے، اگر کوئی بہتر نوکری آتی ہے تو ہندوستانیوں کو ترجیح دی جاتی ہے، ایسے میں نوجوانوں میں محرومی اور زیادہ بڑھ رہی ہے‘‘۔ سطح کے نیچے جو لاوا پک رہا تھا، معاشی مسائل اور ریاستی جبر کی وجہ سے اس کا معیاری اظہار ہمیں اس وقت ہندوستانی کشمیر میں نظر آرہا ہے۔ بہت سارے نام نہاد تجزیہ نگار اس تحریک کومذہبی دہشت گردی کی گود میں ڈالنے یا اس طرح کا رنگ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں، جبکہ دوسری طرف پاکستانی ریاست کی جانب سے نوے کی دہائی میں کشمیر میں استعمال کئے جانیوالے مذہبی انتہا پسند گروہوں کو ایک مرتبہ پھر کشمیرکی آزادی کا چمپئن بنا کر سامنے لایا جا رہا ہے۔ اس سے کشمیر میں جاری خود رو عوامی تحریک کو بھارت کی جانب سے بیرونی دہشت گردانہ کارروائی سے جوڑنے کے موقف کو تقویت پہنچ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستانی ریاست کشمیریوں پر جاری بھارتی جبر اور بربریت کو قانونی اور اخلاقی جواز دینے میں انکا بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔
جب سیاسی قیادت واضح متبادل نہ دے سکے، کسی کے پاس کوئی واضح سیاسی و معاشی پروگرام نہ ہو، نوجوانوں کے سامنے ریاست ان کے بہن بھائیوں کو قتل کر رہی ہو تونوجوانوں کو اپنی جدوجہد کیلئے راستہ چاہیے ہوتا ہے۔ ایسے میں کشمیر کی تمام سیاسی قیادت سیاسی اور معاشی آزادی کا کوئی واضح پروگرام دینے میں ناکام ہوئی ہے۔ غلام قوموں کے حکمران عام طور پر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں اور اپنے سامراجی آقاؤ ں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنے ہی عوام پر جبر کے پہاڑ ڈھاتے ہیں یا پھر درپردہ بدترین غداریوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ دونوں طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
آج اس تحریک کے مشہور نعرے ’’اس پار بھی مانگیں آزادی، اُس پار بھی مانگیں آزادی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کشمیری عوام اور بالخصوص نوجوان دونوں ریاستوں کے حکمران طبقات سے ہر قسم کی امید ختم کر چکے ہیں اور تمام سیاسی قیادتوں اور نام نہاد جہاد کو مسترد کرتے ہوئے منزل کی تلاش میں ہیں۔ کشمیر کا قومی مسئلہ حکمران ریاستیں کبھی بھی حل نہیں کر سکتیں اور نہ ہی سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اب اس کا کوئی حل موجود ہے۔ حکمران طبقات مسئلہ کشمیر کو طول دے کر جنگی صنعت کو منافع اور اپنے دو طرفہ جبر کو تقویت بخش رہے ہیں۔
حق خودارادیت کسی بھی قوم کا بنیادی حق ہے لیکن موجودہ عہد میں بین الاقوامیت کا سوال اس سے لازمی طور پر منسلک ہوتا ہے۔ کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد آخری تجزیے میں طبقاتی جدوجہد ہے۔ لینن کے بقول ’’قومی مسئلہ اپنی اساس میں روٹی کا مسئلہ ہوتا ہے‘‘۔ کشمیر کی تحریک کوہندوستان اور پاکستان کے محنت کشوں سے طبقاتی بنیادوں پر منسلک کرتے ہوئے ہی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ برصغیر میں قومی آزادی کی دوسری تحریکوں کے پاس بھی آگے بڑھنے کا یہی راستہ ہے۔ آزادی کی جس تڑپ کو لے کر آج کشمیر کے نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں، کشمیر کے پہاڑوں سے اس نظام کے ظلم اور بربریت کے خلاف ابھرنے والی نوجوانوں کی اس انقلابی بغاوت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ہندوستان، پاکستان اور اس پار کشمیر کے مظلوم و محکوم محنت کشوں اور نوجوانوں کی جڑت اور یکجہتی پر مبنی جدوجہد سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ آج پورے برصغیر کے محنت کشوں کے سامنے یہ تحریک ایک بڑا سوال بن کر کھڑی ہے۔ کشمیر کے نوجوان اس خطے کے محکوم و مظلوم عوام کو پکار رہے ہیں کہ آؤ اس نظام کیخلاف علم بغاوت بلند کرو اور ایک کاری ضرب لگاتے ہوئے اس خطے سے محرومی، محکومی اور طبقاتی و ریاستی جبر کا خاتمہ کرو۔ انقلابی سوشلزم کے سائنسی نظریات پر مبنی برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی اس نظام کیخلاف بغاوت ہی تقسیم کے ان رستے زخموں کو مندمل کر سکتی ہے۔
متعلقہ: