| تحریر: لال خان |
کشمیر میں ہندوستان کے حکمرانوں کے جبر کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار ایک مرتبہ پھر پچھلے ہفتے عوام کی سرکشی میں ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر برصغیر کے بٹوارے کا رستا ہوا زخم اور ایسا تنازعہ ہے جسے برطانوی سامراج نے خطے میں عدم استحکام جاری رکھنے کے لیے اپنے پیچھے چھوڑا تھا۔ برصغیر کے نئے حکمران ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی پالیسی، جسے برطانوی سامراج نے قدیم روم کے بادشاہوں سے سیکھا تھا، کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے چلے آ ئے ہیں۔ لیکن یہ مفلوج اور تاریخی طور پر تاخیر زدہ سرمایہ دارانہ ریاستیں، جنہیں برطانوی سامراج نے مقامی گماشتہ حکمران طبقات کے ساتھ ساز باز کرکے تخلیق کیا تھا، کشمیر اور دوسرے خطوں میں عوام کی مزاحمت کو کچلنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ پچھلے ہفتے جب ہندوستان کی فوج نے حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کو مار دینے کا اعلان کیا تو اس کے چند گھنٹے بعد ہی کشمیری عوام سڑکوں پر امڈ آئے۔ یہ بھارتی ریاست کے جبر سے آزادی کے لیے جدوجہد کی نئی کروٹ ہے۔
برہان وانی کشمیر کے جنوبی شہر ترال میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ہونہار طالب علم، ایک ابھرتا ہوا کرکٹر اور ایک سکول ماسٹر کا بیٹا تھا۔ جب سکیورٹی فورسز نے 2010ء میں ہنگاموں کے دوران اس کے بھائی خالد کو تشدد کا نشانہ بنایا تو وہ مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہو گیا۔ چند مہینے پہلے ہندوستان ٹائمز نے ایک رپورٹ میں لکھا تھا، ”کچھ پولیس اہلکاروں نے دونوں بھائیوں (جو اس وقت نوجوان تھے) کو روکا۔ ایک نے آگے بڑھ کر خالد پر حملہ کیا۔ اس اہلکار کو نوجوانوں کو اذیت دینے سے لطف آتا تھا۔ اس تشدد سے خالد بے ہوش ہوگیا“۔
بد قسمتی سے اس واقعے کے بعد کوئی واضح انقلابی راستہ نہ ملنے کے نتیجے میں اس نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اس کے تجربہ کار جنگجوﺅں میں جگہ بنا لی۔ لیکن احتجاج کا یہ حالیہ سلسلہ وانی کے اسلامی بنیاد پرست پس منظر کی وجہ سے شروع نہیں ہوا بلکہ وانی کی ہلاکت درحقیقت ایک ایسا واقعہ تھا جس نے قومی، معاشی اور سماجی جبر کے خلاف عام کشمیریوں کی مجتمع شدہ نفرت کے بارود کو آگ لگا دینے والی چنگاری کا کام کیا۔
وانی وادی کشمیر میں مسلح لڑائی کے لیے بھرتی کرنے اور اس کی ترغیب دینے والوں کی صف اول میں شمار ہوتا تھا۔ سوشل میڈیا پر بھی کشمیری نوجوانوں میں وہ خاصا مقبول تھا۔ اس کا تعلق 2010ء کے عوامی مظاہروں کے بعد مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار کرنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی نئی نسل سے تھا۔ ہندوستانی ریاست نے اس کی موت کو کامیاب دہشت گردی مخالف آپریشن قرار دیا جبکہ عام کشمیریوں نے برہان وانی اور جے کے ایل ایف کے اشفاق مجید وانی، جو 1990ء کی دہائی کی مسلح جدوجہد کا مشہور شہید ہے، کی حمایت میں مظاہرے شروع کر دئیے۔
ٹائمز آف انڈیا کے ایک آرٹیکل کے مطابق، ”رویوں میں اس طرح کی قلابازی تمام جنگ زدہ علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ ’آزادی‘ کے لیے ہونے والے تشدد اور ساتھ ہی ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہونے والی سازشیں کشمیر میں دیومالائی کہانیوں کے لیے زرخیز زمین مہیا کرتی ہے“۔ ایک فوجی افسر کی بات کو نقل کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے، ”برہان کوئی مسلح جنگجو نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہم پاکستان کی چال کا شکار ہوگئے۔ انہوں نے ہم سے برہان کے ذریعے کشمیر کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک ہیرو بنوایا۔ وہ کامیاب ہوگئے۔ کشمیر میں ہر قتل ایک قالب کی مانند ہے جو بڑاہوکر پیچیدہ اور کسی اور چیز میں بدل جاتا ہے، اتنی تیزی سے کہ حقیقت کو افسانے سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے‘‘۔
ہندوستانی ریاست اور انٹیلی جنس ماہرین نے اس قتل کے رد عمل کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ انہیں شدید عوامی رد عمل، روزانہ احتجاجی مظاہروں اور درجنوں ہلاکتوں کی توقع نہیں تھی۔ جھڑپوں میں اب تک 35 لوگ مارے گئے ہیں اور ہسپتالوں میں سینکڑوں زخمی موجود ہیں جن میں سے کئی بری طرح زخمی ہیں یا معذور ہو چکے ہیں۔ پورے ہفتے تقریباً ہر دن نوجوان مظاہرین کی مزاحمت دیکھنے میں آئی جو کرفیو کی پروا کیے بغیر ہندوستانی فوجوں کی گولیوں اور آنسو گیس کا مقابلہ کرتے رہے۔ سرکار پریشان ہے کہ انہوں نے ناسمجھی میں ایک ایسی بغاوت کو بھڑکا دیا ہے جسے وہ قابو نہیں پا رہے۔ مسلح جدوجہد کے خلاف آپریشن میں مصروف ایک اعلیٰ سکیورٹی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ” ہمیں اس طرح کے عوامی رد عمل کی توقع نہیں تھی۔ یہ پریشان کن ہے“۔ حکام نے چوبیس گھنٹے کے لیے کرفیو لگایا لیکن مظاہرین نے فوجی اور نیم فوجی تنصیبات پر حملے کیے، کئی پولیس سٹےشنوں کو آگ لگائی اور پولیس اور ہندوستان کے حمایتی سیاست دانوں کے گھر جلا دیئے۔
وانی کے اس قتل کے خلاف عوامی رد عمل کا شدید دباﺅ ہندوستا ن کی اسٹےبلشمنٹ اور بی جے پی کی حکومت پر پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم نریندرا مودی نے چار ملکوں کا دورہ کرنے کے بعد واپسی پر فوراً ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا تاکہ ’امن و امان‘ کی صورتحال پر بحث کی جائے۔ کشمیر کے سابقہ وزیر اعلیٰ، جو پچھلی بی جے پی حکومت کا اتحادی اور وفاقی وزیر تھا، نے وانی کی موت کے بعد ٹویٹ کیا کہ وہ ”کشمیر کے باغیوں کے لیے نیا ہیرو بن چکا ہے“۔ حکومت نے وادی میں دو ہزار افراد پر مشتمل مزید نیم فوجی دستے بھیجے ہیں جہاں پہلے سے ہی پانچ لاکھ فوجی مستقل طور پر تعینات ہیں۔
پاکستانی ریاست کے ہاتھ بھی ایک اچھا موقع آگیا ہے۔ حکومت کی جانب سے مذمت اور اقوام متحدہ اور’عالمی برادری‘ سے اپیلیں کی گئیں، جبکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کیسے اس وقت اپنی تشہیر کا موقع ہاتھ سے جانے دیتا۔ بدھ کو جی ایچ کیو میں ماہانہ کورکمانڈر کانفرنس میں اس نے ہندوستانی حکام کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کے قتل کی مذمت کی۔
تاہم پچھلے ستر سالوں میں کشمیر کے دونوں اطراف کے محنت کش اور نوجوان برصغیر کے دوسرے محکوم عوام، بالخصوص محکوم قومیتیوں کی طرح اس جابر سماجی اور معاشی نظام کے ظلم و استحصال کا شکار بنتے چلے آ رہے ہیں۔ بٹوارے کے بعد کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے بیچ تنازعے کی اہم وجہ رہی ہے (اور بنائی بھی گئی ہے) جو دنیا میں اسلحے پر سب سے زیادہ لیکن صحت اور تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ کشمیر کے عوام نہ صرف سرمایہ دارانہ ریاستوں کے جبر سے دوچار ہیں بلکہ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں سے منسلک کشمیری لیڈروں کی غداریوں کو بھی سہتے آئے ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے اِس پار کشمیر میں فوج کی تعیناتی اور ایک وزارت اور ریاستی ایجنسیوں کے ذریعے جابرانہ حکومت ’آزاد کشمیر‘ کے عوام کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کی فوج نہ صرف تحریک کو کچلنے میں ناکام ہوئی ہے بلکہ جدوجہد کا انقلابی جذبہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوگیا ہے۔ پاکستان کے زیر تسلط علاقوں سے بہت سے کشمیری نوجوان پاکستان، برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں روزگار کی تلاش میں دربدر ہونے پر مجبور ہیں۔ ان کی حالت زار ایک اور المناک داستان ہے۔
پچھلی سات دہائیوں کے جبر اور جارحیت کے دوران تحریک میں کئی اتار چڑھاﺅ آئے ہیں۔ انفرادی دہشت گردی کا طریقہ کار الٹا نقصان دہ ثابت ہوا ہے اور اس سے جابر ریاستوں کو جبر کرنے کا جواز فراہم ہوتا ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی کی ’سپانسرڈ‘ مداخلت سے ہندوستان کی ریاست کو عام کشمیریوں پر جبر کرنے کا موقع ملا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے قومی آزادی کی تحریک کا تشخص مجروح ہوتا ہے اور یہ مذہبی انتہاپسند عام کشمیریوں پر جبر کرنے میں کسی طرح کم نہیں ہیں۔ انفرادی دہشت گردی اور مسلح جدوجہد کشمیری عوام کو آزادی دلانے میں ناکام ہوئی ہے اور ’مذاکرات‘ کی حیثیت کسی ناٹک سے زیادہ کچھ نہیں رہی۔ اقوام متحدہ اورسامراج کے گماشتہ دوسرے نام نہاد عالمی ادارے فلسطین کی طرح اس وادی کے عام باسیوں کے لیے بے کار ہی ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اس جدوجہد نے کئی عوامی تحریکیں دیکھی ہیں جیسا کہ 1987ء کی تحریک، جس نے ہندوستانی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 2010ء کی تحریک قوم پرستی پر مبنی آزادی سے زیادہ سماجی و معاشی آزادی کی طرف مائل تھی۔ تحریکوں کے پھٹنے کی فوری وجہ کوئی چھوٹا سا واقعہ ہوسکتا ہے لیکن مسلسل سماجی بے چینی اور بیزاری کی کیفیت میں حکمران ریاستیں کوئی مستحکم اقتدار کشمیر میں قائم نہیں کر سکتیں۔
کشمیر میں مزید عوامی تحریکیں ابھریں گی۔ لیکن معاشی، سماجی اور قومی آزادی کے لیے ان تحریکوں کو باقی ماندہ برصغیر میں وسیع تر عوام کی طبقاتی جدوجہد سے جڑنا ہوگا۔ طبقاتی جدوجہد پر مبنی یہی انقلابی تحریک کشمیر کو جابر ریاستوں اور ان کے نظام کے تسلط سے آزاد کر سکتی ہے جو نہ صرف کشمیر بلکہ پورے خطے کے ڈیڑھ اَرب انسانوں کی زندگیوں کو عذاب مسلسل بنائے ہوئے ہیں۔ کشمیری نوجوان اور محنت کش سوشلسٹ تناظر اور لائحہ عمل کے ساتھ ایسی انقلابی تحریک بھڑکا سکتے ہیں جو پورے جنوب ایشیا کو سرخ لڑی میں پروئے گی۔
متعلقہ: