| تحریر: لال خان |
مسلح جدوجہد، مذہبی تعصب اور قوم پرستی کے راستے اگر کشمیر کے عوام کو آزادی کی منزل سے ہمکنار نہیں کر پائے ہیں تو ’’جمہوریت‘‘ کا نمک ان زخموں کو اور بھی اذیت ناک بنا رہا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) کا بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے ساتھ الحاق کشمیری عوام کی تضحیک ہے جنہوں نے PDP کو حالیہ انتخابات میں ووٹ ڈال کر ریاستی اسمبلی میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بنایا ہے۔ دسمبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد BJP اوراس کی علاقائی حریف PDP کے درمیان لمبے مذاکرات چلے جس کے بعد دونوں جماعتیں مخلوط حکومت بنانے پر رضا مند ہو گئی ہیں۔
BJP کے صدر امیت شاہ نے نئی دہلی میں PDPکی سربراہ محبوبہ مفتی کے ساتھ ’’معاہدہ‘‘ طے پا جانے کے بعد اعلان کیا کہ دونوں جماعتوں نے زیادہ تر اختلافات بات چیت سے حل کر لئے ہیں۔ امیت شاہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’کچھ ہی دن میں جموں کشمیر میں BJP اور PDP کی مشترکہ حکومت قائم ہو جائے گی۔ ‘‘محبوبہ مفتی نے بھی کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’PDPاور BJP نے ’ترقی‘ کا مشترکہ ایجنڈا ترتیب دیا ہے۔ اس الحاق کا مقصد شراکت اقتدار نہیں بلکہ جموں کشمیر کے عوام کے دل جیتنا ہے۔ ‘‘ BJP نے کشمیر کے ریاستی انتخابات میں 25 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ایسے انتخابی نتائج کا تصور بھی دو سال پہلے محال تھا۔ PDP نے 28 نشستیں حاصل کیں۔ دونوں جماعتیں اکثریت حاصل نہ کرپانے کی وجہ سے خود مختیار حکومت قائم کرنے کے قابل نہ تھیں جس کے پیش نظر الحاق کیا گیا۔ کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال مئی 2014ء کے عام انتخابات میں نریندرا مودی کی بھارتی فتح کے بعد پورے ہندوستان پر BJP کے بڑھتے ہوئے تسلط کی پیداوار ہے۔
انتخابات میں دونوں جماعتوں نے نیشنل کانفرنس پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا فائدہ اٹھایا۔ نیشنل کانفرنس کی مقبولیت پچھلے سال ستمبر میں آنے والے سیلاب کے بعد اور بھی کم ہوگئی تھی جس میں حکومتی نا اہلی کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سال جنوری میں کشمیر کو نئی دہلی کے براہ راست کنٹرول میں لے لیا گیا تھا کیونکہ BJP اور PDP کے درمیان مخلوط حکومت کے قیام کا معاہدہ طے نہیں پارہا تھا۔ PDP ایک لمبے عرصے سے کشمیر میں نافذ خونخوار قوانین ختم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے جن کے تحت بھارتی فورسز کو گھروں میں گھسنے، تلاشی لینے اور موقع پر گولی مارنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن BJP کے ساتھ الحاق نے ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر سیاست کی منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ BJP نے واضح طور پر کہا ہے کہ کشمیر میں سرگرم علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے یہ قوانین ضروری ہیں۔ پاکستان نواز مسلح گروہوں اور ریاستی جبر کے ٹکراؤ میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
دسمبر 2014ء کے انتخابات نے BJP کو کشمیر میں پنجے گاڑنے کے وسیع مواقعے فراہم کئے ہیں۔ کشمیر میں BJP کی سیاسی کٹھ پتلیاں اور ’’اتحادی‘‘ تباہ کن حد تک منافق اور عوام دشمن ہیں۔ اگر مخلوط حکومت کا یہ کھلواڑ آگے بڑھتا ہے تو نریندرا مودی اپنی روایتی واردات کرتے ہوئے جنت نظیر کشمیر کی معیشت، ماحولیات اور سماج کو کارپوریٹ گدھوں کا تر نوالہ بنا ڈالے گا۔ وادی کے عوام ہمیشہ BJP کے ان عزائم کے سامنے آہنی دیوار بنے رہے ہیں لیکن PDP نے یہ الحاق بنا کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ حالیہ ریاستی انتخابات کے بعد راشٹریہ سوائم سیونک سَنگھ (RSS) نے اپنے رسالے ’’آرگنائزر‘‘میں 15 جنوری 1948ء کا اداریہ دوبارہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ’’کشمیر: ہندوؤں کی روحانی جنم بھومی‘‘ تھا۔ مضمون کے مطابق ’’کشمیر کی ہندو سلطنت قدیم ترین ہے اور ہندوستان کی ثقافتی یکجائی کا اٹوٹ انگ ہے۔ ‘‘4 جنوری 2015ء کو ’’آرگنائزر‘‘ لکھتا ہے کہ ’’جموں کشمیر کے لئے یہ حقیقی جمہوری انضمام کا آغاز ہے۔ BJP اب کشمیر کی پاور پالیٹکس میں داخل ہوچکی ہے۔ 25 نشستوں کے ساتھ یہ کشمیر کی دوسری بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ 44سے زائد نشستیں حاصل کرنے کا مشن تو ناکام رہا ہے کہ لیکن آنے والے چھ سالوں میں BJP کی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے…تاہم مئی 2014ء کے مقابلے میں پارٹی کی مقبولیت 9فیصد گری ہے کیونکہ ان پارلیمانی انتخابات میں اسے 32 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ اس لحاظ سے ریاستی انتخابات میںBJP کے پاس جموں کی تمام 37اور لداخ کی 4 نشستیں جیتنے کا موقع تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو وادی میں ایک نشست جیتے بغیر ہی BJP اقتدار میں آسکتی تھی۔ ‘‘
پوری انتخابی مہم کے دوران PDP کے رہنما واجپائی اور اس کی پالیسیوں کے قصدے پڑھتے رہے۔ BJP کے ساتھ الحاق کے معاملے میں ’’تحفظات‘‘ کی لفاظی دراصل چالبازی تھی۔ حکومت کی تشکیل میں تعطل (Hung Assembly) نے محبوبہ مفتی کو BJP کے ساتھ ’’مصالحت‘‘ کا جواز فراہم کیا۔ مخلوط حکومت کے اعلان کے بعد عوام میں بے چینی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ PDP کے الیکشن منشور میں واضح طور پر درج تھا کہ ’’Self Rule کا نظریہ پارٹی پالیسی کی بنیاد ہوگا۔ لائن آف کنٹرول کے اس پار تعلقات مستحکم کئے جائیں گے اور بارڈر کو غیر ضروری بنا دیا جائے گا۔‘‘ BJP نے معاہدے تک پہنچے کے لئے جو وعدے کئے ہیں ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کرے گی۔ امیت شاہ PDP کی قیادت سے کہیں زیادہ عیار ہے جو صرف اقتدار کی ہوس میں یہ مخلوط حکومت قائم کررہی ہے۔ BJP کی مبینہ ’’ترقی‘‘ محنت کش عوام کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی جس کے تحت کشمیر کو اپنے کارپوریٹ آقاؤں کی لوٹ مار کے لئے کھولنے کی کوشش کی جائے گی۔ کشمیری عوام کے خلاف اس جرم میں شریک PDP کی سیاسی بنیادیں تیزی سے کھوکھلی ہوں گی۔ لوٹ مار کے اس الحاق کے خلاف عوام کا غم و غصہ بہت جلد پھٹے گا۔
ماضی میں مقبول بٹ جیسے حریت پسند کشمیری رہنما سرمایہ دارانہ بنیادوں پر آزادی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سوشلزم کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ لیکن آج کی قوم پرست جماعتیں یا گروہ اپنے منشور میں سوشلزم کا لفظ لکھنے سے بھی گریزاں ہیں۔ بائیں بازو کے نظریات کو رد کر دینے کے بعد سیکولر قوم پرستی کی سیاست ڈھیر ہوگئی ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی کشمیر کے عوام میں کبھی بھی وسیع بنیادیں حاصل نہیں کرپائی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے دباؤ کے تحت پاکستان کی پشت پناہی ختم ہونے کے بعد ان جہادی گروہوں کی کشمیر میں سرگرمیاں کم و بیش ختم ہو گئی ہیں۔ لیکن اس دہشت گردی کو جواز بنا کر بھارت کی ریاستی ریاست آج بھی جاری ہے۔
انتخابی چالبازیوں، وفاق میں اقتدار اور ترقی کے وعدوں کے ذریعے BJP نے 25 نشستیں تو حاصل کر لی ہیں لیکن کشمیری عوام کی اکثریت اس سے نفرت کرتی ہے۔ بھارتی ریاست عام کشمیریوں کی حمایت کبھی حاصل نہیں کرسکتی۔ دوسری مظلوم قوموں کی طرح کشمیر کا حکمران طبقہ بھی جابر ریاستوں کا مطیع، پیروکار اور ان کی لوٹ مار میں کمیشن ایجنٹ ہے۔ سیکولرازم سے لے کر مذہبی انتہا پسندی تک، حکمران طبقے اور سامراجی ریاستوں کے تمام نظریاتی غلافوں کے آر پار کشمیر کے محنت کش عوام بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے اس پار ’’آزاد کشمیر‘‘ کی آزادی بھی ادھوری ہے۔ آبادی کی وسیع اکثریت غربت، بیروزگاری اور ذلت میں غرق ہے۔ نوجوانوں کے بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں اس ’’آزادی‘‘ سے آزاد ہو کر پاکستان کے بڑے شہروں یا دنیا کے دوسرے ممالک میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ برصغیر کے حکمران طبقات کا ظلم و جبر کشمیری نوجوانوں کا عزم و حوصلہ بہرحال نہیں توڑ پایا ہے۔ کلگام میں سرخ پرچم سربلند رکھنے والے یوسف تاریگامی کی مسلسل چوتھی بار انتخابات میں فتح اور لائن آف کنٹرول کے اس پار انقلابی مارکسزم کے نظریات پر جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) کا نیا ابھار جدوجہد کے نئے راستے منور کر رہا ہے۔ جابر ریاستوں اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف کشمیر میں بھڑکنے والی یہ چنگاری پورے جنوب ایشیا میں بغاوت کی آگ بھڑکا سکتی ہے۔
متعلقہ:
کشمیر: آزادی چاہیے، مگر ووٹ دیں گے!