کارل مارکس کا امریکی صدر ابراہام لنکن کو خط

انٹر نیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن کا ابراہام لنکن، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو خط۔ 28 جنوری، 1865ء کو امریکی سفیر چارلس فرانسس ایڈمز کو پیش کیا گیا۔ کارل مارکس نے 22 اور29 نومبر 1864ء کے دوران لکھا۔ پہلی بار دی بی ہائیو نیوز پیپر (The Bee۔ Hive Newspaper)، شمارہ 169 میں 7نومبر1865ء کو شائع ہوا۔

__________________________

جناب!

ابراہام لنکن

آپ کی انتخابات میں بھاری اکثریت سے دوبارہ کامیابی پر ہم امریکی عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ جہاں آپ کے پہلے انتخاب کا بنیادی نکتہ غلامی کے خلاف مزاحمت تھی، وہاں آپ کی دوسری کامیابی کا فتح مند نعرہِ جنگ غلامی کا خاتمہ بنا۔
امریکہ میں اس عظیم تصادم کے آغاز سے ہی یورپ کے محنت کش جبلی طور پر یہ محسوس کر رہے تھے کہ ان کے طبقے کا مقدر ستاروں والے (امریکی) پرچم سے جڑا ہے۔ علاقوں پر قبضے کی لڑائی جوکہ اس ہیبت ناک جنگ کا نکتہ آغاز بنی، کیا اس کا مقصد یہ فیصلہ کرنا نہیں تھا، کہ بے پناہ وسعت کی حامل یہ کنواری دھرتی تارکین وطن کی محنت کی دلہن بنے گی یا پھر غلام ہانکنے والے دلالوں کے ہاتھوں پیشے پربٹھائی جائے گی؟
جب 300,000غلام مالکان اشرافیہ نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح بغاوت کے پرچم پر ’’غلامی‘‘ کو ثبت کرنے کی جسارت کی، بالکل اسی جگہ پر جہاں بمشکل ایک صدی قبل ایک عظیم جمہوریہ کا نظریہ پہلی مرتبہ ابھرا تھا، جس جگہ سے انسانوں کے حقوق کا پہلا اعلامیہ جاری ہوا تھا، اور جہاں سے اٹھارویں صدی کے یورپی انقلاب کو پہلی تحریک ملی تھی؛ جب بعینہ اسی جگہ پر ردِ انقلاب نے ایک منظم قسم کے کمال کے ساتھ، ’’ان نظریات کو جو کہ پرانے آئین کی تشکیل کے وقت تسلیم کیے گئے تھے‘‘، اتراتے ہوئے منسوخ کیا؛ اور غلامی کو ایک ’’مہربان ادارہ‘‘ ہونے کے ناطے بحال رکھا گیا۔ یہ درحقیقت’’سرمائے کے محنت کے ساتھ تعلق‘‘ کے گمبھیر مسئلے کا وہی قدیم حل ہے، جس کی رو سے انسان کو ملکیت کے طور پر رکھنے کو’’ اس نئے نظام کی غیر انسانی بنیاد بنایا گیا ہے‘‘—- تو کنفیڈریٹ اشرافیہ کے بالائی طبقات کے متعصب اتحاد کی یہ والی بھیانک تنبیہ دیے جانے سے قبل ہی، کہ غلام مالکان کی بغاوت، محنت کے خلاف ملکیت کے مقدس جہاد کا نقارۂ جنگ ہے، یورپ کے محنت کش طبقات فوراً ہی سمجھ گئے تھے کہ بحر اوقیانوس کے اْس پار ہونے والی اس عظیم لڑائی میں، مستقبل سے امیدیں لگائے محنت کشوں کی ماضی کی فتوحات بھی داؤ پر لگ چکی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ہر جگہ کپاس کے بحران سے جنم لینے والی سختیاں صبر کے ساتھ جھیلیں، غلامی کی طرف داری میں، اپنے حکام کی مداخلتوں کی پرجوش انداز میں مخالفت کی —– اور یورپ کے بیشتر حصوں میں انہوں نے اس درست اور جائز مقصد کے لیے اپنے حصے کے خون کا نذرانہ بھی دیا۔
شمال کی حقیقی سیاسی قوت، محنت کشوں نے اپنی جمہوریہ کو غلامی کے چنگل میں پھنسنے دیا۔ انہوں نے سیاہ فام کے مقابلے میں، جس کو اس کی مرضی کے خلاف خریدا اور بیچا جاتا تھا، سفید چمڑی والے محنت کش نے اپنے مالک کو چننے اور خود کو بیچنے کا حق مل جانے کو ہی اپنی سب سے بڑی مراعت سمجھ لیا۔ اس طرح سے وہ محنت کی حقیقی آزادی کے حصول سے محروم اور اپنے یورپی بھائیوں کی نجات کی جدوجہد میں مدد کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن ترقی کی راہ میں یہ رکاوٹ خانہ جنگی کے خونی سمندر میں غرق ہو چکی ہے۔
یورپ کے محنت کش یہ یقین رکھتے ہیں کہ جیسے امریکہ کی جنگِ آزادی نے درمیانے طبقے کی ترقی کے نئے دور کی شروعات کی تھی، اسی طرح امریکہ کی غلامی مخالف جنگ ہی محنت کش طبقات کے لیے یہ فریضہ ادا کرے گی۔ یورپ کے محنت کشوں کے خیال میں، یہ آنے والے عہد کا پیش خیمہ ہے کہ ایک غلام نسل کی آزادی اور مہذب دنیا کی تعمیر نو کی بے مثال جدوجہد میں اپنے ملک کی قیادت کا فریضہ محنت کش طبقے کے ایک پر عزم سپوت ابراہام لنکن پر آن پڑا ہے۔

انٹر نیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن کی
مرکزی کونسل کے ممبران کے دستخط

__________________________

انٹر نیشنل کی مرکزی (جنرل) کونسل کے مِنٹس کے مطابق۔ 19نومبر، 1864ء:

’’پھر ڈاکٹر مارکس نے سب کمیٹی کی رپورٹ پیش کی اور اس کے ساتھ ابراہم لنکن کو بطور صدر دوبارہ منتخب ہونے پر امریکی عوام کو مبارک باد کے خط کا ڈرافٹ بھی۔ یہ خط درج ذیل ہے جسے اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔‘‘
’’خط کو پیش کرنے کے طریقے پر طویل بحث ہوئی جس میں اسے کسی رکنِ پارلیمان کے ذریعے سے بھیجنے کی تجویز بھی سامنے آئی۔ بہت سے ارکان نے اس کی شدید مخالفت کی جن کی رائے میں محنت کشوں کو خود پر تکیہ کرنا چاہیے اور بیرونی امداد کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔ ۔ ۔ پھر یہ تجویز پیش کی گئی۔ ۔ ۔ اور اتفاقِ رائے سے منظور کر لی گئی کہ سیکر یٹری امریکی سفیر سے رابطہ کرے اور وفد سے ملاقات کا وقت مانگے، جو کہ مرکزی کمیٹی کے اراکین پر مشتمل ہو گا۔‘‘

__________________________

سفیر ایڈمز کا جواب
سفارتِ ریاست ہائے متحدہ امریکہ
لندن، 28جنوری،1865ء

جناب!

مجھے آپ کو مطلع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کہ آپ کی تنظیم کی مرکزی کونسل کا خط ، جو اس سفارت کے ذریعے صدرِ امریکہ کو ارسال کیا گیا تھا، ان کو موصول ہو چکا ہے۔
جہاں تک ان کی ذات کے متعلق اظہار کردہ جذبات کا تعلق ہے، وہ انہیں اس مخلص اور پْرتشویش خواہش کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ، ان کے ساتھی شہریوں اور دنیا بھر میں انسانیت اور ترقی کے خیر خواہوں کی جانب سے جو اعتماد ان پر کیا گیا ہے، کہیں وہ خود کو اس کے قابل ثابت کرنے میں ناکام نہ رہیں۔
امریکی حکومت کی سوچ واضح ہے کہ اس کی پالیسی نہ تو رجعتی ہے، اور نہ ہی ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسی راستے پر قائم ہے جو کہ اس نے شروع میں اپنایا تھا، کہ ہر جگہ پروپیگنڈا ازم اور غیر قانونی مداخلت سے اجتناب کیا جائے۔ ہماری حکومت تمام ریاستوں اور تمام انسانوں کے ساتھ مساوی اور درست انصاف کرنے کی جدوجہد کرتی ہے اور اس سلسلے میں ملک کے اندر سے حمایت کی کوششوں اور ساری دنیا سے احترام اور خیر خواہی کے سود مند نتائج پر انحصار کرتی ہے۔
اقوام کا وجود محض اپنے لیے نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد خیر اندیش تعاون اور مثال قائم کر نے کے ذریعے انسانیت کی فلاح اور خوشی کو فروغ دینا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ غلامی کے خلاف موجودہ جنگ میں خود کو اسی نقطہء نظر سے دیکھتی ہیں، اور جہدِ مسلسل کو انسانی فطرت کی بنیاد سمجھتی ہیں۔ یورپ کے محنت کشوں کی ہمارے حق میں گواہی ہمیں ثابت قدم رہنے کے لیے ایک نیا حوصلہ دیتی ہے کہ ہمارے قومی نکتہ نگاہ کو ان کی روشن خیال حمایت اور پر خلوص ہمدردیاں حاصل ہیں۔

جناب عالی، آپ کا تابع فرمان خادم ہونے پر فخر کے ساتھ،
چارلس فرانسس ایڈمز