ایک طرف امریکی سامراج ہچکچاہٹ اور تذبذب کی کیفیت میں شام پر ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ کے لئے پر تول رہا ہے تو دوسری طرف پاکستانی ریاست کراچی میں تشدد، قتل و غارت اور غنڈہ گردی کے خاتمے کے لئے بڑے ’’سرجیکل آپریشن‘‘ کی تیاری کر رہی ہے۔ کراچی کی آبادی دوکروڑ بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور کثافت آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا تیسرا بڑا شہر بن چکا ہے، تاہم کراچی کی آبادی کی اکثریت پچھلی کئی دہائیوں سے بدامنی، بھتہ خوری اور جرائم کی کرب ناک اذیتوں کا شکار ہے۔ آج مورخہ 4ستمبر کو وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس کے بعد وزیر داخلہ نے کراچی میں قاتلوں اور بھتہ خوروں کے خلاف بڑا آپریشن کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں بائیں بازو کے سرخیل سیاسی کارکن اور آج کل دائیں بازو کی حکومت میں وزیر اطلاعات بنے بیٹھے پرویز رشید نے چند روز قبل ایک بیان میں فرمایا تھا کہ ’’تمام ہوم ورک مکمل ہوچکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ آپریشن وزیر اعلیٰ سندھ کی سربراہی میں ہوگا جس میں تمام وفاقی سیکیورٹی ایجنسیاں مکمل تعاون کریں گی۔ ‘‘
سب سے پہلے تو یہ کہ سندھ کے قدیم وزیراعلیٰ پچھلے لمبے عرصے سے اس عہدے پر فائز ہیں اور ان کے دور حکومت میں کراچی کے حالات بد سے بدتر ہی ہوئے ہیں۔ پہلے کیا وزیر اعلیٰ صاحب کے پاس سیکیورٹی ایجنسیوں اور ریاستی اداروں کی طاقت نہیں تھی؟ اب اچانک ایسا کونسا جادوئی نسخہ ہاتھ آگیا ہے کہ کراچی کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچانے والے یکایک اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لئے کمربستہ ہوگئے ہیں؟اسی طرح ایم کیو ایم کی قیادت پچھلے 23 سال سے 1992ء کے آپریشن کا ماتم کرتی رہی ہے، لیکن کھیل میں نئے اور زیادہ ماہر کھلاڑیوں کی شمولیت کے بعد اب خود فوجی آپریشن کا مطالبہ کرنے لگی ہے! المیہ یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں ایم کیو ایم برسر اقتدار رہ کر طاقت، دولت اور مفادات کے مزے لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا ناٹک کرتے ہوئے رونا دھونا بھی کرتی رہی ہے۔ ماضی میں مہاجر کمیونٹی کی اکثریت ایم کیو ایم کو سیاسی و سماجی بنیادیں فراہم کرتی رہی ہے لیکن ایم کیو ایم کے دور حکومت میں مہاجر عوام کی غربت، بیروزگاری اور محرومی میں اضافہ ہوا ہے اور کراچی کے ہر شہری کی طرح وہ بھی جرائم اور دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ ایم کیو ایم سے وابستہ امیدیں ٹوٹنے کے بعد مہاجر محنت کشوں اور نوجوانوں میں بدظنی اور اکتاہٹ کے جذبات نے جنم لیا ہے۔ اس کے علاوہ روزگار کے مواقع کی تلاش میں پشتونوں اور دوسری قومیتوں کی بڑے پیمانے پر کراچی ہجرت کی وجہ سے بھی آبادی کا تناسب تبدیل ہوا ہے جس سے ایم کیو ایم کی سماجی بنیادیں کمزورہوئی ہیں۔ یوں مقامی ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ سامراجیوں کے لئے بھی ایم کیو ایم کی افادیت اور ضروت کم ہونے لگی ہے اور انہوں نے ایم کیو ایم کی پشت پناہی کو محدود کردیاہے۔ گو ایم کیو ایم کی انتخابی مشینری اور جارحانہ طریقہ واردات ابھی تک قائم ہے لیکن کمزور پڑتی ہوئی سماجی اور اخلاقی بنیادوں کے پیش نظر ’’کارکنان‘‘ کے حوصلے پست ہوچکے ہیں۔
کراچی محنت کشوں کا شہر ہے۔ 1950ء اور اس کے بعد کی دو دہائیوں میں ہونے والی تیز ترین معاشی و صنعتی ترقی کا محور کراچی تھا۔ گو یہ ترقی بڑے پیمانے پر عوام کی حالت زار میں بہتری نہیں لاسکی لیکن اس کے باوجود کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ اس عہد میں کسی حد تک فن، ادب اور تہذیب و تمدن میں نکھار آرہا تھا، تاہم معاشی و سماجی ترقی کے انتہائی غیر ہموار کردار نے سماجی تضادات کو تیز کر دیا جس سے 1968-69ء کے انقلاب نے جنم لیا۔ کراچی کے محنت کش طبقاتی جڑت کے بنیاد پر متحد ہو کر اس انقلابی تحریک کا ہراول دستہ بن گئے اور رنگ، نسل، قومیت، مذہب، فرقے، ذات پات کے تمام تر فرسودہ تعصبات کو جھٹک کر ثابت کیا کہ محنت کش ایک نیا اور بہتر سماج تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم یہ شاندار تحریک ایک سوشلسٹ فتح سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ اس پسپائی سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں ماضی کے تعصبات، بیگانگی اور مایوسی کی نفسیات نے عوامی شعور کو منتشر کردیا۔ کراچی کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں نے حکمران طبقات اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کو جس طرح چیلنج کیا تھا اس سے پاکستانی اشرافیہ کو شدید دھچکا لگا تھا، حکمران لرز کے رہ گئے تھے۔ چنانچہ ’’تقسیم کر کے حکومت کرنے‘‘ کی پالیسی کو ازسر نو مرتب کیا گیا۔ ضیاالحق کی وحشیانہ آمریت کے سائے تلے ریاستی اداروں اور سیاست، صحافت اور ثقافت پر حاوی حکمرانوں کے ایجنٹوں کے ذریعے سماج میں تعصبات پر مبنی رجعتی تقسیم کو ابھارا گیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس وقت کراچی میں درجنوں قومیتوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ کوئی حاوی سیاسی طاقت اس لسانی اور مذہبی تقسیم کو ختم کرکے طبقاتی بنیادوں پر عوام کو یکجا کرنا ہی نہیں چاہتی۔
مالیاتی سرمائے کے زور پر ہونے والی سیاست اسی سرمائے کی گماشتہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات معاشی، تکنیکی اور ثقافتی طور پر اتنے پسماندہ اور بحران زدہ ہیں کہ پیداواری صنعت اور’’قانونی طریقوں‘‘ کے ذریعے ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت اور معاشرے کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ یہ اپنے منافعوں میں اضافے کے لئے ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری سے بھی گریز نہیں کرتے اور محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ مختلف غنڈہ گرد عناصر، مافیاگروہ اور ریاستی اہلکار اپنا حصہ وصول کر کے اس استحصال اور ڈاکہ زنی کا تحفظ کرتے ہیں۔ سرمایہ داروں کے درمیان لین دین کے تنازعات بھی غنڈی گردی اور تشدد کے ذریعے ’’حل‘‘ کروائے جاتے ہیں۔ ایک بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے مزید گل سڑ جانے سے یہ عمل اور بھی تیز ہوگیا ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی بحران، ریاستی اداروں کی داخلی ٹوٹ پھوٹ، نوجوانوں میں بیروزگاری کی خوفناک شرح، بدترین غربت اور بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے کراچی میں قتل عام، بھتہ خوری، جرائم اور دہشت گردی کو معمول بنادیا ہے۔ کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر جھوٹا، فریبی، قاتل، بدعنوان اور دہشت گرد نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ، مادی حالات، معروض اورسماجی نظام اس کے شعور اور سماجی کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت جاگیرداری کے خلاف تو بہت چیختی چلاتی ہے لیکن سرمایہ داری کے بارے میں خاموش ہے۔ کیا کراچی کا مسئلہ جاگیرداری ہے؟مختلف غنڈہ گرد سرمایہ داروں پر مشتمل دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادتیں بھی فساد کی اصل جڑ یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریزاں ہیں۔ سب علامات کا رونا روتے ہیں بیماری کی بات کوئی نہیں کرتا۔ جہاں پولیس، رینجرز اور دوسرے ریاستی ادارے جرائم اور قتل و غارت گری پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں وہاں فوجی آپریشن کی کامیابی کی کیا گارنٹی موجود ہے؟کالے دھن کا یہ کینسر ان ریاستی اداروں کے اندر بھی سرائیت کر چکا ہے جو بظاہر اس کا قلعہ قمع کرنے کے لئے تشکیل دئیے گئے ہیں۔ اس ریاست کا ہر ادارہ، ہر ستون اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ ریاستی جبر اورسزاؤں سے جرائم کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یہ سماجی خلفشار، کرپشن اور جرائم اس نظام کے بحران کی وجہ نہیں بلکہ اس کی پیداوار ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس ناسور کو فوجی آپریشن نہیں بلکہ صرف انقلابی جراحی کاٹ کے پھینک سکتی ہے۔