[تحریر: لال خان]
سینکڑوں خاندانوں کو مالی طور پر برباد کر دینے والی کراچی ٹمبر مارکیٹ کی آگ کے شعلے ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے کہ لاہور انار کلی میں لگنے والی آگ نے 15 افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کر دئیے۔ سانحہ پشاور کی اذیت ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ ان اندوہناک واقعات نے روح کو گھائل کر دیا۔ یہاں ہر روز کوئی صدمہ، کوئی نیا سانحہ مفلوک الحال محنت کش عوام کی نفسیات پر نئے زخم داغ جاتا ہے۔
30 دسمبر کو روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی راجہ محبوب صابر اور محمد حسین رضا کی رپورٹ کی مطابق ’’صوبائی دارالحکومت سمیت پورے پنجاب میں 88 فیصد پلازوں اور سرکاری عمارات میں آگ لگنے یا کسی دوسری ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ لاہور میں آگ سے نمٹنے کے انتظامات نہ کرنے والے پلازوں کے خلاف کاروائی غیر موثر ہو کے رہ گئی ہے۔ ایل ڈی اے کی تمام تر توجہ کمرشلائزیشن فیس اور واجبات کی وصولی تک ہی محدود ہے۔ جن پلازوں کو سیفٹی انسپیکشن کے بعد سربمہر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا…صرف اندرون لاہور میں ایسی سینکڑوں عمارتیں ہیں… شاہ عالم مارکیٹ، رنگ محل، اعظم کلاتھ مارکیٹ، نوگراں، بازار تیزابیاں، پونا منڈی، موچی دروازہ، سوہا بازار، اندرون شاہ عالمی، پاپڑ منڈی اور کشمیری بازار سمیت بیشتر بازار ایسے ہیں جہاں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچ ہی نہیں سکتیں۔ سرکاری اداروں کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث آگ لگنے کی صورت میں بڑے جانی اور مالی نقصان کے خدشات ہر وقت موجود ہیں۔‘‘ اگر لاہور کی صورتحال یہ ہے تو باقی شہروں کی حالت زار کیا ہوگی؟ اور پھر پسماندہ صوبوں کے سینکڑوں شہروں اور قصبوں کو مدنظر رکھا جائے تو سنگین صورتحال کا ادراک بخوبی ہوجاتا ہے۔
11 ستمبر 2012ء کو بلدیہ ٹاؤن کراچی میں جس گارمنٹ فیکٹری کو آگ لگی تھی اس کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے تھے اور کھڑکیوں کو آہنی سلاخوں سے بند کیا گیا تھا۔ ہنگامی راستہ یا سیفٹی انتظامات تو دور کی بات یہ فیکٹری کسی جیل خانے کا منظر پیش کرتی تھی جہاں شرمناک حد تک قلیل اجرتوں پر محنت کشوں (بچوں اور خواتین سمیت) سے 12 سے 16 گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ مزدوروں کی کوئی رجسٹریشن یا ریکارڈ موجود نہ تھا جس کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی درست تعداد کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔ محتاط اندازوں کے مطابق کم از کم تین سو محنت کش لقمہ اجل بنے۔ اسی روز گلشن راوی لاہور میں جوتے کی فیکٹری میں آگ لگنے سے 100 سے زائد محنت کش زندہ جل گئے۔ 9 مئی 2013ء کو ایجرٹین روڈ لاہور پر واقع ایل ڈی اے پلازہ میں درجنوں ملازمین کو نگل جانے والی آگ کے شعلے کئی دنوں تک بھڑکتے رہے۔ فائر بریگیڈ کے پاس اتنی بلندی تک پانی پھینکنے کا سازو سامان ہی نہ تھا، کئی افراد نے ساتویں منزل سے کود جانے کو زندہ جلنے پر فوقیت دی۔ دردناک واقعات کا ایک تسلسل ہے لیکن آج تک کتنے سرمایہ دار مالکان کو سزا ہوئی ہے؟ کس سرکاری ادارے کی جواب طلبی ہوئی؟ فیکٹریوں میں سیفٹی انتظامات کو یقینی بنانے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے؟ یہ سوال حکمران طبقے کی ریاست کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں ہیں۔ جھلس کر کوئلہ ہوجانے والے محنت کشوں کے خاندان آج بھی یہ سوالات اپنی اداس آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔
سلنڈر پھٹتے ہیں، ٹریفک حادثات ہوتے ہیں اور ان کھٹارہ گاڑیوں میں اذیت ناک سفر کرنے پر مجبور غریب اور محنت کش ہی مرتے ہیں۔ پھر جو زخمی ہوجاتے ہیں ان کے لئے علاج کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ سرکاری ہسپتال موت کی فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں۔ نرسوں اور ڈاکٹروں کی شدید قلت ہے، ادویات ناپید ہیں۔ مریض اتنے ہیں کہ بستر تو کیا فرش پر بھی جگہ مل جائے تو غنیمت۔ نظام صحت پر ریاستی اخراجات کی فہرست میں یہ ملک خداداد دنیا میں سب سے نیچے ہے۔ ایک موٹر وے ہے جس کے قصیدے سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ موٹر وے سے نیچے اتریں تو یوں لگتا ہے کہ کسی اور ملک میں آگئے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، عمارتیں بوسیدہ، عوام بدحال اور ٹریفک پرانتشار۔ حادثات میں مرنے والوں کی تعداد مہلک بیماریوں کی اموات سے بھی زیادہ ہے۔ آگ بجلی کے شارٹ سرکٹ سے لگے یا گیس سلنڈر کے پھٹنے سے، مرتے غریب ہی ہیں جو ویسے ہی بجلی اور گیس سے محروم ہیں۔
ہر حادثے کے بعد حکمرانوں کا رد عمل زخموں پر نم چھڑکتا ہے۔ حکومت رسمی کاروائی کے طور پر لواحقین کو جو ’’امداد‘‘ دیتی ہے اس کئی گنا زیادہ رقم کا اعلان بدعنوانی اور فراڈ کی علامت سمجھے جانے والے نودولتی سرمایہ دار کر دیتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا ہے کہ ’’خیرات‘‘ کرنے والے سیٹھ صاحبان نے دولت کے انبار کیسے لگائے ہیں اور مجبور لواحقین بھیک لینے پر کیونکر مجبور ہیں؟ غریب کا مقدر کیوں نہیں بدلتا اور زرداروں کے مقدر میں نہ ختم ہونے والی امارت اور عیاشی آخر کس نے لکھی ہے؟ حکمرانوں کے یہ خیراتی ناٹک بھی بے مقصد نہیں ہیں!
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ایسے حادثات اور سانحات پر کارپوریٹ میڈیا اور حکمرانوں کی جانب سے ’’غم‘‘ اور ’’دکھ‘‘ کی شورش اس لئے بپا کی جاتی ہے کہ حقیقی وجوہات اور اصل مجرموں کی پردہ داری کی جاسکے۔ یہ سوال نہ اٹھے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور سب سے بڑھ کر اس نظام پر بحث نہ کھلے جس میں امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب کیڑے مکوڑوں کی طرح ہر روز مر رہے ہیں۔
اس ملک میں الجھے ہوئے تاروں اور ہزارہا بوسیدہ کھمبوں پر مشتمل بجلی کی ترسیل کے ناقابل اعتبار نظام کو اب تک ترقی یافتہ ممالک کی طرح زیر زمین کیوں منتقل نہیں کیا گیا؟ گیس کی سپلائی ناقص کیوں ہے؟فیکٹریوں، ملوں، بازاروں، دفاتر اور غریب طبقے کی آبادیوں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کا کوئی انتظام کیوں موجود نہیں ہے؟ سول ڈیفنس کا ادارہ سرے سے ناپید کیوں ہے؟ ہسپتال کیوں ادویات اور سہولیات سے خالی ہیں؟انفراسٹرکچر کیوں منصوبہ بندی سے عاری ہے؟ ان تمام تر سوالات کا مشترک جواب بالکل سادہ ہے:چھ دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اس ملک کا حکمران طبقہ ایک جدید صنعتی سماج اور قومی ریاست کی تشکیل میں مکمل طور پر ناکام رہاہے۔
سامراج کا کمیشن ایجنٹ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ اپنی تاریخی متروکیت، تکنیکی پسماندگی اور مالیاتی کمزوری کی وجہ سے روز اول سے ریاستی خزانے کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری کے بغیر تیسری دنیا کے یہ سرمایہ دار اپنا اقتصادی وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ محنت کشوں کے تحفظ کے انتظامات اوردوسری سہولیات فراہم کرنے کی صورت میں ان سرمایہ داروں کی شرح منافع گر جائے گی۔ ریاست کے کردار کا تعین حکمران طبقہ کرتا ہے۔ جہاں حکمران طبقہ ازلی طور پر کرپٹ، حریص اور نا اہل ہو وہاں صحتمند ریاست بھلا کیسے تعمیر ہوسکتی ہے؟چنانچہ بالائی بیوروکریسی سے لے کر نچلی سطح کے ٹیکس افسران، لیبر انسپکٹر اور میٹر ریڈرز تک…سب کے سب بدعنوانی کی اس معیشت میں حسب توفیق حصہ دار ہیں۔ پھر اسی حکمران طبقے کے دانشور، مبلغ اور مذہبی پیشوا ہمیں اس نظام میں کرپشن کے خاتمے کا درس دیتے ہیں جو چل ہی کرپشن اور کالے دھن پر رہا ہے!وعظ و نصیحت کرنے والے یہ خواتین و حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کرپشن کی وجہ سے یہ نظام خراب نہیں ہے بلکہ کرپشن اس نظام کی پیداوار، ضرورت اور قوت محرکہ ہے۔
یہاں تو کوئی اس نظام کا نام لینے کو بھی تیار نہیں ہے۔ کوئی ’’جمہوریت‘‘ کو نظام کہتا پھرتا ہے تو کسی نے آمریت کو ’’نظام‘‘ بنا رکھا ہے۔ اور تو اور یہاں مذہبی قدامت پرستی یا ’’لبرل ازم‘‘کو بھی ’’نظام‘‘ بنا دیا گیاہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور محنت کش طبقے کے استحصال پر مبنی اس نظام کا نام ’’سرمایہ داری‘‘ ہے جس میں ہر چیز منافع کے لئے پیدا کی جاتی ہے۔ ہر رشتے، ہر معاشی سرگرمی کو شرح منافع کے معیار سے پرکھا جاتا ہے۔ آج یہ نظام گل سڑ کر انسانی سماج کے لئے ایک ناسور بن گیا ہے جسے انقلابی جراحی کے ذریعے کاٹ پھینک کر ہی نسل انسان کی بقا کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے!
متعلقہ:
سانحہ بلدیہ ٹاؤن: وہ جھلسے بدن آج بھی سلگ رہے ہیں!
کراچی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں زندہ جل کر ہلاک ہونے والے مزدوروں کی قیمت؛ 1930یورو؟