[رپورٹ: عبدالحنان]
بنگلہ زبان کے معروف انقلابی شاعر، ادیب، گلو کار اور نغمہ نگار قاضی نذ رالسلام کی سالگرہ(نز ر ل جیو نتی) 2 جون کو کراچی میں کشمیر روڈ کے مقامی ہال میں منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت پا کستان نذرل اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری جناب محفوظ النبی خان نے کی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض محمد جمال نے انجام دیے۔ اسٹیج پرجو بینر آ ویزاں تھے اس پر نذر السلام کا ایک شعر اردو میں تر جمہ کے ساتھ درج تھا:
ز ندگی میں جن کے ہر روز، روزہء بھوک سے آ ئی نہیں کبھی نیند
ادھ مرے اس کسان کے گھر کیا خوشی لائی عید
نذرل جیونتی کے سیمینار سے ایک 8 سا لہ بچی عا ئشہ نے نذرالسلام کا لکھا ہوا ایک چھوڑا (بچوں کے بارے میں نظم) سنا یا جس کے اشعار کچھ یوں تھے: بھور ہو لو دور کھو لو کھو کو مو نی اٹھو رے، اوئی ڈا کے جو ئیں شا کھے پھول کھو کی چھو ٹو رے (صبح ہو گئی نو نہا لو! دروازے کھو لو، ادھر دیکھو جو ہی کے شاخ پر بلبل بیٹھا تمھیں بلا رہا ہے)
نذ رل اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی مر کزی کمیٹی کے سا بق رکن، لائینس ایر یا کراچی کے سا بق نا ظم جناب محفوظ النبی خان نے خطاب کر تے ہو ئے نذ رالسلام کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیااور کہا کہ قاضی نذرالسلام بر صغیر کے نا مور انقلابی شاعر تھے۔ وہ ساری زندگی بر طانوی استعماریت کے خلاف لڑتے رہے۔ نذرالسلام فوج میں ملازمت کے دوران حوالدار کے طور پر 1917ء سے 1919ء تک لا ئینس ایریا صدر کراچی کی فو جی بیریکس میں مقیم رہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں خود بھی لائینس ایریا کا رہائشی ہوں۔ محفوظ النبی خان نے مزید کہا کہ نذرالاسلام نے بنگالی عوام کی سا مراج کے خلا ف جدوجہد تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ اس استعمار دشمن تحریک کو برصغیر اور دنیا بھر میں مشتہر کیا۔
نذرل اکیڈمی کے جوائنٹ سیکریٹری کامریڈ زبیر رحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں نذرالسلام سے کہیں زیا دہ بڑے شعرا اور ادیب موجود ہیں، جو کہ سینکڑوں کی تعداد میں ہونگے لیکن شا ید ایسے بہت کم شعرا ہوں گے جن میں اتنی بیک موجود ہوں۔ قا ضی صاحب ایک اچھے رقاص، طبلہ نواز، ہار مو نیم نواز، اسٹیج نائیوک(ہیرو)، غزل گا ئیک، کر تن گا ئیک، صحا فی، تر جمہ نگار، کا لم نگار، مقرر، جا ترا دل(دیہی نا ٹک)، انقلابی، سا مراج دشمن اور کمیونسٹ تھے۔ قاضی صا حب جب کرا چی میں دو سال مقیم تھے تو اسی دوران انہوں نے فا رسی سیکھی اور حا فظ کی ر باعی کو بنگلہ زبان میں ترجمہ کر کے قسطوں میں کلکتہ کے ایک بنگلہ ما ہنا مہ رسا لے’بنگو شا ہیتو پر یشد ‘ میں مسلسل شا ئع کرواتے رہے۔ بنگو شا ہیتو پریشد نے شا ید یہ اشاعت ایک ترقی پسند رسالہ ہونے کے ناطے کی۔ کا مریڈ نذرل مزدوروں، کسانوں، طلبہ، خواتین اور محکوم عوام کے شا عر تھے۔ نذرالسلام اپنی نظم میں کہتے ہیں کہ ’’اس دنیا میں جو کچھ بھلا ئی کی چیزیں ہیں ان میں آ دھی عورتوں کے لئے اور آد ھی مر دوں کے لئے ہیں۔‘‘ وہ علماء سو کے با رے میں لکھتے ہیں کہ کو ئیل کے گھونسلے میں کوے نے انڈا دے رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سچا ئی اور جدوجہد کے لئے سب کو بلاؤ، اگر تمھا رے بلا نے سے کو ئی نہیں آ تا تو ا کیلے چل دو۔ انکی زندگی کی سب سے مشہور نظم ’با غی‘ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’کہو بہادر کہو! تمہاراسر ہما لیہ سے بلند ہے۔ ۔ ۔ میں خلاؤں، فضاؤں، کہکشا ؤں کو چھوڑتے ہو ئے خداکے عرش تک پہنچ جا تاہوں، میں خودبھگوان ہوں، میرے ما تھے پر بھگوان خود چمک رہا ہے، میں جب دو زخ میں پہنچتا ہوں تو دو زخ تھر تھرا کے بجھ جا تی ہے، میں خدا کا سچ مچ با غی ہوں، میں کسی کو نہیں ما نتا، میں اس روز خا موش ہونگا جب خلا ؤں اور فضاؤں میں مظلو موں، محکوموں کی آ و بکا کی آواز ہما رے کا نوں میں نہیں گونجے گی۔ قا ضی صاحب بچپن میں تو اپنے وا لد کے ساتھ مسجد میں اذان دیتے اور جھا ڑو لگا تے، اس سے دو وقت کی رو ٹی مل جا تی تھی اور کچھ خرچہ پا نی بھی نکل جا تا تھا، لیکن انہیں یہ کا م نہ بھا یا، پھر انہوں نے ایک ہو ٹل میں ویٹر کی ملا زمت کر لی، کچھ عرصے کے بعد یہ کام بھی چھوڑکر فٹ پاتھ پر نمک بیچنا شروکر دیا، اس میں دو پیسے زیا دہ مل جایاکر تے تھے، اس کے علا وہ لو گوں کی فر ما ئش پر کبھی کبھار غزل یا گا نا سنا کر کچھ اور پیسے کما لیتے تھے اور اب وہ گھر وا لوں کو بھی کچھ نقد رقم دینے لگے۔ نذرل کے ادبی استاد ر بیندر نا تھ ٹیگور تھے، فن کے استاد کر تن گا ئیکی دلیپ کمار تھے اور سیا سی استاد پرو فیسر مظفر احمد (کلکتہ والے) جنکا تعلق کمیو نسٹ پا رٹی سے تھا۔ زندگی کے آخری د ور میں انھیں فا لج کا دو رہ پڑا، اسکے بعد وہ بولنے سے قا صر ہو گئے۔ مگر ایک بار انکی سا لگر ہ کے مو قع پر انکے منہ سے دو الفاظ نکلے تھے، پھو اور گا۔ اس سے ادبی تجزیہ نگاروں نے یہ مطلب نکالا تھا کہ شا ید ان کی مراد ’’پھول اور گانا‘‘ تھی۔ ان دونوں چیزوں سے انہیں بہت پیار تھا۔ وہ بہت جرات مندی سے سا مراج اور سر ما یہ داروں کو نہ صرف نشا نہ بنا تے تھے بلکہ ان پر اکثر برستے بھی تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی ایک نظم میں کہا کہ محبو بہ ہمیں ’ہا ڑی چا نچا‘ (یعنی شور کر نے والا ایک پرندہ) کہتی ہے اور میرے استاد (ٹیگور) کہتے ہیں کہ تم نے تلوار سے شیو بنانا شروع کر دی ہے۔ قاضی صاحب جب چھوٹے تھے، یعنی 15 برس کے تھے، تو ٹیگور ایک روز انکے گھر صبح سویرے پہنچ گئے اور نذ رل کو بلا کر کہا کہ سنا ہے تو شا عر ہو گیا ہے؟ اسی وقت کے لحاظ سے کو ئی شعر سنا۔ جواب میں نذ رالسلام نے اپنی آ نکھیں ملتے ہو ئے یہ سنا یا، ’نو نہا لو صبح ہو گئی، جو ہی کے شاخ پر بلبل تمھیں بلا رہا ہے‘۔ یہ شعر سن کر انکے استاد نے بر ملاکہا کہ وا قعی تو شا عر بنے گااور بعد ازاں ایسا ہی ہو۔ نذ رل نان میٹرک تھے اور بنگلہ زبان میں پی ایچ ڈی کر نے وا لے انہیں نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ آ ج تک ٹھیک سے انکی بات سمجھ نہیں پا ئے ہیں۔
کامریڈ زبیر نے مزید کہا کہ قا ضی صاحب اس جنگل کے پھو ل ہیں جس کی خوشبو ہر را ہی، چلتے ہوئے حا صل کر سکتا ہے۔ وہ محکوم اور استحصال زدہ طبقے شاعر تھے۔ وہ عا لمی انقلاب کے دا عی تھے۔ اپنی نظم میں کہتے ہیں کہ ’’تھاکبو نا آر بندو گھو رے، دیکھبو ایبار جو گوت ٹا کے‘‘ ( بند کمرے میں نہیں رہوں گا، سا ری دنیا کو دیکھوں گا)۔ وہ ایک ایسے سما ج کی تشکیل کے متمننی تھے جہاں کوئی کسی کا استحصال نہ کر پائے، سب مل کر کما ئیں اور کھائیں۔ جہاں خوشحا لی کے گل کھلیں اور انسان دو ستی کے نغمے گا ئے جائیں۔
قاضی نذرالسلام کا کلام پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔