| تحریر: قمرالزماں خاں |
کراچی میں تشدد، قتل وغارت گری اور ہر قسم کے جرائم چند ماہ سستانے کے بعد پھر سے سراٹھائے کھڑے ہیں۔ ریاست اپنے آخری حربے یعنی عسکری طاقت کا استعمال کرچکی ہے۔ سندھ پولیس پر عدم اعتماد کے بعدکراچی آپریشن کرنے والے ادارے رینجرز نے اضافی اختیارات بھی حاصل کئے، جن میں غیر معمولی قسم کا اختیار یعنی نوے دن کا ریمانڈ بھی شامل تھا۔ اس دوران بلامبالغہ بہت بڑی پکڑ دھکڑ ہوئی۔ ہزاروں جیل گئے، سینکڑوں مقابلوں میں مارے گئے، کچھ کو پھانسی بھی شائد دی گئی، نوے روزہ ریمانڈکی زد میں آنے والے بھی کم نہیں ہیں، بہت سوں نے لرزہ خیز جرائم کے اعترافات
کئے۔ سارے شہر میں سی سی ٹی وی کیمرو ں کی تنصیب کے بڑے بڑے ٹھیکے الاٹ کئے گئے۔ ہر بینک کے اندر باہر بنکرز بنواکر سکیورٹی گارڈز بٹھا دئیے گئے۔ نجی سیکورٹی کمپنیوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ مگر ساری تدبیریں ایک طرف، جرائم کی نئی لہر نے پھر سے سراٹھا کر ’’آپریشن‘‘ کے حل کو، حل تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
اب سارے وزرا بالخصوص وزیر داخلہ، صوبائی کابینہ اور پھر عسکری قیادت کراچی شہر کے دورے کررہے ہیں۔ آپریشن کی ’حقانیت ‘پر اٹھائے گئے سوالات کو رد کرنے کی ہر کوشش کی جارہی ہے۔ دشمن کی کمر توڑنے کی بات کو ایک ہزار مرتبہ دُہرایا جاچکا ہے، مگر یہ ’’بزدل دشمن‘‘ پھر سے کاری ضربیں لگانے لگا ہے۔ چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کا اغوا اور امجد صابری کے لرزہ خیز قتل نے ان تمام دعووں کو مشکوک کردیا ہے جوپچھلے چند ماہ سے کئے جارہے تھے۔ اسی اثنا میں ’دانا وبینا‘ وزیر اعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ (جن کا عام طور پر طویل عمر اور اختیارات سے محرومی کی وجہ سے مذاق اڑایا جاتا ہے) نے بہت پتے کی بات کی ہے۔ موصوف نے فرمایا ہے کہ ’’سارا جھگڑا زر اور زمین کی وجہ سے ہے‘‘۔ انہوں نے ایسا کہتے ہوئے اصل ضرب المثل کے ایک عنصر کو جان بوجھ کر بیان نہیں کیا تاکہ ایک نئی بحث کو سیاق وسباق سے ہٹ کراور مثال کی فلسفیانہ بنیادوں کو نظر انداز کرکے انکے گلے فٹ نہ کردیا جائے۔ قائم علی شاہ اپنی پارٹی کے نظریاتی انحراف اور اس کی قیادت کی ’زر اور زمین‘ کے دھندے میں پوری مداخلت کی وجہ سے صاف صاف بات نہیں کرسکتے تھے چنانچہ انہوں نے اختصار اور احتیاط سے کام لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں امن وامان کا سب سے بڑا مسئلہ ’لینڈ مافیا‘ ہے، زمین پر قبضے کی جنگ کی وجہ سے ہی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے اور اسی باعث ہی دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسی وجہ سے لینڈریونیوکے ریکارڈ کو آگ لگ گئی۔ پھرجب قبضہ مافیا کیخلاف کاروائی کا آغاز کیا تو پتا چلا کہ زمینوں پر قبضے میں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں‘‘۔ یوں اس نظام میں رہتے ہوئے اور اس ریاستی مشینری کے تحت ’’آپریشن‘‘ کی حدود و قیود بھی حکمران طبقے کے ایک نمائندے نے خود ہی بیان کردیں۔
یہاں فساد کی پہلی قسم یعنی زر کی دو قسمیں ہیں، سفید یعنی سرکار کے علم والی دولت مملکت خداداد پاکستان میں بہت خفیف ہے جبکہ سرکاری کاغذوں سے باہرکالی دولت کا تعین معیشت کے 73 فیصد تک یا اس سے بھی زیادہ کیا جاتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کے پاس 75 ارب ڈالر ہیں۔ گرفتاری کے بعد ڈاکٹر عاصم سے کی گئی تحقیقات کے مطابق ان کے اثاثے 88 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں (مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) کی رپورٹ)، یہ خبر ملک کی بڑی اخباروں میں شائع ہوئی ہے۔ یقیناًان تحقیقات میں سیاسی مقاصد اور ریاست کے آپسی تضادات کی وجہ سے مبالغہ آرائی کا عنصر بھی شامل ہے لیکن حقیقی اثاثے کئی سو گنا کم بھی ہوں تو دیوہیکل ہیں۔ یہاں سے عمومی صورتحال کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ کالے دھن کے ان داتاؤں کی دولت درحقیقت محتاط اندازوں سے بھی بہت زیادہ ہے۔ اقتدارمیں موجود اور اس سے باہر سیاسی اشرافیہ، سرمایہ داروں، افسر شاہی وغیرہ کے پاس کس قدر دولت ہے، اسکا کوئی حساب نہیں ہے اور ’’مقدس گائے‘‘ قسم کے اداروں کی کالی، سفید دولت کا حساب رکھنا تو درکنار، اشارہ کرنا بھی ناپسندیدہ ہے۔ کراچی کے صحافتی اور سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ کراچی میں رینجرز کا آپریشن بھی ایک بڑے سرکاری قطعہ زمین کی ایک طاقتورادارے کو منتقلی سے انکار پر شروع کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے اس آپریشن کی ’’غیرجانبداری‘‘ پر سوال اٹھائے جاتے رہے اور نوے روزہ ریمانڈ سمیت دیگر غیر معمولی اختیارات کی اسمبلی میں توسیع کے معاملے پر الجھاؤ اور تکرار ہوتی چلی آرہی ہے۔
حکمران طبقے کے پاس دولت کا ارتکاز ذرائع پیداوار پر ذاتی ملکیت کے نظام کی خاصیت ہے۔ اس کے رہتے ہوئے ان مضمرات پر قابو پانا ناممکن ہے۔ اگر اس نظام زر یعنی ’سرمایہ داری‘ کا وجودہے تو پھر اس کے ہوتے کسی قسم کا امن وامان یا استحکام کا حصول کسی ’دیوانے کا خواب ‘ ہوسکتا ہے۔ اس کو عملی تعبیر ملنا ناممکن ہے۔ ’ذاتی ملکیت ‘ کا مسئلہ ہی اس زمین پر موجود تمام مسئلوں کی ماں ہے۔ دنیا کا پہلا جھگڑا بھی گمان ہے کہ ’تیرے میرے‘ کے تکرار سے شروع ہوا ہوگا۔ سرحدوں کے تعین پر قتل وغارت گری کے مظاہر اور جنگوں کا ہونا معمول کی بات ہے۔ اگر جنگ نہ بھی ہورہی ہوتو منڈیوں اور وسائل پر قبضوں کے لئے سرمائے کی تمام قوتیں ’حالت جنگ‘ میں ہی پائی جاتی ہیں۔
زمین اور قدرتی وسائل پر ملکیت کے دعوے دار سب کے سب قابض اورغاصب ہیں جو’ قدرت‘ کی طرف سے مہیا کردہ کسی بھی ’ملکیتی سرٹیفیکیٹ‘ کے حامل نہیں ہیں۔ قدرتی وسائل اور محنت کے امتزاج سے جنم لینے والی دولت کی ملکیت کے تنازعات نے ہی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس مسئلے کی حقیقت کو مخفی رکھنے کے لئے دنیا بھر کے حکمران طبقات نے مہنگے ترین دانش وروں، پروہتوں اور رنگ برنگے ماہرین کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں۔ یہ سیدھا مسئلہ ہے کہ’تمام دولت‘ محنت کشوں کی محنت کا نتیجہ ہے اوراس پر محنت کرنے والے طبقے کا حق ہے۔ مگر تمام پیداوار پر غاصب سرمائے کے قبضے کو ہی حقیقت اور سچ مان لیا جائے، سرمایہ داری اور اسکی حلیف قوتوں کا سارا زور اسی نقطے پر ہے۔ اس جھوٹ کو سچ بنانے کے لئے دولت پانی کی طرح بہائی جاتی ہے، کتابیں چھاپی جاتی ہیں اور لوگوں کو نصابوں کے ذریعے پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس پراپیگنڈا کو تقدس کے غلاف میں لپیٹنے کے لئے مذہبی عمائدین کی ’خدمات ‘ حاصل کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی سرمائے کی حاکمیت ماننے سے انکار کردے تو پھر اسکے خلاف جارحیت کی جاتی ہے۔ محنت کرنے والی اکثریت کو ذہنی، شعوری اور مادی طور پر مطیع رکھنا اور استحصال کو جواز فراہم کرنا ہی سرمایہ داری کے ادب، فلسفے، مذہب، ثقافت، سیاست اور معاشرت کا فریضہ ہوتا ہے۔ جب وہ اس میں ناکام ہوجائیں تو پھر جبر اور تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔
محنت کش طبقات کی جدوجہد جب اجتماعی شکل اختیار کرتی ہے تو زر، زمین اور ذرائع پیداوار پر ملکیت رکھنے والی قوتیں باہمی انتشار اوراختلاف کی ہمہ جہت قسموں کے باوجود، ذاتی ملکیت کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف اپنے تمام وسائل سے نبردآزما ہوجاتی ہیں۔ اس قسم کے طبقاتی ٹکراؤ سے بچنے اور بوقت ضرورت محنت کشوں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے ہی ریاست کا وجود عمل میں لایا گیا تھا۔
ایک صحت مند سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام ستون ملکیت رکھنے والوں کے طبقاتی اتحادکی مضبوط ڈوری میں بندھے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنی بحالی کی نام نہاد تحریک کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’عدلیہ (سرمایہ دارانہ ریاست کا ایک بنیادی ستون) کا سب سے بنیادی فریضہ ’ذاتی ملکیت ‘کا تحفظ کرنا ہوتا ہے‘‘۔ یہی فرائض ریاست کے دیگر اداروں کے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام اداروں کا وجود اور مقصد بنیادی طور پر اس نظام کے استحصال کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔ مگر ریاست کے تمام ادارے اور اسکے معاون (حکمرانوں کی سیاسی جماعتیں، مذہبی اشرافیہ، قومی یکجہتی کے پرچارک وغیرہ) حتی الامکان اسکے طبقاتی کردار کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ استحصال کا شکاراکثریتی محنت کش طبقہ ایک لمبا عرصہ نظام کے اندر ہی ’انصاف ‘ اوربہتری کی تلاش میں بھٹکتا بالآخر اس نظام سے جان چھڑانے کی سوچ تک سفر مکمل کرلیتا ہے۔
سرمایہ داری میں ملکیت کی تمام لڑائیوں میں محنت کش طبقے کو مختلف جہتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طبقاتی جمہوریت میں محنت کش طبقے کوبرباد کرنے والا طبقہ اس کا ووٹ لے کر ہی اسکو باری باری لوٹتا چلا جاتا ہے۔ عام حالات میں کمزور اور لاچارگی کا شکار محنت کش طبقہ جب غیر معمولی حالات میں اپنے لئے ایک طبقہ بن کراپنی نجات کے لئے راہ عمل میں نکل آئے تو پھر ماضی کی مضبوط نظر آنے والی مخالف قوتیں خس وخاشاک بن کر رہ جاتی ہیں۔ کراچی کی ڈھائی کروڑ آبادی کا نوے فی صد حصہ محنت کشوں کی مختلف پرتوں پر مشتمل ہے۔ یہ بہت بڑی قوت ہے۔ اگر ان محنت کشوں کا طبقاتی جڑت سے اتحاد معرض وجود میں آجائے تو پھرکراچی ہی نہیں پورے پاکستا ن کے محنت کش استحصالی طبقے اور حکمرانوں کی مختلف شکلوں سے نجات پاسکتے ہیں۔ اس سادہ مگر طاقتور حقیقت کا ادراک حکمرانوں کو بھی ہے۔ اس لئے کراچی کے محنت کشوں کو رنگ، نسل، قوم اور فرقوں میں تقسیم کرکے آپس میں ہی لڑائے جانے کی پالیسی پر عمل درآمد کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ریاست اور سماج میں کالے دھن کی مداخلت، معاشی بحران، بیروزگاری، مافیا سرمایہ داری اور حکمران طبقات کی آپسی لڑائیوں اور دھڑے بندیوں نے اس خونریزی کو تیز تر کر دیا ہے۔ اس وقت حالات حکمرانوں کے قابو سے بھی باہر ہیں اور ریاست اپنے داخلی تضادات کے تحت کوئی یکجا حکمت عملی اور لائحہ عمل اپنانے سے قاصر ہے۔ اس لئے کراچی میں امن کا فیصلہ بھی حکمران طبقے نے نہیں بلکہ وہاں رہنے والے محنت کشوں اور وسیع تر عوام نے کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے 1968-69ء میں انہوں نے تمام تعصبات کو جھٹک کر خو د کو ایک طبقے کے طور پر جدوجہد کے میدان میں اتارا تھا، مگر اس مرتبہ فرد واحد کی بجائے خود اپنے اندر سے اشتراکی قیادت تخلیق کرنا ہوگی تاکہ منزل مقصود کی راہ کھوٹی نہ ہوسکے۔