تحریر: لال خان
جمعہ کو سپریم کورٹ آف انڈیا کے چار سینئر ججوں نے ایک پریس کانفرنس کر کے تہلکہ مچا دیا ہے۔ یہ چار سینئر جج جسٹس چیلاد میشور، جسٹس رانجن گوگائی، جسٹس ایم جی لوکر اور جسٹس کریان جوزف ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت، جس کے وہ خود سینئر جج ہیں، کے چیف جسٹس دیپک مشرا پر بدعنوانی اور ناانصافی کے الزام عائد کیے اور عدلیہ میں اس بحران سے جمہوریت اور پورے نظام کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا چیف جسٹس کو برطرف کردیا جانا چاہیے تو ان کا جواب تھا کہ ’’یہ فیصلہ پوری قوم کو کرنا چاہیے۔‘‘ بھارت کے قانون، عدل اور انصاف کے سب سے اعلیٰ بھگوان پر اس کے اپنے ججوں کے یہ الزامات پورے ریاستی نظام کی حقیقت کو عیاں اور عدلیہ کی اصلیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔
یہ الزامات اس تفتیش کے نتیجے میں سامنے آئے جس میں بھارت کے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (CBI) نے یہ سراغ لگایا کہ ایک میڈیکل کالج کو لائسنس دینے کے معاملے میں سپریم کورٹ میں ایک کیس چل رہا تھا جس کی سماعت جسٹس مشرا خود کر رہا تھا اور جس میں سپریم کورٹ کے ججوں کو رشوت دیئے جانے کے شواہد سامنے آئے تھے۔ کچھ وکلا نے عدلیہ کے اپنے احتساب کے لئے سپریم کورٹ میں ایک نیا بینچ تشکیل دینے کی درخواست دی تو اس بینچ میں ان ججوں کے نام بھی تھے جنہوں نے چیف جسٹس کے خلاف حالیہ پریس کانفرنس کی ہے۔ لیکن جسٹس مشرا نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے جونیئر ججوں پر مبنی ایک بینچ تشکیل دے دیا۔ شاید ان جونیئر ججوں کو رشوت دینا آسان ہو جاتا۔ عام طور پر قانونی حلقوں میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ بینچوں کی تقرریوں کا بھی خوب کاروبار ہوتا ہے۔ لیکن اسی دوران ایک المناک واقعہ بھی دوبارہ منظر عام پر آیا ہے۔ 2014ء میں سی بی آئی کا ایک سینئر جج بی ایچ لوہیا ایک قتل کا مقدمہ سن رہا تھا۔ اس کے ملزمان میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کا صدر امیت شاہ بھی شامل تھا۔ لیکن دسمبر 2014ء میں جج کو ناگپور میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ امیت شاہ کو بری کرنے کے لئے ایک ارب روپے رشوت کی پیشکش کی گئی تھی جس کو جسٹس لوہیا نے ٹھکرا دیا تھا۔ اس موت کے چند ہفتے بعد امیت شاہ باعزت بری کر دیا گیا تھا۔ نریندرا مودی اور امیت شاہ 2002ء کے ہندو مسلم فسادات کے کیس میں بھی مطلوب تھے۔ ان فسادات میں 2000 سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔
اب بمبئی ہائی کورٹ جسٹس لوہیا کی اس پراسرار موت کا کیس دوبارہ کھول رہا ہے لیکن خبریں یہ ہیں کہ چیف جسٹس مشرا اس تفتیش کو بھی بمبئی ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آف انڈیا منتقل کروانا چاہتا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے ان چار ججوں نے جو باغیانہ پریس کانفرنس میں جسٹس مشرا کی بدعنوانی اور کالے کرتوتوں کو بے نقاب کیا اس کی اہمیت اِس لئے بھی ہے کہ تھوڑے ہی دنوں میں جسٹس مشرا سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی کرے گا جو 1992ء میں ہندو بنیاد پرست غنڈوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی مسماری سے متعلقہ ہے۔ ایودھیا کا یہ مقدمہ چلتے ہوئے 26 سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں آیا۔ مشرا کی حرکات و سکنات سے پتا چلتا ہے کہ وہ فیصلہ کس کے حق میں کرے گا۔ لیکن بھارتی ریاست اور مودی سرکاری کو ان سپریم کورٹ کے ججوں کی پریس کانفرنس سے جو دھچکا لگا ہے اس سے پس پردہ دہلی کے ایوانوں میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے اور یہ سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست کے اِس مقدس ترین ادارے کی ساکھ کم سے کم نقصان پہنچے۔ کیونکہ یہ ادارہ حکمران طبقات کو عوام پر اپنا تسلط قائم رکھنے او ر محنت کشوں کا استحصال کرنے کا ہر وہ جواز فراہم کرتا ہے جس سے یہ ظلم اور جبر کی اندھی رات جاری رہ سکے۔ اب حکمرانوں نے جسٹس مشرا کو حکم دیا ہے کہ وہ باقی چار سینئر ججوں سے ملاقات کر کے ان کو کسی نہ کسی طرح منائے۔ چونکہ اس وقت تین جج دہلی سے باہر ہیں اس لئے شاید ایک آدھ دن مزید لگ جائے۔ لیکن پریس کانفرنس کرنے والے ان چار ججوں کے خلاف کارپوریٹ میڈیا اور حکمرانوں کی مہم بھی زور پکڑ رہی ہے۔ کیونکہ یہاں تو کھلی توہین عدالت اسی سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے کردی ہے جو عدالتی توہین کی خلاف سزا سناتی ہے۔ اب اگر ان ججوں کو توہین عدالت میں گرفتار کیا جاتا ہے یا پھر کوئی سزا دی جاتی ہے تو سارے نظام کا بھانڈہ پھوٹ جائے گا۔ یوں ریاست ایک ایسی نہج پر پہنچ گئی ہے جہاں اس کے بلند ترین مندر کے پجاری ہی ان اعلیٰ ایوانوں کی غلاظتوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
عام انسانوں کے لئے اس نظامِ عدل سے انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس وقت بھارت میں ساڑھے تین کروڑ مقدمے نسلوں سے چل رہے ہیں۔ کل 21000 جج ہیں۔ ایسے میں غریبوں کی باری آنا ہی ناممکن ہے، انصاف ملنا تو کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہاں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔
طبقاتی سماج میں انصاف کے بارے میں قدیم یونانی کہاوت ہے کہ’’قانون ایک مکڑی کے جالے کی طرح ہوتا ہے۔ چھوٹی چیزیں اس میں پھنس جاتی ہیں جبکہ بڑی چیزیں اس کو پھاڑ کر نکل جاتی ہیں۔ ‘‘ لیکن کئی مرتبہ جب حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں تضادات‘ تصادم کی شکل اختیا ر کرلیتے ہیں تو ریاست کے غالب اداروں کے دباؤ کے تحت بڑے بڑے لیڈر بھی ’’قانونی‘‘ طور پر راستے سے ہٹا دئیے جاتے ہیں۔ برصغیر میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ان میں اہم ترین 1977ء کے الہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت اندرا گاندھی کی برطرفی اور 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہے۔ کئی وزرائے اعظم سمیت دوسری اہم شخصیات بھی اِن سیاسی تنازعات کا شکار ہو کر برطرف ہوئی ہیں۔
بٹوارے کے بعد بھی برصغیر کی ان ’آزاد‘ ریاستوں میں نہ صرف انگریز کا نظامِ عدل اور قانون رائج ہے بلکہ تقریباً ہر ادارہ اور شعبہ زندگی اسی نوآبادیاتی محکومی کا تسلسل ہی ہے۔ لیکن انگریز کا رائج کردہ یہ نظام آج کے جدید تقاضوں سے اتنا بیگانہ ہے کہ یہ ادارے گل سڑ چکے ہیں اور عدلیہ سے لے کر مقننہ اور انتظامیہ تک یہ ادارے نہ کوئی بہتر گورننس دے سکتے ہیں نہ ہی یہاں کے عام انسانوں کو انسان سمجھتے ہیں۔ ہر طرف پیسے کا بول بالا ہے۔ اگر نواز شریف جیسا بڑا سرمایہ دار لیڈر وکلا کی فیسوں کے خرچے سے تڑپ اٹھا ہے تو عام انسانوں کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔ عمران خان کی ’تحریک انصاف‘ نے کبھی بھی مفت ’انصاف‘ کی فراہمی کا مطالبہ نہیں کیا کیونکہ اس میں بھی ان اداروں سے مستفید ہونے والے ارب پتی ہی براجمان ہیں۔ آج برصغیر کی پوری سیاست میں اس نظام کو بدلنے اور نظام عدل میں سے پیسے کی دھونس کو ختم کرنے کا پروگرام کوئی مروجہ پارٹی دے رہی نہ ہی اِس نظام زر میں ایسا ممکن ہے۔ لیکن جس طرح بھارت اور خطے کے دوسرے ممالک میں عدلیہ مسلسل دوسرے ریاستی شعبوں میں دخل اندازی کررہی ہے اس سے اسکی اپنی ساکھ بھی تیزی سے مجروح ہو رہی ہے۔ یہ اِن حکمرانوں کے لئے خطرناک بھی ہے اور ان کی حاکمیت کے مستقبل کے لئے تشویشناک بھی۔ لیکن سرمائے کی اِس طاقت کو توڑے بغیر غریبوں کی کایا نہیں پلٹ سکتی۔