| تحریر: قمرالزماں خاں |
عمران خاں کا تُرپ کا پتہ چھن چکا ہے۔ الیکشن کے نام نہاد ’’آزاد اور منظم دھاندلی سے پاک‘‘ ہونے کی رپورٹ نے تحریک انصاف کی ’’چابی‘‘ ختم کردی ہے۔ ببل پارٹیوں کی ہوا ایسے ہی نکلا کرتی ہے۔ یہ ایسا ہی ’واقعہ‘ رونماہوا ہے، جیسے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ذرا مختلف انداز میں ہوا تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا دہائیوں سے سب سے بڑا مطالبہ تھا کہ ’’شمال سرحدی صوبے‘‘ کا نام بدل کر پختونخوا رکھ دیا جائے، جب صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھ دیا گیا تو گویاعوامی نیشنل پارٹی کا سب سے بڑا مسئلہ اور مطالبہ حل ہوکراسکی سیاست کی مزید گنجائش ختم ہوگئی۔ اب تحریک انصاف کو بھی اسی قضیئے کا سامنا ہے۔
الیکشن ٹربیونل کی رپورٹ نے عمران خان کی خواہش کے برخلاف فیصلہ دے کے ان کی’’ قوت محرکہ‘‘ کی جا ن نکال دی ہے۔ بالخصوص عمران خان کاموجودہ عدلیہ کی غیر جانبداری کا باربار اقرار اور تقدس پر یقین دہانی کے بعد تو ان کے پلے کچھ بھی نہیں رہا۔ عمران خان کے ساتھ تواترکے ساتھ بہت کچھ ہوتاآرہا ہے۔ ان کا دعوی تھا کہ ’’سونامی‘‘ آئے گی! جو نہ آئی، کیونکہ سونامی سمندر سے آتی ہے کسی تالاب سے صرف چھینٹے اڑ سکتے ہیں وہ بھی اگر باہر سے کوئی ’’پتھرکی مدد‘‘ فراہم کرے۔ ٹھہرا ہوا تلاب چھینٹے اڑانے کی قدرت بھی نہیں رکھتا۔ عمران خان کے پاس سیاسی سونامی کا کوئی سامان نہیں تھا، ان کا کہنا تھا کہ 2013ء کا الیکشن 70ء کا الیکشن (جب بڑے بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اورنام نہاد قد آور سیاسی راہنماؤں کو پیپلز پارٹی کے بے سروساماں اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے عام کارکنوں نے شکست فاش سے ہمکنار کیا تھا) ثابت ہوگا۔ جو نہ ہوسکا، کیونکہ ستر کی پیپلز پارٹی سوشلزم کے نعرے کی طاقت سے لیس تھی، جو محنت کش طبقے اور عوام کے دلوں کی آواز تھی۔ 1970ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے منشور میں تمام جاگیروں، کارخانوں، دولت پر نجی قبضہ ختم کرکے ان کو قومی ملکیت میں لیکر تما م طاقت، سرمایہ اور وسائل عام آدمی کی طرف منتقل کردینے کا پروگرام شامل تھا۔ ستر والی پیپلز پارٹی کے پیچھے 68-69ء کی انقلابی بغاوت کے اثرات تھے۔ تب سامراج اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موقف اپنانے پردہائیوں سے تنگ لوگوں نے ان ’’عفریتوں‘‘ کے خلاف پیپلز پارٹی کا مردانہ وار ساتھ دیا تھا۔ تب پیپلز پارٹی میں جتوئی، کھر تو تھے مگر شیخ رشید مرحوم، ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، مختارراناکے بالمقابل’ دربدر‘ تھے۔ مگر تحریک انصاف کے پاس ایک طرف جہانگیر ترین تھا تو اسکے مدمقابل شاہ محمود قریشی اور حامد خان۔ کالی دولت والوں کی بھی کمی نہیں تھی، جن کالاہور اور صوبہ پختونخوا میں راج ہے۔ اگر تحریک انصاف 2013ء کے الیکشن میں وہی منشور رکھتی تھی جو اسکے سامنے کھڑی پارٹیوں کا تھا تو پھر نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکلا۔ اگر رسوائے عام ’’35 پنکچروں ‘‘والی سیٹوں پرتحریک انصاف جیت بھی جاتی تو تب بھی کسی قسم کا سیاسی سونامی نہیں آنا تھا، بلکہ اس سے مروجہ استحصالی سیاست کے ستم اور ظلم وجور ویسے ہی برقرار رہنے تھے، جیسے کل تھے اورآج بھی ہیں۔
یہ ایک مکمل مضمون ہے کہ اونچ نیچ والے طبقاتی معاشرے میں حقیقی جمہوریت کا نعرہ یا دعوی ایک مجرمانہ نعرہ بازی اور ڈھونگ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ دوسری طرف پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن میں ’’الیکشن کمیشن‘‘ کا کردارنمائشی اور کلیریکل ہوتا ہے۔ مینڈیٹ کی نوعیت، اقتدار تک پہنچانے اور جیت ہار کا فیصلہ، عوام نہیں بلکہ وہی مقتدرادارے اور انکے سرپرست اور قوتیں کرتی ہیں، جنہوں نے عمران خان کی پارٹی کے پارٹ 2 کو شروع کراکے ہلہ شیری دی تھی۔ اگر الیکشن کمیشن عمران خان کے موجودہ مطالبے(جودراصل کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے) کہ ’’کمیشن رپورٹ‘‘ کے بعد الیکشن کمیشن مستعفی ہو، پر عمل درآمد بھی کرالے تو اس سے آنے والے کسی بھی الیکشن کے ’’کردار‘‘ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عمران خاں، بیسیوں الیکشن کمیشن تبدیل کراکے‘ الیکشن لڑلے، نتیجہ وہی ہوگا جو بالادست قوتیں چاہیں گی۔ ادارے خواہ ان کا نام اور مرتبہ کچھ بھی ہو، مروجہ نظام کے مفادات اور اصولوں کی تابع چلتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ سیاست سے وابستہ سیاسی زعما یہ نکتہ باربار بھولتے اور چوٹ کھاتے چلے جاتے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو اور بعدازاں بے نظیر بھٹوکی مثالیں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو منڈی کی معیشت کے خلاف معمولی سی اشتعال انگیزی کرکے دوبارہ اسی نظام میں رہنے کی خواہش کی سزا پھانسی کی شکل میں ملی تھی۔ جبکہ بے نظیر بھٹو نے جن اداروں سے ’’ڈیل ‘‘کرکے توڑی، انہوں نے اس سے زندگی چھین لی۔
موجودہ کیفیت بہرحال یکسر مختلف ہے۔ سیاست پر زوال کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ یہ گراوٹ کا دور ہے۔ بالمقابل سیاسی پارٹیوں میں تنزلی کا تیز ترین مقابلہ جاری ہے۔ یہاں پچھلی دہائیوں سے کسی کی جیت نہیں ہوپارہی‘ بلکہ ہارنے کے مقابلے چل رہے ہیں۔ لوگ سیاست سے شدید متنفر ہوکر خود کو اس سے الگ تھلگ کرچکے ہیں۔ پچھلے عرصے میں رپورٹ آئی تھی کہ کل بیس کروڑ لوگوں میں صرف 12 فی صد افراد سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں اور 88 فی صد ہمہ قسم کی سیاسی سرگرمیوں سے خود کو لاتعلق کرچکے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پچھلے سال والے دھرنے چند ہزار لوگوں کی توجہ حاصل کرنے سے زیادہ کچھ نہ کرسکے۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی پارٹیوں اور راہنماکہلوانے والے ناکام ’’شعبدہ بازوں‘‘ کا ’’عوامی مفادات‘‘ سے یکسر دورہوکر صرف حصول اقتدار، اقتدار تک رسائی کے حربوں تک خود کو محدود کردینا ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ روزی روٹی، علاج معالجہ، تعلیم، گھر، تن ڈھانپنا، پینے کا پانی، بجلی، گیس، امن وامان، سستے اور عام ذرائع رسل ورسائل ہیں۔ مگر حکمران طبقے کے باہم دست وگریبان گروہوں کے پاس عام لوگوں کو درپیش مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ وہ تمام مسائل کا حل یہ پیش کرتے ہیں کہ ’’فلاں فلاں کو ووٹ نہ دو اور ہمیں اقتدار میں پہنچادو‘‘ لوگ شاید ایسا کربھی دیں اگر کہنے والے کے پاس لوگوں کی کٹھن اور مصیبت زدہ زندگی میں کچھ آسانیاں لانے کا پروگرام بھی ہوتو۔
رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیاں ’’اپنے اپنے نظریات‘‘ سے منحرف ہوکرمرحومہ بے نظیر بھٹو کی ’’عملیت پسندی‘‘ اور ’’مفاہمت‘‘ کی دلدل میں غرق ہوگئی ہیں۔ ماضی میں سیاست (خواہ نام کی ہی ہوتی تھی) عوام اور انکے حقوق کے گرد کی جاتی تھی، مگر اب واضح طور پرمطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہمیں اقتدار تک پہنچایا جائے۔ عام لوگوں کو ان اقتدار پرستوں کے ساتھ کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ نتیجے میں عوام کی 88 فی صد واضح اکثریت اقتدار پرستوں کی سیاست سے خود کو الگ کرچکی ہے۔ لوگ ان ڈھونگوں کی حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں جس میں شہباز شریف ماؤزے تنگ کی جیکٹ اور کیپ پہن کر چاہے حبیب جالب ہی کیوں نہ گالیں، کسی کو بھی ان پر اعتبار نہیں، طاہرالقادری سوشلزم کی بجائے دقیانوسیت کو پروان چڑھا کر لینن تو کجابالشویک انقلاب کے غدارسٹالن‘ کی مسخ شدہ روایت کے امین بھی نہیں بن سکتے۔ اس طرح ’انقلاب‘ کی لفاظی اور ’نئے پاکستان‘ کی طرح کے جلو میں گلے سڑے نظام سے وابستگی کا برملا اظہاراور بدبو مارتے لیڈروں کے جلو میں عمران خان ‘نجات دھندہ کیسے بن سکتا ہے؟ اور دعویٰ کرے تو کون اس پر یقین کرے گا اور کیوں کرے گا؟ لہٰذا لوگوں کی لاتعلقی نے پہلے دھرنوں کے ناٹک کا پردہ چاک کیا اور اسی کی بنا پر ’’مقتدرحلقوں‘‘ نے ایک حد تک ساتھ دیا۔ مقتدرحلقے بھی اسی پارٹی کو اپنا حلقہ ارادت کچھ فیض دیتے ہیں، جن کے اپنے پلے بھی کچھ ہو۔ اس کے باوجود کہ تحریک انصاف کا آمیزہ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے عناصر سے ہی پیدا کیا گیا ہے مگر پھر بھی نواز شریف کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ ریاست کے ساتھ اسکا ٹکراؤ یا تو ہوتا ہی نہیں ہے اگر ہو بھی تو معاملہ بیٹے اور باپ کی طرح ہی رہتا ہے۔ سزادیتے ہوئے باپ جوتا بیٹے کو مارنے کی بجائے ایک طرف پھینک دیتا ہے۔ فوجی جرنیلوں کی اکھاڑ پچھاڑجیسی جارحیت کے نتیجے میں بھی نوازشریف کی سزا موت یا عمر قید کی بجائے، ایک بہت بڑے انعام کی شکل میں دی گئی۔ نورمحل میں رہائش، شیخوں کے ساتھ کاروباری شراکت اور رشتہ داری اورپھر سیاست میں تمام تر بحالی کے اقدامات کے ساتھ واپسی جیسے عناصر ثابت کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وقتی ٹکراؤ، اختلاف یا تضاد، اصولی پالیسی کی شکل اختیار نہیں کرتے۔ نوازشریف کی وعدہ خلافیوں یا فوج سے بالا بالا کچھ خواہشوں کا اظہاربھی، صرف حکومت نہ ختم کرنے والے دھرنوں کے دباؤ کو ہی پیدا کرتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں نوازشریف کو عطا کئے جانے والے تمام تاریخی مینڈیٹ ’’مقتدرحلقوں‘‘ کی کرامات کا نتیجہ ہیں، مگر ان کو عدلیہ جیسے کمزور ادارے کے ذریعے کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے!عدلیہ تو موم سے بھی زیادہ لچکدار ہے۔ اسکے وضع کردہ اصول اور اعلی اخلاقی مثالیں، اسکے ایوانوں میں ہی رتبہ کھوبیٹھتی ہیں۔ پھر عدل وانصاف کی راہداریوں میں قیام پذیر لوگوں کی ہمت اور حوصلہ کتنا وسیع ہے کہ جو شخص دودفعہ پی سی او کے تحت حلف اٹھاتا ہے وہ ہی پی سی او زدہ اپنے ہم مرتبہ معزز جج صاحبان کو قابل تعزیر قراردیتے ہوئے اپنے ’’اعلیٰ اخلاقی مرتبے‘‘ پر اتراتے ذرابھی نہیں شرماتا۔ عدلیہ کی غلام گردشوں میں طواف کرنے والے حامد خان کو اسکی اصلیت کا بھی پتا تھا اور کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے کا بھی، جو وہ برملا بتاتے بھی رہے ہیں۔ تحریک انصاف کامخاطب ہمیشہ 15 سے20 فی صد کے قریب موجود، درمیانے طبقے کی پرت رہی ہے، اس کا اعتبار بھی اسی پرت کے بااعتبار اداروں پر ہے۔ جس طرح یہ پرت کسی مستحکم سوچ، نظریے، اخلاقیات، اقدار اور سیاسی فلسفے پر قائم نہیں ہے اسی طرح اسکے اعتبار والے ادارے بھی طاقت کے مراکز کی طرف پینڈولم کی طرح گھوم جاتے ہیں۔ طاقت کہاں تھی؟جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ بھی اسی طرف گھوم گیا ہے۔ اگر رائج الوقت نظام کا کوئی بھی ادارہ اپنے نظام کے اندر موجود تضادات کومستقل طور پر حل کرنے کی صلاحیت رکھتا تو انقلابات کا لفظ ہی کبھی کا نابود ہوچکا ہوتا۔ تحریک انصاف کی زندگی کا دارومدار ہی نان اشیوز پر شوروغوغا برپا کرنے میں ہے۔
پاکستان کا اصل مسئلہ غربت اور بے روزگاری ہے، اس طبقاتی تقسیم میں ارب پتیوں کے ساتھ کھڑی تحریک انصاف کبھی کسی ادارے یا عدلیہ کے پاس کسی ایسے جوڈیشل کمیشن کے قائم کرنے کا مطالبہ نہیں لے کر گئی کہ اس ملک کے 74 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے کیوں سسک رہے ہیں جبکہ وہی اناج اگاتے اور فیکٹریوں کے پہیوں کو رواں رکھے ہوئے ہیں۔ اور جو ایک فیصدطبقہ کل وسائل کے 85 فی صد پر قابض ہے اسکا کیا جواز ہے؟ محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت کو کس میکنیزم کے تحت لوٹ کر چند سرمایہ دار اپنی تجوریوں میں لے جاتے ہیں؟مگر دوسری طرف تحریک انصاف تبدیلی اور انقلاب کی نعرہ بازی سے بھی پرہیز نہیں کرتی۔ جعلی انقلابی لفاظی اور اصطلاحات کے ناجائز استعمال سے اس بنیادی طبقاتی تضاد کو ختم نہیں کیا جاسکتا جو سماج کی بنیادوں میں ڈائنامائٹ کی طرح لگا موجود ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف سماج کی تشکیل اور تقسیم کے حقیقی عناصر کو ماننے سے ہی انکاری ہے۔ چونکہ وہ سماج کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے محنت کش طبقے کی اکثریت اور اسکی سنجیدہ صلاحیت کی بجائے مڈل کلاس اور میڈیا کی نظرپر یقین رکھتی ہے جس کا خود پر ایک لمحے سے زیادہ یقین نہیں ہوتا اس لئے اس کو آج وہ دن بھی دیکھنا پڑا ہے۔ اپنی اس تاریخی ہزیمت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود ان کے منہ کا ذائقہ بہت خراب ہوچکا ہوگا۔ ہمارے نقطہ نگاہ سے شروع دن سے ہی تحریک انصاف کوئی سنجیدہ تحریک، پارٹی یانظریاتی دھڑا نہ تھی۔ نظریہ ضرورت کے تحت ریاست نے اس کو بڑھا چڑھا کرپیش کرنا شروع کیا اور اب نظریہ ضرورت کے تحت ہی اسکو دبا کراسکے حقیقی قد میں واپس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل اوراس قسم کے ڈرامے جاری رہیں گے جب تک تبدیلی کے حقیقی عناصر اپنی گہری خاموشی توڑ کرتاریخ کے میدان میں نہیں نکلتے۔
متعلقہ: