| رپورٹ: کامران خالد |
28 جون کو جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) کے زیر اہتمام ہجیرہ میں افطار پارٹی کا انعقاد کیا گیا۔ بعد از افطار مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، طبقاتی نظام تعلیم اور مسائل کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی ہجیرہ چوک میں پہنچ کر جلسہ عام کی شکل اختیار کر گئی جس سے JKNSF کے مرکزی چیف آرگنائزر تنویر انور، مرکزی ایڈیٹر عزم دانیال عارف، ارسلان شانی اور دیگر نے خطاب کیا۔
خطاب میں مقررین نے کہا کہ کشمیر میں انفراسٹرکچر، تعلیم، علاج اور دیگر بنیادی سہولیات کا نہ ہونا حکمرانوں کے منہ پر تمانچہ ہے۔ اس خوبصورت خطہ میں بیش بہا قدرتی وسائل و حسن ہونے کے باوجود یہاں کے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے اکثریتی عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی زندگی کی سانسوں کو برقرار رکھنے اور اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کی خاطر یہاں کے نوجوان بیرون ملک انتہائی تلخ اور غیر انسانی حالات میں محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، طبقاتی نظام تعلیم، لوڈشیڈنگ اور ریاستی جبر یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ ایسے میں ہر پانچ سال کے بعد الیکشن کا انعقاد کیا جا تا ہے۔ اس بار الیکشن ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہے ہیں کہ جب مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بحران کے باعث کشمیر ی محنت کشوں کو نوکریوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یوں کشمیر میں آنے والے دنوں میں بیروزگاری کی ایک نئی لہر جنم لے گی۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے یہاں کی خصی حکومت کے پاس کوئی حل موجود نہیں اور انتخابات میں محض ایک دوسرے پر لعن طعن کر کے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تعلیم کی حالت یہ ہے کہ جہاں سرکاری سکولوں میں ابتدائی تعلیم انتہائی غیر معیاری ہے وہیں فیسوں میں اضافے کے باعث اعلیٰ تعلیم تک ایک اقلیت کی رسائی رہ گئی ہے۔ علاج کے نام پر دھندے منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں اور اس نام نہاد آزاد خطے میں موجود سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور بعض دیہی صحت کے مراکز کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان تمام حقیقی مسائل جن کا تعلق یہاں کی 99 فیصد آبادی سے ہے، ان پر بات کرنے کے بجائے تمام سیاسی جماعتیں منافقانہ حیلے بہانے کر رہی ہیں۔ اس دوران میں حکمرانوں کے اتحاد بھی نظر آ رہے ہیں اور مخالفت بھی عروج پر ہے۔ مقررین نے کہا کہ ان مسائل کے حل کے لئے محنت کشوں اور نوجوانوں کو خود طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کرنا ہو گی اور اپنے حقوق چھیننے ہوں گے، بصورت دیگر اس نظام اور ان حکمرانوں کے ہوتے ہوئے بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔