JKNSFمیں منظم کشمیری نوجوان، سوشلسٹ انقلاب کی جانب گامزن

[تحریر:فارس]
ہر سال کی طرح اس سال بھی کشمیر بھر کے نوجوان فہیم اکرم شہید کی 21ویں برسی26ستمبر کو منائیں گے۔اس سلسلے میں 26ستمبر دن 11بجے، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن نے مظفر آباد میں’’طلبہ یونین بہالی کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا ہے۔ فہیم شہید کے المناک قتل کے بعد ایک پوری نسل جواں ہو چکی ہے۔26ستمبر کو جونوجوان فہیم شہیدکی برسی میں شریک ہونگے وہ یقیناًاپنے اس عظیم رہنما کو اپنے اپنے انداز اور سمجھ بوجھ کے مطابق خراج تحسین پیش کریں گے۔ہم بھی اپنے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے کوشش کریں گے کہ وقت کے تغیر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شہید رہنما کو خراج تحسین پیش کریں۔جس طرح ہم نے اس مضمون کے عنوان میں فہیم شہید کو JKNSFکی لازوال جدوجہد کے ناقابل فراموش کردار کے طور پر پیش کیا ہے تو ہمارے لئے پہلے یہ دیکھنا لازمی ہو جاتا ہے کہ وہ کون سے حالات اور واقعات تھے جن کے زیراثر رہتے ہوئےJKNSFنے اپنی جد وجہد کی ابتداء سے اب تک کا سفر طے کیا ہے۔ایک سائنسی تجزیہ کرتے ہوئے کسی بھی مظہر کی بنیاد سے شروع کیاجانا چاہیے۔JKNSFکا قیام1966ء میں عمل میں لایا گیا۔1966ء سے لے کر2012ء تک لگ بھگ نصف صدی پر محیط جدوجہد کو ہم تین حصوں میں بیان کریں گے۔اول1966ء سے لے کر 1970ء تک،دوم1970ء سے 1990ء تک اور سوم1990ء سے 2005ء تک۔ سب سے پہلے ہم اس وقت کے عالمی معروض کا مختصر احوال پیش کرنا چاہیں گے۔1960ء کی دہائی کو انسانی تاریخ میں ناقابل فراموش قرار دیا جاتا ہے جس کی وجہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے جبر اور استحصال کیخلاف پوری دنیا کے محنت کش عوام کی انقلابی تحریکیں تھیں۔یہ ایک ایسا عہد تھا جب پوری دنیا انقلابی تحریکوں سے سرشار تھی۔1968-69ء کے دو سالوں میں ارجنٹائن سے مصر تک اور انڈونیشیا سے پاکستان تک عوام کے انقلابی ابھارسرمایہ دارانہ نظام کی ہر قدر کو چیلنج کر رہے تھے۔ترقی یافتہ ملک بھی اس عہد میں جنم لینے والے انقلابات کے اثرات کی لپیٹ میں تھے جس کا سب سے شدید اظہار طاقتور سرمایہ دار ملک فرانس میں ہوا۔جہاں مئی 1968ء میں رونما ہونے والے واقعات نے حکمران طبقات کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیں تھیں۔مئی 1968ء میں ہمیں فرانس میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال نظر آتی ہے۔پاکستان میں68-69ء کا انقلاب بھی انہیں عالمی واقعات کا تسلسل تھا جس نے پاکستان کی ریاست اور ملٹری راج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں تھیں۔ان دیوہیکل اور لرزہ دینے والے واقعات کے اثرات سے بھلا کشمیری عوام اور نوجوان کیونکر نہ متاثر ہوتے۔برصغیر کی سامراجی بنیادوں پر تقسیم کے بعد معرض وجود میں آنے والے دو ملکوں انڈیا اور پاکستان کے حکمران طبقات نے سامراجی پالیسی’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘کابراہ راست اطلاق کشمیر پر کیا تھا۔جس کے تحت کشمیر کی وحدت ان دو ممالک کی جارحیت کا نشانہ بنتے ہوئے پامال ہو کر رہ گئی اور آج تک ان دو ممالک کے غاصبانہ قبضے کا شکار ہے۔اگرچہ کشمیری عوام نے پہلے دن سے ہی اپنے مادروطن کی آزادی کیلئے جرأتمند جدوجہد کی مگر وہ 1960ء کی دہائی میں ہی اپنے عروج پر نظر آئی۔کشمیر کی قومی آزادی کی جدوجہد کا ایک علامتی کردار مقبول احمد بٹ شہید بھی اس دور کے عالمی واقعات کے اثرات کے نتیجے میں پہلی بار منظر عام پر آیا۔جو کشمیر کی آزادی کیلئے بے لوث جدوجہد کا امین بن کر ابھرا۔کچھ اور لوگ اور گروپس بھی کشمیر کی قومی آزادی کی واگزاری کیلئے میدان عمل میں آئے۔تاہم مقبول بٹ شہید ہی کشمیر کے دونوں اطراف میں نوجوانوں کی اکثریت کی توجہ کا محور اور مرکزبنا۔مقبول بٹ نے اگرچہ کشمیر کی آزادی کے حصول کے لیے سیاسی،سفارتی اور صحافتی سطح پر بھی جدوجہد کی مگر بٹ کے حصے میں آنے والی وجہ شہرت مسلح جدوجہد ہی ثابت ہوئی۔مگرJKNSFاپنی ابتدا ہی سے دیگر رجحانات کے برعکس جدوجہد کے راستے تراشتی آگے بڑھتی رہی۔اپنے قیام کے فوری بعد JKNSFنے اپنی جدوجہد کا دائرہ کار طلباء حقوق کے حصول تک محدود رکھا،طلباء کے لئے NSFنے اپنے اغراض و مقاصد کو سائنسی نظریات پر تشکیل دینے کی کوشش کی اگرچہ اس وقت NSFکے پاس کوئی واضح سائنسی پروگرام نہیں تھامگر مذہبی رجعت اورتنگ نظر قوم پرستی کے مقابلے میں NSFکے ترقی پسند نظریات نے نام نہاد آزادکشمیر میں طلباء اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔یہی وجہ تھی کے NSFپاکستان کے زیر انتظام آزادکشمیر میں طلباء اور نوجوانوں کی سب سے بڑی طلباء تنظیم بن کر ابھری۔اپنی ابتدا ہی سے JKNSFنے شعوری جدوجہدکے ذریعے سے طلباء کے مسائل کو حل کرنے کے راستے کا انتخاب کیا اور طلباء کو’’ علم، جدوجہد اور فتح‘‘ کی اساس پر مبنی جد وجہد کی سمتیں متعین کرنے کا درس دیا۔طلباء کے ساتھ ساتھ NSFآزادکشمیر کے نوجوانوں کی متحرک پرتوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔جس کی وجہ سے70ء میںNSFنے اپنی جد وجہد کے دائرہ کار کو طلباء حقوق کے ساتھ ساتھ کشمیر کی قومی آزادی، وحدت کی بحالی اور غیر طبقاتی سماج کے قیام تک بڑھایا اور اس کیلئے بھی سائنسی بنیادوں پر جدوجہد کا راستہ اپنایااور اپنے پروگرام کو ان بنیادی اصولوں پر استوار کیا کہ’’ آزادی کے تین نشان۔۔۔طلباء،مزدور اور کسان۔‘‘
اس دوران عالمی سطح پرمحنت کشوں کی انقلابی تحریکیں سٹالنسٹ قیادتوں کی غداریوں کے نتیجے میں پسپائی کا شکار ہونا شروع ہو چکی تھیں اور سیاسی افق پر دوبارہ ردانقلابی قوتیں حاوی ہو کر ان تحریکوں کوسرمایہ دارانہ حدود اورقیود میں ہی محدود کرنے میں کامیاب ہوئیں جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ردانقلابات ابھرے اور وحشت،تاریکی اور جمود کے دور کا آغاز ہوا۔ انقلابی عہد میں ابھرنے والی تحریکوں کو ایک درست مارکسی اور لیننسٹ قیادت کے نہ ملنے کی وجہ سے دنیا بھر میں ان تحریکوں کی قیادت پاپولسٹ لیڈروں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ جمال عبدالناصر اور کرنل قذافی سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک پوری دنیا میں پاپولسٹ قیادتوں کا مظہر ابھر ا تھا جو تحریکوں کے عروج کے ادوار میں بہت ریڈیکل پروگرام اورجذباتی تقریروں کے ذریعے کروڑوں محنت کشوں کی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کر رہے تھے مگر جب تحریکیں پسپا ہوئیں تو ان پاپولسٹ قیادتوں کی تیزی سے زوال پذیری کا آغاز ہوا۔ردانقلابی قوتوں کے حملوں اور دباؤ اور سٹالنزم کی غداریوں کی وجہ سے پاپولسٹ قیادتیں جلد ہی دائیں بازو کی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئیں اور محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کو پس پشت ڈال کر سرمایہ دارانہ سیاست کے چلن کو ہی ترویج دینے میں مشغول ہوگئیں۔ اس کی اہم وجہ ان پاپولسٹ قیادتوں کے پاس ایک مارکسی لیننی بنیادوں پرتنظیم اور انقلابی پارٹی کا فقدان تھا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کا المناک قتل بھی اسی مصالحت کا نتیجہ تھا اور اسی طرح کا یا اس سے ملتے جلتے انجام کا شکار دنیا بھر کی پاپولسٹ قیادتیں ہوئیں۔اگرچہ یہ قیادتیں محنت کش طبقے کے مسائل کو تو حل نہیں کر سکی تھیں اور نہ ان میں ایسا کرنے کی صلاحیت تھی مگر پھر بھی ان قیادتوں کا قتل اس وجہ سے کیا گیا کہ ان قیادتوں کا جنم محنت کشوں کے انقلابی ابھار میں ہوا تھا اور یہ قیادتیں محنت کش طبقے کی امید اور آس کا محور اور مرکز بن چکی تھیں۔کم از کم محنت کش طبقہ اپنے دکھوں اور غموں کے حل کے لئے ان قیادتوں کے سامنے احتجاج کرنے کا حق رکھتا تھا کیونکہ ان قیادتوں کو طبقے نے خود تراشا تھااور محنت کش طبقہ جب کسی قیادت پر اعتماد کرتا ہے تو وہ لمبے عرصے تک اپنے اعتما د کو برقرار رکھتا ہے۔ محنت کش طبقہ ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی طرح بے غیرت نہیں ہوتا کہ روز روز پارٹیاں بدلتا پھرے۔ ان قیادتوں کا المناک انجام اسی لئے کیا گیا تا کہ محنت کشوں سے نظام کو للکارنے کا انتقام لیا جاسکے اور طبقے سے اس کی آس امید اور مرکز و محورکو چھینا جائے اور وہ دوبارہ اپنے حق کے لیے کسی نقطے پرمتحد نہ ہو سکیں۔اس صورتحال کے اثرات نے محنت کشوں پرشدید مایوسی اور بے دلی کو جنم دیا۔ماضی کے تعصبات انتہائی وحشت اور رعونت کے ساتھ دوبارہ محنت کشوں پر مسلط کیے گئے۔مذہبی رجعت،قومی شاؤنزم،نسلی اورفرقہ وارانہ تعصبات کو فروغ دیا گیا۔سوشلزم اور طبقاتی جدوجہد کے نام لیواؤں کو چن چن کر مار دیا گیا۔سوویت یونین کی زوال پذیری اور بعد ازاں انہدام نے محنت کشوں کی رہی سہی امیدیں بھی ان سے چھین لیں۔70ء سے لے کر90ء تک کے 20 سالوں میں جتنا جبر اور ظلم محنت کشوں پر کیا گیا اس کی مثال شائد انسانی تاریخ میں نہ مل سکے۔
ان بیس سالوں میں کشمیر بھی مزید لہو لہو ہوا۔ضیاء کی مذہبی ڈریکولائزیشن نے کشمیر کے حسن و جمال کوتار تار کر دیا۔ اس جنت ارضی پر پھولوں کی مہک کی جگہ انسانی لہو کی بدبو نے لے لی۔ درندگی اور وحشت کا وہ کھیل کھیلا گیاکہ کشمیر کی خوبصورت واد یوں میں انسانی لاشوں کے تعفن اور بارود کی بو نے کشمیر کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا۔1984 ء میں مقبول بٹ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کردیا گیا۔ تاہم مقبول بٹ کشمیر کی آزادی کا وہ علامتی کردار بن گیا جس کی سمت پر کشمیر کے دونوں اطراف کے عوام اور نوجوانوں نے سوچنا شروع کر دیا تاہم اپنی تمام تر جرأت مند جدوجہد کے باوجود مقبول بٹ کے پاس بھی کوئی حقیقی انقلابی پروگرام نہیں تھا جو کشمیر کی آزادی کاضامن ہوتا۔ ان بیس سالوں کے دوران JKNSFتمام تر مشکلات کے باوجودانسان ترقی پسند سائنسی نظریات کی تڑپ لے کر اپنی جد و جہد کو آگے بڑھاتی رہی۔ان بیس سال میں NSFکی جدوجہد میں بے شمار مقداری تبدیلیاں رونما ہوئیں مگر ارشد بلو ہی ان بیس سالوں کے دوران ایک توانا کردار کے طورپر منظر عام میں موجود رہا۔ارشد بلو نے70ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی شدید مذمت اس وقت کی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو اپنی بے پناہ مقبولیت کے باوصف کشمیر کے دورے کے دوران میرپور کے مقام پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کو صوبہ بنانے کے حق میں رائے عامہ ہموار کر رہا تھا۔یہاں سے ہی ارشد بلو کو NSFکے اندر اور باہر نوجوانوں میں بے پناہ مقبولیت ملی۔ آگے چل کر80ء میں جب ضیاء کی مذہبی رجعت نے امڈنا شروع کیا تو NSFکے اندر بھی اس کے اثرات پڑے جس سے NSFکے کچھ دوستوں نےNSFکے سیکولر امیج کو تبدیل کرتے ہوئے مذہبی رنگ دینے کی بات کی جس کی ارشد بلو نے شدید الفاظ میں مذمت کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔جس کی وجہ سے ضیائی متاثرین کو منہ کی کھانی پڑی اور وہ آج تک سیاست کے نام پر جھک مار ہے ہیں۔تاہم آگے چل کر NSFنے88ء کے منشور میں واضح کیا کہ JKNSF سرمایہ دارانہ نظام کو اور امریکی سامراج کو کرہ ارض پر ایک ناسور تصور کرتی ہے اور پوری دنیا کے محنت کش عوام کی جدوجہد کو ہر اول دستے کے طور پر آگے بڑھانے کواپنا انقلابی فریضہ سمجھتی ہے۔عین اسی وقت پرجب NSFنے بین الاقوامی سامراجی کیمپ کیخلاف اپنی جدوجہد کا تعین کیا۔JKLFنے ISIکی آشیرباد لے کر کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا۔JKNSFنے مسلح جدوجہد کو مسترد کرتے ہوئے اسے کشمیر کی آزادی کے نام پرشب خون مارنے کے مترادف قرار دیاجو بعد کے واقعات نے ثابت بھی کر دیا۔اس عالمی اور ملکی صورتحال میںJKNSFکی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری گل نواز بٹ اور فہیم اکرم نے اپنے ذمے لے لی۔ایک ایسے وقت میں جب دیوار برلن گر چکی تھی سوویت یونین کا انہدام ہو رہا تھاپاکستان میں ضیاء آمریت کے خاتمے کے بعد محنت کشوں کی روایت ہی ضیاء اور امریکی سامراج کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی شرمناک ڈیل کر چکی تھی۔کشمیر میں قومی شاؤنزم چاروں اطراف سے دندنا رہا تھا،NSFکے ان سپوتوں نے انتہائی جرأت اور بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔قومی شاؤنزم کے اثرات نے NSFکی نچلی پرتوں اور نوجوانوں کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیاتھا۔ بالآخر گل نواز بٹ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد13فروری1990ء کوLOCکو عبور کرنے کی کال دی۔NSF کے قائدین کی کال پرکشمیر بھر سے ہزاروں نوجوانوں نے لبیک کہتے ہوئے شرکت کرتے ہوئےLOCکو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا جہاں ہمارے تین ساتھیوں،سجاد انجم،فرخ قریشی اور لیاقت اعوان، نے جام شہادت نوش کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے تاریخ میں امر ہو گئے اور ساتھ ہی JKNSFکو کشمیر بھر کے نوجوانوں کی انقلابی روایت کا درجہ دے گئے۔اپنے ساتھیوں کی شہادت کا گل نواز بٹ،فہیم اکرم اور NSFکے تمام ساتھیوں کو گہرا صدمہ تھا مگر انہوں نے اپنے حوصلوں کو پست نہ ہونے دیا اور جدوجہد کوجاری رکھا۔کشمیر بھر سے نوجوانوں کی متحرک پرتیں گل نواز بٹ اورفہیم اکرم کی قیادت میں این ایس ایف کے سرخ پرچم تلے منظم ہونا شروع ہوئیں جو کشمیر کے گماشتہ اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے لئے کسی طور قابل برداشت نہیں تھا،مزید یہ کہNSF کے پاس بھی نوجوانوں کی اتنی بڑی اکثریت کومنظم کرنے کا کوئی واضح لیننسٹ پروگرام نہیں تھا۔اس وجہ سے بعض بے جا تصادم بھی جنم لیتے رہے۔1991ء میں 26ستمبر کو NSFکے مرکزی سیکرٹری جنرل سردار فہیم اکرم کو باغ کے مقام پر مسلم کانفرنس کے پالتو غنڈوں نے قتل کر دیاجو کشمیر بھر کے نوجوانوں کی انقلابی امنگوں،ہمت اور جد وجہد کی علامت بن چکا تھا۔یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھامگر فہیم اکرم کا کردار خود اتنا توانا ہے کہ شہادت کے21سال بعد بھی وہ کشمیر کے نوجوانوں کے اندر سب سے مقبول کردار ہے۔کچھ لوگ فہیم شہید کو ایک افسانوی کردار بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ تمام کے تمام ماضی کے تعصبات کا شکار عناصر ہیں۔ ان کے پاس وقت کی رفتار کے ساتھ بدلتے واقعات کو جانچنے اور سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں ہے اس لئے یہ یا توفہیم اکرم،فہیم اکرم،فہیم اکرم کی رٹ لگا کر فہیم کے نام کو چیونگم کی طرح چبانا شروع کر دیتے ہیںیا پھر فہیم،فہیم کی تکرار کے ساتھ صفحے کالے کرتے ہیں۔فہیم شہید پر بات کرتے ہوئے یہ فہیم شہید کے ساتھ اپنی رفاقت اوروراثت کا حوالہ دینا کبھی نہیں بھولتے۔ اس صورتحال میں جب فہیم اکرم کے کردار کو مسخ کرکے پیش کیا جا رہا ہے اور یہ صرف فہیم کے ساتھ ہی نہیں ہورہا، تاریخ میں ہمیشہ انقلابیوں کے کردار کو حکمران طبقات نے مسخ کرکے پیش کیا ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ فہیم اکرم کی جدوجہد کو درست انداز میں آج کی نسلوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ہم فیصلہ بھی آج کی نسلوں کے اوپر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود دیکھیں کہ فہیم شہید کے ساتھ کون انصاف کر رہا ہے۔ہم سب سے پہلے تو ان حوالوں کو پیش کرنا چاہیں گے جو فہیم کے ساتھ منسوب ہیں۔
1۔فہیم کی پیدائش ہی ایک حریت پسند گھرانے میں ہوئی تھی،فہیم شہید کے والد سردار اکرم خان نیشنل کانفرنس کے ممبر اور سرگرم رہنما تھے۔
2۔فہیم جب جواں ہوا تو اس کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز اس کے لئے یہ تھا کہ وہ NSFکاممبر بنا۔
3۔اپنی جرأت اور بہادری کے سبب وہ بہت جلدJKNSFکے قائدین کی صف میں شامل ہوا اور مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوا۔
4۔90ء میں جبLOCکو عبور کیا گیا تو وہ اسوقت اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوا۔
5ََََ۔باغ کے مقام پر پاکستان کے ساتھ ملحقہ جماعت مسلم کانفرنس کی طرف سے جب اساتذہ کی تقریوں کے نام پر جعلی بھرتیاں کی گئیں تو فہیم نے اس عمل کی شدید مذمت کی اور لوگوں کو اس دھاندلی سے آگاہ کرتے ہوئے اپنا انقلابی فریضہ ادا کیا۔
6۔طلباء حقوق کے ساتھ ساتھ کشمیر کی مکمل آزادی اور غیر طبقاتی سماج کے حصول کے لئے جد و جہد کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی۔
فہیم شہید کا کردار ہمارے لئے آج بھی ہمت، جرأت اورانقلابی جدوجہد کی علامت کے طور پرمشعل راہ ہے۔یوں NSFکایہ عظیم سپوت تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کر گیا۔ہم آگے چل کرفہیم کے کردار اور آج کے دور میں جدوجہد کے تقاضوں پر بات کریں گے مگرایسا کرنے سے پہلے ہم90ء سے2005ء تک NSFکے سفر کا مختصر تجزیہ پیش کریں گے۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد پورے کرۂ ارض پر سرمایہ دارانہ وحشت اور بیہودہ ہو کرمنظر عام پر آئی۔یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ اب تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے،سوشلزم ناکام ہو چکا ہے اور سرمایہ داری ہی انسانیت کا آخری مقدر ہے۔اس پروپیگنڈے کے اثرات اتنے شدید تھے کہ سوشلزم کے نام لیوابڑے بڑے نامور لیڈران بھی اس کا شکار ہوتے گئے۔ وہ یا تو دائیں بازو کی پارٹیوں میں پناہ لیتے نظر آئے یا پھر NGO’sمیں چلے گئے۔ پھر 1994ء میں ایک اور تھیوری’’تہذیبوں کے تصادم ‘‘کو منظر عام پر لایا گیا جس کی روح سے یہ قرار دیا گیا کہ دنیا بھر میں حقیقی لڑائی ان تہذیبوں اورصدیوں پرانے مختلف مذاہب کے بیچ ہے۔ یعنی مشرق کو مغرب سے اور مغرب کو مشرق سے خطرہ ہے۔اسلام کا عیسائیت کے ساتھ تصادم ہے اور اسی طرح دیگر مذاہب بھی ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔مگر ابھی سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک دہائی بھی نہیں گزری تھی کہ 1998-99 ء میں معاشی بحران نے سرمایہ داری کا دروازہ کھٹکھٹایا جس نے سوشلزم کی موت کے جشن میں مشغول سرمایہ دار طبقات کے تفاخر اور رعونت کو خاک میں ملا دیا۔ابھی بحران سے مکمل طور پر نکلا بھی نہیں جا سکا تھا کہ 9/11 کا واقعہ رونما ہوا۔ جسے امریکی سامراج نے’’War against Terrorism‘‘کے نام پر پوری دنیا میں وحشت اور درندگی کا ننگا ناچ ناچنے کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔عراق کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام کے اوپر ظلم و جبر کا قہر نازل کیا۔افغانستان میں امریکی جارحیت کا مقصدوسطی ایشیاء کے ممالک میں اثرورسوخ قائم رکھنا اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ تھی۔مگر عراق کے بعد اب افغان عوام کی جدوجہد کی وجہ سے امریکی سامراج کو افغانستان میں بھی شکست کا سامنا ہے اگر چہ امریکی فوجیں اب تک افغانستان میں مو جود ہیں تاہم وہاں سے باعزت طور پرواپسی کی امیدیں مبہم ہوتی جا رہی ہیں۔امریکی جنرل بھی اب کھل کر افغان جنگ میں کامیابی کے امکانات کو مسترد کر رہے ہیں۔ اس دوران پاکستان کے ملٹری کمپلیکس نے سابق جنرل ضیاء کی پیداوار نوازشریف حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے جنرل مشرف کی قیادت میںآمریت کا تیسرا ایڈیشن محنت کش عوام پر مسلط کیا۔جوسیکولر اقدار اور روشن خیالی کے لب و لہجے کیساتھ 9سال تک پاکستان کے محنت کشوں کا استحصال کرتے رہے اورعوام پر غربت،بیروزگاری،جہالت اور جنگ مسلط کر گئے۔90ء سے لے کر 2012ء تک کے عالمی کے اثرات پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں بھی انتہائی عدم استحکام اورانتشار کا سبب بنے۔اس لئےNSFکی جد و جہد بھی انہی حالات اور واقعات کے تناظر میں آگے بڑھی۔گل نواز بٹ کے دور کے بعد سے لے کر2005ء تکNSFکے سفر میں کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا تاہم اس دور میں وہ تمام لوگ جنہوں نے NSFکی جد وجہد کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا اور اس انقلابی روایت کو آنے والی نسلوں تک منتقل کیا، ان تمام ساتھیوں کے رول کو NSFتسلیم کرتی ہے اور تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔مگر2005ء تک عالمی سطح پر سرمایہ داری کی زوال پذیری واضح ہو چکی تھی جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مارکسزم اور سوشلسٹ نظریات متبادل کے طور پر پھر سے دنیا بھر کے انقلاب پسندوں کی توجہ کا مرکز بننا شروع ہو گئے تھے۔یوںNSFکے اندربھی ان تبدیلیوں کے نتیجے میں اپنے پروگرام اور لائحہ عمل کوتبدیل کرنے پر غور شروع ہوا۔جس کے نتیجے میں دو گروپس میں NSFکی تقسیم ہوئی۔ایک گروپ سٹالنسٹ نظریات پر عمل پیرا تھا جس کی قیادت اب مسلم کانفرنس کا حصہ بن چکی ہے۔ جبکہ دوسرا گروپNSFمارکسسٹ کے نام سے منظر عام پر آیا۔کشمیر کی درجنوں قوم پرست پارٹیوں کی موجودگی کے باوجود NSF کو ہی یہ اعزاز ملا کہ اس نے پہلی بار کشمیر کے قومی سوال کے حل اور طبقاتی استحصال کے خاتمے کے لئے ایک واضح سائنسی حل پیش کیا۔جس کے مطابق کشمیر کی قومی آزادی اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ پاکستان اور بھارت کے محنت کش عوام کی آزادی سے جڑا ہے اور ایسا سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے برصغیر کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام سے ہی ممکن ہے۔یہ سب کچھ NSFنے اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے اورعالمی مارکسسٹ رجحان کی رہنمائی حاصل کرتے ہوئے کیا، اور انقلابی مارکسی نظریات اور لیننسٹ انٹرنیشنل کی تعمیر کو ہی جد و جہد کا درست راستہ قرار دیا۔ اپنے پہلے کنونشن میں NSFنے IMTکے ساتھ الحاق کیا۔اس کے بعد آج NSFکی تیسری قیادت ذمہ داریوں کو سنبھال کرانقلابی فریضے کو پوری جانفشانی کیساتھ ادا کر رہی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام 2008ء کے بعد سے اپنی تاریخ کے سب سے گہرے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ اپنی ابتداء میں بحران بینکنگ سیکٹر کو لپیٹ میں لیتا ہوا اب مکمل طور پر ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔عالمی سرمایہ داری کا انجن امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے جس کی وجہ سے امریکہ میں بیروزگاری اورغربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ امریکی محنت کشوں نے 2011ء میں شروع ہونے والی (Occupy Wallstreet)کی تحریک کے ذریعے اپنے غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔جس کی یکجہتی میں ایک دن میں دنیا کے900سے زائد شہروں میں مظاہرے اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا گیا۔امریکہ کے بعد دوسری بڑی معیشت یورپی یونین بھی شدید بحران کی لپیٹ میں ہے جس کے ٹوٹنے کے امکانات موجود ہیں۔ یونان،پرتگال، سپین اوراٹلی جیسے ممالک کی معیشتیں دیوالیہ ہو چکی یا دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ہم ماضی قریب میں عرب انقلاب کا آغاز دیکھ چکے ہیں جس نے دہائیوں پر محیط عرب آمریتوں اور بادشاہتوں کو اکھاڑ کر پھینک دیاہے۔اس صورتحال میں ایک سوشلسٹ پروگرام کے تحت ہی دنیا کے کسی بھی خطے کے عوام اپنی جدوجہد کواستوار کر کے ہی سرمایہ دارانہ وحشتوں اور ذلتوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ہمارے پاس سوشلزم کے عظیم نظریات ہیں اورنظریات اور مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک انٹر نیشنل تنظیم موجود ہے جو ہمیں سوشلسٹ انقلاب کی جد وجہد کے لیے شکتی اور نظریات فراہم کرتی ہے۔ہم آخر میں نوجوانوں اور طلباء سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مارکسی نظریات سے اپنے آپ کو مسلح کریں اور محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھا ڑ پھینکنے کی جد وجہد تیز کریں۔ یہی راستہ ہے کشمیر کی وحدت کی بحالی کا اور اپنے عظیم شہداء کے خوابوں کی تعبیر کا۔
آگے بڑھو مستقبل سوشلزم اور نوجوانوں کا ہے۔برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن ہی کشمیر سمیت برصغیر کی تمام قومیتوں کی تمام تر محرومیوں کے خاتمے کا ضامن ہو سکتی ہے جو عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بنے گی!